شادی اور طلاق

شادی اور طلاق

مسعود بیگ تشنہ 
ایک اہم اور چونکا دینے والی تازہ خبر یہ آئی ہے کہ امریکہ میں بِل گیٹس اور مِیلِنڈا گیٹس نے 27 سالہ شادی توڑ دی. دنیا کے سب سے مال دار شخص رہے اور آئی ٹی کمپنی مائکروسافٹ کے شریک بانی ریے بِل گیٹس اور بِل گیٹس اینڈ مِیلِنڈا گیٹس فاؤنڈیشن (دنیا کا سب سے بڑا اور دونوں کا مشترکہ فلاحی ادارہ) میں شریک بانی اور حصہ دار ان کی بیوی مِیلِنڈا گیٹس نے آپسی رضامندی سے طلاق لے کر رشتۂ ازدواج کے بندھن سے رہائی پالی. دنیا حیران ہے کہ ایسا کیسے ہو گیا. دراصل امریکی آزاد خیال معاشرے میں شادی کو زبردستی کا بندھن ماننے کا رواج بڑھ چلا ہے. کم عمری سے ہی جنسی اختلاط وہاں عام ہے. اس لئے شادی کی رسم اپنی ضرورت کھوتی جا رہی ہے. دونوں فریقین اس سے بھی تنگ آ جاتے ہیں تو شادی کر لیتے ہیں. اور شادی سے تنگ آ جاتے ہیں تو پھر شادی سے پہلے والی جنسی آزادی طلب زندگی شروع کر دیتے ہیں. بعض اوقات کبھی کبھی ادھر ادھر منھ مارنے اور ہم بستری کرنے کو دونوں گوارا کر لیتے ہیں. مشکل تب آتی ہے جب کوئی ایک پارسا رہے اور دوسرا بےوفا. جب تک نبھے نبھ جاتی ہے، ورنہ طلاق. چٹ بیاہ پٹ طلاق بھی امریکی معاشرے میں ٹرینڈ میں ہے. اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ اکثر طلاق آپسی رضامندی سے ہوتی ہے اور مالی معاملات بھی بحسن و خوبی نپٹا لئے جاتے ہیں کہ عموماً دونوں فریقین ایک دوسرے کے مالی طور پر محتاج نہیں ہوتے ہیں. ہندوستان میں موجودہ فیملی کورٹ کا تصور اسلامی تعلیمات اور شرعی کورٹ کی ہی دین ہے.
دنیا کے مشاہیر کے طلاق پر ایک مشہور معاملہ یاد آتا ہے، 2013 میں روس کے صدر ولادمیر پُتین اور ان کی اہلیہ کی آپسی رضامندی سے تقریباً تینتیس سالہ شادی طلاق میں بدلی. ان کی بیوی نے مشترکہ بیان میں کہا کہ پُتین اور وہ پُتین کی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے برسوں سے مل نہیں پائے اور ازدواجی زندگی برائے نام ہی رہ گئی تھی. بچے بھی اب بڑے ہو گئے، یہ بھی ادھیڑ عمر سے زیادہ عمر کی طلاق تھی. دونوں طلاقوں میں فرق یہ تھا کہ پتین اپنی بیوی سے عمر میں بہت بڑے تھے اور مبینہ طور پر وہ اپنی بیٹی کی عمر کے برابر جمناسٹ حسینہ سے ملوث بائے گئے تھے. پُتین کے معاملے میں صاف ظاہر ہے کہ وہ تو اپنی جسمانی ضروریات پوری کرتے رہے، مگر بیوی کو اس سے سالوں سال محروم رکھا. اسلامی شریعت میں چار ماہ سے زیادہ جدائی عورت کے لئے برداشت سے باہر مانی جاتی ہے.
مشرقی تہذیب کی بات کریں تو بھارت میں ہندوؤں، جینیوں، سکھوں میں شادی جنم جنم کا اٹوٹ رشتہ سمجھا جاتا ہے اور قانوناً طلاق لینے کے لئے دونوں فریقین کو بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں. اگر ایک فریق رضامند نہ ہو تو سمجھئے کہ سالوں سال کی فرصت. ویسے فیملی کورٹ کافی کوشش کرتے ہیں کہ شادی نہ ٹوٹے اور متواتر کاؤنسلنگ کرتے رہتے ہیں. لیکن جینوئن کیس میں بھی ہندو پرسنل لاء میں طلاق لینا یا طلاق دینا ایک ٹیڑھی کھیر اور سالوں سال کا معاملہ بن جاتا ہے. جہاں تک ہندوستان میں مسلم اقلیت کا سوال ہے، یہاں طلاقیں تو کم ہوتی ہیں مگر ابھی ابھی تک تین طلاق کے رواج کے چلتے جو پہلے بہ آسانی اور فوراً ہو جاتی تھی، اب نہیں ہوتی. اب مودی سرکار نے مسلم عائلی قوانین میں متنازعہ ترمیم کر کے ایک ساتھ دی گئی تین طلاق کو نہ صرف غیر قانونی قرار کروا دیا ہے بلکہ تعزیری جرم بھی قرار کر وا دیا ہے. جس کے تحت جیل کی سزا بھی ہے. گو کہ ایک بار میں تین طلاق دینا ایک برسوں پرانے اور اب فرسودہ رواج کو سینے سے لگائے رکھنے کے برابر تھا، مگر حکومت کی بد نیتی کے چلتے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اڑیل اور غیر عملی مزاحمت سے، مسلم پرسنل لاء میں نئی تعزیری ترمیم وجود میں آئی. جب کہ یہ وقت تھا کہ اسلامی شادی بیاہ کے قوانین کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اور واضح، مستحکم اور زمانی مطابقت کے مطابق پیش کیا جاتا. طلاق کے ناپسندیدہ اور ناگزیر پہلو کو طریقے سے پیش کیا جاتا اور رائج کرنے کی کوشش کی جاتی. مطلقہ خواتین کی دوبارہ شادیوں کو مزید آسان اور باعمل بنایا جاتا یا پھر ان کے معاشی استحکام کا عملی خاکہ تیار کر اس پر مستقلاً عمل در آمد کیا جاتا.

مسلم پرسنل لاء میں مرد کو چار شادیاں کرنے کی اجازت ہے. ہندو پرسنل لاء میں تبدیلی سے پہلے یعنی مرد کی ایک سے زیادہ شادیوں پر روک سے پہلے، ہندوؤں میں بھی مردوں کی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا عام تھا اور معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا. ایک سے زیادہ شادی کی رعایت سے سماج میں اخلاقی توازن بنا ہوا تھا. مسلم معاشرے میں تو مطلقہ سے شادی تو عین سعادت اور اچھی سنت سمجھی جاتی ہے. یہی وجہ ہے کہ آج بھی مسلم معاشرہ اس معاملے میں سب سے صحت مند معاشرہ ہے اور عورت کو سماجی تحفظ دینے میں اس معاشرہ کا جواب نہیں. شادی بیاہ طلاق اور جائیداد جیسے معاملات میں مولانا ابو الکلام آزاد کی زندگی تک، شرعی عدالتوں کو قانونی اعتبار حاصل تھا اور اسے بنائے رکھنے اور حکومت کی نظر میں اس کا وقار اور مسلم معاشرے میں اس کی ضرورت کا احساس بنائے رکھنے میں مولانا ابو الکلام آزاد کا بہت بڑا ہاتھ تھا. ان کے مشہور زمانہ قرآن کے اردو ترجمہ و تفسیر ‘ترجمان القرآن’کا کام 26 پاروں تک ہی ان کی زندگی میں ہو پایا تھا.
معمولی حالات میں کسی وجہ سے عورت کی جسمانی یا ذہنی معذوری کی صورت میں طلاق دے کر اس سے چھٹکارا پانے اور بے حال چھوڑنے کے بجائے دوسری شادی کا اچھا طریقہ ہے جس میں پہلی بیوی اور اس کے بچوں کے سارے حقوق بنے رہتے ہیں جب کہ اس اصلاحی قدم (ایک سے زیادہ شادی) کو ہندو پرسنل لاء میں  غیر قانونی بنا کر، ممنوع قرار دیا گیا ہے.
بھارت میں کورٹ میرج جیسے آسان ہے، اس کے تحت طلاق بھی نسبتاً آسان ہے. کورٹ میرج اور انڑ کاسٹ میرج دونوں میں ایک ماہ کا ظاہر نوٹس اخبار میں دینا ہوتا ہے. شادی بیاہ کے معاملات ہر دھرم کے عائلی قوانین کے تحت آتے ہیں. جس میں وقتاً فوقتاً حکومت دخل دیتی رہتی ہے. جیسے پنڈت نہرو کے زمانے میں ہی َہندو ایک پتنی وواہ’ قانون بنا. یہ بڑا عجیب و غریب قانون ہے جس کے تحت دوسری پتنی کو وراثت کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے. جب تک پہلی پتنی آگے سے آپتّی یعنی اعتراض نہ جتائے، دوسری پتنی، اپنا پتی دھرم اور پتی اپنا پتنی دھرم نباہ سکتے ہیں. پارسیوں میں غیر پارسی سے شادی اور اس سے ہوئی اولاد  سماجی طور پر ناقابلِ قبول ہوتی ہے. اور پارسی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے مبرّا. ایسی مخلوط اولاد کی شادی چاہتے ہوئے بھی پارسی مذہبی طریقے سے نہیں ہو سکتی. یہاں مذہب سے زیادہ نسلی تشخص اور نسلی پیورِٹی کا معاملہ ہے. ہندوستان میں بھی اب موجودہ معاشرے میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ طلاق کے معاملات بڑھتے جا رہے ہیں. مسلم پرسنل لاء کی طرح عیسائیوں، پارسیوں اور سکھوں کا بھی الگ الگ پرسنل لاء ہے. قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں شادی بیاہ اور طلاق کے عائلی اصول اتنے شفاف سماجی و خانگی توازن پیدا کرنے والے اور سائنسی نقطۂ نظر سے جدید تر ہیں کہ انہیں کوئی بھی جدید معاشرہ اپنا سکتا ہے. نطفۂ ناتحقیق کو روکنے کے بیوہ اور مطلقہ عورت کا عدت کی مدت گزارنا جدید ترین سائنس کے عین مطابق ہے. اسلام میں عائلی اصولوں کی بنیاد میں ایک ہی اصول کار فرما ہے اور وہ ہے مرد و عورت کی برابری. مگر مرد کی خاندان کے ہیڈ کے طور پر  فضیلت یعنی بیوی بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کہ وہ جسمانی اعتبار سے بھی قدرتاََ عورت سے افضل ہے.
غیر ضروری طلاق کی وبا مشرقی ممالک میں بھی تیزی سے پاؤں پسار رہی ہے. عام وجوہات ہیں… بِناء اخلاقی محرکات کے کُھلا معاشرہ، ناجائز جنسی تلذذ، اپنی اپنی مصروفیات، ازدواجی زندگی میں بے کیفی، آپسی اعتماد کی کمی اور احساسِ انا. انٹر کاسٹ اور بین المذاہب معاملے میں کسی ایک فریق یا اس کے والدین کی طرف سے دباؤ بنایا جاتا ہے اور طلاق دلایا جاتا ہے.
جو بھی ہو شادی اور طلاق دونوں میں فریقین کی آزادی ان کا بنیادی حق ہے. مگر جب تک طلاق ناگزیر نہ ہوجائے نہ طلاق لینا بہتر ہے ، نہ طلاق دینا. کیوں کہ اس طرح بچوں کی زندگی بیچ میں پِس جاتی ہے اور وہ کسی ایک طرف جانے پر مجبور اور کسی ایک کا پیار پانے سے فطری طور پر محروم ہو جاتے ہیں اور آگے چل کر بھی جذباتی طور پر شادی جیسے پاک اور معاشرتی طور پر صحت مند بندھن کو بے بھروسہ سمجھنے لگ جاتے ہیں.
5 مئی 2021 ،اِندور ،انڈیا

مسعود بیگ تشنہ کی یہ نگارش بھی پڑھیں : رنگ برنگی کرسیاں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے