فلسطین سے اتنی ہم دردی کیوں؟

فلسطین سے اتنی ہم دردی کیوں؟

محمد شمشاد 
پوری د نیا میں مسلمان مسئلہ فلسطین کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں۔ تاہم اہل ہندستان غالباً اس پہلو سے دنیا میں سب سے آگے ہیں کہ یہاں کے مسلمانوں نے براہ راست اس تنازع کا فریق نہ ہو نے کے باوجود بھی اسرائیلی دشمنی کو اپنی قومی اور انفرادی ز ندگی کا بنیادی اصول بنا رکھا ہے۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ اور وہ یہ کہ یہاں کے مسلمانوں کے نزدیک اسرائیل فلسطینی مسلمانوں پر مسلسل ظلم و ستم کر رہا ہے اور وہ بحیثیت مسلما ن اپنے فلسطینی بھائیوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تباہی پر خون کے آنسو روتے رہتے ہیں۔ مگر ایک عجیب بات یہ ہے کہ بر صغیر ہند کے مسلما نوں کی یہ حساسیت اپنے ممالک میں بسنے والے اپنے قوم اورانسانوں کے بارے میں ظاہر نہیں ہوتی ہے۔
عام طور سے فلسطین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ عدل و انصاف نہیں ہو رہا ہے۔ مگرغور طلب بات یہ ہے کہ عدل و انصاف کے معاملے میں ہماری حساسیت کا عالم یہ ہے کہ برصغیر ہند کے ممالک خصوصی طورپاکستان اور ہندوستان اس سال 128 ممالک کی فہرست میں انصاف کی فراہمی میں سب سے نچلے نمبر پر ہیں۔ کسی کو اس بات کا مطلب سمجھنا ہو تو لاہور کے اس محنت کش کا واقعہ اخبارات میں پڑھ لیں جس کی پانچ دن کی سزا پر فیصلہ سنانے میں عدالت کو چھ سال لگ گئے تھے۔ہندوستان کے قید خانے میں لاکھوں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو بیسیوں سال گزارنے اور ان کے قیمتی وقت برباد ہوجاتے ہیں. اس کے بعد کوئی جرم ثابت نہیں ہونے کی وجہ کرانہیں بری کردیا جاتا ہے. اس کرونا  مہا ماری کے دور میں بھی مسجدوں کی تعمیر کا کام کیا جارہا ہے لیکن ان کے محلوں میں ایسی بے شمار فیملی موجود ہیں جہاں چولہا بھی جلنا مشکل ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے. نہ مسجد کمیٹی کے لوگوں کو ان کی فکر ہے اور نہ ان کے نام پر بنائی گئی تنظیموں کو. حیرت کی بات یہ ہے کہ جس قوم اور ملک میں عدل وانصاف کا یہ عالم ہو وہی قوم دوسروں کو انصاف دلا نے میں کتنی دل چسپی رکھتی ہے؟
کچھ جذباتی لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فسلطین میں تو مسلما ن مارے جارہے ہیں، یہ بات درست ہے۔ مگر یہ زیادہ پرا نی بات نہیں ہے کہ شام میں مارے جانے والے کوئی مسیحی یا یہودی نہیں تھے. عراق اور مصر میں مارے جانے والے مسلمان کے علاوہ مسیحی یا یہودی نہیں تھے. چند سال قبل پاکستان میں دہشت گردوں نے خون کی ندیاں بہا دی تھیں، مگر ایسے ہر قتل عام کے موقع پر کتنے ہی لوگ اگر مگر کی ڈھال سے ان دہشت گردوں،حسنی مبارک، صدام حسین اور السیسی کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں اور انہیں شہید کہتے نہیں تھکتے ہیں یا کچھ لوگ چپی سادھے رہتے ہیں. لیکن وہ کبھی ان کی مذمت نہیں کرتے ہیں. حیرت ہے کہ شام، عراق، مصر یاپاکستا نی مسلما نوں کے قتل عام پر جن لوگوں کا یہ رویہ رہا وہ کس منہ سے فلسطینی مسلما نوں کے قتل عام پر واویلا کر رہے ہیں؟
اس بات پر کچھ لوگ بجا طور پر کہیں گے کہ ہم نے دہشت گردوں کی بھرپور مذمت کی تھی۔مگر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ سوال ہے کہ کیا انھیں معلوم ہے کہ ان ملکوں میں ہر روز کتنے شہری ٹریفک حادثات میں مارے جاتے ہیں؟ہر سال ان ممالک میں ہاسپیٹل کی بد انتظامیوں کے بناپر ہزاروں لوگ بن موت مارے جاتے ہیں، ان کا کوئی پرساں نہیں ہوتا ہے. ان کی لاشوں کا اس سے بھی برا حال ہوتا ہے جتنا گولی اور بم سے مرنے والوں کا ہوتا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ حالیہ تنازع میں ایک ہفتے میں تقریباًدو سو کے قریب فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ اس تنازع کے ختم ہوتے ہی یہ اموات بھی رک جائیں گی۔ مگر پاکستان و ہندوستا میں روزانہ ہی ہزاروں بے گناہ لوگ ٹریفک حادثات اور ہاسپیٹل کی بد انتظامیوں و ڈاکٹروں کی نا اہلی کے بنا پر مارے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ بغیر رکے برسوں سے مسلسل جاری ہے اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔

حیرت اس بات پرہے کہ جن ممالک کے اپنے شہری اس بڑی تعداد میں سڑک حادثوں اور حکومت کی بد انتظامیوں اور حکمراں کی نااہلی  اور مسلم رہنماؤں کی بے توجہی کے بنا پر روزا نہ مارے جارہے ہوں،لیکن انھیں اپنے لوگوں کی آہیں اور سسکیاں تو نظر نہیں آتیں،لیکن انھیں فلسطینی مسلما نوں کا درد محسوس ہوجاتا ہے۔ انھیں اپنے نوجوانوں، بچوں، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں کی لاشیں تو نظر نہیں آتیں لیکن فلسطینی مسلما نوں کی لاشوں کا ماتم کر نے میں وہ سب سے آگے ہیں۔
فلسطینی مسلما نوں کا درد ہر مسلمان کو ہونا ہی چاہئے۔ لیکن ہمیں اپنے لوگوں کے لیے بھی اس سے کہیں زیادہ تڑپنااور بے چین ہوناچاہئے۔ ہمیں فلسطینیوں کو عدل ضرور دلا نا چاہئے، لیکن اپنے ملک میں رہنے والے ہر انسان کے لئے بھی عدل و انصاف کی آواز بلند کرنے کی زیادہ خواہش  ہونی چاہئے۔ جب اپنی قوم کے معاملے میں اس درجہ بے حس لوگوں کو فلسطینیوں کے لیے چیختے چلاتے، روتے، احتجاج کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ کیا کہا جائے۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں بس یہی عرض ہے کہ قیامت کے دن آپ لوگوں سے یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم جب فلسطین کے لیے عدل وا نصاف کے طلب گا ر تھے تو تم نے اپنے ملک میں عدل و انصاف کے لیے کیا کام کیا تھا. اپنے پڑوسیوں کی خدمت کے لئے کوئی تحریک بھی چلائی تھی؟ اس ظلم و ستم کے خلاف کیا کچھ کیا تھا؟ جب تم فلسطینیوں کی اموات پر رو رہے تھے تو اپنے ملک کے لوگوں کی جان بچا نے کے لیے تم نے کتنی جدو جہد کی تھی اور کن کن پارلیامنٹ یا اسمبلی کے سامنے دھرنے دیئے تھے. دل پرپتھر رکھ کر رات کو سو نے سے قبل ان سوالوں کا جواب ایک بار ضرور سوچ لیں۔

Mohd Shamshd, A-169/ 2, Shaheen Bagh, Jamia Ngr, New Delhi – 110025
7011591123/ 9910613313

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : مسئلہ فلسطین کیا ہے؟

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے