مولانا محمد قاسم مظاہریؒ

مولانا محمد قاسم مظاہریؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مولانا محمد قاسم مظاہری بن محمد مسلم انصاری (م ۱۹۹۷) بن جانو میاں ساکن اونکڑی، ڈاک خانہ بگروڈیہہ وایا کرما ٹانڈ ضلع جام تاڑا جھارکھنڈ کا جمعرات دن گذار کر جمعہ کی شب سوا گیارہ بجے ۱۷؍ جون ۲۰۲۱ء مطابق۵؍ ذیقعدہ ۱۴۴۲ھ کو انتقال ہو گیا، معمول کے مطابق عشا کی نماز ادا کی، کھانا تناول کیا، بستر پر لیٹ گئے اور اچانک قلب کی تکلیف شروع ہوئی اور دس منٹ کے اندر بیمارئ دل نے کام تمام کر دیا، جنازہ کی نماز بعد نماز جمعہ دن کے تین بجے مولانا شعیب صاحب مظاہری استاذ جامعہ عربیہ برن پور ضلع بردوان نے پڑھائی اور مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین لڑکے چار لڑکیاں ہیں، تینوں لڑکے بر سر روزگار ہیں، چاروں لڑکیوں کی شادی کی ذمہ داری سے وہ سبک دوش ہو چکے تھے، انتقال کے وقت تعلیمی اسناد کے مطابق ان کی عمر ۶۳؍ سال تھی۔
مولانا محمد قاسم مظاہری کی ولادت ۳۰؍ ستمبر ۱۹۵۸ء ان کے آبائی گاؤں اونکڑی میں ہوئی، مولانا کی نانی ہال کرما ٹانڈ اور سسرال چمن بگہہ ڈاک خانہ کرنجو ضلع دیوگھر تھی ، شادی کا مرحلہ ۱۹۸۲ء میں انجام پذیر ہوا تھا، پیدائشی طور پر ایک پاؤں سے معذور تھے، لاٹھی لے کر چلا کرتے تھے، پاؤں کے تلوے اورایڑیاں مڑی ہوئی تھیں، اس کے باوجود چلنے میں تیزی تھی اور جسم پھر تیلا تھا، مولانا ابتدائی تعلیم قریب کے مدرسہ ندوۃ الاصلاح عبد اللہ نگر پھکبندی سے پانے کے بعد وہ جامعہ عربیہ برن پور بر دوان چلے گئے، یہاں فارسی اور ابتدائی عربی کے سال اول ودوم کی تعلیم پائی، وہاں سے مدرسہ خادم العلوم باغوں والی تشریف لے گئے اور عربی پنجم تک کے نصاب کی تکمیل یہیں سے کی پھر مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں داخل ہو کر دورۂ حدیث تک تعلیم پائی اور سند فراغ حاصل کیا۔ ۱۹۸۰ء میں تدریسی زندگی کا آغاز ندوۃ الاصلاح پھکبندی سے کیا ، جو ان کی مادر علمی بھی تھی ، ایک سال کے بعد وہ کالی پہاڑی آسنسول چلے گیے اور امامت وخطابت اور مکتب کے معلم کی ذمہ داری سنبھالی۔
۱۹۸۳ء میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور ویشالی میں مختلف عہدوں کے لیے ویکنسی آئی، بعض ذرائع سے ان کو خبر ملی؛ چناں چہ انہوں نے درخواست بھیجوائی، اس زمانہ میں مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں تعلیم اچھی ہوتی تھی اور بڑے صاحب علم وفن وہاں کی مسند تدریس پر متمکن تھے، بحالیوں میں بھی شفافیت ہوا کرتی تھی ، اسی کا نتیجہ تھا کہ مولانا اتنی دور دراز سے آکر یہاں کے انٹر ویو میں کامیاب قرار پائے ، جب کہ ان کے مقابل ایک مقامی بڑے عالم کے صاحب زادہ بھی شریک انٹر ویو تھے، اکسپرٹ مولانا مصطفی رضا شبنم کمالیؒ تھے، اتفاق سے میں بھی ایک دوسرے عہدہ کے لیے انٹر ویو میں شریک ہو کر کام یاب ہوا تھا، بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے اپروول کی جو قواعد ہے، اس نے گیارہ مہینے لے لیے بالآخر یکم مئی ۱۹۸۴ء سے مولانا محمد قاسم مظاہری صاحب مدرسہ احمدیہ ابابکر پور میں مولوی کے عہدہ پر بحال ہو گئے، اور پھر اپنی علمی لیاقت ، سنجیدگی ومتانت ، ذمہ داروں کی سمع وطاعت، ایمان دارانہ تدریس اور دیانت دارانہ خدمت کی وجہ سے ترقی کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدے تک پہنچے اور کم وبیش چار سال انچارج پرنسپل رہنے کے بعد ۳۰؍ ستمبر ۲۰۲۰ء کو مدت ملازمت پوری کرکے سبک دوش ہو ئے،تنخواہ میں اضافہ ہوا تو زیارت خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی خواہش نے انگڑائی لی، چناں چہ آپ نے معذوری کے باوجود عمرہ کی غرض سے حرمین شریفین کا سفر کیا۔ الوداعیہ تقریب کے بعد گھر کو روانہ ہوگئے ، لاک ڈاؤن میں مدارس بند تھے، اس لیے گھر پر ہی قیام پذیر رہے، حال آں کہ مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد، ضلع ویشالی میں ان کی بحالی کی بات ہو چکی تھی، لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا، چناں چہ ابھی ایک سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے کہ جنت سدھارے، گھر پر قیام کے دوران بھی مقامی اور خاندان کے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کا مشغلہ رہا، اس طرح کہنا چاہیے کہ پوری زندگی قرآن پڑھا اور پڑھایا، ایک وقت کی نماز مرنے کے دن بھی نہیں چھوٹی، رات جمعہ کی پائی مغفرت کے کتنے اسباب اللہ نے ان کے لیے جمع کر دیئے تھے، یقین ہے وہ جنت کی ہواؤں سے مستفید ہو رہے ہوں گے۔
مولانا مرحوم سے میرے تعلقات کم وبیش اڑتالیس(۴۸) سالوں کو محیط ہیں، جن میں سولہ سال تو روز کا اٹھنا بیٹھنا تھا، وہ ناظم مطبخ بھی تھے، اس لیے ہفتہ میں ایک روز دستر خوان پر بھی ان کے ساتھ مجلس جمتی تھی ، مزاج میں ہم دونوں کے ہم آہنگی تھی، اس لیے یاد نہیں آتا کہ اتنی طویل مدت میں کسی مسئلہ پر اختلاف یا تلخ کلامی ہوئی ہو، ان کو تعلقات نبھانے کا فن آتا تھا، جس زمانہ میں محدود پیمانہ پر میں کتابوں کی تجارت کرتا تھا، وہ ماہانہ کچھ نہ کچھ کتابیں مجھ سے خرید لیا کرتے تھے، حال آں کہ حالات اس زمانہ میں بورڈ کے معلمین کے اچھے نہیں ہوتے تھے، تنخواہ کم تھی اور کئی کئی ماہ انتظار کے بعد آیا کرتی تھی، اس کے باوجود میں نے انھیں معاملات میں بہت صاف ستھرا پایا، مولانا کا دور طالب علمی بہت غربت میں گذرا تھا، ان کے بھائی عبد القدوس (م ۲۰۰۵ء) نے ان کو حوصلہ دیا، اور تھوڑی بہت جو رقم ممکن ہوتی تھی، بھیجا کرتے تھے، مولانا کو اس کا احساس تھا ،چناں چہ انھوں نے اپنے بھتیجوں کو یکے بعد دیگرے ابا بکر پور لاکر پڑھا یا، آگے کی تعلیم کے لیے ندوۃ بھیجا، وہاں جانے کے بعد بھی ان کی تعلیمی سر پرستی کرتے رہے، چناں چہ بھتیجوں میں تین ندوی ہوئے اور سب معاشی اعتبار سے مضبوط ہو گیے، مولانا کے تمام بچے تو نہیں لیکن کئی نے مدرسہ احمدیہ ابا بکر پور میں ہی تعلیم حاصل کی، ان کے علاوہ مولانا کے شاگرد سینکڑوں کی تعداد میں ہیں، جنھوں نے ان سے کسب فیض کیا، یہ سب ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ان کے نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہے گا، اللہ رب العزت سے مغفرت اور پس ماندگان کے لیے صبرجمیل کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں.
صاحب تحریر کا یہ مضمون بھی پڑھیں : چوتھے ستون کا انہدام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے