اسلم جمشید پوری کے افسانہ یہ ہے دلی میری جان کا تجزیاتی مطالعہ

اسلم جمشید پوری کے افسانہ یہ ہے دلی میری جان کا تجزیاتی مطالعہ

نثارانجم
کولکاتا،مغربی بنگال
ہندستان کی گنگا جمنی تہذیب کے دل کی دھڑکنیں، اس کی سانسوں کی گرمی و لمس کے ساتھ اس رنگا رنگی تہذیبی ادب کے گلوب پر تھرکتے افسانہ ’’یہ ہے دلی میری جان‘‘میں دیکھتے ہیں ۔قاری اپنے مشاہدے اور تجربے کی حساس جلد پر دھول کھاتی زندگی کی رمق اور بے نمکی کو محسوس کرتا ہے۔ انشائیہ طرز تحریر میں اسلم جمشیدپوری نے پرانی دلّی کی الفاظ کے تھری ڈی کیمرے سے بڑی خوب صورتی کے ساتھ یہاں کی معاشرت، چہل پہل اور رواں دواں زندگی کے دیکھے اور ان دیکھے لمحات تہذیب کی جزئیات نگاری بڑے کمال ہنر مندی سے کیا ہے ۔دلی جامع مسجد کے نواحی علاقے، شاہ جہانی گیٹ , پارک اور پارک کے باطن میں شور کرتی، آوازیں لگاتی,رجھاتی زندگی کے حقیقی مناظر کا نقشہ ایسے کھینچا ہے جیسے گوگل ارتھ کی زوم ان کرتی جھلملاتی میگا پکسل تصویروں میں زندگی شہد کی مکھیوں کی بھنبھنا ہٹ سے جاگ اٹھی ہو۔ پارک کے اندر فقیروں کے ذریعہ عام آدمی کا استحصال، ان کی غنڈہ گردی کو اس کڑوے سچ کے ساتھ جوں کا توں ان کی ہی زبان میں اس طرح پیش کیا گیاہے جیسے قاری پارک کی کسی اونچائی پر دور بین سے سارے منظر سے live نظارہ کررہا ہو۔
افسانہ نگار نے آلودہ تہذیب کی دھول میں اٹے پارک کے فقیروں کی غنڈہ گردی پر فوکس کیا ہے اور ایک تلخ کڑوے احساس کاتجربہ اپنی تحریروں میں درد بنا کر پیش کیا ہے ۔یہاں ہم اس صالح، پرانی احترام والی
تہذیب کی دیواروں کے گرنے کی دھمک صاف سن سکتے ہیں۔تہذیب کے اس ملبے پر راوی نوحہ کرتا ہوا ملتا ہے۔ تہذیب کا گرتے ہوۓ اس گراف میں انسانیت کو پھانسنے والی اس emotional trap میں پھنس شرم ساری سے بچنے کے لیے ہوکر معیار ہی ہے جہاں شریف انسان ان فقیروں کے چنگل میں پھنس کر اپنی جیب خالی کرنے پر مجبور پاتا ہے۔اسلم جمشید پوری کے افسانوی تخئیل کے افق میں وسعت بھی ہے اور تنوع بھی ۔پریم چند کے دیہی مسائل کے کینوس پر اپنی فکر کی رنگا رنگی سے نیا لک دینے کی کوشش میں بھی اس گاؤں کی پرانی مٹی کی وہی پرانی سوندھی سوندھی خوشبو تہذیب سے اٹھتی ہے۔اس میں نیا پن یہ ہوتا ہے کہ شہری مسائل دیہی مسائل کی رگڑ سے زندگی اور تہذیب ایک نئے ڈھب سے سامنے آتی ہے۔ شہری زندگی کی کشا کش اور اس کی ترجمانی میں بھی وہی سلیقہ مندی اور جرات اظہار کے ولولے شوخ رنگوں کے ساتھ ملتے ہیں۔ زندگی ماحول اور تہذیب نئے روپ کاڑھے ان کی فکر پر دستک دیتی ہے جسے وہ نہایت ہی دیانت داری سے قرطاس پردرک، مشاہدہ اور دروں بینی سے انڈیل دیتے ہیں۔ یہاں فکر کی گہرائی اور گیرائی میں حقیقت نگاری کا حسن اور نکھرا ہوا ملتا ہے ۔جس میں مشاہدے کی چاشنی، مطالعہ کی روح اور مصنف کا innerself اسے ایک بہترین کرافٹ میں بڑی چابک دستی سے کنورٹ کردیتا ہے۔
مشاہدے کی یہ امیجیری اور باریک بینی اپنی جزئیات نگاری کے ساتھ "یہ دلی ہے میری جان” میں ایک حقیقی دیکھی بھالی تصویر کی طرح جلوہ گر ہے۔
اسلم جمشید پوری افسانوں میں موضوع کی رعایت میں اسلوب اور متن کے ساتھ تجربے کرتے رہتے ہیں۔ سادہ اور پراثر نثر میں رواں جملوں اور مکالموں میں منظر , کردار، ان کی ہیجان انکیزی اور جذباتی کیفیت کو کسی ماہر نفسیات کی طرح ان کے ہی psycho reading میں اختصار اور شیرین زبان میں یوں پیش کرتے ہیں، جیسے وہ ہمارا دیکھا بھالا منظر نامۂ زندگی ہے .کردار جانے پہچانے ہیں. ماحول کے در و دیوار اور اس کی گلیاں شناسا ہیں۔
ان کے افسانوں کی اصل خوبی کردار کا وہ فطری چہرہ اور اس کا زندگی کے تئیں برتاؤ ہے جسے افسا نہ نگار زبان و بیان کی پرکاری اور سادگی احساس سے مزین کر پیش کرنے میں طاق نظر آتے ہیں۔’’یہ ہے دلی میری جان۔‘‘ افسا نے میں وہاں کی زمینی حقیقت کے بیانیے میں حقیقت نگا ری کی وہ امیجیری تراشی گئ ہے کہ اسے تحریری مشاہدے کو کاٹو تو پرانی دلی کے تہذیبی ڈھانچے سے خون بہہ نکلے ۔
گویا پرانی دلی تہذیب کے انسا ئکلو پیڈیا میں ایک گلدستہ تہذیب کی طرح تاریخ کے فریم میں نقش کردیا گیا ہے.

نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرمائیں : حسین الحق کے افسانہ اثاثہ کا تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے