سارے مُلک میں ہاہا کار؛ قومی حکومت کے بغیر کوئی علاج ممکن نہیں

سارے مُلک میں ہاہا کار؛ قومی حکومت کے بغیر کوئی علاج ممکن نہیں

کورونا کی دوسری لہر میں جانوں کا قربان ہونا جاری ہے مگرحکومت کو سیاسی کھیل تماشے کے علاوہ کچھ بھی یاد نہیں۔

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

نپی تُلی جانچ اور جانچ رپورٹ کا اگرچہ حکومتِ ہند نے شروع سے ہی ماحول بنائے رکھا مگر روزانہ سوا چار لاکھ متاثّرین کی تعداد سامنے آرہی ہے اور اُسی طرح کم از کم چار ہزار افراد روز موت کے چنگُل میں حتمی طور پر پھنس رہے ہیں۔ مُلک کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے رکھنے کے لیے بستر نہیں ہے،آکسیجن اور وینٹی لیٹر کی تمنّا کون کرے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ شمشان اور قبرستانوں میں بھی پیروی، سِفارش اور رِشوت کے بعد داخلہ مل رہا ہے۔ صبح سے شام تک لاشوں کے دفن ہونے اور جلنے کا لامختتم سلسلہ ہے مگر حکومتِ ہند اور اُس سے راگ مِلا کر بیش تر صوبائی حکومتوں نے لوگوں کو بہ تدریج موت کے دہانے تک پہنچ جانے کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔حد تو یہ ہے کہ ممبئی، دلّی سے پٹنہ تک آکسیجن سے لے کر کورونا کی وبا سے محفوظ رکھنے کی حیات افروز دوائیں بھی کالا بازاری میں ہی دستیاب ہیں۔ اسپتالوں کی من مانی اپنی جگہ مگر ان سب پر سرکاری بے انتظامی ہمیں موت کے دہانے تک پہنچارہی ہے۔
لوگوں کو یہ توقّع تھی کہ مغربی بنگال کے نتائج کے بعد وزیرِ اعظم کورونا وبا کے لیے کچھ کارگر اعلانات کریں گے اور عوام کی بے بسی کے لیے کچھ راج دھرم نبھانے کی کوشش کریں گے مگر پوری حکومت موت کی سوداگری میں کس درجہ پاتال تک پہنچ چکی ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندستان کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ یا وزیرِ صحت  عوامی طَور پر کسی بڑے فیصلے کے اعلان سے اب تک بچتے نظر آ ہے ہیں۔ حکومت کے غیر حسّاس ہونے کا ایک بڑا ثبوت اس پہلوٗ سے بھی سامنے آ رہا ہے کہ ہندوستان کی بُری حالت کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب سے لے کر امریکا اور فرانس کے شامل درجنوں مُلکوں نے آکسیجن اور کورونا کے سلسلے کی دوائیں بھجوائیں مگر دس دنوں میں ہندوستان کی حکومت نے اُسے عوام تک پہنچا نے کی ذمّہ داری ادا نہیں کی۔ان چیزوں سے فوری طور پر آکسیجن کی کچھ کمی دور ہو سکتی تھی اور وبا کے انجکشن سے لاکھوں لوگوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
اردو کے ایک مشہور افسانہ نگار شفیع جاوید بہار کے کئی گورنروں اور وزراے اعلا کے پریس سکریٹری ہوتے تھے۔وہ صوبے کے بڑے سیاست دانوں اور افسروں کے بیچ تین دہائیوں سے زیادہ مُدّت گزار چکے تھے۔ ایک روز میرے کسی سخت قسم کے سیاسی کالم کو پڑھ کر انھوں نے مجھے فون پر یہ تنبیہہ کی کہ اتنی سخت باتیں مت لکھا کرو۔انھوں نے کہا کہ تم سیاست دانوں کو ٹھیک سے نہیں جانتے ہو۔ میں نے تیس برس تک صوبے کے سب سے بڑے سیاست دانوں کے بیچ وقت گُزارا ہے۔کہتے کہتے وہ کہہ گئے کہ اگر تمھارے جینے سے اُنھیں فائدہ ہے تو وہ تمھیں جینے دیں گے اور اگر تمھاری موت سے انھیں زیادہ فائدہ ہے تو وہ تمھیں بہ آسانی اُس منزل تک پہنچا دیں گے۔اس میں تعلُّق اور لحاظ کا معاملہ نہیں بلکہ صرف مفاد اور ذاتی فائدہ اور نقصان ان کے پیشِ نظر ہوتاہے۔
کورونا وبا کی جس انداز سے نریندر مودی کی قیادت میں مرکز سے لے کر صوبوں تک تدابیر کی جا رہی ہیں، اس میں مرحوم افسانہ نگار کی بات مجھے روز یاد آتی ہے۔آج عوام کی بے چارگی اور معمولی طبّی سہولیات کی عدم فراہمی پر لاکھوں موتیں ہو رہی ہیں مگر وزیرِ اعظم کو اس موضوع پر ایک لفظ بولنے، صلاح و مشورہ کرنے اور حل کے لیے حقیقی کوششیں کرنے کی شاید خواہش ہی نہیں۔بے شرمی کی حد تو وہاں نظر آتی ہے جب بنگال میں شکستِ فاش کے بعد اگلے ہی روز نقلی فساد کرایا جاتا ہے اور چند لوگوں کی موت پر وزیرِ اعظم مغربی بنگال کے گورنر سے بات کرکے تازہ صورتِ حال سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔کورونا کے متاثّرین کی موت پر فوری طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ کا کوئی فائدہ ملتا ہوا نظر نہیں آتا ہے، اس لیے اس جھمیلے میں حکومت کیوں ہاتھ ڈالے۔ حالاں کہ حالات جس طرح سے خراب تر ہوتے چلے گئے ہیں کہ ان کے اثرات دو ہزار چوبیس کے انتخابات میں بھی صاف صاف نظر آئیں گے۔کس گاؤں کا کون سا خاندان ہے جس کا ایک فرد کورونا کی نذر نہ ہوا ہو۔ کون گھر ہے جس نے علاج کی بے بسی اور حکومت کے نکمّے پن سے خود کو مجبور نہ پایا ہو۔ ظاہر ہے دل کے یہ زخم رفتہ رفتہ شعلہ بن کر ہمارے سامنے آئیں گے۔
سوشل میڈیا اور اخبارات میں تعزیتی خبروں کی بھیڑ اور ہر شہر اور محلّے میں نوجوان سے لے کر بوٗڑھے افراد کی موت سے مُلک کی کوئی بھی حکومت کچھ سیکھنے کی حالت میں نہیں ہے۔ اسپتالوں کو آکسیجن لینے اور دینے کے لیے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچنا پڑ رہا ہے اور کمال تو یہ ہے کہ آکسیجن کی کمی کا شکوہ کرنے پر اُتّر پردیش کی ظالم حکومت اسپتال کے اہل کاروں پر ہی ایف آئی آر کرکے انھیں جیل بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔حکومت نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اس سوا بَرس میں اپنے اسپتالوں کو نئے سِرے سے تیّار نہیں کِیا جس سے اس دوسری لہر کا وہ مقابلہ کر سکیں۔اب جب آکسیجن کی کمی کے لیے سڑکوں پر لوگ مر رہے ہیں، تب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے کہ ہندوستان کا وزیرِ اعظم اپنی شو پیس امیج بنانے کے چکّر میں ہی رَہ گیا اور اُسے بُنیادی کاموں کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ صرف حکومتِ مہاراشٹر نے آکسیجن پلانٹ بٹھانے کے سلسلے سے سنجیدگی دکھائی تھی تو آج مشکل حالات میں مہاراشٹر میں وہ ہاہا کار نہیں ہے۔ بِہار کی حکومت کا تو یہ حال ہے کہ میڈیکل اسٹاف بیس فی صد سے بھی کم ہے۔ یہ خامی پچھلے برس ہی ظاہر ہو گئی تھی مگر الیکشن لڑنے اور سرکار بنانے میں وہ وقت چلا گیا۔ اب ڈاکٹر اور میڈیکل اسٹاف کی تقرّری کا اشتہار نکلا ہے، دس بیس ہزار اور لوگ مریں گے، تب جا کر اسپتالوں میں تقرّریاں ہوں گی۔اُتّرپردیش میں تو ظالمانہ قانون کے چکر ویو میں پھنسا دینے کا تعزیانہ ہی ایسا ہے کہ وہاں کوئی افسر یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ حکومت کی طرف سے کسی طرح کی کوتاہی ہو رہی ہے۔سچّی بات یہ ہے کہ کورونا سے لڑنے میں حکومتِ اُتّر پردیش نے سب سے کم زور کڑی کے طَور پر خود کو پیش کیا۔جب ٢٣/ کروڑ لوگ بے بسی میں مُبتلا ہوں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ وزیرِ اعظم کی شہہ پر ہی یہ ممکن ہے ورنہ دوسرے صوبوں کی طرح کچھ نہ کچھ اصلاح کی وہاں گنجایش پیدا ہوتی۔وہاں مرکزی حکومت کو کوئی نہ کوئی بہانہ چاہیے ورنہ سچّی بات تو یہ ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ جی کواُتّرپردیش میں وزیرِ اعلا صرف ایک مقصد سے بنایا گیا تاکہ وہ رام مند ر بنا سکیں۔ باقی ریاست جائے چولھے بھانڑمیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرح ہی اگرچہ کانگریس کا بھی حال ہے مگر کئی دنوں سے سونیا گاندھی وزیرِ اعظم سے آل پارٹی میٹنگ کی درخواست کر رہی ہیں۔ علمِ سیاسیات کے پڑھنے والے کتابوں میں یہ بات پڑھ کر آتے ہیں کہ مشکل حالات میں قومی حکومت یا نیشنل گورنمنٹ قایم کی جا سکتی ہے۔جب کوئی حکومت مُلک کے بڑے مسائل کے حال کرنے میں ناکام ثابت ہو اُس وقت اُسے حزبِ اختلاب کو شامل کرکے پورے پارلیمنٹ کے بہترین افراد کو پیشِ نظر رکھ کر ایک حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برسوں میں دنیا کے کئی مُلکوں کے وزرا بدلے گئے۔ سربراہانِ حکومت تبدیل ہوئے یہاں تک کہ امریکا کے صدر بھی ہٹائے گئے۔ آج اس بات کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ نریندر مودی کو پارٹی لائن سے ہٹ کر ایسے لوگوں کو قومی حکومت میں شامل کرنا چاہیے جن کی ایمان داری، اپنے کاموں میں مہارت اور عوامی بے بسی سے بہ راہِ راست واسطہ ہو۔ایسی سرکار میں وبا میں کام کرنے کے ماہرین کو ذمّہ داریاں دی جائیں۔١٨٥٧ء کے ہنگاموں کے بیچ سرسیّد احمد خاں کو متاثّرہ علاقوں کی باز آباد کاری کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، اور راحت کاری کا انھوں نے مثالی کام انجام دیا تھا۔مہاراشٹر میں جب زلزلہ آیا تو بِہار کے آئی اے ایس افسر کے بی سکسینہ رلیف کمشنر بنا کر بھیجے گئے۔ اُسی طرح آج بھی نیک دل، نیک طینت، حسّاس اور ایمان کو سرِ فہرست رکھنے والے افسران، ماہرین اور چند سیاست دان مِل ہی جائیں گے۔چین کی جنگ کے موقعے سے جواہر لال نہرونے ہندستان کے مشہور صحافیوں کو صلاح و مشورے کے لیے خاص طَو رپر بُلایا اور اُن کی صلاح سے ہی اُس کے بعد بہترنتائج سامنے آئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت جمہوری دائرے میں تو بنی ہے مگر یہ مطلق العنان اور کاروباری دنیا کی نمایندہ ہو گئی ہے۔اِسے معلوم ہے کہ فرقہ واریت سے ہمیں ووٹ حاصل ہو جائے گا اور رام مندر بنانے سے پھر ایک بار حکومت سازی ممکن ہو سکے گی۔ اُسے یہ بھی معلوم ہے کہ مُلک کے ہر مالی ادارے کو کسی صنعت کار کے ہاتھ بیچ کر آنے والے دنوں کا ذاتی خاکا تیّار کر لیا جائے گا۔وبا میں بھی ساری رقومات اِسی انداز سے اِدھر سے اُدھر ہو رہی ہیں۔ ایسے میں اس حکومت سے آخر کسی تعمیری اور انسان دوست نقطۂ نظر کی کون توقّع کر سکتا ہے۔اس لیے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مُلک کے عوام موت کے بھنور میں اُلجھ گئے ہیں اور اُس سے نکلنے کے لیے اُن کی چُنی ہوئی حکومت مددگار نہیں۔

٭٭٭
مضمون نگار کالج آ ف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس میں شعبۂ اردوکے استاد ہیں۔
Email: safdarimamquadri@gmail.com

صاحب مضمون کا گذشتہ کالم : نریندر مودی اور امِت شاہ کے عین مطابق حکومتِ بِہار کو ظالم اور جابر پولیس درکارہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے