زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد و اجتماعی نظام

زکوٰۃ کے بنیادی مقاصد و اجتماعی نظام

حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی ، جمشید پور
موبائل: 9279996221
اسلامی زندگی میں زکوٰۃ کا مفہوم تزکیہ، پاکیزگی، صفائی، افزائش، نشوونما اور فلاح کے ہیں۔ اسلام کے ارکان اربعہ میں سے زکوۃ جو ایک عظیم رُکن ہے قرآن و حدیث و شریعت نے تفصیل سے احکامات بیان کئے ہیں۔ زکوٰۃ کے داخلی اسرار و احکام کے بارے میں ائمہ اسلام نے مستقل کتابیں اور ابواب تحریر کئے ہیں۔حکیم الامت سیدنا امام غزالی قدس سرہ نے اپنی تصنیف احیاء العلوم اور کیمیائے سعادت میں بڑی نفیس گفتگو فرمائی ہے۔ تفصیل کے لئے ان کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
انسان کی دولت میں کچھ چیزیں آ ہی جاتی ہیں کہ اس کاآخرت میں محاسبہ ہو تو آدمی ہلاک ہو جائے۔ اللہ کا اُمت مسلمہ پر خاص فضل و احسان ہے کہ ڈھائی فی صد مال نکال دینے سے وہ انہیں تباہیوں سے محفوظ فرما دیتا ہے اور مال پاکیزہ کرکے ذخیرہ آخرت بنا دیتا ہے۔ معاشرہ کا بھی تزکیہ ہے کہ اُمراء کی دولت جب غریبوں کے پاس جائے گی تو وہ ہاتھ پھیلانے سے اور دوسروں کی محتاجی سے محفوظ ہو جائیں گے۔ خیال رہے سماج میں محتاجی ہی ساری برائیوں کی جڑ ہے کہ اسی سے اخلاقی بد حالی، سماجی تباہی، اخلاقی گراوٹ، تہذیبی پس ماندگی، علمی افلاس اور جرائم کے جذبات وجود میں آتے ہیں۔ مولیٰ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی ان تمام خرابیوں سے حفاظت کا کتنا شان دار انتظام فرما دیا ہے۔ آج بھی اگر سارے صاحبانِ نصاب زکوٰۃ نکال دیں تو کوئی مسلمان بھوکا، پیاسا، ننگا یا جاہل نظر نہ آئے گا۔ اسی کی ہلکی سی نظیر دیکھنا ہو تو سکھوں میں دیکھئے کہ کوئی سکھ سڑکوں پر فقراء کی طرح بھیک مانگتا نظر نہ آئے گا۔ اس سے اُمراء کی معاشرتی اصلاح ہوتی ہے کہ زکوۃ میں جب رقمیں نکلتی رہیں گی تو افراطِ زر کی مصیبت درپیش نہ ہوگی بلکہ خدائی دی ہوئی نعمت (دولت) اُس کے بندوں میں گردش کرتی رہے گی۔ اس میں بہت سے فوائد اور حکمتیں ہیں، کاش مسلمان اسے سمجھ لے۔
زکوۃ کا حقیقی اور بنیادی مقصد تزکیہ نفس۔وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقَے الَّذِےْ یُوْٗتِیْ مَا لَہٗ یَتَزَکَّے (اَلَّیل18۔ 17) ترجمہ: اس جہنم سے دور رکھا جائے گا وہ شخص جو اللہ سے بہت ڈرنے والا ہے، جو اپنا مال دوسروں کو دیتا ہے، پاک ہونے کے لئے۔ دوسری جگہ ارشاد باری ہے خُذْ مِنْ اَمْوَا لِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُ ھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَ صَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنُٗ لَّھُمْ وَ اللّٰہُ سَمِیْعُٗ عَلِیْمُٗ (التوبہ) ترجمہ: اِن کے مالوں میں سے صدقہ لے لو، جس کے ذریعہ انہیں پاک کرو اور ان کو دُعا دو، بلا شبہ آپ کی دُعا ان کے لئے باعثِ اطمینان ہوگی اور اللہ سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔
حدیث پاک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت:

حدیث پاک میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو مال اِنسان صدقات و خیرات کی مَدوں میں اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ کرتا ہے وہی مال در اصل اس کا مال ہے اور جو مال وہ چھوڑ جاتا ہے وہ اس کے وارث کا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْیًٗ فَصُوْ ا یَخْلَفْہٗ وَ ھُوَ خَیْرُالرَّزِقِیْن ترجمہ: تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ لَا تَوْ کِیْ فَسْیُوْکِیْ (متفق علیہ) تو ذخیرہ کر کے نہ رکھا کر تجھ پر وہ مُنجمد کر دیا جائے گا یعنی اگرتم خرچ کروگی تو اللہ دیتا رہے گا۔
زکوٰۃ کی اہمیت اسلام کا چوتھا بنیادی رُکن اور مالی عبادت ہے:

جب ایک صاحبِ نصاب مسلمان اپنے مال کی زکوٰۃ نکالتا ہے تو اس کے مال کے ساتھ اس کا دل بھی پاک و صاف ہو جاتا ہے اور مال میں خیر و برکت آ جاتی ہے۔ زکوٰۃ بندے کا تعلق خدا سے جوڑتی ہے۔ زکواۃ کو حکومتوں کے ٹیکس کی طرح محض ایک ٹیکس نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ پوری خوش دلی کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ بندہ مومن مال کو اللہ کی امانت سمجھتا ہے اور وہ اپنے مولا و مالک کو راضی کرنے کے لئے اُس کے دیئے ہوئے مال کو اُس کی راہ میں خرچ کرنا اپنے لئے سعادت و نیکی کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ قرآن کریم اہلِ ایمان کو اس حقیقت کی جانب اس طرح متوجہ فرماتا ہے۔ سورہ آلِ عمران، آیت نمبر92 رکوع 1 پارہ 4 لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّیٰ تُنْفِقُوْ مِمَّا تُحِبُّوْنَ ترجمہ: تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔
زکوٰۃ کی اہمیت کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ یہ اسلام کے اُن پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ قرآن کریم میں جس کثرت اورتوارد کے ساتھ نماز اور زکوٰۃ کا ساتھ ساتھ ذکر ہے کسی اور کا حکم اتنا نہیں ملتا۔ دل کو دہلا دینے والے عذاب کا ذکر بھی ہے۔ حضرت مولانا احمد رضا قدسرہ نے زکوٰۃ کی اہمیت پر بڑی دل نشیں اور جامع روشنی ڈالی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں زکوٰۃ اعظم فرائض دین و اہم ارکان اسلام سے ہے۔ لہذا قرآن عظیم میں بتیس جگہ پر نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا: اور طرح طرح سے بندوں کو اس اہم فرض کی طرف بلایا اور صاف صاف فرمادیا کہ بوجھ نہ سمجھنا کہ زکوٰۃ دینے سے اتنا مال کم ہو گیا بل کہ اس سے مال بڑھتا ہے۔ سورہ بقرہ یَمْحَقُ اللّٰہ الِرّبیٰ وَ یُرْ بیِ الصَّدَ قَاتْ ترجمہ: اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو۔ بعض درختوں میں کچھ اجزائے فاسدہ اس قسم کے پیدا ہو جاتے ہیں کہ پیڑ کی اُٹھان کوروک دیتے ہیں۔ احمق نادان انہیں تراشنے سے منع کرتے ہیں کہ میرے پیڑ سے اتنا کٹ جائے گا کم ہو جائے گا۔ ہر عاقل ہوش مند تو جانتا ہے کہ ان کے چھاٹنے سے یہ تو لہلہا کر درخت بنے گا ورنہ مُرجھا کر رہ جائے گا، یہی حسا ب زکوتی مال کا ہے. حدیث پاک میں ہے حضورپُر نور ﷺ فرماتے ہیں خَا لَطَتِ الصَّدَقَۃُ اَوْ مال الزَّکَواۃ مَا لاً اِلَّا اَفْسَدَتْہُ زکواۃ کا مال جس مال میں ملا ہوگا اُسے تباہ برباد کر دے گا(راواۃ البزار و بہیقی عن اُمُ المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُما) دوسری حدیث محسنِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں ”خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ہی تلف ہوتا ہے۔ اپنے مالک جل علاء پر اطمینان بھی نہیں کہ وہ فرماتا ہے زکوٰۃ دو تمہارا مال بڑھے گا۔ اگر دل میں اس فرمان پر یقین نہیں جب تو کھُلا کُفر ہے ورنہ تجھ سے بڑا احمق کون ہے جو اپنے یقینی نفع دین و دنیا کی ایسی بھاری تجارت چھوڑ کر دونوں جہاں کا زیاں (نقصان) مول لیتا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم 433 تا434 (اہمیت زکوۃ صفحہ2تا 3 مطبوعہ المجع الاسلامی، مبارکپور)
زکوٰۃ کا اجتماعی نظم:اسلامی زندگی میں جس طرح نماز اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہے اسی طرح زکوٰۃ کے لئے بھی اجتماعی نظم قائم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا بہتر انتظام ہو سکے، اسلام کا تمام نظام اجتماعیت کے ساتھ مطلوب و پسندیدہ ہے۔ اسی طریقہ پر نبی ﷺ اور خلفاء کا عمل بھی تھا۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں اشارہ کیا گیا ہے۔ ان کے مالوں میں سے زکوٰۃ وصول کر کے ان کو پاک و صاف کر دو۔ (سورہ توبہ آیت103) نماز جس طرح جماعت اور مسجد کے بغیر بھی انجام پا جاتی ہے لیکن فرضیت کے بعض مقاصد سے دور ہو جاتی ہے۔ اس طرح زکوۃ بھی بیت المال کی مجتمع صورت کے علاوہ ھی ادا ہو جاتی ہے مگر اس کی فرضیت کے مقاصد فوت ہو جاتے ہیں۔ یہی سبب تھا کہ حضرت ابو بکر ؓ کے عہد خلافت میں بعض قبیلوں نے یہ کہا کہ وہ زکوٰۃ بیت المال میں داخل نہ کریں گے بل کہ بطور خود اس کو صرف کر دیں گے۔ تو آپ نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا اور بزور ان کو بیت المال میں داخل کرنے پر مجبور کیا۔ آج کروڑوں صاحبِ نصاب کی موجودگی کے باوجود اجتماعی زکوٰۃ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ کو انفرادی طور پر صرف کرنے کا رواج عام ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ سے آج مسلم معاشرہ میں کوئی خیر و برکت نہیں نظر آتی۔
زکاۃ کی ادائیگی کے مصارف:مصارف زکوۃ کے سلسلے میں قرآنِ حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورہ توبہ، آیت نمبر60) زکوٰۃ تو ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو محتاج اور نرے نادار ہوں۔ جو اُسے تحصیل کر کے لائیں اور جن کے دِلوں کو اسلام سے اُلفت دی جائے اور گر دنیں (مصیبت سے نجات دلانے) چھڑانے میں، قرض داروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور االلہ علم و حکمت والا ہے (کنز الایمان)
عامل وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے بادشاہِ اسلام کی طرف سے مقرر ہوں۔ ان کی تنخواہ زکوٰۃ سے دی جائے اگر چہ وہ غنی ہوں (بشرطِ سید ہاشمی نہ ہوں۔ سید حضرات اگر عامل (تحصیلدار) ہوں تو انہیں دوسرے مال سے تنخواہ دو زکوٰۃ سے نہ دو۔) یعنی وہ کفار جن کے ایمان کی اُمید ہو۔ یا وہ نو مسلم جن کے دلوں میں ابھی ایمان جاگزیں نہیں ہوا ہے یا وہ سخت کافر جس کے فتنے کا اندیشہ ہو۔ پہلی اور تیسری قسم خارج ہو چکی ہیں۔ دوسری صورت اب بھی مصرفِ زکوٰۃ ہے، اس طرح کہ مکاتب غلام کو زکوٰۃ سے مال دو۔ مکاتب وہ غلام ہے جسے مولا نے کہہ دیا ہو کہ اتنا روپیہ دے دے تو تُو آزاد ہے۔ یعنی بے سامان غازی ہو۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زکوٰۃ صرف ان لوگوں کو دی جائے جو اس کے مستحق ہیں۔ لہذا مسجد، خانقاہ، مردے کے کفن میں نہ دی جائے ان کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔ مسافر گر چہ مال دار ہو مگر سفر میں تنگ دست ہو گیا ہو تو اُسے بھی زکوٰۃ دے سکتے ہیں (تفسیر نورالعرفان صفحہ 312)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور حکم الہٰی:

نبی ﷺ جب صدقات تقسیم فرماتے تو بیمار دل لوگ طرح طرح کے اعتراضات کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے صدقات کے مستحقوں کا ذکر فرما کر معترضین کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا کہ مبادا کسی وقت کوئی مسلمان اس مَد کی آمدنی کو بے جا صرف نہ کرنے لگے۔ نیز زکوٰۃ شریعت اسلامیہ کا ایک اہم ترین (چوتھا) رُکن ہے اس لئے بھی اس کو وضاحت سے بیان کرنا ضروری تھا۔ زکوٰۃ کے یہ آٹھ (8) مصارف سورہ توبہ کی مذکورہ آیت ترجمہ میں بیان کر دیئے گئے ہیں۔ فِیْ سَبِْیلِ اللّٰہ یہ ایک جامع اصطلاح ہے جہاد سے لے کر دعوتِ دین اور تعلیم دین کے سارے کام ”فی سبیل للہ“ کے حکم میں داخل ہیں. ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اس بات کی قا ئل ہے کہ یہاں فی سبیل للہ سے مُراد جہاد فی سبیل للہ ہے اور اس کا اِطلاق اُن تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۃ اللہ کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو غالب آنے کے لئے کی جائیں. خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے لئے یا اشاعت دین اسلام کے لئے کی جائیں۔ مولانا احمد رضا نے فروغ دین و عقائد کے لئے دس نکاتی پروگرام تحریر فرمایا ہے۔
1۔ عظیم اشان مدارس کھولے جائیں ۔ باقاعدہ تعلیمیں ہوں۔
2۔ طلباء کو وظا ئف ملیں کہ خواہی نہ خواہی گرویدہ ہوں
3۔ اُن میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریرا ً و تقریرا و وعظًا و مناظرۃً وسعت دین و مذہب کریں وغیرہ وغیرہ۔
حدیث پاک میں اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ”آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درھم و دینار سے چلے گا“ اور کیوں نہ ہو کہ صادق و مصدوق ﷺ کا کلام ہے (فتاویٰ رضویہ جلد12 صفحہ133) علامہ یوسف القرضاوی نے فی سبیل للہ کے ضمن میں لکھا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی فی سبیل للہ سے جو اولین دور کی اہم ترین چیز مُراد لی جائے گی وہ ہے صحیح اسلامی زندگی کا احیا جو اسلام کے تمام احکام و عقائد، تصورات شعار، شرعی قوانین اور اخلاق و آداب روبکار لانے کے لئے ہو۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو زکوٰۃ کے مسائل صحیح طرح سے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین hhmhashim786@gmail.com

الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ
اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو،
جمشیدپور(جھارکھنڈ)پن ۰۲۰۱۳۸
رابطہ: 09431332338
صاحب مضمون کا گذشتہ مضمون : قرآن مجید، لیلۃ القدر اور رمضان المبارک نعمتِ الہٰی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے