نکاح کیا ہے

نکاح کیا ہے

محمد شمشاد 
نکاح ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی ملانے اور جمع کرنے کے ہوتے ہیں، قرآن کے مفہوم میں اس طرح ملانے کو نکاح کہتے ہیں جس طرح نیند آنکھوں میں گھل مل جاتی ہے یا جس طرح بارش زمین کے اندر جذب ہوجاتی ہے یہ بات اسی وقت بولی جاسکتی ہے جب زمین کی خشکی کو پار کرکے بارش کا پانی زمین کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے. ان مثالوں کو سمجھنے کے بعدنکاح کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم نے مرد و عورت کی عائلی زندگی کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس کے مطابق اسلام میں نکاح سے مراد کیا ہو سکتاہے. ظاہر سی بات ہے کہ اس سے مراد میاں بیوی کے ایسے تعلقات ہوتے ہیں جیسے آنکھوں اور نیند کے درمیان رشتہ ہوتا ہے. یعنی ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہوجانا جس طرح آنکھوں میں نیند گھل مل جاتی ہے یا جس طرح زمین بارش کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے یا بارش زمین کے اندر سرایت کر جاتی ہے، اس طرح نکاح کا مطلب صاف ہو جاتاہے.
ایک مرد اور عورت کے درمیان ایسے تعلقات زندگی بھر کے لئے اسی صورت میں پیدا ہو سکتے ہیں اور وہی رشتہ ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتا ہے جب میاں بیوی کے درمیان فکر و نظر کی کامل آہنگی ہوگی، ذوق و مزاج، خیالات و تصورات اور نظریات و معتقدات میں یکجہتی،یکسانیت اور ہم آہنگی ہوگی، جنھیں نکاح کی بنیادی شرائط تسلیم کی جا سکتی ہیں اور یہی ان کی خصوصیات میں بھی شمار کی جاتی ہیں
ظاہر ہے ایسے تعلقات کے لئے باہمی رضامندی لازمی ہے اور اسے اس کی اولین اور بنیادی شرط بھی مانی جائے گی. اس طرح کی رضامندی اسی صورت میں قائم ہوگی جب ایک مرد اور عورت خود فیصلہ کرنے کے قابل ہوں گے یعنی وہ بالغ اور ہوش مند ہوں گے. اس رو سے نابالغ اور نا سمجھ و بد عقل (پاگل)لوگوں کے نکاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی دوسرے کی رضا مندی، خود ان کی رضامندی تصور کی جا سکتی ہے
اس طرح قرآن کی رو سے نکاح ایسے معاہدہ کا نام ہے جو بالغ و عاقل مرد اور عورت کی کامل اورباہمی رضامندی سے طے پاتا ہے جس کے بعد وہ ازدواجی زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں. قرآن انسانوں کو ایسی تعلیم دیتا ہے جس کی رو سے ان کے درمیان یہ معاہدہ طے پاتا ہے کہ وہ میاں بیوی کی حیثیت سے اورباہمی رفاقت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں اور اپنی نسل کو پروان چڑھا سکیں. اس کے ساتھ ہی اس نکاح کے معاہدہ کے ذریعہ وہ آپس میں خوش و خرم زندگی گزارنے کا عہد بھی کرتے ہیں، کیوں کہ قوم کی عمرانی زندگی کا دارومدار گھر کے خوش گوار ماحول و فضا اور خوش حال زندگی پر منحصر ہوتا ہے. اسی سے آنے والی نسلوں کی صحیح تربیت ہوتی ہے اور اس نسل کی تعمیر بھی ہوتی ہے
سورۃ النساء 4 آیت نمبر 19 (یا یھا الذین امنوا لا یحل لکم ان تر ثوا النسآ ء کرھا، ولا تعضلو ھن لتذ ھبوا ببعض ما آتیتمو ھن الا ان یاتین بفا حشۃ مبینۃ، و عاشرو ھن بالمعروف، فان کر ھتمو ھن فعشی ان تکر ھوا شیئاو یجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا) ”اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ہاں اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے) ان کے ساتھ بھلے طریقے کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہے“ (تفہیم القرآن)
اسی طرح سورۃالبقرہ 2 آیت نمبر 235 میں اللہ تعلی فرماتا ہے کہ (ولا جناح علیکم فیما عر ضتم بہ من خطبۃ النساء او ا کننتم فی انفسکم علم اللہ انکم ستذ کرو نھن و لکن لا توا عدو ھن سرا الا ان تقولو قولا معروفا، ولا تعز موا عقدۃ النکاح حتی بیلغ الکتاب اجلہ ، واعلموا ان اللہ یعلم ما فی انفسکم فاحذ روہ، وعلموا ان اللہ غفور حیم،) ”زمانہ عدت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنائے میں ظاہر کردو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی مگر دیکھو! خود یہ عہد و پیمان نہ کرنا اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقہ سے کرو اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہو جائے خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے لہذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے جھوٹی جھوٹی باتوں سے درگزر فرماتا ہے“ (تفہیم القرآن)
مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ اللہ تعالیٰ  نے نکاح کرنے کی پوری تاکید کی ہے اور اپنے بندے کو یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ نکاح جیسے عمل کو اشارے کنائے اور چھپ کر نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بل کہ اس کا جو معروف طریقہ ہے اس کے مطابق ہی ازدواجی زندگی شروع کی جائے اور یہی طریقہ بہتر، جائز اور صحیح ہے. 
سورۃ النساء 4 آیت نمبر 3 ( و ان خفتم الا تقسطوا فی الیتمی فا نکحوا ما طاب لکم من النساء مثنی و ثلث و ربع، فان خفتم الا تعدلوا فوا حدۃ اوما ملکت ایمانکم، ذلک ادنی الا تعولوا۰) ”اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں بے انصافی سے بچنے کے لئے یہ زیادہ قرین صواب ہے“ (تفہم القرآن)
سورۃ الانعام 6 آیت نمبر 153 (وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ، ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم و صکم بہ لعلکم تتعون۔) ”نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کردیں گے یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو“ (تفہم القرآن)
یعنی انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے پر چلے کیوں کہ اس کے حکم (امر)کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خودمختاری اختیار کرنا یا اللہ کے سواغیر اللہ یا غیروں کی بندگی کی جانب ایک قدم بڑھانے کا مطلب یہ تسلیم کیا جائے گا کہ وہ اپنے عہد سے مکرگیا ہے اور وہ اللہ سے کیے ہوئے وعدہ سے انکار کرچکا ہے. یہی وجہ ہے کہ اس عہد شکنی کو اللہ سے کیے ہوئے عہد کی خلاف ورزی مانی جائے گی یعنی یہ قدم انسان کی طرف سے اس عہد کی اولین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں. اس طرح انسان اپنے اس عہد سے اس وقت تک بری الذمہ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی بسر نہیں شروع کردیتا ہے یعنی ہر دوسرے راستے کی پیروی انسان کو لازمی طور سے ا س صحیح راستہ سے بھٹکا تا ر ہے گاجو خدا کے قریب اور اس تک پہنچنے کا راستہ ہوتا ہے. دوسرے یہ کہ اس صحیح راستے سے ہٹتے ہی اس کے سامنے ایسے بے شمار راستے آنے لگتے ہیں جن کے درمیان بھٹک کر پوری نوع انسان تباہ وبرباد ہوجاتی ہے
ان سب کے باوجود اگر ایسی صورت پیدا ہو جائے کہ ان کی ازدواجی زندگی نا ممکن ہو جائے تو اس معاہدہ کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے. قرآن کریم نے اس کے متعلق تفصیلی احکامات دیئے ہیں کہ اس معاہدہ کے فسخ ہونے کی کیا کیا صورتیں ہیں اور اس کے لئے طریق کار کیا ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں اس طرح کا ایک عجب رواج پنپ چکا ہے کہ کسی مرد کا جب جی چاہے طلاق طلا ق طلاق یعنی تین طلاق کہہ کر نکاح توڑ سکتا ہے اور اپنی بیوی سے رخصت حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ وہ سزا کا بھی مستحق ہوجاتاہے جس کے بعد اس جوڑے کا باہمی ملاپ اس وقت تک نا ممکن ہوجاتاہے جب تک وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح (حلالہ کے ذریعہ) ایک شب اس کے ساتھ ہم آغوش ہو کر گزار نہ لے، جو قرآن کے بالکل ہی خلاف ہے
قرآن میں نکاح کرنے کی تاکید
سورۃالنساء 4 آیت نمبر 25 میں اللہ تعلی فرماتا ہے (ومن لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنت المومنت فمن ما ملکت ایمنکم من فتیتکم المومنت، واللہ اعلم بایمانکم، بعضکم من بعض، فانکحو ھن باذن اھلھن و اتو ھن اجور ھن بالمعروف محصنت غیر مسفحت ولا متخذت اخدان، فاذا احصن فان اتین بفاحشۃ فعلیھن نصف ماعلی الحصنت من العذاب، ذلک لمن خشی العنت منکم، وان تصبروا خیرلکم، واللہ غفوررحیم۰)”اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہیں رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کرسکے اسے چاہئے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو لہذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو اور معروف طریقے سے ان کے مہر ادا کردو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائی کریں پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے یہ سہولت تم میں سے ان لوگوں کے لئے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند ش تقوی کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو۔ لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“ (تفہیم القرآن)
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی خوبی کا مالک بنا کر پیدا کیا ہے. کوئی خوب صورت ہوتا ہے تو کوئی خوب سیرت، کوئی ذہین ہوتا ہے تو کوئی بہادر اور صابر یعنی ہر آدمی اور عورت کسی نہ کسی صفت کا مالک ضرورہوتا ہے. سماج کے اندراکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عورت خوب صورت نہیں ہوتی ہے تواللہ اس کے بدلے میں اس میں کچھ ایسی خوبیاں ضرور دے د یتا ہے جو دوسروں کی بہ نسبت اسے قابل رشک بنا دیتا ہے اور انہی خوبیوں کی بنا پر اسے اس سماج میں ایک مقام حاصل ہوتا ہے جسے سیرت کا نام دیا جاتا ہے، مگر اکثر لوگ اپنی بیوی کی صورت کو دیکھ کر پسند نا پسند کرنے لگتے ہیں لیکن انہیں ان کی وہ خوبیاں نظر نہیں آتیں جسے اسے پیش کرنے کا ابھی موقع بھی نہیں ملا ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ اس کے ساتھ ناروا سلوک کرنے لگتے ہیں اور وہ اس بات کے لئے بضد ہوجاتے ہیں کہ اس کی صورت اچھی نہیں ہے اس لئے وہ اپنی پوری زندگی اس کے ساتھ نہیں گزار سکتے ہیں لیکن وہ اس کی دوسری خوبیوں کو نہیں جان پاتے ہیں جبکہ اس میں بعض دوسری خوبیاں ایسی موجود ہوتی ہیں جو ان کی ازدواجی زندگی میں حسن صورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اگروہ اسے اپنی ان خوبیوں کے اظہار کا موقع دیں تو وہی شوہر جو ابتداََ محض اس کی صورت کی بنا پراس سے دل برداشتہ ہو رہا ہوتا ہے اور اسے نا پسند کرکے اس سے قطع تعلق کرنا چاہ رہا تھا اس کے حسن سیرت پر فریفتہ ہو جائے گا. اسی طرح بعض اوقات ازدواجی زندگی کی ابتداء میں کسی عورت کی بعض باتیں اس کے شوہراور اس کے گھر والوں کو ناگوار محسوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہوجاتے ہیں لیکن اگر وہ صبر سے کام لیتے اوراس نئی نویلی دولہن یا عورت کے امکانات کو بروئے کار آنے کا موقع دیتے ہیں تو کچھ دنوں کے بعداس پر خود ثابت ہوجاتا ہے کہ اس نئی نویلی لڑکی میں برائیوں سے بڑھ کر بہت ساری خوبیاں موجود ہیں جو اس کی ازدواجی زندگی اور اس کے گھر کے ماحول کو بہت خوش گوار بنانے میں کارآمد ثابت ہوتی ہی.  لہذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ انسان ازدواجی تعلق کو ختم کرنے میں جلد بازی سے کام لے اور بنا غورو فکر کیے کوئی ناروا قدم اٹھا لے جائے۔
سورۃالنساء 4 کی آیت نمبر 19 میں قرآن بیان کرتا ہے کہ (یا یھا الذین امنوا لا یحل لکم ان تر ثوا النسآ ء کرھا، ولا تعضلو ھن لتذ ھبوا ببعض مآ اتیتمو ھن الآ ان یاتین بفا حشۃ مبینۃ، و عاشرو ھن بالمعروف، فان کر ھتمو ھن فعشی ان تکر ھوا شیئاو یجعل اللہ فیہ خیرا کثیرا) ” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تمہارے لئے یہ حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو اور نہ یہ حلال ہے انہیں تنگ کر کے اس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ہاں اگر وہ کسی صریح بدچلنی کی مرتکب ہوں (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے) انکے ساتھ بھلے طریقے کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہے“ (تفہیم القرآن)
مذکورہ بالاآیت کے ذریعہ اس بات پہ زور دے کر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی مرد کو زور زبردستی سے کسی کا وار ث،مالک یا شوہر بننے کے لئے منع کیا گیا ہے اس سے یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ کسی عورت یا لڑکی کی مرضی کے بغیر شادی یا نکاح کر نے کے رسم کو قرآن بالکل منع کرتا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ نکاح کے لئے لڑکی کی اجازت لازمی ہے. وار ث یا مالک بننے کی دو صورت ہوتی ہے پہلی صورت گارجین یا والدین بن کر کچھ لوگ اپنی مرضی کسی لڑکی یا عورت پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں جو ان لڑکیوں کو پسند نہیں ہوتا ہے دوسری صور ت یہ ہوتی ہے کہ کسی عورت کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے یا اس عورت کے شوہر کے والدین اور بھائی بہن اپنے پوتے اور ان بچوں کے مستقبل کے مدنظر اسے بیوگی اور تنہائی کی زندگی جینے کے لئے مجبور کردیتے ہیں اور اس کی بیوہ کو میت کی میراث سمجھ کر اس کے مالک،ولی یا وارث بن جاتے ہیں جس کے لئے انہیں منع کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا ہے تو اس کی بیوہ آزاد ہوتی ہے کہ عدت گزار کر جہاں چاہے وہ جاسکتی ہے اور جس سے چاہے وہ نکاح کرسکتی ہے اس بیوہ پر اس کے سابقہ شوہر کے خاندان کے ذریعہ کسی قسم کی پابندی عائد کرنا سراسر ناجائز اور زیادتی ہے
Mohd Shamshad, Dhipatoli, Pundagh, Ranchi, Jharkhand. Mo- 7011595123

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے