میسر ناشاد کی غزل کا تنقیدی جائزہ

میسر ناشاد کی غزل کا تنقیدی جائزہ

اشؔہر اشرف

ریاستِ جموں و کشمیر اردو زبان کے لیے ابتدا سے ہی زرخیز خطہ ثابت ہوا ہے۔ یہاں اردو زبان نے اس وقت اپنی جڑوں کو مضبوط کرنا شروع کیا جب مہاراجا پرتاب سنگھ نے فارسی کے بجائے اردو زبان کو سرکاری زبان کا سنگھاسن بخشا ۔اردو آج بھی اس مسند پر براجمان ہے ۔ یہاں کے ادبا، شعرا و فکشن نگاروں نے زیادہ تر کشمیری زبان کے بجائے اردو کو ہی اپنا وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ جہاں ریاست سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق شعرا و شاعرات کی ایک لمبی فہرست موجود ہے وہیں نوجوان شعرا کی بھی ایک مناسب تعداد منظر عام پر آرہی ہے۔ انہی ابھرتے ہوئے نوجوان شعرا میں جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ہونہار ،تیزی سے اپنا مقام بنانے والے جواں سال شاعر میسر ناشادؔ بھی شامل ہیں ۔ موصوف ضلع اننت ناگ کے قصبہ نما گاؤں دیال گام کے رہنے والے ہیں۔ ابھی زیرِ تعلیم ہی ہیں لیکن کئی سالوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں اور آئے روز ان کا کلام سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ علاقائی اخبارات و رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ ان کے کلام کو ادبی حلقوں میں اچھی خاصی پذیرائی ملتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تنقید تخلیق کے لئے آبِ حیات کا کام کرتی ہے اور مثبت تنقید ہی ادب کو زندہ رکھتی ہے۔ اسی سلسلے میں آج ہم نے شاعرِ مذکور کی ایک غزل کو موضوعِ تنقید بنایا ہے۔

غزل
میں اب ترے خیال سے آگے نکل گیا
میرا خیال ہے کہ تو شاید سنبھل گیا

میں تو تمہارے عشق میں اب بھی ہوں خاکسار
تیرا جنون موم کے جیسے پگھل گیا

کب تک کرو گے یاد کبھی ہاتھ چوم کر
رکھا تھا ہاتھ ناف پہ تو ہاتھ جل گیا

اُٹھنا ہے ناگُزیر اے ٹوٹی ہوئی کمر
آیا جو یاد قیس تو یہ دل بدل گیا

یہ بھی تو جان لیجئے کتنا سخی ہوں میں
سر پر چراغ لے کے میں گھر سے نکل گیا

قسمت میں ہو فراق تو کس غم کی آرزو
ناشاد یہ اچھا ہے تو یکسر بدل گیا

مطلع
میں اب ترے خیال سے آگے نکل گیا
میرا خیال ہے کہ تو شاید سنبھل گیا

پہلے شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے کہ۔۔۔۔ مجھے دن رات جو تیری جستجو رہتی تھی یا میں جو کبھی صرف تیرے خیالوں میں ہی کھویا رہتا تھا اور مجھے دن رات تجھے پانے کی آرزو رہتی تھی لیکن، ساتھ ہی شاعر اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ معشوق کی چاہت میں خود سے بے خبر تھا مگر اب صورت حال وہ نہیں رہی ہے جیسا کہ اس کا معشوق سوچتا ہو گا ۔ شاعر خود کلامی کے انداز میں اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے اور اسے بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اب وہ اس کی جستجو اور آرزو سے بہت دور نکل گیا ہے۔۔۔اب اس کی منزل وہ نہیں ہے۔اب مقصد کچھ اور یا منزل کوئی اور ہے۔۔۔یہاں شاعر اپنی بات رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔شعر میں عام فہم زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ کسی خاص استعارے یا کنائے کا استعمال کئے بنا صیغہ واحد تو کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے ۔
جیسے کہا گیا ہے۔۔۔” میں اب ترے خیال سے آگے نکل گیا”
دل چسپ بات یہ ہے کہ شعر کا دوسرا مصرع شاعر کی فنی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ جیسا وہ کہتے ہیں۔۔
"میرا خیال ہے کہ تو شاید سنبھل گیا”

اس مصرعے میں بندشِ الفاظ شاعر کی فنی کم زوریوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابھی الفاظ کی نشت و برخواست پر شاعر کی گرفت کہیں نہ کہیں کم زور ہے۔
اگر چہ موصوف اپنی بات رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہی بات دوسری ترکیب میں اس سے بہتر انداز میں پیش کی جاسکتی تھی۔ جس سے شعر میں فصاحت اور بلاغت دونوں پر اثر پڑتا ہے۔
جیسے:
"میرا خیال ہے تو بھی شاید سنبھل گیا”

یاد رہے اکثر شاعر تفاعیل کی پاس داری کرتے ہوئے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے کوئی بھی بھرتی کا لفظ منتخب کر کے مصرع یا شعر مکمل کرتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں ،جب کہ ایسا کرنا فن کو مجروح کرتا ہے۔ اس شعر میں” کہ” کا استعمال بے معنی کیا گیا ہے جو صرف ایک ہجائے کوتاہ کی کمی کو پورا کرتا ہے اور شاعر کے گمان کے لئے راستہ ہم وار کرتا ہے۔
جب کہ۔۔بھی۔۔۔ ترکیب میں شاید( گمان) کے ساتھ معنوی ربط کو بھی تقویت پہنچاتے ہوئے بامعنی ثابت ہوتا ہے۔ یاد رہے! زائد المعنی الفاظ۔۔۔( حشو) صرف شاعر اسی وقت لاتا ہے جب وہ سہل پسندی سے کام لیتا ہے یا مطالعہ کی کمی کی وجہ سے شاعری کو صرف موزوں مصرعوں کا جوڑ سمجھتا ہے۔جب شعر میں غیر ضروری الفاظ یا ترکیب کا استعمال کیا جاتا ہے تو شعر کی شعریات ،جو شعر کا بنادی حسن اور جمالیاتی پہلو ہوتا ہے وہ متاثر ہوتا ہے۔یہ وہ عیب ہے جو شاعری کو نثر کے قریب کردیتا ہے اور اگر اس سے بچا جائے تو یہ عام بات کو شعر بنادیتا ہے ۔یہاں میں بتاتا چلوں کہ شعر اور نثر میں بنیادی فرق پیش کش کا ہوتا ہے۔ بندِشِ الفاظ ہی ایک شعر کو پرُاثر بنانے میں کار فرما ہے۔
اب ذرا مضمون کے حوالے سے چند باتیں:
شعر میں مضمون عام فہم اور روایتی ہے۔ اس میں کوئی تازہ کاری یا نیا پن بھی نہیں ہے۔ اگر مضمون روایتی ہو تو پیش کش میں نیا پن ہونا چاہئے جو مضمون کی خامیوں پر پردہ ڈال دے۔
اب آگے بڑھتے ہوئے اگلے شعر کو دیکھتے ہیں۔

میں تو تمہارے عشق میں اب بھی ہوں خاکسار
تیرا جنون موم کے جیسے پگھل گیا

مطلع میں محبوب کے خیالوں سے دور نکلنے کی بات کی گئی تھی اور اس شعر میں شاعر پھر محبوب سے محتاط انداز میں شکوہ کرتے ہوئے مخاطب ہیں کہ __
میں اب تک اسی چاہت و عشق میں دیوانہ اور مجنوں بنا پھرتا ہوں۔تمہاری یادوں اور تمہارے عشق میں اس حد تک مبتلا ہوں کہ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوں۔گویا کہ میں نشانِ عبرت بن گیا ہوں۔ "خاکسار” کی تشبہہ درست اور مناسب ہے۔ گویا کہ شاعر اپنے محبوب کو ابھی تک نہیں بھولا ہے بل کہ اب اس کا حال مزید بدتر ہے۔ دراصل شاعر اپنے محبوب کو عہد و پیماں یاد دلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ جب بات نہیں بنتی ہے تو طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے یاد دلاتا ہے کہ اے جفا کیش محبوب تیرا سودا و جنوں کہاں گیا ہے۔ تیری قسمیں اور وعدے کیا ہوئے۔ یہاں "موم کے جیسے پگھل گیا” نہایت درست و چست ہے جو شاعر کے ماہرِ فن ہونے پر دال ہے۔ اس میں ایک طرف شکوہ ہے دوسری جانب طنز۔گو کہ شاعر اپنی بات رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں بھی پہلی غلطی کو دہراتے ہوئے غیر مناسب الفاظ کی ترکیب باندھی گئی ہے۔ جس سے نہ صرف کلام میں ایک ساتھ کئی عیوب جمع ہوئے ہیں بل کہ شاعر کی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھتا ہے۔

جیسے: تو۔۔۔تمہارے۔۔۔اب بھی۔۔۔۔۔۔میں ۔۔ت۔۔ت۔ اور ب۔ ب۔ کا تنافر جلی۔۔پیدا کیا گیا۔۔۔۔نیز "اب بھی ہوں”۔۔
جیسے الفاظ بھی کسی حد تک حشو کا عیب پیدا کرتے ہیں۔ ساتھ تمہارے اور تیرے کا شتر گربہ بھی موجود ہے۔
اگر یہ مصرع اس طرح لکھا جاتا تو تنافر اور شتر گربہ دونوں عیوب سے بچا جا سکتا ہے اور فصاحت بھی پیدا ہوگی ۔

"ہم آج بھی تیرے جنوں میں خاکسار ہیں
تیرا جنون موم کی صورت پگھل گیا”

اب آئیے اگلے شعر کو دیکھتے ہیں کہ شاعر اپنی بات رکھنے میں کس حد تک کامیاب نظر آتا ہے ۔

کب تک کرو گے یاد کبھی ہاتھ چوم کر
رکھا تھا ہاتھ ناف پہ تو ہاتھ جل گیا

یہاں شاعر نے الفاظ کی خوب صورت نشست میں روایتی مضمون کو بہترین انداز میں پیش کر کے کلام میں کلاسیکی رنگ بھر دیا ہے ۔ یہاں شاعری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔
"رکھا تھا ہاتھ ناف پہ تو ہاتھ جل گیا”
یہاں۔۔۔۔ شاعر نے محبوب سے وصال کے لمحوں کا ذکر کرتے ہوئے بے تکلف ہو کر بہترین جزیات نگاری کی ہے۔جس سے قاری کے سامنے اس حسین منظر کی تصویر رقص کرنے لگتی ہے۔جس میں عاشق اور معشوق ایک ساتھ دکھائی دیتے ہیں۔اگرچہ مضمون قدیم ہے، کئی بار پیش کیا گیا ہے، لیکن یہاں پیش کش منفرد ہے۔یہاں شاعر کا فن بولتا ہے۔۔ اس انداز میں معاملہ بندی اور پیکر تراشی کا نمونہ پیش کیا گیا کہ شاعر کا تخیل بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔
اردو شاعری میں پیکر تراشی کرتے ہوئے شعرا نے اپنے محبوب کے مختلف اجزا کا تذکرہ کرتے ہوئے خوب صورت اشعار کہے ہیں۔کہیں استعاروں اور کنایوں کا استعمال کرکے تو کہیں براہ راست۔

تمہاری زلف نہ گرداب ناف تک پہنچی
ہوئی نہ چشمۂ حیواں سے فیض یاب گھٹا
وزیر علی صبا لکھنوی۔

کاسہ گداگری کاہے ناف پیالہ یار کا
بھوک ہے وہ بندن تمام وصل تمام رنج ہے
جون ایلیا

آگے بڑھتے ہوئے شاعر ایک نئے مضمون کو پیش کرتے ہوئے گویا ہے۔

اُٹھنا ہے ناگُزیر اے ٹوٹی ہوئی کمر
آیا جو یاد قیس تو یہ دل بدل گیا

یہاں وصال کے بجائے شاعر محبت میں ناکامی کا رونا رو رہا ہے ۔ ٹوٹی کمر کا استعارہ لاکر شاعر ایک طرف خود سے مخاطب ہے تو دوسری طرف عشق کو ایک مشکل اور عصاب شکن عمل قرار دیتا ہے۔یہ کہنے کی کوشش کرتا ہے کہ عشق راس آئے تو زندگی، نہیں تو کمر توڑ دیتا ہے۔ آدمی کا زندہ رہنا محال کرتا ہے۔ یہاں شاعر اپنے مضمون میں اس وقت رنگ بکھیر دیتا ہے جب وہ دوسرے مصرع میں قیس کے حال کو یاد کر کے عشق کا ارادہ ہی ترک کرتا ہے۔ اس طرح یہ ایک تلمیحاتی کلام بن جاتا ہے۔ اس طرح قاری کے سامنے سارے معاملے کی تصویر آتی ہے۔

فنی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہاں بھی تفاعیل کی قید کو سامنے رکھتے ہوئے بھرتی کے الفاظ ترکیب میں صرف وزن پورا کرنے کے لئے لائے گئے ہیں۔ اس ترکیب میں ایک تو کمر کو، اے، کہہ کر مخاطب کرنا فہم سے دور ہے ۔ اب اگر کر بھی دیا تو ٹوٹی ہوئی کمر ، کی ترکیب باندھنا صرف شاعر کی مجبوری نظر آتی ہے۔ یہی مضمون دوسرے انداز میں بھی احسن انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
جیسے:

اٹھنا ہوا محال مرا، ہائے یہ کمر!
آیا ہے یاد قیس، مرا دل بدل گیا

اگلے شعر میں ایک الگ انداز میں گفتگو کا رخ پھیر دیا گیا ۔

یہ بھی تو جان لیجئے کتنا سخی ہوں میں
سر پر چراغ لے کے میں گھر سے نکل گیا

شاعر عشق میں ناکامی کے بعد محبوب کی بے وفائی پر خود کو کوستے ہوئے مخاطب ہوتا ہے کہ ایک میں ہوں کہ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے زندگی کی ویران اور مشکل راہوں پر اس کے ساتھ نکلا جب اسے ضرورت تھی اور ایک وہ کہ اسے میری پرواہ ہی نہیں۔ یہاں چراغ لے کی ترکیب ایک استعارہ خاصہ کی شکل اختیار کرتا ہے اور وجہ جامع کو سمجھنے میں دقت کا باعث بنتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاعر نے اپنی فکر نہ کرتے ہوئے ہر وقت دوسروں کے لئے خود کو وقف رکھا ہے اور ہر خواص و عام کے لئے یکساں رہا۔ یہاں اس سے یہ بھی مقصد ہے کہ شاعر نے اپنے محبوب کو دنیا میں کہاں کہاں نہیں تلاش کیا اور جب مل گیا تو وہ بدل گیا تھا۔

اگلا شعر جو کہ اس غزل کا مقطع بھی ہے، میں شاعر اپنے آپ کو دلاسا دیتے ہوئے خود سے مخاطب ہوتا ہے۔

قسمت میں ہو فراق تو کس غم کی آرزو
ناشاد یہ اچھا ہے تو یکسر بدل گیا

یہاں شاعر جب بہت عرصے تک وصل کی آرزو میں ہجر کی خاک چھانتے ہوئے تھک جاتا ہے اور سوائے قبلہ بدلنے کے کوئی راہ فرار نہیں پاتا ہے۔ تو اس صورت حال کا نقشہ اتارتے ہوئے وہ کہتا ہے۔ جب قسمت میں ہو فراق تو کس غم کی آرزو ۔گویا کہ شاعر کے نزدیک سب سے بڑا اور دردناک غم محبت میں فراق ہے۔ اگر یہ کسی کا نصیب ہے تو یہی اس کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس لئے یہاں شاعر خود کو شاباشی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اچھا ہوا جو میں پہلے ہی بدل گیا ورنہ آج بھی ہجر کی آگ میں جل رہا ہوتا۔
مطلع سے لے کر مقطع تک صرف غمِ فرقت اور آرزوے وصال اور محبوب کی ایک آدھ نوک جھوک کو انداز بدل بدل کے پیش کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ چند اشعار کو چھوڑ کر کوئی شعر مکمل فنی تقاضوں پر نہیں اترتا ہے۔ شاعر نوجوان ہے، ابھی ابتدائی دور سے گزر رہا ہے، یہی امید کرتے ہیں کہ سابقہ خامیوں سے سیکھ کر مستقبل کی بنیاد مثبت سوچ پر رکھ کر اپنا سفر جاری رکھے گا۔ جو خوبیاں ایک کامیاب شاعر میں ہونی چاہئیں وہ ساری موصوف میں موجود ہیں۔
نوٹ: میری رائے حرف آخر نہیں ہے.
اشہر اشرف کی یہ تنقیدی تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں :عاصم اسؔدی کی غزل کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے