ماں کی عظمت

ماں کی عظمت

(یومِ مادر کے موقع پر)
مسعود بیگ تشنہ

ماں نے ہی دودھ پلایا ہے، کھلایا ماں نے
تھپتھپی دے کے محبت سے سلایا ماں نے
ماں نے ہی موسمی خطروں سے بچائے رکھا
بولنا ماں نے سکھایا ہے، چلایا ماں نے

ماں کی تعلیم نے انسان بنایا ہم کو
بھید ہر اچھی بُری شئے کا بتایا ہم کو
ماں کی تعلیم نے سکھلایا ہنر جینے کا
دکھ میں مضبوط بنے رہنا سکھایا ہم کو

یہ وہ ماں ہے کہ زمانے سے وہ لوہا لے لے
یہ وہ ماں ہے کہ مصیبت کو وہ سہ لے، جھیلے
یہ وہ ماں گود میں جس کے حسیں بچپن کھیلے
یہ وہ ماں کھیلنے دے، جانے دے میلے ٹھیلے

ماں بھی انمول ہے اور ماں کی دعاء بھی انمول
ماں کی شفقت میں، محبت میں نہیں آتا ہے جھول
ماں کی عظمت میں کمی آنے نہ دی رب نے کبھی
ماں کی عظمت کو دکھاوے کی ترازو میں نہ تول

ماں کے پاؤں تلے یونہی نہ یہ جنت رکھ دی
رب نے درجے میں بلند ماں کی جو خدمت رکھ دی
اس کی عظمت کو کوئی اور نہیں چھو سکتا
اس کے درجات میں ممتا کی وہ عظمت رکھ دی
(9 مئی 2020 ،اِندور ،انڈیا)
صاحب نظم کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو : شادی اور طلاق

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے