بے چہرگی

بے چہرگی

نگار عظیم
حسب معمول ٹیرس گارڈن پر بانس کی بنی جھونپڑی کے ایک گوشے میں ایژل پر لگے کینوس پر میں نئی پینٹنگ کے اسکیچ کی ابتدا کر رہی تھی۔ چارکول تیزی سے نقش بنارہاتھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اپنے تخلیقی کاموں کے لیے اس سے مناسب کوئی دوسری جگہ مجھے متاثر نہ کرتی۔ گھر کے مصروفیت بھرے ماحول، کال بیل اور ٹیلی فون کی ٹرن ٹرن سے جو ذہنی بکھراو ہوتا تھا یہ خوب صورت جگہ ان سب چیزوں کا توڑ تھی۔ صبح سویرے تقریباً ایک گھنٹہ پیڑ پودوں کو نہلا دُھلاکر جو تازگی میسر ہوتی وہ یقینًا بڑی فرحت بخش ہوتی اور تمام دن تروتازہ رکھتی۔ اتنا ہی نہیں اس ماحول سے میرے تخلیقی ذہن کو بھی بڑی توانائی ملتی۔ جیسے ہی اسکیچ تیار ہوا اور میں نے پلیٹ میں رنگوں کو سجایا آذر دو کپ چائے لئے بغل میں اخبار کا پلندہ دبائے نزدیک ہی آ بیٹھے۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے عادت کے مطابق تصویر پر رائے زنی کرنے لگے۔
”یہ عورت کی مسخ شدہ تصویر تمہارے ذہن پر سوار ہوکر رہ گئی ہے۔ کتنی پینٹنگس بناوگی اس خیال کو لے کر؟“
"پتہ نہیں۔” میں نے مختصر سا جواب دیا۔اس بات کو لے کر گفتگو مزید طویل ہو سکتی تھی اور ہمیشہ کی طرح بحث کا رخ اختیار کرسکتی تھی لیکن اس وقت میں اس کے لئے بالکل تیار نہیں تھی، لہٰذا اپنے کام میں منہمک ہوگئی۔ اچانک بھُن بھُن کرتا ایک سیاہ بھنورا نہ جانے کدھر سے بھٹک کر اِدھر آنکلا تھا——— رنگ برنگی تتلیاں تو اکثر آیاکرتی تھیں اور فضا میں رنگ بکھیر کر خاموشی سے غائب ہوجاتی تھیں۔کبھی کبھی کچھ یادیں بھی تازہ کر جاتی تھیں۔ لیکن اس بھنورے کی آواز ناقابل برداشت تھی اور ذہن کو منتشر کر رہی تھی۔ میں نے شی شی کی آواز سے اپنے ہاتھ کو ہوا میں لہرا کر بھنورے کو بھگانے کی کوشش کی لیکن وہ نہیں بھاگا۔ پورا ٹیرس چھوڑ کر وہ میرے اردگرد چکر لگاتا رہا اور اپنا راگ الاپتا رہا۔ آذر مسکراتے ہوئے اٹھ کر چل دیے۔ ذہن منتشر ہونے سے میرا بھی موڈ خراب ہوگیا تھا لہٰذا رنگوں کو ایسے ہی چھوڑ کر کچھ دیر کے لئے اٹھ جانا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن حیرت اس بات سے ہوئی کہ وہ بھنورا اب اکثر ٹیرس پر آنے لگا۔ ٹیرس پر انتہائی خوب صورت خوش نما پھول کھلے ہوتے. گلاب کی رنگ برنگی پھولوں بھری شاخیں، لہلہاتی جوبن اگلتی دھوپ کی سنہری شعاؤں سے نہاتی ہوتیں لیکن اس بھنورے کو ان میں کوئی دل چسپی نہ ہوتی۔ مجھے غصہ بھی آتا، میں اپنی پینٹنگ کے لئے رنگوں کے امتزاج اور احساس کی عکس بندی میں محو ہوتی اور وہ بھنبھناتا نہ جانے کدھر سے نکل آتا۔ کئی منٹ تک میرے اردگرد رقص کرتا اور پھرغائب ہوجاتا۔ ایسے ہی ایک صبح اس کی بھنبھناہٹ بھری آواز اور پری کرما سے پریشان ہوکر پاس رکھے ہوئے کاغذات سے میں نے اس پر نشانہ سادھنے کی کوشش کی۔ وہ گرتے گرتے سنبھلا کچھ ہڑبڑایا اورلڑکھڑایا۔اسی ہڑبڑاہٹ اور لڑکھڑاہٹ میں وہ میرے ہونٹ سے ٹکرا گیا۔ اس کا پتھر جیسا لمس میرے ہونٹ پر نشان چھوڑ گیا۔ کئی روز تک نشان کی مخصوص جگہ سے میرا ہونٹ سوجا رہا۔ سوجا ہوا ہونٹ دیکھ کر ہر کسی کی طرح آذر نے بھی پوچھا ”یہ کیا ہوگیا؟“ جب میں نے بھنورے کو بھگانے اور ہونٹ سے ٹکرانے کی روداد سنائی تو وہ ہنسے اور مسکراتے ہوئے جملہ ٹانکا
"’اوہو بھنورے منڈلا رہے ہیں ہماری بیگم پر، اس کی اتنی جرأت کہ لب و رخسار تک آپہنچے“
"جی جناب سوچ لیجئے آپ کا رقیب پیدا ہو گیا ہے”
ہم دونوں ہی ہنس پڑے لیکن وہ پھر نہیں آیا ۔یا تو کہیں راستہ بھٹک گیا یا شاید میری طرح اس کے نازک جسم پر بھی چوٹ لگی ہو اور وہ زخمی ہوگیا ہو۔ میں اپنی اس حرکت پر شرمندہ بھی تھی اور پچھتا بھی رہی تھی۔ بےچارہ۔
مجھے محسوس ہوا اس کے نہ آنے سے میں بے چین ہوں۔ میرے کان اس کی آواز کے منتظر تھے اور نظریں متلاشی۔ کئی دن کے بعد اس کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی. میں نے گردن گھما کر ادھراُدھر دیکھا وہ جھونپڑی کی چھت میں چکر لگا رہا تھا اور خوش و خرم تھا۔ اس کی آمد مجھے بالکل ایسی لگی جیسے کسی کو یاد کیا اور وہ آگیا۔ مجھے اس کی ذہانت پر تعجب ہوا، کیوں کہ اس دن وہ میرے قریب بالکل نہیں آیا۔
اب آہستہ آہستہ میں اس کی آمد اور گنگناہٹ کی عادی ہوگئی تھی۔ وہ جب بھی آتا میں کام چھوڑ کر صرف اسے دیکھتی۔ وہ انتہائی خوب صورت تھا۔ اس کے مخملی جسم پر بلا کی چمک تھی۔ اس کے سیاہ رنگ میں نیلا، پیلا، ہرا اور سنہرا رنگ شعاؤں کی طرح جھلملاتا تھا بالکل قوس قزح کی طرح۔ اس کے جسم کی بناوٹ میں بے پناہ مردانہ حسن تھا۔ اس کی گنگناہٹ میں ایک ترنم تھا۔ کبھی کبھی مجھے شبہ ہوتا کہ اسی نشیمن میں کہیں چھپ کر اس نے اپنا گھر آباد کر لیا ہے اور میری موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ باہر نکل آتا ہے۔ اب وہ مجھ سے کافی مانوس ہوگیا تھا۔
اتفاق سے مجھے کئی روز کے لئے شہر سے باہر جانا پڑا۔ واپس آئی تو حسب معمول مشغول ہوگئی۔ ایژل پر لگی پینٹنگ کو مکمل کرنے کے ارادے سے میں نے ٹیرس کا رخ کیا لیکن کافی وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ بھنورا نہیں آیا۔ شاید اس نے اپنا گھر تبدیل کرلیا ہو۔ یا اپنے اوقات میں تبدیلی کرلی ہو۔ یا شاید کہیں اور مصروف ہو۔ یا کسی طویل سفر پر نکل گیا ہو۔ کئی دن کی مسلسل توجہ اور محنت کے بعد پینٹنگ مکمل صورت اختیار کر رہی تھی۔ آذر بغور دیکھ رہے تھے۔حسب عادت اپنی رائے کا اظہار کرنے لگے۔
” یہ جو مسخ شدہ چہرے پر تم نے آنکھیں نمایاں کردی ہیں اس سے اس پینٹنگ کی یعنی تمہارے خیال کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔”
میں ہلکے سے مسکرادی۔
اس روز یوں ہی میں آذر سے کہہ بیٹھی "اب وہ ہمارا عاشق بھنورا نہیں آتا نہ جانے کہاں چلا گیا؟”
اخبار سے نظریں ہٹا کر وہ بڑے اطمینان سے بولے ”میں نے اسے مار دیا۔“
”مار دیا مگر کیوں؟“ مجھے اپنے جسم میں ہلکا ہلکا رعشہ محسوس ہونے لگا۔
”کیوں مار دیا بھئی؟“
”ارے میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ سالے نے بھُن بھُن کرکے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اخبار پڑھنا مشکل کردیا۔ بے وقت ڈسٹرب کرتا تھا۔“
” بس اتنی سی بات؟“
میں ہکّا بکّا ان کا منہ تک رہی تھی۔
ہمیشہ کی طرح ہنسنے مسکرانے والے آذر مجھے کچھ بیمار سے لگ رہے تھے۔ میری نظریں کینوس پر چلی گئیں اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ مسخ چہرہ خود بہ خود اپنی ہیئت بدل رہاتھا۔
*ختم شُد…*

تبصرہ وتجزیہ
نثارانجم

”یہ عورت کی مسخ شدہ تصویر تمہارے ذہن پر سوار ہوکر رہ گئی ہے۔ کتنی پینٹنگس بناوگی اس خیال کو لے کر؟“
Frida Kahloمشہور مصورہ نے ایک بار کہا تھا۔
"I paint my own reality. The only thing I know is that I paint because I need to, and I paint whatever passes through my head without any other consideration.”
افسانے کا اصل تھیم ایژل پر ٹنگے چارکول سے کھینچے گئے ایک عورت کے اپنے گمان کے ہاتھوں ٹٹولے ہوۓ احسا سات ہیں۔unknown anxiety جو ایک مسخ چہرہ بن کر پورٹریٹ کے negative space پر ایک نقش بن کر ابھر آیا ہے۔راوی نے زندگی کے اس انجانے احساس کی frottage کی ہے۔
یہ گونگے رنگوں کے جذبات کی الگنی axis line پر ٹنگا ہوا ایک شناختی بحران زدہ چہرہ ہے۔یہ
Mixed feeling identity crises ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں محترمہ نگار عظیم نے صفحہ قرطاس اور قلم کے بجاۓ کینوس پر brush strokes کے ساتھ اپنے جذبوں کی ترجمانی کے لیے ادراک رنگوں کے آئل پینٹس سے muted colour کا انتخاب کیا ہے اور اپنے اندر برپا ایک ہیجان اور شعلگی کو palette knife کے ذریعہ کینوس پر cross hatching کی تکنیک میں بکھیر دیا ہے ۔اور اب اسے ایک آرٹسٹیک ٹچ دینا باقی ہے تاکہ پور ٹریٹ معانی میں ڈھل جاۓ۔
بھنورا ، اس کے جسم کے بناوٹ میں مردانہ حسن، اس کے مخملی جسم کی چمک، سیاہ جسم میں نیلا پیلا ہرا اور سنہرا رنگ، اخبار کا پلندہ دباۓ ہوۓ آذر، پتھر جیسے لمس کا ہونٹوں پر نشان چھوڑنا، مسخ چہرے پر آنکھوں کا نمایاں ہونا اور تصویر کی ہئیت بدلنا دراصل ایک پنٹنگ گلیری میں ایک پورٹریٹ کے سامنے ناظرین کاvantage point سے vanishing point تک پہنچنے کا ایک غائر مطالعہ ہے۔جس میں رقابت کے شوخ رنگ نے بے جان بےچہرہ پورٹریٹ پر زندگی کی رمق ڈال دی ہو۔گمان کا smoky رنگ پیار اور اپنایت کے گہرے رنگ میں کینوس سے باہر ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے۔
راوی کے ذریعہ بنائی گئ تصویر قاری کو ڈچ پینٹر ڈینیئل مارٹن Daniel Martin کی بنائی گئ وہ بے چہرہ ماڈل کی یاد دلاتی ہے جس میں مصور اس گہن لگے جذبات کی کڑھن کو رنگ و روغن میں پیش کرتا ہے۔ الگ الگ شنا ختی بحرانوں پر فوکس کرتے ہوئے ، اس کے اکثر پورٹریٹ فکری رنگوں میں گھلتے ملتے ہیں ، جو کسی جذباتی یا جسمانی اعضا کی کمی کی شدت اور خلش میں غلطاں لوگوں کے دکھ اور تجربے کو من وعن پیش کرنےمیں طاق ہے۔ رنگ چھڑکتے برش اسٹروکس ، خاموش رنگ آنکھوں کے غم زہ اور اس کے تاثرات کے ذریعے ، ڈینیل مارٹن کا فن بولتا محسوس ہوتا ہے۔
سامعین جس طرح تصویروں کو دیکھتے ہیں ان کی اپنی فہم گہرے انکشافات کے احساس کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہے ۔ یہ فن سامعین سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا تزکیہ بھی کرتا ہے۔۔بالکل یہی کیفیت اس افسانوی پورٹریٹ کی ہے. اس کا رنگ اس کا impasto اور foreground افسانے کے منظر میں گھل گیا ہے۔ افسانہ نگار نے کینوس، رنگ، بھنورے کی تمثیل میں ایک مصورانہ تکنیک کا استعمال کیا ہے۔ بھنورہ عاشق شو ہر اور مصور کے ذریعہ رقابت اور رقابت کے جذبے میں چھپے hidden خزینہ محبت کے وفور کو دکھایا گیا ہے۔جو شب و روز کے مشاغل میں کہیں دبا رہ گیا تھا۔
یہاں بھنورا ایک تمثیلی رقیب کے بطور استعمال ہوا ہے۔
” رقیب‘‘ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو معشوق کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے یا جو کسی عاشق صادق کا کام بگاڑنا چاہتاہے یا پھر اس کے اپنے حصے کی چاہت پیار کے رس کے لیے اس کی گرد منڈلاتا رہتا ہے اور اپنا مطلب نکالنا چاہتاہے۔ جیسے عرب کے مشہور شاعر قیس (مجنون لیلیٰ) نے ایک شعر میں اپنے اس مدعا کا اظہار کیا ہے:

لَئن كَثُرَتْ رُقَّابُ لَيْلَى فَطالَمَا
لهوتُ بليلىٰ ما لهنَّ رَقِيبُ​

ترجمہ: اگرچہ لیلیٰ کے بہت سارے رقیب ہیں۔ مگر میں تو لیلیٰ سے محبت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ اس کا کوئی رقیب باقی نہ رہے۔
"میری موجودگی کا احساس ہوتے ہی وہ باہر نکل آتا ہے۔” "اب وہ مجھ سے کافی مانوس ہوگیا تھا۔”
"اس کی آمد مجھے بالکل ایسی لگی جیسے کسی کو یاد کیا اور وہ آگیا۔”

"اب آہستہ آہستہ میں اس کی آمد اور گنگناہٹ کی عادی ہوگئی تھی۔ وہ جب بھی آتا میں کام چھوڑ کر صرف اسے دیکھتی۔ وہ انتہائی خوب صورت تھا۔ اس کے مخملی جسم پر بلا کی چمک تھی۔ اس کے سیاہ رنگ میں نیلا، پیلا، ہرا اور سنہرا رنگ شعاؤں کی طرح جھلملاتا تھا بالکل قوس قزح کی طرح۔ اس کے جسم کی بناوٹ میں بے پناہ مردانہ حسن تھا۔”
اس افسانے میں نگار عظیم نے آرٹسٹک ٹر مینولوجی کی سہ رخی افکار کی وہ وہ مصورانہ skill کا استعمال کیا ہے جسے triptych کہتے ہیں۔
افسانہ کا یہ پور ٹریٹ زندگی کا بے رنگ بحران ہے ۔جو کلائمکس تک پہنچ کر اپنی ہیئت بدل کر ایک اسکیچ بن جاتا ہے، جس میں اپنی من پسند رنگ بھرنے کے مواقع امید کے کنول کی طرح کھل اٹھتے ہیں۔
"مجھے محسوس ہوا اس کے نہ آنے سے میں بے چین ہوں۔ میرے کان اس کی آواز کے منتظر تھے اور نظریں متلاشی”
جیوڈن روبن Gideon Rubin اسرائیلی فن کار ہے ۔ بین الاقوامی سطح کا ایک ابھرتا ہوا ایک مشہور مصور ۔اس کی بےچہرگی والی تصویر اس لیے مشہور ہے کہ وہ یادداشت کی تفصیلات اور اس کی شناخت کو دھندلا بنا کر ، انسانوں کے چہرے کی خصوصیات کو مٹا کر ، تصویریں پورٹرے کرتا ہے۔
وہ ناظرین کو دعوت عمل و فکر دیتا ہے کہ وہ اپنی ہی یادوں کو استعمال کرکے ان بے حقیقت تفصیلات کو مکمل کریں۔
یہ آرٹ ورک اور سامعین کے مابین ایک بہت ذاتی تعلق پیدا کرتا ہے اور قربت اور پرانی یادوں کا احساس پیدا کرتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح یہاں افسانے میں چارکول کے ذریعہ بے رنگ جذبوں کی شناخت سے عاری ایک sketch تیار کی گئ ہے جس میں قاری اپنی پسند کے رنگ واقعات کے کینوس پر بھرنے کی سعی کرتا ملتا ہے ۔
"ہمیشہ کی طرح ہنسنے مسکرانے والے آذر مجھے کچھ بیمار سے لگ رہے تھے۔ میری نظریں کینوس پر چلی گئیں اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ مسخ چہرہ خود بہ خود اپنی ہیئت بدل رہاتھا”
یہ دراصل ابنے کسی عزیز چیز سے لمبی غفلت اور اچانک اس چیز کے کھو جانے کا obsession ہے۔ اور کینوس پر chiaroscuro کی طرح اپنی ساخت بدلتا چہرہ اس اعتماد کی بازیافت کا احساس ہے۔ جسے نگار عظیم اپنے افسانے کے آخری سین میں اس کیتھارسس کے عمل کو تمثیلی اشاریے میں پیش کرتی ہیں۔
"ٹیرس پر انتہائی خوب صورت خوشنما پھول کھلے ہوئے گلاب کی رنگ برنگی پھولوں بھری شاخیں، لہلہاتی جوبن اگلتی دھوپ کی سنہری شعاؤں سے نہاتی ہوتیں لیکن اس بھنورے کو ان میں کوئی دل چسپی نہ ہوتی”
یہاں افسانہ نگار نے آذر کے ذریعہ بھنورے کو مار ڈالنے میں جس حسِ رقابت کو دکھانا چاہا ہے وہ احساسِ ملکیت ہے۔
یہ رقیب کی موجودگی ہی ہے جو انسانی معاشرے کے جمالیاتی حس aesthetical sense کو مہمیز ہی نہیں بل کہ رقابت کے احساس کو بے دار بھی کرتا ہے۔اور انسانی رشتوں میں طاری جمود کو رواں کرکے گرماہٹ بھی بخشتا ہے۔جیسا کہ افسانے کے کمال منتہا پر زندگی کی یکسانیت اپنے جذبوں کی ٹریک بدلنے کےجواز پیدا کر لیتی ہے۔
افسانے میں آذر کے اس مکالمے "سالے نے بھن بھن کرکے ناک میں دم کردیا تھا”۔ کےتحت رد عمل میں عزتِ نفس کی حساسیت، خود پسندی، نرگسیت کو فطری جذبے کے تحت ہوتے دکھایا گیا ہے، جو انجانے حس رقابت میں قوت برداشت کے حصار کو توڑکر تخریب کی صورت میں وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔
گرچہ اس جذبے کے وفور کے لیے افسانے میں کھل کر مکالمے یا منظر نامے نہیں آسکے ہیں۔جس سے وحدت تاثر میں وہ بات نہیں بن پائی ہے جیسا کہ افسانے کی بنت اور تکنیک سے توقع تھی۔
یہ افسانہ ادب اور مصورانہ احساس کا ایک عمدہ بلینڈ blend ہے۔
نثار انجم کا یہ تجزیہ بھی پڑھیں :مشتاق احمد نوری کے افسانہ لمبے قد کا بونا کا تجزیہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے