دھیمے سروں کی شاعری

دھیمے سروں کی شاعری

(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔ حصّہ اوّل)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
سوانح و تعارف
شہریار کا حقیقی نام کنور اخلاق محمّد خاں تھا۔ سرٹی فکیٹ کی روٗ سے وہ ١٦/ جون ١٩٣٦ء کو اُتّر پردیش کے بریلی ضلع، آنولا تحصیل میں پیدا ہوئے۔ بعض ذرایع سے اس بات کی اطّلاع بھی ملتی ہے کہ شہریار کی حقیقی عمر اِس سے ڈیڑھ سال کم تھی۔ ان کے والد پولس سروس میں تھے اور سب انسپکٹر سے ترقی کرکے انسپکٹر آف پولس ہوئے تھے۔ اُن کا نام کنور ابو محمّد خاں تھا۔ ان کی والدہ کا نام بسم اللہ بیگم تھا۔ شہریار نے اپنے خاندانی کوائف بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ ان کے اسلاف میں کسی نے لال محمّد فقیر کے سامنے اسلام قبول کیا تھا۔ اسی نسبت سے اس قبیلے کے لوگوں کو لال خانی راج پوٗت کہا جاتا ہے۔ان کے نام میں ’کُنور‘ لفظ کی شمولیت بھی راج پوٗت بالخصوص پرتھوی راج چوہان سے تعلّق کا اشارہ ہے۔ شہر یار کے خاندان میں فوج اور پولس کی ملازمت کا ایک لمبا سلسلہ رہا۔ ان کے پردادا اور دادا، والد اور بڑے بھائی سب کے سب پولس کی ملازمت میں ہی رہے۔ ایک گفتگو کے دوران شہریار نے خود مجھے بتایا تھا کہ ان کے والد کی یہی دِلی خواہش تھی کہ وہ داروغہ بن جائیں اور جب شہریار کے تعلیمی سفر کے راستے مختلف معلوم ہونے لگے تو وہ اس سے خوش نہیں تھے۔
ابتدائی دورمیں شہریار اپنے والد کے ساتھ مختلف شہروں میں ان کے تبادلے کے مطابق گھومتے رہے۔ ان کے والد نے محض پینتالیس برس کی عمر میں رضاکارانہ طور پرملازمت سے سُبک دوشی اختیار کر لی۔اس وقت تک شہریار کے بڑے بھائی سب انسپکٹر آف پولس ہو چکے تھے۔ شہریار کچھ دنوں تک اپنے بھائی کے ساتھ بھی رہے۔ پھر١٩٤٨ء میں والد کے ساتھ یہ خاندان علی گڑھ منتقل ہو گیا۔ سِٹی ہائی اسکول علی گڑھ میں ١٩٤٨ء میں اُن کا داخلہ ہوا اور ١٩٥٤ء میں انھوں نے ہائی اسکول امتحان پاس کیا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے١٩٥٨ء میں بی۔ اے۔ کرنے کے بعد ١٩٦١ء میں انھوں نے ایم۔ اے۔میں کامیابی حاصل کی۔ ایم۔اے۔ کے رزلٹ سے پہلے وہ انجمن ترقی اردو کے لٹریری سکریٹری ہو گئے تھے جس کے تحت ’ہماری زبان‘ اور ’اردو ادب‘ کی ترتیب میں معاون کے فرائض ان کے ذمّے مقرّر ہوئے۔ ایم۔اے۔ کے دوران وہ انجمن اردوے معلّا کے سکریٹری رہ چکے تھے اور اس طورپر ’علی گڑھ میگزین‘ کے ایڈیٹر بھی ہوگئے تھے۔
ابتدائی دور میں شہریار کا کچھ کلام ان کے حقیقی نام کنور اخلاق محمّد خاں کے نام سے شایع ہوا۔ بعد میں خلیل الرّحمان اعظمی کے مشورے سے ان کا قلمی نام شہریار مقرّر ہوا جس سے انھیں اردو آبادی اور دنیا کے ہر گوشے میں پہچانا جاتا ہے۔ ١٩٦٦ء میں شہریار علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں لکچرر کے طور پر منتخب ہوئے۔ ١٩٨٣ء میں ریڈر اور ١٩٨٧ء میں پروفیسر مقرّر ہوئے۔ ١٩٩٦ء میں جب وہ ملازمت سے سُبک دوش ہوئے، اس وقت وہ صدر شعبۂ اردو بھی تھے۔
ان کا پہلا شعری مجموعہ ’اسمِ اعظم‘ کے نام سے ١٩٦٥ء میں شایع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ’ساتواں دَر‘ ١٩٦٩ء میں، تیسرا مجموعہ’ہجر کے موسم‘ ١٩٧٨ء میں، چوتھا مجموعہ ’خواب کا دَر بند ہے‘١٩٨٥ء میں، پانچواں مجموعہ’نیند کی کرچیں‘ ١٩٩٥ء میں، چھٹااور آخری مجموعہ’شام ہونے والی ہے‘ ٢٠٠٤ء میں شایع ہوا۔ ٢٠٠١ء میں ’حاصلِ سیرِ جہاں‘ عنوان سے ابتدائی پانچ شعری مجموعوں پر مشتمل کلّیات کی اشاعت ہوئی۔ سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے ٢٠٠٨ ء میں شہر یار کا کلّیات شایع کیا جس میں ان کے چھے مجموعے شامل ہیں۔ ’میرے حصّے کی زمیں‘ عنوان سے شہریار کا ہندی میں منتخب کلام ١٩٩٩ء میں شایع ہوا۔ شہریار کی وفات کے بعد ان کے باقی ماندہ کلام کو شامل کرکے ٢٠١٣ء میں ایجوکیشنل بُک ہاؤس،علی گڑھ سے ’سوٗرج کو نکلتا دیکھوں‘ عنوان سے اُن کا مکمّل کلام شایع کیاگیا۔ اس کلّیات میں ’شام ہونے والی ہے‘ کے بعد کا کلام ’باقیات‘ کے طَور پر شامل ہے۔
١٣/ فروری ٢٠١٢ء کو علی گڑھ میں شہریار کا انتقال ہوا۔ شہریارکی تین اولادیں ہمایوں شہریار، فریدون شہریار اور ایک صاحب زادی سائمہ شہریارہیں۔
شہریار نے علمی و ادبی حوالے سے ایشیا، یوروپ، امریکہ اور خلیج کے مختلف ممالک کے اسفار کیے۔ انھیں شاعری کے عالمی اجتماعات میں اردو کی نمایندگی کرنے کے باربارمواقع حاصل ہوئے۔ رفتہ رفتہ مشاعروں میں بھی ان کے کلام کو اہمیت سے سُنا جانے لگا تھا۔ شہریار نے چار فلموں کے نغمے لکھے۔گَمن، امراو جان، فاصلے اور انجمن- ان فلموں میں شامل شہریار کا کلام عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور انھیں بے پایاں شہرت حاصل ہوئی۔یہ فلمی نغمے حقیقت میں شہریار کی چُنی ہوئی غزلیں ہی ہیں کیوں کہ انھوں نے موقعے کے اعتبار سے اپنے کلام کو نغمے کی شکل میں پیش کر دیا تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ شہریار کا ادبی اور فلمی کلام کم و بیش ایک ہی معیار کا ہے۔
شہریار:ایک شخصی تاثّر
اسے محض اتّفاق یا خوش قسمتی کہنا چاہیے کہ شہریار کی زندگی کی آخری تین دہائیاں جب وہ قومی و بین الاقوامی بلندیوں تک پہنچے، اس زمانے میں راقم الحروف سے ان کے ذاتی تعلّقات بھی قایم ہوئے۔ پٹنہ، علی گڑھ، دہلی، لکھنؤ اور پٹیالا میں ان سے پچاسوں ملاقاتیں رہی ہوں گی۔ کبھی ان کے گھر پر، کبھی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس میں یا کبھی مشاعرے یا سے می نار اور ذاتی دعوتوں میں بھی ان کا ساتھ رہا۔ انھیں تنہائی اور بھیڑ دونوں ماحول میں دیکھنے اور سمجھنے کے مواقع حاصل ہوئے۔ ہمارے حلقۂ احباب میں ایسے بہت سارے افراد ہیں جنھیں شہریار کی شاگردی کا شَرف حاصل ہے۔ ان کے حوالے سے بھی شہریار کی شخصیت کے بہت سارے جانے انجانے پہلوٗ ہمارے سامنے آئے۔ شہریار کی شخصیت اور خدمات کے سلسلے سے درجنوں بنیادی نوعیت کے مضامین لکھے گئے جن کے مطالعے سے ان کی شخصیت کے کچھ مزید پہلوٗہم پر واضح ہوتے گئے۔
شہریار کی کم گُفتاری اور داخل پسندی (Introvertness)  کے بارے میں اکثر لوگ باتیں کرتے ہیں۔ نئے اور عمومی ملاقاتیوں سے وہ تکلّفانہ رویّہ رکھتے تھے۔ اپنے خوردوں سے وہ کم بے تکلّف ہوتے۔ بہت قریبی شاگردوں سے بھی مکمّل بے تکلّفی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ اپنی عمر کے دوستوں کی محفل میں شہریار کی کم گوئی یااُن کا محتاط رویّہ ختم ہو جاتا تھا۔ مخصوص ذاتی محفلوں میں وہ ظاہری دائرے توڑ کر ایک دوسرے شخص کے طور پر سامنے آتے تھے۔ وہاں ان کی خوش گوئی اور گرم گفتاری نصف النّہار پر ہوتی مگر عام محفلوں میں وہ بالکل دوسرے انداز کے آدمی ہوتے تھے۔
شہریار کے سلسلے سے ابتدائی زمانے سے ہی یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ وہ شعر خوانی کے رمز سے آشنا نہیں تھے۔ علی گڑھ اور اس کا شعبۂ اردو جہاں شاعر کی حیثیت سے شہریار رفتہ رفتہ آگے بڑھتے رہے، اس سے بہتر ادبی ماحول کسی شخص کو کہاں مل سکتا تھا؟ رشید احمد صدّیقی، آلِ احمد سروٗر، معین احسن جذبی، خلیل الرّحمان اعظمی، خورشید الاسلام جیسے لوگ تو خود شعبۂ اردو میں موجود تھے۔ اس کے علاوہ بزرگوں، ہم عصروں اور شاگردوں کی ایک کہکشاں وہاں موجود تھی۔ شہریار نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ خلیل الرّحمان اعظمی کی صحبتوں سے پہلے وہ ادب کا یکسر ذوق نہیں رکھتے تھے مگر اس ماحول نے انھیں عالمی شہرت یافتہ شاعر بنایا۔ شعری نشست اور مشاعروں میں شعر کی ادائیگی کا ہنر مندانہ سلیقہ شہریار وہاں نہ سیکھ سکے۔ ایک اُکھڑے ہوئے انداز میں فرض کی ادائیگی کی طرح وہ محفلوں میں شعر پڑھتے تھے۔ ایک زمانے تک فیض احمد فیض کی شعر خوانی پر بھی ایسے تاثّرات پیش ہوتے رہے۔
یہ درست ہے کہ شہریار کے شعر پڑھنے کا انداز پُر اَثر نہیں تھا اور شعر کے بنیادی آہنگ سے تال میل بٹھانے پر بھی شہریار کی توجہ نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھی مصرعوں کو اس انداز سے ادا کرتے جیسے معلوم ہو کہ وہ بے وزن کلام ہے۔ شہریار ایسی جگہ وقفہ ادا کرتے کہ سُننے والے کو دھوکا ہو جاتا تھا۔’امراو جان‘ فلم سے شہریار کی عوامی مقبولیت میں جو اچانک اضافہ ہوا، اس سے ان کے ادب کے سنجیدہ مطالعے کا کچھ الگ سے رجحان پیدا ہوا۔ ہندستان کے بڑے مشاعروں میں انھیں بلایا جانے لگا۔ رفتہ رفتہ بزرگ ترقی پسند شعرا اپنی طبعی عمر پوری کرکے مشاعروں سے رخصت ہوتے گئے اور شہریار ملک کے چند بزرگ اور معتبر شعرا میں گِنے جانے لگے۔آخری دس پندرہ برسوں کے دوران ہندستان بھر کے جو بڑے مشاعرے ہوئے، ان میں اکثر وبیش تر محفلوں کی صدارت شہریار نے کی۔ اس دوران مختلف سے می ناروں اور طرح طرح کی ادبی تقریبات کا بھی وہ حصّہ بنتے رہے۔ ان کی مقبولیت اور ادبی مقام کا یہ تقاضا تھا کہ پورا ملک اور پوری ادبی دنیا انھیں اپنے پروگراموں میں بہ سَر و چشم استقبال کرتی تھی۔ ملازمت سے سبک دوشی کے بعد شہریار نے اپنی اس تقریباتی زندگی کو بہ اہتمام سنبھالا۔
روز روز کی محفلوں میں شرکت اور مشاعروں میں کلام پیش کرنے کے سبب شہریار کے اندازِ پیش کش میں بھی کچھ فرق پیدا ہوا۔ اس دوران شہریار کی بعض غزلیں اتنی مشہور ہو چکی تھیں کہ ہر محفل میں اِنھی غزلوں کی فرمایش ہوتی اور وہ اپنی یاد سے اس آزمائے ہوئے کلام کو پیش کردیتے۔ رفتہ رفتہ وہ وقفے بھی ختم ہوئے یا کم ہوتے گئے جو غیر ضروری طور پر شہریار کی شعرخوانی کو خراب کرتے تھے۔ شاید یہ بھی ہوا ہو کہ روز روز انھیں سنتے ہوئے لوگوں نے بھی اس اُکھڑے ہوئے اور کھُردرے انداز میں بھی کوئی شاعرانہ گُر یا روانی تلاش لی تھی۔ اسی طرح وہ شہریار جو ہمیشہ کسی موضوع پر اظہارِ خیال سے بچتے رہے، اپنی شاعری یا اپنے ہم عصروں کے بارے میں بھی کم سے کم گفتگو کرنا چاہتے تھے مگر اب اُن کی ایک عمومی اور عوامی قبولیت کا جبر تھا کہ انھیں مختلف موضوعات پر الگ الگ طرح کی محفلوں میں کچھ نہ کچھ کہنا ہوتا تھا۔ اب شہریار کام کی باتیں نپے تُلے انداز میں پیش کرنے لگے تھے۔ مرتَّب طریقے سے گفتار کا شیوہ بہتوں کے یہاں نظر نہیں آتا، وہ شہریار کے یہاں بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے خطبۂ صدارت یا خصوصی خطاب میں کام کی باتوں پر گفتگو کا مدار کھتے تھے۔ سننے والوں پر اس کا اچھّا خاصا اثر بھی ہوتا تھا۔ آخری دَور تک آتے آتے ان کی محفل گزیدگی کم ہوتی گئی اور وہ ضرورت کے مطابق نَپی تُلی گفتگو کرکے سامعین کو مایوس نہیں ہونے دیتے تھے۔
شہریار ایک وضع دار شہری اور بزرگ دانش ور کی طرح آخری وقت تک اپنی سماجی زندگی میں موجود رہے۔ انھیں بڑے بڑے انعامات حاصل ہوئے۔ وہ یوروپ، امریکا اور دنیا کے درجنوں ممالک کی بڑی تقریبات میں اردو داں طبقے کی نمایندگی کرتے رہے۔ اس ادبی اور سماجی اہمیت کو انھوں نے اپنی ذاتی زندگی پر جبر کی طرح قایم نہیں رکھا۔ درس و تدریس کی زندگی نے ان میں ایک میانہ روی اور فقر و اعتدال کی صفت شامل کر دی تھی۔ اس سے ان کی زندگی میں ایک سادگی اور بے پروائی بھی آئی۔ وہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کے لیے ہمیشہ جان چھڑکتے رہے۔ شدید علالت کے دوران بھی وہ ایک جمِّ غفیر اورعقیدت مندوں کا حصّہ رہے اور اسی عالم میں ہم سے رخصت ہوئے۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ] 

شہریار (دائیں) صفدر امام قادری (بائیں)

دھیمے سُروں کی شاعری
(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔ حصّہ دوم)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
انتخابِ کلام کاجواز
شہریار نے پچاس برس سے زیادہ مُدّت تک شاعری کی اوراُن کے چھے مجموعے سامنے آئے۔ آخری زمانے کا کلام ان کے کلّیات میں ’باقیات‘ کے طَور پر شامل ہے۔ ’ہجر کے موسم‘ بھی حقیقتاً انتخاب ہی تھا مگر اس میں ایک حصّہ نئے کلام کا بھی شامل تھا۔ یہی نیا کلام ’حاصلِ سیرِ جہاں‘ یا دونوں کُلّیات میں اس مجموعے کے نام سے محفوظ رکھا گیا ہے۔شہریار کا کوئی مجموعہ ضخیم نہیں ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھوں نے زوٗد گوئی یا قادر الکلامی کے ثبوت کے مقابلے میں منتخب کلام کی پیش کش کا طَور اپنا یا۔ ان کی اکثر و بیش تر نظمیں نہایت مختصر ہیں اور اردو کی جدید شاعری میں مختصر تر نظم نگار کے طَور پر اُن کی خاص شناخت قایم ہوئی۔ ان کے شعری مجموعوں میں بہت کم ایسی غزلیں ہیں جن میں پانچ، چھے یا سات سے زیادہ اشعار شامل ہوں۔ بہت ساری غزلوں میں چار پانچ اشعارہی ملتے ہیں۔ غالباً یہاں بھی یہی رویّہ رہا کہ ہر قافیے میں شعر کہنے سے بہتر یہ کام ہے کہ چُنندہ فکر و اسلوب کو ہی عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
اس انتخاب کے مرحلے میں شہریار کے شاعرانہ معیار اور اسلوبیاتی تنوّع کوبہ طورِ بنیادتسلیم کیا گیا۔ شہریار کی درجنوں غزلیں اور نظمیں قبولِ عام کا درجہ حاصل کر چکی ہیں۔ انھیں اس انتخاب میں لازمی طَور پر شامل ہونا تھا۔ پہلی نظر میں ایسی غزلوں اور نظموں کو داخلِ انتخاب کر لیا گیا۔ اس طرح ان کے نمایندہ کلام کو چُننے میں اس بات پر خاص توجّہ دی گئی کہ ان کا شاعرانہ اعتبار کچھ نئے زاویوں سے بھی ہمارے سامنے آ سکے۔ غزلوں کے انتخاب میں بحر کے تنوّع پر بھی ہماری نظر رہی۔ شہریار کے مخصوص مزاج کے ساتھ ساتھ بعض نئے گوشے ظاہر کرنے والے اشعار اور غزلیں بھی اس انتخاب میں شامل کی گئیں۔ کوشش یہ کی گئی کہ اگر قاری کو شہریار کی میانہ روی اور احتیاط و توازن کی کڑیاں ہاتھ لگتی ہیں تو اُسی کے ساتھ شور انگیزی اور عدم احتیاط کے رویّے بھی اُسے معلوم ہو سکیں۔ عام طَور سے شہریار کو وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا شاعر کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی ہر ضروری نظم اور غزل اس انتخاب کا حصّہ ہے مگر شہریار کی شاعری کے بہت سے دوٗسرے موضوعات بھی ہیں۔ہماری کوشش رہی ہے کہ ان نئے علاقوں کی شاعری بھی اس انتخاب کا حصّہ بن جائے۔ اس لیے اس انتخاب میں شہریار کا بہت سارا کلام شامل ہے جسے شہریار کے نقّادوں نے بھی ابھی تک قابلِ اعتنا نہیں سمجھا ہے۔
شہریار نے اپنے مجموعوں میں غزلوں اور نظموں کے حصّے الگ الگ رکھے ہیں۔ اس انتخاب کی تیّاری میں مجموعوں کی علاحدہ حیثیت کے بجاے غزلوں اور نظموں کو ترتیب وار پیش کرنا زیادہ مناسب سمجھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر مجموعے کی انفرادی حیثیت کے پیشِ نظر فہرست اور متن میں صراحت بھی کی گئی ہے اور کلام کی ترتیب میں مجموعوں کی ترتیب کو بنیادی اہمیت دینے سے گُریز کی خوٗ نہیں اپنائی گئی۔ غزلیں اور نظمیں منتخب کرتے ہوئے صرف معیار اور نمایندگی کو پیشِ نظر رکھا گیا۔ کئی بار کے مطالعے اور انتخاب، ترمیم و اضافہ میں محض شاعر کی مکمّل شبیہہ کی تلاش بنیادی کام تھا۔ انتخاب جب مکمّل ہوا تو اس بات کی خوشی ہوئی کہ ایک معقول تناسب کے ساتھ اس مجموعے میں شہریار کے ہر دَور کا کلام شامل ہو گیا ہے جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ شاعر کے یہاں تخلیقی معیار اور تنوّع کی ہر دَور میں فراوانی رہی۔ یہ بھی قابلِ اطمینان بات ہے کہ اس انتخاب میں نصف صدی سے زیادہ کے زمانے کا کلام اپنے آپ شامل ہو گیا۔ غزلوں کے اشعار میں مزید انتخاب کی کوشش اس لیے ممکن نہ ہو سکی کیوں کہ شہریار کی غزلوں میں یوں بھی زیادہ اشعار شامل نہیں ہوتے ہیں۔ اب ان میں سے کسی شعر کو حذف کر کے غزل کی مکمّل اکائی سے روٗگردانی مناسب نہیں تھی۔ شہریار نے ١٩٥٦-١٩٥٨ء کے آس پاس شاعری شروع کی تھی۔ علی گڑھ کے جس ماحول میں وہ موجود تھے، وہاں ترقی پسندوں کی ابھی بااَثر جماعت موجود تھی۔ جدیدیت کے حلقے میں وہاں جن شعرا و ادبا سے شہریار متاثّر ہوئے یعنی خلیل الرّحمان اعظمی اور وحید اختر، وہ لوگ بھی ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف آئے تھے۔ شہریار کے ہم عمروں میں جو لوگ ادب کے میدان میں سرگرم تھے، ان کی پوری ٹولی جدیدیت کی عَلَم بردار تھی۔ یہ حلقہ کم و بیش بیس پچیس برس تک نہایت بااَثر رہا۔پھر ١٩٨٠ء کے بعد رفتہ رفتہ ادبی اقدار میں تبدیلیاں آنے لگیں۔ ما بعدِ جدیدرویّوں کے ساتھ بھی شہریار دو دہائیوں سے زیادہ زمانے تک ہم سفر رہے۔ شہریار کا عمومی مزاج شور وشَر سے دوٗر رہنے کا تھا۔ تدریس کے پیشے کے باوجود انھوں نے تنقید کو اپنا کام نہیں بنایا اور شِدّت پسندی کے ساتھ کسی ادبی رویّے یا تحریک کے پیروٗکارنہیں بنے۔ ان کی شاعری میں اس کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ ہر چند اُن کی بعض نظموں کی کیفیت اس بات کی چُغلی کھارہی ہے کہ اس شاعر کا ذہنی سانچا جدیدیت کے عہد میں تعمیر و تشکیل کے مرحلے سے گُزرا ہے۔ جدیدیت کے بعض رموٗز و علائم اور کچھ موضوعات ان کے ہر دور کی شاعری میں مل جائیں گے۔ اس انتخاب کے مرحلے میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ شہریار کے اس مزاج کی پورے طَور پر نمایندگی ہوسکے۔ اسی لیے ان کے معتدل مزاج کے ساتھ ساتھ ان کے جدیدیت کے عَلَم بردار ہونے کے عکس کو بھی پورے طور پر اس انتخاب میں محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شاعرانہ شناخت
اردو میں جدید ادب کا رجحان ابھی بالکل ابتدائی مرحلے میں تھا۔ ایک طبقہ ابھی ترقی پسندی سے نکل کر نئے ادب کی شناخت کے لیے سرگرداں تھا، ابھی نہ ’شب خوں‘ جیسا رسالہ سامنے آیا تھا اور نہ ہی شمس الرّحمان فاروقی کی فکری وعملی قیادت اُبھر پائی تھی۔ ہندوپاک میں البتّہ نئے لکھنے والے جگہ جگہ اُبھر رہے تھے اور فیض، مخدوٗم، مجروٗح اور جذبی جیسے شعرا سے الگ مزاج کی نمایندگی کرنے لگے تھے۔ اس نسل میں شہریار سب سے خوش نصیب شعرا میں ہیں جن کا پہلا شعری مجموعہ ١٩٦٥ء میں شایع ہوا اور وحید اختر کے پیش لفظ کے علاوہ آلِ احمد سروٗر، منیب الرّحمان، مسیح الزّماں، ندا فاضلی، مغنی تبسُّم، انور سدید وغیرہ کے تبصرے اور تاثّرات رسائل کی زینت بنے۔ اُسی زمانے اور ذرا بعدمیں خلیل الرّحمان اعظمی، گوپی چند نارنگ اور شمیم حنفی نے بھی شہریار کی شاعری کی خصوصیات کے حوالے سے اپنے مضامین تحریر کیے۔ عمیق حنفی نے بھی شہریار کی ابتدائی شاعری پر اپنے تاثّرات مضمون کی شکل میں پیش کیے تھے۔ اس تفصیل سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شہریار کا پہلاشعری مجموعہ اردو کے مستند اہلِ قلم کی نگاہ میں ایک دستاویزثابت ہوا۔ انھیں صرف ان کے ہم عصروں نے داد نہیں دی بل کہ ان کے بزرگوں نے بھی ان کی شاعری میں امکانات تلاش کیے اور ان کے بنیادی اوصاف کی پہچان میں وہ مدد گار بنے۔
جب شہریار کا یہ مجموعہ سامنے آیا تھا، اُس وقت ان کی عمر انتیس (٢٩) برس کی تھی اور ابھی یونی ورسٹی کی ملازمت میں بھی وہ نہیں آ سکے تھے۔ یہ بات اب بھی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے کہ کسی شاعر کے پانچ سات برس کے سرمایے پر لوگوں نے کیوں کر ایسی خصوصی توجّہ ظاہر کی ہوگی۔یہ بھی کچھ کم تعجب خیز نہیں کہ بزرگوں نے اس بات سے گریز کی کوئی خوٗ نہیں اپنائی کہ ہماری زبان میں ایک خاص شاعر کے اُبھرنے کا یہ موقع ہے۔ چوں کہ شہریار کو جدید و قدیم دونوں حلقے کے شعرا کی داد ملی اوریہ بھی سچّائی ہے کہ ’اسمِ اعظم‘ کے سرمایے میں شاعر نے لہجے کی سطح پر جدیدو قدیم اسالیب میں ایک مفاہمت کی جزوی طور پر ہی سہی، ایک صورت اختیار کی ہے۔ ابھی باضابطہ طَور پر جدید ادب کا وہ شور بھی برپا نہیں ہوا تھا، اس لیے شہریار کی ان تخلیقات میں روایت کا معقول شعور صاف صاف نظر آتا ہے۔ البتہ اس مجموعے کی نظموں میں جگہ جگہ جدیدیت کے موضوعات اور اسلوب کی سطح پر تھوڑے بہت تجربات نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ مجموعہ کیوں نئے اور پُرانے دونوں انداز کے لوگوں کے لیے قابلِ توجّہ ثابت ہوا۔
محض چار برس کے وقفے کے بعد شہریار کا دوسرا مجموعہ’ساتواں دَر‘ سامنے آیا۔ ابھی شہریار کی عمر صرف تینتیس(۳۳) برس کی تھی مگر اس دوران ہندو پاک میں جدید ادبی رویّوں کے اُبال کا موسم اور طوٗفان سامنے آچُکا تھا۔ موضوع اور اسلوب کی سطح پر ہماری شاعری نے اس دوران جتنے رنگ برنگے اور بوٗقلموں انداز ملاحظہ کیے؛ اردو شاعری کی تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا دَور دیکھا جا سکا۔ ’نئے نام‘(١٩٦٨ء) میں تو صرف فہرست ملاحظہ کی جا سکتی ہے مگراُس دَور کے درجنوں رسائل اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ سیکڑوں کی تعداد میں ایسے شعرا میدان میں اُترے جن کا موضوع و اسلوب کے ساتھ برتاو قدرے مختلف تھا۔ خلیل الرّحمان اعظمی، ناصر کاظمی، ابنِ انشا، حسن نعیم، بانی، محمد علوی، وزیر آغا، عادل منصوٗری، سلطان اختر، منیر نیازی، ظفر اقبال، شہزاد احمد، سلیم احمد،پرکاش فکری، زیب غوری، شکیب جلالی، اطہر نفیس، شمس الرّحمان فاروقی، لطف الرّحمان، علیم اللہ حالی، فہمیدہ ریاض، کِشوَر ناہید، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی، ظفر گورکھ پوری، کمار پاشی، شفیق فاطمہ شعریٰ،ندا فاضلی، بشیر بدر، عمیق حنفی، قیصر شمیم، مظفّر حنفی وغیرہ کے نام اس دور کی ادبی ہما ہمی کی واضح نمایندگی کرتے ہیں۔ دیکھتے دیکھتے چند برسوں میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اردو ادب کا مزاج یکسر بدل گیا۔ ترقی پسند شعرا رفتہ رفتہ کنارے لگ گئے اور انھیں یہ سمجھ میں آنے لگا کہ نئی بساطِ ادب یکسر مختلف ہے اور ماحول پورے طور پر بدل چکا ہے۔
ہندستان کے جدید شعرا میں شہریار ایسے پہلے شاعر ہیں جنھوں نے اس نئے ماحول کے مطابق نہ صرف یہ کہ اپنی مختلف انداز کی شاعری پیش کی بل کہ انھوں نے ١٩٦٩ء میں ’ساتواں دَر‘ کے عنوان سے جونیا شعری مجموعہ پیش کیا،اس کے مشتملات اس بات کی واضح گواہی دے رہے ہیں کہ یہ نئے دور کا تازہ رجحان ہے۔ شہریار کے مجموعی محاسبے میں بھلے ہم اس بات کو قبول کرتے رہے ہوں کہ وہ اسلوبیاتی اور فکری اعتبار سے محتاط اور متوازن رویّہ رکھتے رہے ہیں مگر ’ساتواں دَر‘ مجموعے کی ایک ایک تخلیق چیخ چیخ کر اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ یہ ایک ایسی تازہ اور نئی شاعری ہے جسے روایت کی توسیع کے مقابلے نئے عہد کے رجحانات کے آئینے میں ملاحظہ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس مجموعے کی غزلوں میں بھی جدیدیت کے موضوعات اُبھر کر سامنے آتے ہیں مگر حصّۂ نظم تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جدیدیت کا اعلان نامہ ہے۔ ’زوال کی حد‘،’عہدِ حاضر کی دل رُبا مخلوٗق‘، ’خطرے کا سائرن‘ وغیرہ نظمیں ظاہر ہے کسی اور دَور میں نہیں پیش کی جا سکتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی دو مجموعوں کے مختصر سرمایے کے باوجود شہریار اپنے دیگر ہم عصروں میں کچھ اس طرح سے نمایاں ہو گئے جیسے اس نسل کی وہ ایک مخصوص آواز ہیں۔ انھوں نے غزل اور نظم دونوں صنفوں میں کچھ اس قدر سنجیدہ توازن قایم کیا تھاجس سے بھی ان کے قدر دان بڑھے۔ روایت اور جدّت کے معاملے میں وہ کبھی فیشن پرست نہیں تھے۔ اس لیے بھی ان کی شاعری کو غیر جدیدحلقوں میں بھی پڑھنے والے ملتے گئے اور ١٩٧٠ء تک جدیدیت کی نسل کی صفِ اوّل کے شعرا میں ان کی لازمی طَور پر شمولیت ہو چکی تھی۔ نئی شاعری کے حوالے سے شاید ہی کوئی مضمون اس زمانے میں لکھا گیا ہو جس میں شہریار کا کلام زیرِ بحث نہ رہا ہو۔

’ساتواں دَر‘ کے بعد شہریار کے نئے انتخابِ کلام’ہجر کے موسم‘ میں نئے کلام کے نام پر ایک مختصر سرمایۂ سخن شامل ہے۔ اس مجموعے نے حقیقتاً شہریار کی پچھلی اور نئی شاعری کے درمیان پُل کا کام کیا جس کا نقطۂ عروج ’خواب کا دَر بند ہے‘ (١٩٨٥ء) کی شکل میں سامنے آیا۔ شہریار کے تمام مجموعوں میں یہ مقابلۃً ضخیم ہے یا یہ کہنا چاہیے کہ مقدار کے اعتبار سے دوسرے مجموعوں سے یہاں زیادہ کلام شامل کیا گیا ہے۔ ’ساتواں دَر‘ کے سولہ برسوں کے بعد’خواب کا دَر بند ہے‘ اُس وقت سامنے آتا ہے جب جدیدیت کا زور تھمنے لگا تھا اور اس سے مختلف شاعری کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ شہریار کے لیے جس میانہ روی اور توازن و احتیاط کی بات کی جاتی ہے، اس کے لیے یہ مجموعہ ایک مثالی دنیا لے کر سامنے آتا ہے۔ یہاں سکّہ بند جدیدیت اگر کہیں ہے تو وہ محض پرچھائیں کی حد ہے۔ شہریار کی شاعری کا اگرچہ یہ نیا معاملہ نہیں مگر اس مجموعے میں ان کی شاعری میں حِسّی تجربے بڑھ گئے ہیں۔ اب عاشقانہ اُفتاد شباب پر ہے اور ان کی مشقِ سخن کوئی ربع صدی کا حصّہ ہے۔ پختہ عمری اور اچھی خاصی مشق کے بعد شہریار کی شاعری کا یہ نیا موضوعاتی مَحور سامنے آتا ہے۔ نظموں اور غزلوں دونوں میں یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور جدیدیت کی علامتیں اور بیان کا ڈھب سب پیچھے چھوٗٹتے گئے۔ آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ساہتیہ اکادمی نے ان کی اِسی کتاب پر انعام عطا کیا۔

’نیند کی کِرچیں‘(١٩٩٥ء) مجموعے میں شہریار کی اس لمسیاتی کیفیت کی شاعری کی توسیع ہوتی ہے۔’شام ہونے والی ہے‘(٢٠٠٤ء) تک یہ حِسّی کیفیت شہریار کی شاعری پر طاری رہتی ہے۔ اس دوران اس موضوعاتی طلسم سے جب جب وہ نکلتے ہیں تو روٗحِ عصر کی پہنائیوں میں پہنچ کر جگہ جگہ ایک نیم طنزیاتی لہجہ اختیار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شہریار اپنے پچاس برسوں کے ریاض میں دَورِ دوم میں دوسرے جدید شاعروں سے یکسر بدل کر انسانی حسّیت کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں یہ سلسلہ ’خواب کا دَر بند ہے‘ سے شروع ہوا تھا جو آخری دور تک قایم رہتا ہے۔شہریار کے کُلّیات کے باقیات کو علاحدہ کرلیں تو اُن کے نصفِ دوم کی شاعری زیادہ بیدارحسّیاتی پیکر کی وجہ سے قابلِ توجّہ ثابت ہوئی۔ یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ شہریار کی ابتدائی شاعری میں ایک ہلکی سی روٗمانی لہر یا لمسیاتی آفاق کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر بعد کی شاعری میں اس کا تناسب بڑھتا گیا اور دیگر جدید شعرا کے رنگ و آہنگ سے ایک بدلی ہوئی شاعری سامنے آتی ہے۔
شہریار کا کارنامہ یہ ہے کہ جس دور میں اُن کے دوسرے ہم عصر تھک رہے تھے یا خود کو دہرانے کے لیے مجبور تھے، شہریار نے اپنی شاعری کے بنیادی موضوع اور سروکار میں خاص تبدیلی کرکے نیا شاعرانہ انداز اور معیار مقرّر کیا۔ اسلوب کی سطح پر اُن کے یہاں پہلے سے ہی توازن موجود تھا جس کی وجہ سے بڑی سُرعت سے وہ اپنا موضوع اور اسلوب بدلتے ہوئے ایک نئے شاعر کی طرح ہماری محفل میں موجود رہے۔ جدید اور مابعدِ جدید ہی نہیں اگر بعض ترقی پسند نقّاد بھی ان کی شاعری کو قابلِ مطالعہ سمجھتے ہیں تو اس کی وجہ ان کی بدلتی ہوئی اور نئے عہد سے مطابقت بٹھائی ہوئی شاعری ہی ہے جس کی وجہ سے وہ ہر زمانے میں اپنا اعتبار قایم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ شناخت ان کے کسی دوسرے ہم عصر کے حصّے میں نہیں آئی اور فلموں کی مقبولیت نے اس پر اضافہ ہی کیا۔یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شہریار دَورِ اوّل سے لے کر آخر ی زمانے تک اپنی شاعری کی وجہ سے ادبی حلقے میں قابلِ اعتبار تسلیم کیے گئے اور جدیدیت کے عَلَم بردار نسل کے نمایندہ شاعروں میں اپنی پہچان قایم کرنے میں کامیاب ہوئے۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ] 

صفدر امام قادری (دائیں) شہریار(بائیں)


دھیمے سُروں کی شاعری
(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔ حصّہ سوم)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
غزل گوئی۔۱
شہریار کے تمام مجموعوں میں غزل اور نظم دونوں صنفوں کی شمولیت دکھائی دیتی ہے۔ ابتدائی دور میں نظموں کی تعداد زیادہ تھی اور کم از کم تین مجموعوں تک بالعموم یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ شہریار بنیادی طَور پر نظموں کے شاعر ہیں۔ حالاں کہ ابتدائی مجموعوں میں بھی اُن کے کچھ نہایت مشہور اشعار اور کئی بہترین غزلیں شامل ہیں۔ رفتہ رفتہ ان کے یہاں غزل گوئی کے سلسلے سے توجّہ بڑھی اور بعد کے تینوں مجموعوں میں غزلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ معیار کے معاملے میں بھی ان کا یہ کلام زیادہ پسندیدہ قرار دیا گیا۔ ان کے مکمّل کلام سے انتخاب کے دوران جب ان کا سارا سرمایہ بہ یک نظر دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا، اس وقت یہ فیصلہ مشکل معلوم ہوا کہ شہریار کی بنیادی حیثیت غزل گو کی ہے یا نظم نگار کی۔ادبی نقّادوں نے ابتدائی دور سے ہی ان کی نظم نگاری کی خصوصیات اور جدید شاعری کے نئے معنوی اور اسلوبیاتی نظام کے تناظر میں اس کلام کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے مگر مجموعی سرمایے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے لیے ہرگز یہ آسان نہیں کہ ان کی غزل گوئی کو پسِ پشت ڈال دیں یا اس سرمایۂ سخن کی ضمنی اہمیت قبول کر لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک غزل گو کی حیثیت سے شہریار واقعتا قابلِ اعتبار شاعر ہیں اور اُن کی غزلوں کو ان کے مقام و مرتبے کے تعیّن میں اُن کی نظم نگاری کے ساتھ مساوی مقام دیا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی ہمارے پیشِ نظر ہے کہ جس طرح ابتدائی دور میں شہریار کی نظموں نے اُن کی شناخت کے لیے ماحول قایم کیا، اسی طرح شہریار کی غزلوں نے بعد کے زمانے میں ان کی مقبولیت اور قارئین کے دائرے کو وسیع کیا۔
شہریار کی غزل گوئی کے مزاج پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدیدیت کے عہدِ شباب میں بھی وہ اس صنف کی مخصوص روایت سے پورے طَور پر الگ ہو کر نئی زبان، نیا اسلوب اور نئے موضوعات کے طلسم میں گرفتار ہونے سے بچتے رہے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی پیشِ نظر ہو کہ شہریار کے یہاں روایت کے نام پر کلاسیکی رچاو، زبان دانی کا زور اور تراکیب کی بہتات کی محفوظ فضا کبھی قایم نہیں ہوئی جب کہ ان کے ہم عصروں میں پہلی قبیل میں ظفر اقبال، عادل منصوری اور محمّد علوی اور دوسری قبیل میں حسن نعیم، زیب غوری اور سلطان اختر اپنے مزاج سے ادبی دنیا کو آشنا کر رہے تھے۔ شہریار نے بین بین رہتے ہوئے ایک مختلف راہ نکالی۔ اسی لیے کبھی کبھی ان کے یہاں بعض ایسے اشعار بھی نظر آجاتے ہیں جو جدیدیت کے تناظر میں سکّۂ رائج الوقت قرار دیے جا سکتے تھے۔ اسی طرح بعض غزلیہ اشعار روایتی شان اور کلاسیکی رنگ و آہنگ میں ڈوٗبے ہوئے بھی مل ہی جاتے ہیں مگر شہریار نے اپنی کاوشوں سے جو اپنا غزلیہ اسلوب تیّار کیا، اس میں جدید یا کلاسیکی عناصر ضمنی حیثیت رکھتے ہیں اور حقیقی شاہ راہ اُن کی اپنی بنائی ہوئی ہے۔ بول چال کی زبان اور ایک غیر شاعرانہ ڈکشن کے ساتھ سرگوشی اور خواب ناکی کی جو کیفیت شہریار نے اپنی غزلوں میں پیدا کی، اُسے ان کا انفراد کہا جا سکتاہے۔ یہ انداز میر، غالب یا آتش و اقبال کے یہاں بھی نہیں ہے اور نہ بانی اور شکیب جلالی کے کلام میں موجود ہے۔بعض افراد شہریار کی غزلوں کے اسلوب پر ناصر کاظمی کے اثرات کے بارے میں اشارے کر چکے ہیں مگر ناصر کے یہاں موسیقیت اور فطرت کے مظاہر میں حل ہو جانے کی ایک خاص کیفیت ہے۔ شہریار اس راستے کے ہرگز ہرگز مسافرمعلوم نہیں ہوتے۔
غزل کے مانوس اسلوب اور اپنے عہد کی مشہور آوازوں سے گریز نے شہریار کو اردو غزل کی ایک نئی زبان بنانے کے مواقع عطا کیے۔ پُرانی شاعری کی یہاں عشق وعاشقی بھی ہے اور جدید عہد کی تیز وتند زندگی کے جھونکے بھی نظر آتے ہیں۔ شہریار نے اپنی غزل کی حقیقی شاہ راہ مرتّب کرنے کے مرحلے میں مانوس مضامین اور آزمائی ہوئی اسلوبیاتی رنگا رنگی کو خود سے دور رکھا اور موضوع یا اسلوب دونوں سطحوں پر نئے ادبی وسائل آزمائے۔ شہریار کی غزلوں میں جو عاشقانہ کردار اُبھرتا ہے، وہ روایتی سانچے کا ڈھلا ہوا نہیں معلوم ہوتا۔ اس کے عشق میں جاں نثاری کی ایک مشینی سطح ہے۔ وہ اپنے جسم کی سرگوشیوں سے بے خبر نہیں رہتا۔ وہ انسان کی مجبوریوں اور ضرورتوں کے بیچ تصادم کے ساتھ ایک اشتراک کی بھی تلاش کر نے کی کوشش کرتاہے۔ شہری زندگی اورجمہوری عہد کے مسائل سے یہ عاشق کئی بار مختلف مورچوں پر دست وگریباں ہوتا ہے۔شہریار یہاں ایک نئے مزاج کی تشکیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پُرانے تصوّر کے مطابق یہ ادھوری محبت یا ناکامیِ عشق ہے مگر نئی زندگی اور بدلتی ہوئی دنیا کے جبر کو شہریار زیادہ گہرائی سے جانتے اور سمجھتے ہیں۔ اس لیے تھوڑی سی محبت،کچھ پایا ہوا اور کچھ کھویا ہوا پیار، کچھ ہجر اور کچھ وصال کی کیفیات سے ایک الگ زندگی وہ ڈھالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے دور کی شاعری ہوتی تو اسے شکست خوردہ اور ناکام محبت سمجھا جاتا مگر شہریار نے بیسویں اور اکیسویں صدی کے انسانوں کی نئی زندگی کو سمجھا اور ایک جبریہ اعتدال کی زندگی جینے والے لوگوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عشق و عاشقی کے نئے تناظر کی طرف واضح اشارے کیے۔ یاد رہے کہ یہ موضوع شہریار کی نظموں میں کچھ مزید وضاحت اور صفائی کے ساتھ پیش ہوا ہے۔ محبت کی مختلف صورتِ حال کے پیشِ نظر شہریار کے چند غزلیہ اشعار ملاحظہ کریں جو بہ ہر صورت ایک نئے ادبی ماحول کی صورت گری کرتے دکھائی دیتے ہیں:
آج بھی ہے تری دوٗری ہی اُداسی کا سبب
یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں، کچھ کم ہے
نہیں ہے مجھ سے تعلّق کوئی تو ایسا کیوں
کہ توٗنے مُڑ کے فقط اِک مجھی کو دیکھا کیوں
دوٗریاں قُرب لگیں، قُرب میں دوٗری نکلے
عمر بھر مجھ کو یہی کارِ عجب کرنا ہے
گزرا تھا رات بھی کوئی دریا لبوں کے پاس سے
کتنی عجیب پیاس ہے،کم تو ہوئی، بجھی نہیں
وہی کہ جس سے تعلّق براے نام ہے اب
اُسی کا راستہ دن رات دیکھے جاتے ہیں
جستجوٗ تیرے علاوہ بھی کسی کی ہے ہمیں
جیسے دنیا میں کہیں کوئی تِرا ثانی ہے
مُدّتوں پہلے جُدا ہم اپنی مرضی سے ہوئے
لگ رہا ہے دل کو یوں جیسے ابھی کی بات ہے
شہریار کی عاشقانہ شاعری کا ایک وہ انداز بھی قابلِ توجّہ ہے جس میں واضح لمسی رجحان اور جنسی اشارے ملتے ہیں۔ شہریار کی شاعری میں رفتہ رفتہ اس ناگفتنی نے خوب خوب ماحول قایم کیا۔ پیش کش کا انداز پُرانے غزل گو شعرا یا معاملہ بندی کے ماہرین سے یکسر مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ شہریار نئے معاشرے کے کھُلے ماحول کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ اس نئی زندگی اور انسانی ضرورت کے بیچ جو مطابقت قایم ہوتی ہے، اس سے شہریار کے اشعار کی روٗمانی دنیا مزیدگہری اور جسم وجان کی طلب گار ہوتی چلی گئی۔ شہریار اپنی شاعری میں کچھ اس فطری ڈھنگ سے اس بیانیہ کی طرف آئے ہیں کہ جیسے زندگی نئے سِرے سے اُن پر خود کو منکشف کر رہی ہو۔ شہریار کے معاصرین ہی نہیں بل کہ ان کے بعد والوں میں بھی شاید ہی کوئی نظر آئے گا جس نے محبت کے روٗمانی اور جنسی رنگ کو اس سلیقے اور بھرپورانداز میں اپنی غزلوں میں بے خوف و خطر پیش کرنے میں کامیابی پائی ہو۔ شہریار کے یہاں زندگی کی یہ کیفیت بڑے اہتمام اور توجّہ سے پیدا ہوئی ہے، اس لیے کوئی بے ہنگمی اور ہلکا پن نظر نہیں آتا۔ شہر یار کے مخصوص اسلوب میں یہ موضوع کچھ اس طرح سے ڈھل جاتا ہے کہ غور نہ کریں تو جنس زدگی کے بارے میں کوئی احساس ہی پیدانہ ہو کیوں کہ شہریار عصری تقاضوں کے تحت ایک بے گانگی اور احتیاط میں الجھے ہوئے کردار کے ساتھ ہمارے سامنے نظر آتے ہیں۔ شہریار کے کلام پر اگر کسی نے بہتان تراشی اور جنسی تہمت نہیں لگائی تو اس کے پیچھے شہریار کا وہ شعری بیانیہ ہے جو سب کچھ معقول انداز میں سنبھال لیتا ہے۔اس سلسلے سے شہریار کے چند منتخب غزلیہ اشعار ملاحظہ کریں۔ یہاں وہ اردو کی جدید غزل کی تاریخ میں بعض بالکل نئے انداز کے شعر تخلیق کرتے ہیں جن کے موضوعات اور مفاہیم انوکھے ہیں اور ہمیں نئے سِرے سے پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں:
آرہی ہے جسم کی دیوار گِرنے کی صدا
اِک عجب خواہش تھی جو اَب کے برس پوٗری ہوئی
میں درندوں کی نظر سے بھی کبھی دیکھوں تجھے
کیا عجب ناپاک خواہش جسم میں پلنے لگی
عشق کہیے کہ ہوس، اس کی بدولت کچھ ہے
راکھ کے ڈھیر میں چنگاری کی صورت کچھ ہے
دید سے لمس تک ہمیں کیا کیا نہ تجربے ہوئے
دِکھنے میں اور کچھ تھا وہ، چھوٗنے پہ اب کچھ اور ہے
تیری سانسیں مجھ تک آتے بادل ہو جائیں
میرے جسم کے سارے علاقے جل تھل ہو جائیں
ہونٹوں سے آگے کا سفر بہتر ہے ملتوی کریں
وہ بھی ہے کچھ نڈھال سا، میں بھی ہوں کچھ تھکا ہوا
جہاں میں ہونے کو اے دوست یوں تو سب ہوگا
ترے لبوں پہ مرے لب ہوں، ایسا کب ہوگا
قُرب پھر تیرا میسّر ہو کہ اے راحتِ جاں
آخری حد سے گُزر جانے کو جی چاہتا ہے
اس جگہ ٹھہروں یا وہاں سے سُنوٗں
مَیں تِرے جسم کو کہاں سے سُنوٗں
بس اک کوندا سا لپکا اور خیرہ ہو گئیں آنکھیں
تِری جانب نظر ہم نے ارادے سے نہیں کی تھی
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ] 

دھیمے سُروں کی شاعری
(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔ حصّہ چہارم)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
غزل گوئی۔۲
شہریار کا عہد اور ان کی تشکیل و تعمیر کا زمانہ جدیدیت سے وابستہ رہا ہے۔ ابتدائی طَور پر انھیں جدیدیت کے عَلم بردار شعرا میں ہر طبقے نے قبول کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم عصر تخلیقی فضا سے کوئی بے توجّہ ہو کر اپنا وجود بہ مشکل قایم رکھ سکتا ہے۔شہریار نے تو جدیدیت کے شور میں ہی اپنے ابتدائی شعری نمونے پیش کیے۔ ہر طرف ایک خاص انداز کے شعر، مخصوص موضوعات اور ایک طَے شدہ لفظیات کی پیش کش کا سلسلہ تھا۔ کسی بڑے شاعر سے یہ توقّع ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کی محض آوازِ بازگشت نہ بنے۔ نئے شاعر کے لیے یہ خوب خوب امتحان ہوتا ہے کہ ایک طرف وہ اپنے عہد کے ادبی محاورات اور اسالیب سے بے پروا نہ ہو؛ دوسری طرف یہ بھی توقّع ہو تی ہے کہ اگر اُسے اپنے عہد میں گُم نہیں ہو جانا ہے تو اس عہد کی مانوس فضا سے اپنی انفرادی راہ نکالے۔ اسی مرحلے میں اس بات کا پتا چلتا ہے کہ وہ شاعر آگے کہاں تک جائے گا۔ شہریار نے موضوع و اسلوب کی کشا کش میں اچھی خاصی مدّت تک خود کو تپایا کیوں کہ اس کے بغیر کوئی کندن نہیں بن سکتا تھا۔ پہلے شہریار کے ان چند اشعار کوتوجّہ سے پڑھیں جہاں جدیدیت کے زیرِ اَثر آبادیوں کی وحشت ناکیوں اور زندگی کے سامنے نئے مسائل پیدا ہو نے کی کہانی بیان میں آئی ہے۔ اپنے عہد کی ہیبت ناکیوں کو شہریار بعض اشعار میں اس طرح سے پیش کرتے ہیں جیسے ہم میر کی زبان سے اٹّھارھویں صدی کا نوحہ سُن رہے ہوں۔ یہاں خوف، بے چینی، غم و غصّہ اور بے بسی کے مِلے جُلے احساس نے نیا شعری ماحول قایم کر دیا ہے:
شہروں کی سرحدوں پہ ہے صحراؤں کا ہجوم
کیا ماجرا ہے، آؤ! خبر تو لگائی جائے
رنگِ وحشت سے سبھی رنگ بہت دھندلے تھے
شہر کا خاکہ تھا، تصویر بنی صحرا کی
ان پانیوں سے کوئی سلامت نہیں گیا
ہے وقت اب بھی کشتیاں لے جاؤ موڑ کے
شہر یہ آباد تھا؛ شاہد ہوں میں بھی
کس کی وحشت نے اُسے صحرا کیا ہے
حافظے میں مِرے بس ایک کھنڈر سا کچھ ہے
مَیں بناؤں تو کسی شہر کا نقشا کیسے
منعقد جلسے کرو یا محفلیں برپا کرو
بچ نہ پاؤ گے مگر تنہائیوں کے قہر سے
گئے تھے لوگ تو دیوارِ قہقہہ کی طرف
مگر یہ شورِ مسلسل ہے کیسا رونے کا
کاغذ کی کشتی میں دریا پار کِیا
دیکھو ہم کو کیا کیا کرتب آتے ہیں
چلو جنگلوں کی طرف پھر چلو
بُلاتے ہیں پھر لوگ بچھڑے ہوئے
پَلٹ کے پیچھے نہیں دیکھتا ہوں خوف سے مَیں
کہ سنگ ہوتے بہت دوستوں کو دیکھا ہے
زندگی کی ایسی مشکل گھڑی اور اپنے دور کے بکھراو میں کوئی شاعر یا تو غموں کے حصار میں خود کو قید کر لیتا ہے یا فن کار کے اندر کا باغی سامنے چلا آتا ہے۔ شہریار ہی نہیں تقریباً تمام جدید شعرا کو سماجی شعور سے دوٗر کا باشندہ سمجھا گیا۔ جدید شعرا ترقّی پسندوں کی بساطِ ادب کو توڑ مروڑ کر آگے بڑھ رہے تھے، اس لیے احتجاج اور بغاوت جیسے عناصر کی بات ایک زمانے تک جدید شاعری میں نہیں ہوئی۔ پوری جدید شاعری کو بھی غیرسیاسی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ شہریار کے بارے میں تو یہ ایک عام تاثّر ہے کہ وہ سیاسی موضوعات اور نقطۂ نظر سے ذرا دوٗر ہی رہتے ہیں۔ سچّائی اگر یہ ہے تو جزوی ہی ہوگی کیوں کہ زندگی کی دھیمے سُروں کی شاعری بہت ساری ضرورتوں اور حقیقتوں میں سے ایک سیاست بھی ہے۔ کوئی انسان اپنے عہد کی سیاسی صورتِ حال سے بے خبر رہ کر زندگی اور سماج کا تجزیہ کس طرح کر سکتا ہے؟ شہریار نے چند نظمیں ایسی لکھی ہیں جنھیں عرفِ عام میں برہنہ حقیقت نگاری کے زمرے میں رکھا جا سکتاہے مگر غزل کی دنیا قدرے مختلف ہوتی ہے۔ شہریار نے جگہ جگہ اپنے عہد کے بعض ضروری سوالوں کو سیاست اور اقتدار کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں وہ ایک باغی اور احتجاج کرنے والے کے طَورپر نظر آتے ہیں۔ جو لوگ شہریار کو مکمّل طور سے ایک غیر سیاسی شاعر سمجھنے کی بھول کرتے ہیں،انھیں شہریار کی شاعر ی میں موجود اس طنزیہ اور احتجاجی رنگ کو بہ غور دیکھنا چاہیے۔ اس سلسلے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
زباں ملی بھی تو کس وقت بے زبانوں کو
سُنانے کے لیے جب کوئی داستاں نہ رہی
سوٗرج کا قہر صرف بَرہنہ سَروں پہ ہے
پوچھو ہَوس پرست سے وہ کیوں ملول ہے
مَیں ایک عرصے سے حیران ہوں کہ حاکمِ شہر
جو ہو رہا ہے، اُسے دیکھتا نہیں ہے کیا؟
ہر پتنگے کے پَر سلامت ہیں
شمعیں بے بات کیوں جلیں شب بھر
عزیزِ شہر آپ کی یہ منصفی بھی خوب ہے
ہَوس کو چھوٹ ہے کُھلی، جنوں پہ قید و بند ہے
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
وہ بڑھ رہی ہے اندھیروں کی سلطنت ہر پَل
وہ آ رہی ہے اُجالوں کی فوج ہاری ہوئی
کیسا منظر تھا کہ زنجیر ہوئیں آوازیں
اور مخلوقِ خدا ساری، تماشائی تھی
آج پانو کے نیچے کوئی شَے زمیں سی ہے
آج کیا غضب ہوگا، شام ہونے والی ہے
زندگی اور کاینات کے کہیں گہرے پانیوں میں جب شہریار اُترتے ہیں،اس وقت نئی کاینات، نئی زندگی اور نئے خواب ہر طرف لہلہاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ دمادم صداے کُن فیکون قایم ہو رہی ہے۔ تشکیلِ جدید اور تعمیرِ نَو کا یہ ذوق شاید کہ اُس مطالعۂ کاینات کا نتیجہ ہے جہاں وہ مشاہدے اور تجربے کے بعد ایک نئے خواب کا سودائی معلوم ہوتے ہیں۔ جو زندگی اُنھیں ملی اور جیسی کاینات ہاتھ لگی، شاعر اس کا ایک مستقبل آمیز تجزیہ کرتا ہے۔شہریار کے اس تخلیقی اُبال کو سمجھنے کے لیے ان کی وہ مشہور غزل بہ طورِ آئینہ ہمارے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے جس کی ردیف ’کچھ کم ہے‘ اور جس سے اس کتاب کا سرنامہ منتخب کیا گیا ہے۔ یہ غزل اپنے آپ میں شاعر کے اندرون میں پیدا ہورہے احتسابی رنگ کا ایک اعلان نامہ ہے۔ پہلے اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں:

زندگی جیسی توقّع تھی؛ نہیں، کچھ کم ہے
ہر گھڑی ہوتا ہے احساس، کہیں کچھ کم ہے
گھر کی تعمیر تصوّر ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہوگی
دل میں اُمّید تو کافی ہے، یقیں کچھ کم ہے
اب جدھر دیکھیے لگتا ہے کہ اس دنیا میں
کہیں کچھ چیز زیادہ ہے، کہیں کچھ کم ہے
یہ غزل شاعر کی فکر کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ قدرت نے کس کے حصّے کا کتنا طَے کیا ہے اور اسے کتنا ملنا یا پانا مقرّر ہوا ہے، یہ سوالات غیر اہم نہیں۔قدرت اور انسان کے بیچ کا مجادلہ، محاسبہ، مناقشہ ازل سے قایم ہے۔ سارے مذاہب اِنھی رشتوں کی تعبیر و تشریح میں الگ الگ زمانے میں قایم ہوتے گئے۔ مفکرین اور بڑے بڑے سائنس دانوں نے اس کاینات میں انسان کے رول کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بہت سارے باغی گفتار کے اسلوب پر قابو نہیں رکھ سکے۔ کچھ کابیان اتنا شفّاف اور برہنہ ہو گیا کہ زمانے نے انھیں جینے بھی نہیں دیا۔ شہریار تاریخ کی ان مشکلات سے بے خبر نہیں، اسی لیے انھوں نے ایک ایسی ردیف تلاش کی جس میں انسان اور قدرت کے رشتوں کی پڑتال ہو سکے___ ’کچھ کم ہے‘ ردیف سے حالاں کہ ایک حتمیّت کا ماحول قایم ہوتا ہے مگر شاعر نے قافیہ ایسا منتخب کیا جہاں یہ بولتی ہوئی ردیف بیان کے برہنہ کردار سے الگ ہو کر مشاہدے کی گہرائی میں ہمیں لے جاتی ہے____ نہیں، کہیں، یقیں، اور زمیں کے قوافی نے ہر شعر کے معنی اور مفہوم کی کھُلی دنیا پر ایک پردہ ڈالا ہے۔ اسی لیے ایک لمحے میں شعر کا کوئی حتمی رُخ نظر آتا ہے تو دوسرے مرحلے میں بیان میں تذبذب اور احتیاط کا محاورہ شامل ہو جاتاہے۔ اب یہ اشعار عمومی فرمان نہیں بنتے بل کہ یہ ایک تفکّر آمیز مشاہدے کی دنیا آباد کرتے ہیں۔ انسانی مزاج اور نفسیات کے تابع ہو کر اس غزل کے اشعار ہمارے عہد کا نوحہ بن جاتے ہیں۔ کیسے کیسے مصرعے شاعر نے یہاں اُبھارے ہیں:
ع دل میں امّید تو کافی ہے، یقیں کچھ کم ہے
ع کہیں کچھ چیز زیادہ ہے، کہیں کچھ کم ہے
ع یہ الگ بات کہ پہلی سی نہیں، کچھ کم ہے
شہریار کی یہ غزل اپنے اسلوبیاتی طلسم اور فکری استحکام کی وجہ سے ہمارے عہد کی نہایت مشہور غزلوں میں سے ایک ہے۔ شہریار کے یہاں اپنی دنیا اور اپنے عہد کی تشکیلِ نو کاایک خواب بھی نظرآتاہے۔ وہ کوئی نئی دنیا اور موجود سے مختلف دنیا بنانے کے خواہاں رہے ہیں۔ جیسے جیسے شہریار کے یہاں شاعر ی اور عمر نے پختگی حاصل کی، ان کا مطالعۂ کاینات مزید بار آور ثابت ہوا اور ان کے یہاں اپنے عہد کے بکھراو سے نئی دنیا کی تعمیر و تشکیل کے سوالات زیادہ توجّہ سے سامنے آنے لگے۔ ذیل کے اشعار اس سلسلے میں غور طلب ہیں:
میرے مالک مجھ کو اتنی مہلت دے
نئے سِرے سے مَیں تیری دنیا دیکھوں
آسماں تجھ میں کشش بھی نہیں پہلے والی
اور کچھ یوں ہے کہ بہتر یہ زمیں ہو گئی ہے
دیکھ ہم پھر جلا رہے ہیں چراغ
اے ہَوا حوصلہ نکال اپنا
یا اتنی نہ تبدیل ہوئی ہوتی یہ دنیا
یا مَیں نے اسے خواب میں دیکھا نہیں ہوتا
ہم خوش ہیں، ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بُو گئے ہوتے
بہت یاد آئے جب جب قہر سوٗرج کا ہُوا نازِل
وہی اشجار جن کو ہم نے بے برگ و ثمر جانا
آنکھ اس منظر کو کیسے بھول جائے
پھول مُرجھائے تو مرجھائی ہَوا
زندگی کو طرح طرح کے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کے مرحلے میں شہریار نے خیال کی نُدرت اور اسلوبِ بیان کے انوکھے پن کا راستا اختیار کیا۔ جدیدیت سے سیکھی ہوئی بہت ساری چیزیں یہاں کام آئیں۔ شہریار کئی دہائیوں کے ادبی سفر کے بعد ایک پختہ تر اسلوب کو غزل میں کامیابی کے ساتھ برتنے کا حوصلہ پاتے ہیں۔ یہاں خیال کی ایک عجیب و غریب دنیا آباد ہوئی ہے۔ تشبیہات اور استعاروں کی پُر اثر فضا ہے۔ خیال منظر میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور منظر جذبات میں بدل جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی اور قدرت کے اس کھیل تماشے کو شہریار نے بڑے پُراثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بے شک اس قبیل کے بہت سارے اشعار جدیدیت کی تخلیقی فضا میں ہی سامنے آ سکتے تھے مگر یہ بھی ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ شہریار نے بیان، اسلوب اور خیال کی یکجائی سے جو نئے بُت تراشے، وہ اُن کی غزل گوئی کے لیے روحانی غذا ثابت ہوئے اور ان کی شاعری کا اس سے ایک علاحدہ اور بھرپور منظر نامہ مرتّب ہوتاہے۔ ایسے کچھ اشعار ذیل میں ملاحظہ کریں:

دھوپ کے قہر کا ڈرہے تو دیارِ شب سے
سر برہنہ کوئی پرچھائیں نکلتی کیوں ہے
گُلاب ٹہنی سے ٹوٗٹا، زمین پر نہ گِرا
کرشمے تیز ہَوا کے سمجھ سے باہر ہیں
پہلے نہائی اُوس میں پھر آنسوؤں میں رات
یوں بوٗند بوٗند اُتری ہمارے گھروں میں رات
سرگوشیوں کے سبز بدن زرد ہو گئے
جگنو سکوٗتِ شام کے بستر پہ دیکھ کر
کوئی پلکوں سے اُترتی رات کو روکے ذرا
شام کی دہلیز پر اِک سایہ ہے سہما ہوا
سکوتِ شام سے پہلے کی منزل سخت ہوتی ہے
کہو لوگوں سے سوٗرج کو نہ یوں ڈھلتا ہوا دیکھیں
اس طرح شہریار کو غزل گو شاعر کی حیثیت سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ جدیدیت کے عَلَم برداروں میں وہ ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے اپنے سابقین، ہم عصروں اور نوعمروں کی شعری روایات کو ہر دَور میں قابلِ غور سمجھا اور امتزاج کے بجاے انفراد کی ایک راہ نکالنے میں خاص طور سے سرگرداں رہے۔ یہ مشکل نشانہ ضرور تھا مگر چھے دہائیوں پر پھیلے ان کے شعری سفر سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ انھوں نے غزل کی کسی مخصوص روایت یا توانا آواز کی ابتدا کا جنجال نہیں سنبھالا بل کہ وہ روایتِ شعری اور اپنے عہد کے تقاضوں کے بیچ مناسبت قایم کرنے کے لیے کوشاں رہے جس سے ایک علاحدہ اسلوب قایم ہو کر سامنے آ گیا۔ غزل کی بات کریں تو شہریار اپنے ہر ہم عصر وں سے الگ طَور پر پہچانے گئے۔ اردو کی غزلیہ شاعری میں یوں تو سیکڑوں شعرا بااعتبار ہیں مگر ان میں شہریار کی بنائی ہوئی ایک مختصر سی دنیا بھی ضرور آباد ہے۔ یہ صاحبِ اسلوب اور صاحبِ طرز کا شناخت نامہ ہے۔ بے شک اردو غزل کی تاریخ میں شہریار کو ان کے انفرادی رنگ و آہنگ سے ہی لازمی طَور پر پہچانا جائے گا۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ] 

دھیمے سروں کی شاعری 

(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔حصّہ پنجم)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
نظم نگاری۔۱
اردو نظم کی طویل تاریخ اس صنف کے فکری اور دانش ورانہ تقاضوں کی طرف ہماری توجّہ مبذول کراتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی، حالی، اقبال اور جوش سب کی نظمیں کسی مرکزی فکر یا کسی مخصوص خیال کے دائرے میں محفوظ نظر آتی ہیں۔ ہر چند حلقۂ اربابِ ذوق کے شعرا نے بالعموم اور بعض ترقی پسند شعرا نے بالخصوص پُرانی نظموں سے علاحدہ راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔تب بھی نظم نگاری کے بڑے حصّے میں دانش ورانہ توجّہ اور فکر و فلسفہ کی افتاد ہمیشہ شامل رہی ہے۔اس لیے فکر وخیال پر ارتکاز اور منطقی انجام کے طوٗلِ بیان کو نظم گوئی کا شناخت نامہ سمجھا گیا۔ اس کے باوجود اختر الایمان نے کسی مختصر خیال یا کسی ایک لمحے کی کیفیت کو پیشِ نظر رکھ کر مختصر نظموں کی گنجایشیں پیدا کیں مگر اُن کا حقیقی شاعرانہ زور اُن کی کم مختصر یا طویل نظموں میں سامنے آیا۔ اکثر نظم گو شعر اکسی بات کے فطری خاتمے کی پیش کش تک بہت سارے مصرعے خرچ کر چکے ہوتے ہیں۔ اس لیے بڑے نظم نگار مختصر اور مختصر تر نظموں کو زیادہ آزماتے ہوئے نظرنہیں آتے۔اقبال کے آخری دَور کی نظمیں بھی ان کے شاعرانہ اوصاف کے مقابلے تبلیغی عناصر کے سبب پہچانی گئیں۔
اردو کے جدید شعرا میں شہریار اور منیر نیازی کی رفتہ رفتہ یہ پہچان قایم ہوئی کہ وہ اپنی بات محض چند مصرعوں میں مکمّل طَور پر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شہریار نے یوں بھی ابتدائی دَور سے ہی بہت سارے شعرا کی طرح خود کو مفکّر اور فلسفی بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یوں بھی جدید شعرا ترقی پسندوں کے بعد وارد ہوئے تھے اور ان کے آزمائے ہوئے راستوں سے الگ ہونا چاہتے تھے؛ اس لیے کسی مرکزی فکر کے تابع ہو کر وہ کیوں کر سرگرمِ تخلیق ہوتے؟ شہریار تو اپنی نصف صدی سے زیادہ عرصے تک پھیلی شاعری میں کبھی کسی فکروفلسفہ کا دعوا کرتے نہیں پائے گئے۔ اپنے بارے میں لکھتے ہوئے اور اپنے تصوّرات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ ہمیشہ گریز کا راستہ چُنتے ہیں۔ بہ درجۂ مجبوری کبھی اپنے مجموعے پر لکھنے کا انھیں موقع بھی ملا تو کبھی دو صفحات سے زیادہ کاغذ کا زیاں نہیں کیا۔ اس بیان میں بھی اظہارِ تشکّر اور تکلّفات کا عمل دخل زیادہ رہتا تھا۔ اس سے یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ شاعر اپنے قارئین کو غیرضروری طَور پر اپنے خیالات کے دباو میں نہیں رکھنا چاہتا اور انھیں آزادانہ طور پر اپنی راے قایم کرنے کے لیے مواقع دیتا ہے۔ شہریار بھلے جاگیر دارانہ قبیلے سے آتے تھے مگر انھیں جو زندگی ملی، وہ جمہوری تقاضوں سے لیس ملی تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو جمہوری آئینے میں تیّار کیا اور اسی وجہ سے ہمیشہ ایسی کوشش کی کہ اپنی شاعری کے موضوعات و مفاہیم کے بارے میں خود زیادہ گفتگو نہ کریں۔ کسی نظم نگار میں اگر ایسی بات ہوگی تو وہ کیسے اپنے افکار و نظریات کی تبلیغ کرنا پسند کرے گا۔
شہریار کی نظمیں نوّے فی صدی مختصر ترین ہیں اور ان میں سے اکثر و بیش تر پانچ،چھے اور سات آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہیں۔ہر نظم میں اگرچہ کوئی نہ کوئی خیال ضرور پیشِ نظر ہے مگر یہ کہنا واقعتا مشکل ہے کہ شاعر کسی سلسلۂ خیال کو آگے بڑھانے کے مقصد سے ان نظموں کو پیش کر رہا ہے۔ اس طرح سے موضوعاتی اعتبار سے شہریار کی نظمیں اس صنف کی آزمائی ہوئی زمین سے بالکل مختلف ہیں۔ شاعر کے ذہن میں کوئی انوکھا سا خیال یا کوئی ایک کیفیت مچلتی ہے اور چند چھوٹے بڑے مصرعے وجود میں آ جاتے ہیں۔ شہریار نے نظمِ معرّا، آزاد نظم اور مٹّھی بھر نثری نظمیں شایع کی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نظمِ معرّا اور آزاد نظموں میں شاعر کو زیادہ سہولت حاصل ہے۔ اُسے اپنے خیال یا کیفیت کی پیش کش کے لیے یہی دونوں ہیئتیں زیادہ پسندیدہ ہیں اور دَورِ اوّل سے لے کر آخری زمانے تک شہریار کی نظم گوئی کا سلسلہ انھی دونوں ہیئتوں میں قایم رہتاہے۔
شہریار کی نظموں میں آہنگ کے اعتبار سے بعض نظمیں نہایت ہی نغمہ ریز اور ترنّم سے بھر پور ہیں۔ یہ صرف نظمِ معرّا کے لیے ہی مخصوص نہیں بل کہ ان کی آزاد نظمیں بھی خوب خوب رواں دواں ہیں۔ اس کے برعکس شہریار کے غزلیہ سرمایے میں موسیقیت کے لیے کبھی کوئی اضافی کوشش یا توجّہ دیکھنے کو نہیں ملتی۔ عین ممکن ہے کہ شہریار یہ بات سمجھتے ہوں کہ نظم میں شاعرانہ آہنگ نہ ہو تب خیال کاسلسلہ قایم رکھنے میں دشواریاں پیداہو سکتی ہیں۔ یہ مسئلہ غزل کی آزاد فضا میں کبھی مشکلات کا باعث نہیں ہوتا کیوں کہ وہاں اکثر شعر اپناآزادانہ وجود ثابت کرتے ہیں اور ہر شعر اپنی الگ کیفیت کے سبب ہماری توجّہ مبذول کراتا ہے۔شہریار کی معرّا نظموں میں تو اتنی رواں دواں کیفیت ملتی ہے جیسے محسوس ہوکہ یہ شاعر اپنے ترقی پسند سابقین یا بالخصوص فیض کی توسیع ہے مگر خیال کی سطح پر شہریار کی چند نظمیں بھی ایسی نہیں پیش کی جا سکتی ہیں جنھیں خالص ترقی پسندانہ ذہن کا زائیدہ قرار دیا جاسکے۔ ابتدائی دور میں شہریار کے یہاں مختصر تر نظموں کے ساتھ ذرا طویل نظمیں بھی نظر آتی تھیں مگر جیسے جیسے شعر گوئی کا سلسلہ آگے بڑھا، مختصر تر نظموں پر شہریار کااعتماد بھی بڑھا جس کے نتیجے میں یہ بات دیکھی جا سکتی ہے کہ رفتہ رفتہ وہ نہایت مختصر نظموں کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اشارے کی زبان قایم کر رہا ہے۔ وہ جب چاہے، چند لفظوں سے اپنی بات اپنے قارئین تک پہنچا سکتا ہے۔ جب بیان میں ایسی قدرت آ جائے تو کسی بھی شاعر کو لفظوں کا بے جا اسراف کیوں کر کرنا چاہیے۔ اس لیے شہریار نے نہایت مختصر نظموں پر اپنی تخلیقی قوّت کا ارتکاز قایم کیا۔ اس سے اردو کی نئی شاعری میں ان کا ایک خاص کردار اُبھر کر سامنے آیا۔
شہریار کی نظم گوئی کے بارے میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان کے کچھ کلیدی الفاظ ان کے اظہار کی سَمت متعیّن کرتے ہیں۔ کئی نقّادوں نے ان کے سرمایۂ الفاظ پر بحث کرتے ہوئے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ رات، خواب، آنکھ، نیند،سفر، شام، سایہ، پرچھائیں، سمندر، کشتی، تنہائی، دھواں، جسم، دھوپ جیسے الفاظ کے اِردگِرد شہریار کی تخلیقات لفظوں کے پیرہن حاصل کرتی ہیں۔ بہ یک نظر غور کریں تو جدید شاعری کے یہ پسندیدہ الفاظ ہیں۔ شہریار نے یوں بھی اپنی پوری شاعری میں لفظ و بیان کا کوئی گورکھ دھندا نہیں کیا۔ ایک محدود اور نہایت سادہ سرمایۂ الفاظ سے نصف صدی سے زیادہ زمانے تک وہ کام چلاتے رہے۔ ان کے اکثر و بیش تر ہم عصر ماسواے محمّد علوی فارسی تراکیب اور روشن لفظیاتی نظام کی طرف اپنا جھکاو رکھتے تھے۔ شہریار نے اپنے لیے یہ انوکھا نشانہ رکھا کہ وہ مُٹھّی بھر لفظوں اور بیس پچیس کلیدی الفاظ کے سہارے اپنے اظہار کی ساری دنیاپیش کر دیں گے۔ یہ ایک حیرت انگیز اعتماد تھا۔ بھلے اس کی ابتدائی تربیت خلیل الرّحمان اعظمی کے زیرِ سایہ ہوئی ہو مگر شہریار نے اُس اسلوب کو اور بھی سادہ اور عرفِ عام میں بے نمک بنایا۔ یہ بے ارادہ نہیں تھا۔ اُنھیں خیالات کی ترسیل اور مخصوص شعری کیفیت سے سروکار تھا۔ اگر کسی شاعر کو سادہ زبان اور بہ ظاہر اکہرے بیان میں اثر آفرینی کی دنیا میسّر آ جائے تو اُسے کیوں دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
شہریار کی ابتدائی نظموں میں ’موت‘ اور ’آدرش‘ کا مطالعہ کیجیے تو اس بات پر یقین کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا کہ کسی شاعر کی یہ بالکل ہی ابتدائی نظمیں ہیں۔ دونوں نظمیں بیان، پیش کش اور معنوی نظام کی وجہ سے اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ شہریار اگرچہ فلسفیانہ تصوّر کے اعلانیہ طَور پر قائل نہیں مگر یہ نظمیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ شاعر زندگی اور کاینات کی حقیقت پر غور کرتا ہے اور اُسے انوکھے خیال اپنی قید میں لیتے رہتے ہیں۔ ’موت‘ کا آخری مصرع: ’ابھی نہیں، ابھی کم بخت دِل دھڑکتاہے‘ پڑھتے ہوئے’کارِ جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر‘ جیسا آہنگ قایم ہوتاہے۔ اسی طرح ’آدرش‘ نظم کے انجام پر شاعر یوں گویا ہوتا ہے:’بوجھو تو پاگل کا سپنا، سمجھو تو سنسار‘۔ ’اسمِ اعظم‘ میں چار مصرعوں کی ایک نظم ’آشوبِ آگہی‘ موجود ہے۔ کہنے کو چار مصرعوں کا وجود ہی کیا اور وہ بھی بیس پچیس برس کے کسی نوجوان نے جب اسے قلم بند کیا ہو مگر نپا تُلا اظہار، بیان پر قدرت، جذبوں کی ڈور کو سنبھالے رکھنا اور زندگی کے کھیل تماشے یا ہار جیت میں اُلجھ جانا؛ یہ سارا بیان ’آشوبِ آگہی‘ میں سمٹ آیا ہے۔ اس نظم کے عنوان نے اس کی معنوی دنیا کووسیع کر دیا ہے۔ ہمیں یہاں کبھی اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی مبتدی کا کلام ہے:
اک گھنیرے شجر کے سائے میں
دو گھڑی بیٹھ کر یہ بھول گئے
قرض ہاے جنوں چکانے ہیں
ہم کو سورج کے ناز اٹھانے ہیں
[آشوبِ آگہی] 
’ساتواں در‘ مجموعے میں شہریار کی چند ایسی نظمیں شامل ہوئی ہیں جنھیں جدیدیت کے عہدِ شباب کا نمایندہ کلام کہا جا سکتاہے۔’زوال کی حد‘، ’عہدِ حاضر کی دل رُبا مخلوق‘ اور ’خطرے کا سائرن‘ نظموں کو جدید شاعری کا نمایندہ اسلوب قرار دیا جا سکتاہے۔شہریار کی یہ تینوں نظمیں نظمِ معرّا کی صورت میں ہی سامنے آتی ہیں۔ پہلی دو نظمیں ذرا طویل ہیں۔ ’خطرے کا سائرن‘ کو بھی مختصر تر نظموں میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ذہنی بکھراو، غیریقینی صورتِ حال اور تیزی سے بدل رہی زندگی کے اقدار میں اندر اور باہر سے کس طرح کی ٹوٹ پھوٗٹ ہے؛ اسے شہریار کی نظموں کے اسلوبِ بیان نے اور بھی واضح کردیا ہے۔ ان نظموں سے چند مصرعے ملاحظہ کریں:
لایعنی ہیں مرگ و زیست
بے معنی ہیں سب الفاظ
بے حِس ہے مخلوقِ خدا
ہر انساں اک سایہ ہے
شادی غم، اک دھوکا ہے
دل، آنکھیں، لب، ہاتھ، دماغ
ایک وبا کی زد میں ہیں
اپنے زوال کی حد میں ہیں
[زوال کی حد] 
زرد بلبوں کے بازوؤں میں اسیر
سخت، بے جان، لمبی کالی سڑک
اپنی بے نور دھندلی آنکھوں سے
پڑھ رہی ہے نوشتۂ تقدیر
[عہدِ حاضر کی دل رُبا مخلوق] 

تمام شہر آگ کی لپیٹ میں ہے، بھاگیے
حضور کب سے میٹھی نیند سو رہے ہیں، جاگیے
سماں ہے روزِ حشر کا، نگاہ تو اٹھائیے
لگی ہوئی ہے آنکھ پر جو دوربیں، ہٹائیے
تمام اہلِ شہر، شہر چھوڑ کر چلے گئے
جھکے ہوئے ہیں سر عظیم بلڈنگوں کے دیکھیے
اب اور کچھ نہ دیکھیے، اب اور کچھ نہ سوچیے
تمام شہر آگ کی لپیٹ میں ہے، بھاگیے
[خطرے کا سائرن] 
جدیدیت نے جس سماجی بحران سے ہمیں آگاہ کیا تھا اور اس صورتِ حال کے لیے جو سب سے موزوں اسلوب ہو سکتا تھا، شہریار نے اپنی مذکورہ نظموں میں اتنی پختگی اور تکمیلیت کے ساتھ پیش کر دیا ہے جیسے انھیں غیب سے کچھ اشارے مل رہے ہوں اور اس کی روشنی میں اپنے زمانے کاوہ تجزیہ کر رہے ہوں۔شہریار اگر موضوع اور اسلوب کی سطح پر جدید ادب کے تقاضوں سے خود کو پورے طور پر ہم آہنگ نہ کر پاتے تو ایسی نظمیں یا تو بہت سَر سَری انداز میں پیش ہوتیں یا مبلّغانہ رُخ اختیار کر لیتیں۔ حالاں کہ اس وقت وہ ایک نئے شاعر تھے اور بہ مشکل دس برس کی مشقِ سخن تھی مگر انھوں نے جدیدیت کے اس اسلوب کو پورے طور پر انگیز کر لیا تھا۔ آج یہ بات کہنا مشکل نہیں کہ جدید شاعری کا جو نظمیہ سرمایہ سامنے آیا اور اس میں جو سب سے نمایندہ اور اپنے عہد کے مزاج و اسلوب سے مطابقت رکھنے والی نظمیں تخلیق ہوئیں، ان میں ’زوال کی حد‘ اور ’عہدِ حاضر کی دل رُبا مخلوق‘ یا ’خطرے کاسائرن‘ جیسی نظموں کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ] 

کلیات شہریار

دھیمے سُروں کی شاعری
(شہریار کی شاعری کاتفصیلی مطالعہ۔حصّہ ششم)
صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس،آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
نظم نگاری۔۲
شہریار چند لفظوں یا گِنے چُنے مصرعوں سے کس انداز سے اپنی بات مکمّل کرلیتے ہیں، اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے ایک عجیب احساس ہوتا ہے۔ کسی بھی شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ ممکن حد تک ایجاز کو اپنائے۔ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات کو مکمّل کر دے۔ یہ آسان نہیں اور شاعر کے لیے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ اچھی بھلی نظم کہیں کوئی لطیفہ نہ بن جائے۔ اخترالایمان جیسے بڑے شاعر کی بعض مختصر نظمیں اُن کی بڑی نظموں کی طرح تاثّر قایم رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ ہر چند شہریار کی بہت ساری نظموں پر اپنے بزرگ شعرا بالخصوص اختر الایمان کے محدود اثرات موجود ہیں مگر چھوٹی نظموں میں شہریار نے اپنا ہنر کچھ اس انداز سے ظاہر کیا ہے جیسے وہ جدید شعرا کے درمیان اس باب میں سب سے بڑے فن کار ہیں۔ ان کی چند مختصر نظمیں ملاحظہ ہوں:
مائل بہ کرم ہیں راتیں
آنکھوں سے کہو اب مانگیں
خوابوں کے سوا جو چاہیں
[ایک نظم] 
حروف تتلیوں کے رنگ بن گئے
خموشیوں کو طوٗل دیں گے، فاصلے بڑھائیں گے
ہم ایک دوسرے سے اور دوٗر ہوتے جائیں گے
کہاں ہو تم!
تمھاری ہر دعا قبول ہو گئی
[کہاں ہو تم] 
نہ جانے کیا ہُوا دیوار و دَر کو
مَیں کِن آنکھوں سے دیکھوں اپنے گھر کو
کہیں بھی دھند تاریکی نہیں ہے
ہر اِک کمرے میں اِتنی روشنی ہے
کہ کچھ بھی دیکھنا ممکن نہیں ہے
[اِتنی روشنی] 

مانا ہیں شَل ہاتھ تمھارے
مانا ہیں پتوار پُرانے
ماناساحل دوٗر بہت ہے
مانا دریا ہے طوٗفانی
کشتی پار نہیں ہونے کی
آخر ی کوشش تو کرنی ہے
[آخری کوشش تو کرنی ہے] 
لبوں پہ ریت، ہاتھوں میں گلاب
اور کانوں میں کسی ندی کی کانپتی صدا
یہ ساری اجنبی فضا
مرے بدن کے آس پاس آج کون ہے؟
[بدن کے آس پاس] 
پھر ریت بھر ے دستانے پہنے بچّوں کا
اک لمبا جلوس نکلتے دیکھنے والے ہو
آنکھوں کو کالی لمبی رات سے دھوڈالو
تم خوش قسمت ہو، ایسے عذاب کی لذّت
پھر تم چکھّو گے
[عذاب کی لذّت] 
یہ نظمیں خیال کی ایک مکمّل دنیا آباد کرتی ہیں۔ یہ کتنا مشکل کام ہے کہ کوئی شاعر پہلے سے یہ متعیّن کرلے کہ بیان اور خیال کو ایسے مرکز میں لاکر نظم کا قالب عطا کرنا ہے کہ حقیقی نظم کی تخلیق کے امکانات روشن ہو جائیں۔ اس بے حد مشکل راستے کو شہریار نے اپنے شعری سفر میں کچھ اس اہتمام سے اپنایا کہ ان کے ہر مجموعے میں دو تہائی ایسی کامیاب نظمیں ہیں جنھیں آپ مختصر تر اور مختصر ترین کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں۔ شہریار کی شاعری کا سخت سے سخت انتخاب بھی اُن مختصر ترین نظموں سے علاحدگی اختیار کرکے تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔
شہریار کی نظم نگاری پر گفتگو اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ان کی اُن نظموں کا تذکرہ نہ ہو جن میں ایک عاشقانہ کیفیت موجودہے اور اس کے نہ جانے کتنے مدارج یہاں طرح طرح سے روشن ہوئے ہیں۔ شہریار کی ان نظموں میں زندگی کے جسمانی تقاضے اور انسان کی خواہشات کی بنتی سنورتی اور پامال ہوتی ہوئی صورت لفظوں کا قالب اختیار کرتی ہے۔ پیاس، تمنّا، حصول اور سیرابی کا یہ کھیل چلتا رہتا ہے۔ کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر بالآخر کھونے اور بے آس ہو جانے کے لیے زندہ ہے۔ذیل میں شہریار کی ایسی چند نظموں کا مطالعہ کرکے ہم کسی نتیجے تک پہنچ سکتے ہیں:
میرا تو اِرادہ تھا
ہونٹ سیڑھیوں سے مَیں
آسمان تک جاؤں
توٗنے اس جگہ مجھ کو
اتنی دیر تک رُوکا
یہ بھی بھول بیٹھا مَیں
میرا کیا اِرادہ تھا
اِس وجودِ خاکی میں
جسم کچھ زیادہ تھا
[میرا تو اِرادہ تھا] 
شام ڈھلتے ہی مِری آنکھوں نے
اِک سمندر کے خدو خال گڑھے
رات کی کشتی اُتاری اس میں
اک کنارے پہ تجھے بٹھلایا
دوسرے پہ مجھے زنجیر کیا
باوجود اِس کے مِرے ہونٹوں نے
جسم پر تیرے بہت دیر تلک
حرفِ ناگفتنی تحریر کیا
[حرفِ ناگفتنی] 
میں حصارِ آرزوٗ میں مطمئن تھا
تم نے یاد آکے
بدن کے بند کھولے
آؤ میں تم پر ہَوسِ اَسرار کھولوں
لب ترازوٗ میں تمھیں تا دیر تَولوٗں
آخری سسکی تَلک مَیں چُپ رہوں اور کچھ نہ بولوں
بس اسی کام میں مَشّاق ہوں میں
[بدن کے بند] 
تمھارے میرے درمیاں
ہَوس سِوا کوئی نہیں
تمھیں بھی اس کا علم ہے
خبر مجھے بھی اس کی ہے
کبھی تم اپنے جسم سے
الگ مجھے مِلو کہیں
کہ مَیں تو اپنے جسم سے
جُدا کبھی ہُوا نہیں
[ہَوس سِوا کوئی نہیں] 
شب کی ساری صراحیاں خالی
ہو چکیں جب، تو صبح کا سوٗرج
میرے ہونٹوں کے پاس آیا، کہا
”رات کو قطرہ قطرہ پینے سے
پیاس بجھتی نہیں ہے، بڑھتی ہے
ثبت کر ہونٹ میرے ہونٹوں پر
اور اِس پیاس سے رِہائی پا“
[پیاس سے رِہائی] 
لبوں پہ ریت، ہاتھوں میں گلاب
اور کانوں میں کسی ندی کی کانپتی صدا
یہ ساری اجنبی فضا
مرے بدن کے آس پاس آج کون ہے؟
[بدن کے آس پاس] 
ترے ہونٹوں پہ میرے ہونٹ
ہاتھوں کے ترازو میں
بدن کو تولنا
اور گنبدوں میں دور تک بارود کی خوشبو
بہت دن بعد مجھ کو جاگنے میں لطف آیاہے
[جاگنے کا لطف] 
شہریار کی نظم گوئی کامذکورہ مختصر جائزہ یہ ثبوت فراہم کرتا ہے کہ وہ نظم کے فن کے مختلف رنگوں اور آہنگوں کو اپنی نظم کا حصّہ بنا کر جدید عہد میں نظم گوئی کا ایک سنگِ میل قایم کرتے ہیں۔ ان کے ہم عصروں میں غزل اور نظم دونوں صنفوں میں توازن قایم کرنے والے شعرا خال خال ہیں۔ وہ نظم گوئی کے وقت نظمیہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں مگر غزل گوئی کے مرحلے میں ایک بدلے ہوئے شخص کے بہ طور ہمارے سامنے آتے ہیں۔ دونوں صنفوں میں شہریار کی حقیقی کامیابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے ادبی رویّوں اور تقاضوں کو خوب خوب سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنا انفرادی اسلوب تو قایم کیا ہی مگر اپنے زمانے کی ادبی فضا اور اس کے مخصوص محاورات سے بھی وہ بے خبر نہ تھے۔ اسی لیے جدید شاعری کے مضامین، مخصوص اسلوب اور شہریار کی انفرادی آوازوں میں ایک ایسی مطابقت پیدا ہو گئی جس سے اس عہد کی بے حد معتبر شاعری وجود میں آئی۔ اس شاعری میں فلم اور مشاعروں نے مقبولیت کے اضافی بیج ڈالے جس سے اپنے دوسرے ہم عصروں کے مقابلے میں شہریار کی شہرت اور عظمت میں چار چاند لگے۔ شہریار جیتے جی محترم قرار دیے گئے اور جدیدیت کے عَلَم بردار شعرا میں انھیں صفِ اوّل میں جگہ ملی۔
[نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا، نئی دہلی کی جانب سے شائع شدہ شہریار کے انتخابِ کلام کا مقدّمہ]

صفدر امام قادری کی یہ تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں :وبائی اَموات کے بعد کی دُنیا: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے