قرآن کریم معجز اورناقابل تحریف کتاب ہے

قرآن کریم معجز اورناقابل تحریف کتاب ہے


انوارالحق قاسمی نیپالی
جب سے یہ دنیا قائم ہے، اس وقت سے اب تک کسی انسان میں یہ طاقت پیدا نہیں ہو سکی ہے کہ وہ اپنی کتاب یا دیوان کے بارے میں مشرق و مغرب اور شمال جنوب میں بسنے والے بے شمار لوگوں کو یہ چیلنج کر سکے کہ میری کتاب جیسی کوئی کتاب یا میرے دیوان کےمثل کوئی دیوان تم ہرگزپیش نہیں کرسکتےہو ،اور نہ ہی قیامت تک کسی کے اندریہ چیلنج کرنے کی  ہمت پیدا ہوسکتی ہے ؛ کیوں کہ ہر انسان خواہ وہ کتنا ہی بڑا علامہ اور محقق ہی کیوں نہ ہو، وہ بہت ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ بالفرض ابھی نہیں ،توآنے والے وقت میں ضرور کوئی نہ کوئی میرا چیلنج قبول کرسکتا ہے اور وہ میری تصنیف سے بہتر اور اعلی تصنیف پیش کرکے ہمیں لاجواب کر سکتا ہے ؛اس لیے کہ آئے روز نئی نئی تحقیقات و ایجادات لوگوں کے سامنے آرہی ہیں ،جن کا ہر خاص و عام یومیہ مشاہدہ کر رہا ہے اور یہ ایک سلسلہ ہے جو قیامت تک چلتا رہے گا۔
اور صرف اور صرف خدائے وحدہ و لاشریک له کی ذات گرامی ہے، جس نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر 23/ سالہ قلیل عرصے میں اپنی آخری بےمثال اور معجز کتاب” قرآن مجید ” نازل کرکے پہلی صدی سے لے کر آخری صدی تک کے انسانوں کو ایک بڑا چلینچ اورتحدی پیش کر دیا ہے، کہ تم میرے قرآن مجید جیسی کتاب ہرگز ہرگز پیش نہیں کرسکتے ہو ،چاہے تم اس کے لئے انسانوں کے علاوہ جنوں کی بھی معاونت حاصل کر لو!۔
اللہ تبارک و تعالی نے فرمایا: قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوبمثل ھذالقرآن لایاتون بمثله ولوکان بعضھم لبعض ظھیرا(الاسراء:88)۔
ترجمہ: اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لاناچاہیں ، تو ان سب سے اس کے مثل لانا مشکل ہے، گووہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔
یعنی اگر تمام جن و انس اس پر متفق ہو جائیں کہ فصاحت و بلاغت ،حسن ترتیب، علوم غیبیہ اور معارف الہیہ وغیرہ میں سے کسی کمال میں قرآن کے برابر کوئی چیز لے آئیں، تو ایسا نہ کر سکیں گے۔
مشرکین نے کہا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو قرآن جیسی کتاب بنا کر پیش کر دیں، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اللہ تبارک و تعالی نے ان کی تکذیب کی کہ خالق کے کلام کے مثل مخلوق کا کلام ہو ہی نہیں سکتا ہے، اگر چہ وہ سب باہم مل کر کوشش کریں ، جب بھی ممکن نہیں کہ اس کلام کے مثل لاسکیں؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ تمام کفاراس کتاب جیسی کتاب پیش کرنے سے عاجز رہے۔
جب کہ جھٹلانے والوں کی بہت زیادہ خواہش تھی کہ وہ کسی طریقے سے اس دعوت کو جھوٹا ثابت کریں ، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لےکرآئےہیں اور وہ لغات عرب کے ماہر اور فصاحت و بلاغت کے مالک تھے۔
اگر ان میں اس دعوت کا مقابلہ کرنے کی ذرا سی بھی اہلیت ہوتی، تو وہ ضرور اس کا مقابلہ کرتے۔
اب اس سے یہ واضح ہو گیا کہ انہوں نے طوعاوکرہا اس بارے میں اپنی بے بسی کو تسلیم کر لیا اور قرآن کے معارضے سےعاجز آگئے۔
جب کفار مکمل قرآن کریم کےمثل کتاب پیش کرنے سے عاجز ہو گئے ،تو اللہ تبارک و تعالی نے اپنے چیلنج کو بہت ہی مختصر کردیااورفرمایا : أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰه ۖ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍۢ مِّثْلِهِۦ مُفْتَرَيَٰتٍۢ وَٱدْعُواْ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ۔
ترجمہ: کیا یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اپنی طرف سے گھڑلیا ہے،تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لے آؤ اس جیسی دس سورتیں ہی بناکراورپکارو(مددکےلیے)جس کوچاہواللہ کےسوائے،اگرتم سچےہو۔
یعنی کیا کفار مکہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہتے ہیں: کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن خود ہی بنا لیا ہے، تو اے حبیب !صلی اللہ علیہ وسلم آپ فرما دیجئے :کہ اگر یہ بات ہے تو تم بھی ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں ہی لےآؤ؛کیوں کہ انسان اگر ایسا کلام بنا سکتا ہے تو اس کےمثل بنانا تمہاری طاقت سے باہر نہ ہو گا؛کیوں کہ تم بھی عربی ہو،فصیح وبلیغ ہو، کوشش کرو۔
اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ یہ کلام انسان کا بنایا ہوا ہے ،تو اللہ عزوجل کے سوا جو مل سکے سب کو اپنی مدد کے لیے بلا لو اور سب مل کر اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کر پیش کر دو،مگر وہ سب اس چیلنج کو بھی قبول کرنے سے عاجز و قاصرر ہے۔
جب وہ دس سورتیں بھی بنانے سے قاصر ہے تو اللہ تبارک و تعالی نے اپنےچیلنج کو اور مختصر کر دیا اور فرمایا:وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(بقرہ)۔
ترجمہ : اگر تم اس کتاب کے بارے میں شک میں مبتلا ہو، جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے، تو کوئی ایک سورت اس جیسی تم بھی بنالاؤ اور اپنےحمایتوں کو بھی اللہ کے مقابلے پر بلا لو اگر تم سچے ہو۔
آپ ذرا غور کریں کہ جس وقت اللہ تبارک و تعالی اعداء دین کو چیلنج پر چلنج کر رہے ہوں گے، ان کے قلوب و اذہان پر کیا کیا گزر رہے ہوں گے ؟کیا وہ اس قرآن کریم کےمثل پیش کرنے کی کوشش نہیں کیے ہوں گے ؟جی انہوں نے بہت کوششیں کیں؛ مگر ان کی ہر کوشش ناکام ہی ثابت ہوئی۔
ابن مقنع دوسری صدی ہجری کا بڑا مشہور شاعر تھا، بعض لوگوں نے ان کی خوب تعریفیں کرکے اسے آسمان پر چڑھا دیا اور اس سے کہا :کہ آپ کے لئے قرآن کے مثل پیش کرنا ،کوئی بڑی بات نہیں، آپ اگر چاہیں، تو آسانی سے اس قرآن کے چیلنج کو قبول کر سکتے ہیں،اور اس قرآن کے مثل کتاب پیش کرسکتے ہیں، چناں چہ لوگوں کے کہنے میں آکر وہ تیار ہو گیا اور اس نے کہا :کہ میرے ایک سال کے اخراجات کا انتظام کر دو، میں اس قرآن کے مثل قرآن پیش کر دیتا ہوں، لوگوں نے اس کےایک سال کے اخراجات کا انتظام کر دیا اور پھر ابن مقنع ایک الگ تھلگ مکان میں بہت سارا کاغذ ،قلم، دوات لے کر بیٹھ گیا اور لکھنے میں مصروف ہوگیا۔
جب چھ مہینے گزر گئے ،تو لوگوں کے دلوں میں خیال آیا کہ ابن مقنع کے کام کا جائزہ لیا جائے کہ وہ اب تک کس مرحلے تک پہنچے ہیں، لوگ جب اس کے پاس پہنچے ،تو دیکھا کہ وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، قلم ہاتھ میں ہے اور لکھنے کا سامان سامنے پڑا ہوا ہے اور اس کی پیٹھ کے پیچھے پھاڑے ہوئے کاغذوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، لوگوں نے جب اس سے اس کی کارکردگی کا مطالبہ کیا تو اس نے بڑے ہی غم انگیز لہجے میں کہا :کہ جب سے میں تم لوگوں سے جدا ہوا ہوں ، اسی وقت سے قرآن کریم کے مثل پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، مگر اب تک قرآن کریم کے مثل کیا، اس کی ایک آیت کے مثل پیش کرنے سے قاصر ہوں، یہ ہے قرآن کا معجزہ۔
علامہ ابن جوزی نے” الوفاء فی فضائل المصطفی”میں ایک بڑا عبرت انگیز واقعہ نقل کیاہے،لکھتےہیں کہ : ابو محمد بن مسلم نحوی ایک مرتبہ اعجاز قرآن پر گفتگو کر رہے تھے ،وہاں ایک فاضل شیخ بھی موجود تھا، اس نے کہا: کہ قرآن میں ایسی کون سی ندرت و کمال ہے ،جن سے فصحاء بلغاء عاجز آجائیں ،پھر وہ کاغذ قلم لے کر بالاخانے پر چڑھ گیا اور وعدہ کیا کہ تین دن کے بعد قرآن کریم کے مثل کچھ لکھ کر لاؤں گا۔
جب تین دن گزر گئے اور وہ نیچے نہ اترا ،تو ایک شخص بالاخانے پر چڑھا، تو اسے اس حال میں پایا کہ اس کا ہاتھ قلم پر سوکھ چکا تھا۔
بالآخر کفار کی ہر کوشش ناکام ہی ثابت ہوئی اور اللہ کا دعوی ثابت ہو کر رہا،ارشاد باری ہے:فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (البقرہ)۔
ترجمہ: اگر تم ایسا نہ کر سکو( یعنی قرآن جیسا نہ لاسکو اور تم ہرگز ایسا نہ کر سکو گے ،تو پھر اس آگ سے ڈرو ،جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ،جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
جس طریقے سے آج تک اغیار  قرآن کریم کے مثل پیش کرنے سے عاجز رہے ہیں، اسی طریقے سے وہ قرآن حکیم میں معمولی سے معمولی تحریف و ترمیم کرنے سے بھی قاصر رہے ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے اور ان میں تحریف و ترمیم کرنے کی ہمت پیدا نہیں ہوگی؛ کیوں کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود صاحب کتاب اور خالق کائنات نے اپنے ذمہ لے لی ہے، اور جس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری خود خداوندعالم اپنےذمہ لےلے کیا اس میں بھی کبھی تحریف و ترمیم واقع ہو سکتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:انانحن نزلناالذکر واناله لحافظون ۔
ترجمہ :ہم ہی نےقرآن کریم نازل کیاہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔
خالق ارض و سماءنے قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لے کر امت مسلمہ پر بڑا احسان کیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی فتنہ قرآن کے خلاف سر اٹھاتا ہے تو اس کی سرکوبی کے لیے من جانب اللہ ہر دور اور ہر زمانے میں ایسے بندگان خدا وجودِ پذیر ہو جاتے ہیں،جواس فتنے کا سد باب کے لئے ہمہ وقت مستعدرہتےہیں۔

صاحب مضمون کی گذشتہ نگارش : عقیدۂ ختم نبوت پر ایک نظر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے