آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں

آ خر بار بار شان رسالت میں گستاخی کیوں

 اور گستاخوں کے سروں پر کس کا ہاتھ؟؟
جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

نبی کریم کی ذات سب سے افضل ہے، آپ خاتم النبیین ہیں، آپ شفیع المذنبین ہیں، آپ رحمۃ اللعالمین ہیں اور تخلیق کائنات کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے. اللہ تعالیٰ نے آپ کو کائنات کے ذرے ذرے کے لئے نبی بنایا. ہر مخلوق کے لیے آپ کو نبی بنایا. آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کے لئے راہ نجات ہے، آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا دونوں جہاں میں کامیابی کی ضمانت ہے. آپ پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرمایا، آپ کو پوری دنیا کے لئے رحمت بنایا. آپ نے دعوت و تبلیغ کو اس طرح انجام دیا کہ پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگیا. خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے محبوب تم نے دین کو مکمل کردیا. اور قرآن مجید اعلان کررہا ہے کہ بے شک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین دینِ اسلام ہے اور یہ ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی سے سچی محبت ہی کا نام ایمان ہے، جو آپ سے محبت نہ کرے تو اس کا ایمان مکمل نہیں ہے. آج جو لوگ مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت اور بغض میں اندھے ہو کر رسول کی شان میں گستاخی کررہے ہیں وہ درحقیقت مسلمانوں کو آزما رہے ہیں کہ آج کا مسلمان اپنے نبی سے کتنی محبت کرتا ہے ورنہ نبی کریم کی سیرت طیبہ سے تو وہ بھی بہت حد تک واقف ہیں، لیکن اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ان کی فطرت میں داخل ہے اس لیے وہ اپنی بدبختانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے. 
تاج دار دوعالم نے مکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری کیا اور شاہی اعلان فرمایا وہ یہ تھا کہ ایک ایک لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں ماررہے ہیں جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لیے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لیے امان ہے، جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لیے امان ہے. سرکار دو عالم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ اپنی اونٹنی قصوا پر سوار تھے، سورہ فتح تلاوت   فرمارہے تھے سرجھکائے ہوئے اللہ رب العالمین کا شکر ادا کررہے تھے، اس کے بعد حرم الٰہی میں آپ نے سب سے پہلا دربار عام منعقد فرمایا جس میں افواجِ اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے عوام و خواص کا زبردست ازدہام تھا جس میں وہ ظالم و جفاکار بھی تھے جو آپ پر بارہا پتھر کی بارش کر چکے تھے، وہ خوں خوار بھی تھے جنہوں نے بارہا آپ پر قاتلانہ حملے بھی کئے تھے، وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک شہید کئے تھے اور چہرہ انور کو لہولہان کیا تھا، وہ سنگ دل بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے، وہ سفاک اور درندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے میں چادر اور رسیوں کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ نے کوشش بھی کر چکے تھے، وہ ظلم و ستم کے مجسمے بھی تھے جنھوں نے آپ کی صاحب زادی حضرت زینب کو نیزہ مارکر اونٹ سے زمین پر گرادیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا وہ جفاکار و خوں خوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور جارحانہ یلغار سے بار بار مدینہ کے درودیوار دہل چکے تھے، وہ ستم گار بھی تھے جنہوں نے آپ کے چچا حضرت امیر حمزہ کو قتل کیا تھا، ناک، کان کاٹ کر اس کا ہار بناکر گلے میں پہنا تھا، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے، حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید رضی اللہ عنہم کو رسیوں سے باندھ کر کوڑے مارا کرتے تھے، جلتی ریتوں پر اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹایا کرتے تھے، کسی کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا کرتے تھے اس دربار عام میں یہ سب کے سب مجرم بنے کانپ رہے تھے. انہیں اس بات کا احساس تھا کہ آج ہماری بوٹی بوٹی ہونے کا دن ہے، آج ہمارے بچوں کو خاک و خون میں ملا کر ہمیں نیست و نابود کردیا جائے گا، ہماری آبادیوں اور بستیوں کی دھجیاں اڑادی جائیں گی. 
سرکار دو عالم نے اس دربار عام میں ایک خطبہ دیا اور پھر اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ بولو آج تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
اس دہشت انگیز سوال سے تمام مجرموں کے جسم کانپنے لگے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر سب یک زبان ہوکر بولے کہ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں یہ سن کر فاتح مکہ سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ: لا تثریب علیکم الیوم فادھبو انتم الطلقا (آج تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو)
بالکل غیر متوقع طور پر ایک دم اچانک فرمان رحمت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشک بار ہو گئیں اور کفار کی زبانوں پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار گونجنے لگے، مجرموں کی نظروں میں خلاف توقع ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا. 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اتنا رحم دل ہو پھر اس کے خلاف اتنی سازشیں کیوں رچی جاتی ہیں؟ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے آج تک کوئی اتنا رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا پیدا نہیں ہوا. زمین و آسمان، چاند و سورج، شجر و حجر، بحر و بر، جن و انس سب کے ساتھ جس نے انصاف کیا ہے وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے زمین میں زندہ لڑکیوں کو دفن کرنے سے روکا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے مساوات کا درس دیا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی کی تعلیم دی وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے کراہتی اور سسکتی و دم توڑ تی ہوئی انسانیت کو سکون بخشا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے اپنی بیٹی کے ہتیارے کو معاف کیا اور جس نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کیا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے گالیاں سن کر، اینٹ و پتھر کی مار کھاکر، لہولہان ہوکر بھی بددعا دینے کے بجائے اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کیا وہ محمد عربی کی ذات ہے. لیکن اس کے باوجود بھی فرانس، ڈنمارک و دیگر ممالک میں نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنا، اہانت آمیز خاکہ تیار کرنا، خاکوں کی اشاعت کرنا یہ سراسر بے حیائی ہے، بدترین دہشت گردی ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اور اس طرح کی گھٹیا حرکت کرنا یہود و نصاریٰ کی فطرت ہے. یہ وہ قومیں ہیں جو ہمیشہ امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی رہی ہیں. پوری دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ توہین رسالت اللہ کو بھی گوارا نہیں ہے. خود نبی کریم کی ظاہری زندگی میں بھی یہ دیکھا گیا اور آج بھی دیکھا جارہا ہے کہ جس نے رسول پاک کی شان میں گستاخی کی تو اس کے زندہ رہنے کا حق ختم ہوگیا، اس کی زندگی کے خاتمے کا چاہے جو بھی ذریعہ بنے. 
جو مذہب اسلام پر شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں وہ درحقیقت اسلام دشمنی میں اندھے ہیں وہ مذہب اسلام کے ساتھ خود اپنے مذہب کی تعلیمات کے بھی مخالف ہیں. وہ قومیں نہ اپنے نبی کی وفادار ہوئیں اور نہ اپنے مذہبی کتاب کے ساتھ وفادار ہوئیں. جب کہ مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے سب برحق، قرآن سے پہلے جتنی بھی کتابیں نازل ہوئیں توریت، زبور، انجیل برحق. یہاں تک کہہ دیا گیا کہ جو بھی شخص قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب مانے اور توریت، زبور، انجیل کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ مانے تو وہ مسلمان ہوہی نہیں سکتا. یعنی قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا ضروری ہے اور قرآن سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئی ہیں ان کو بھی ماننا ضروری ہے. سورۃ البقرۃ کے پہلے رکوع کی تلاوت کرنے اور ترجمہ پڑھنے سے سب کچھ واضح ہوجاتاہے . مذہب اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہے. آنکھوں سے نفرت کی چنگاڑیاں اور دلوں سے بغض و حسد نکال کر مذہب اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والے آج بھی اسلام کی شیتل چھایا میں پناہ لے رہے ہیں، مذہب اسلام کے شامیانے میں داخل ہورہے ہیں اور یہی چیز یہی بات اسلام مخالف ذہنیت رکھنے والے ہضم نہیں کرپاتے، ان سے یہ برداشت نہیں ہوتا ہے. کبھی کملیش تیواری تو وسیم رضوی تو کبھی نرسنگھا نند جیسے بد ترین قسم کی ذہنیت رکھنے والے کبھی قرآن کی توہین کرتے ہیں تو کبھی رسول کی توہین کرتے ہیں. جب کہ آج پوری دنیا آخری نبی کی امت ہے. بس فرق اتنا ہے کہ مسلمان امت اجابت ہیں اور دیگر لوگ امت دعوت ہیں. اس کے باوجود بار بار نبی اکرم سے دشمنی کا اظہار کیا جاتا ہے اور گستاخیاں کی جاتی ہیں آخر کیوں ؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان لعینوں کی پشت پناہی کون کررہا ہے انہیں کون للکار تا ہے ان کے سروں پر کس کا ہاتھ ہے ، اس گھٹیا اور قابل مذموم حرکت سے انہیں کیا فائدہ ملتا ہے جبکہ مسلمانوں نے کبھی بھی کسی مذہب کی توہین نہیں کی اور کسی مذہبی پیشوا کی توہین نہیں کی اور مذہب اسلام اس کی اجازت بھی نہیں دیتا. کوئی یہودی ہمارے نبی کی توہین کرے تو جواب میں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتے، کوئی عیسائی ہمارے نبی کی توہین کرے تو جواب میں ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتے کوئی ہندو ہمارے نبی کی توہین کرے تو جواب میں ہم شری رام چندر جی کی توہین نہیں کر سکتے،کوئی سکھ ہمارے نبی کی توہین کرے تو جواب میں ہم گرو نانک کی توہین نہیں کر سکتے اس لئے کہ ہمارا مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور یہ بات پوری دنیا یاد رکھے کہ گستاخ نبی کو جینے کا حق نہیں ہے. ایک منافق نے نبی کا فیصلہ نہیں مانا تو حضرت عمر فاروق نے اس کا سر قلم کر دیا، ابو داؤد شریف کی روایت کے مطابق ایک صحابی رسول اپنے گھر میں نبی کا ذکر کرتے تو بیوی جو ایمان نہیں لائی تھی وہ لعن و طعن شروع کردیتی. ایک دن جیسے ہی ان صحابی نے  رسول پاک کا ذکر شروع کیا تو بیوی نے نبی کی شان میں گالیاں دینا شروع کردی اس وقت وہ اپنے بچے کو دودھ پلارہی تھی صحابی کو برداشت نہیں ہوا اور اپنے دودھ پیتے بچے کی بھی پرواہ نہ کی چھرا اٹھایا اور بیوی کے پیٹ میں گھونپ دیا چند لمحوں میں بیوی تڑپ تڑپ کر مرگئی صحابی بارگاہ رسالت میں پہنچنے اور سارا ماجرا بیان کیا تو نبی نے فرمایا کہ جو مجھے گالی اسے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے لہذا تم سے کوئی قصاص نہیں لیا جائے گا منافقوں نے بارگاہِ رسالت میں بھیڑ لگا کر مطالبہ کر رہے تھے کہ عمر کو قتل کے بدلے قتل کیا جائے تو اللہ نے جبرئیل علیہ السلام کو بھیجا اور جبرئیل نے نبی سے کہا کہ عمر نے کسی مسلمان کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ عمر نے ایک منافق کو قتل کیا ہے جسے آپ کے فیصلے پر اطمینان نہیں تھا، جب نبی پاک کا خط ایک بادشاہ نے پھاڑ کر رسول کی توہین کی تھی تو خود اس کے بیٹے نے ہی اس کا کام تمام کردیا، ڈنمارک میں ایک بدبخت نے نبی کی شان میں گستاخی کی تھی تو خود اس کے گھر میں آگ لگی اور وہ جل کر خاکستر ہو گیا. 
شان رسالت میں گستاخی سے مسلمانوں کے جذبات ضرور مجروح ہوتے ہیں لیکن جو لوگ فوراً سرقلم کرنے کا انعامی اعلان کرتے ہیں انہیں بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ ہم کہاں تک صحیح ہیں کہیں صرف ہائی لائٹ ہونا اصل مقصد تو نہیں. ضرورت تو اس بات کی ہے کہ ہم احتجاج کریں تو جوش کے ساتھ ہوش کو برقرار رکھیں اور اپنے جلسوں میں غیر مسلموں کو بھی مدعو کریں تاکہ جب ذکر نبی ہو تو وہ بھی سنیں، مدارس میں انہیں بھی مدعو کریں تاکہ وہ دیکھیں کہ کون سی تعلیم دی جاتی ہے لیکن افسوس کہ آج خود مسلمانوں نے اپنے حالات ایسے بنارکھے ہیں کہ مسلمان ہی مسلمان کو مدعو کرے تو کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے گا اور اسی کا فائدہ اغیار اٹھا رہے ہیں کہ دیکھا جائے کہ مسلمانوں کے اندر ابھی کتنا حب نبی ہے. اس لئے مسلمانوں کو آپس میں لاکھ اختلاف کے باوجود بھی اتنی گنجائش تو رکھنا چاہیے کہ ایک آواز ہوکر حکومت سے مطالبہ کیا جائے کہ گستاخ رسول کو تخت دار پر لٹکایا جائے اور موت کے گھاٹ اتارا جائے اور بار بار اس طرح کی گھٹیا حرکت کیوں کی جاتی ہے، ان کے سروں پر کس کا ہاتھ ہے، کون پشت پناہی کر رہا ہے، ان کا لنک کہاں سے جڑا ہوا ہے اس کی بھی مکمل جانچ کی جائے تاکہ ان کے مقاصد اور سازشوں کا پردہ فاش ہو، ان کے چہرے بے نقاب ہوں. اور مسلمانوں کو بھی حب نبی کا ثبوت نعروں کی تکرار سے نہیں بلکہ عظیم الشان عمل و کردار سے دینا ہوگا. تعلیم و سیاست دونوں میدان میں اپنا مقام بنانا ہوگا تاکہ ایک طرف کوئی بدکار و بدبخت مذہب اسلام پر اور پیغمبر اسلام پر انگشت نمائی کرے تو اسے مناظرے کے لئے للکارا جاسکے اور دوسری طرف یہ بھی بتایا جاسکے کہ کسی مذہبی پیشوا کی توہین اور کسی مذہبی کتاب کی توہین ، مساجد اور مدارس کے خلاف زہر افشانی اور کسی بھی شخص یا معاشرے کی مذہبی شناخت کو زبردستی مٹانے کی کوشش کرنا یہ سب دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اس کی دردناک و عبرتناک سزا ہونی چاہیے. نرسنگھا نند جیسے لوگوں کو کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے تب معلوم ہوگا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء ورسل دنیا میں تشریف لائے سب نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کی اور دنیا تشریف لانے کی بشارت دی ہے اور وہ کسی مخصوص علاقے کے نہیں بلکہ کائنات کے ذرے ذرے اور چپے چپے کے لئے نبی ہوں گے اور ان کے اخلاق و کردار اتنے بلند ہوں گے کہ ان کی امت کو اللہ کی طرف سےخیر امت کا درجہ حاصل ہوگا. ان کے آنے کے بعد دوسری ساری آسمانی کتابیں منسوخ کردی جائیں گی صرف آخری نبی کی کتاب یعنی قرآن پر عمل کرنے والا اور ان سے سچی محبت رکھنے والا ہی راہ حق پر ہوگا اور امت ان سے بے پناہ محبت کرے گی اور اعلان کرے گی کہ نبی کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے. اور یہی بات، یہی عمل، یہی اعلان ابو جہل و ابو لہب کی اولادوں کو برداشت نہیں ہوتا-

مضمون نگار کی گذشتہ نگارش : نہ ہو کوئی بیٹا تو زندگی میں اندھیرا ہے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے