بٹوارہ

بٹوارہ


تنویر احمد تما پوری، ریاض

پو پھٹ رہی تھی۔ آس پاس کے پیڑوں پر پرندے اپنے رب کی حمدوثنا میں مشغول تھے۔ سورج کی نو زائیدہ نرم کرنیں وہاں ریشمی سائبان بنارہی تھیں۔میرا اسپتال قلب شہر میں ہونے کے باوجود کافی پرسکون جگہ کہلا سکتا تھا۔ شاید اس لئے کے یہ کافی بڑے علاقے پر پھیلا ہوا تھا۔ اندر ہی اندر رہائشی عمارتیں، اسکول اور باغات تک موجود تھے۔
میرے کیبن کا عقبی دروازہ ایک برآمدے میں کھلتا ہے۔ یہ اصل عمارت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنے الگ ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے۔پچھلی ذیلی سڑک سے منسلک ہونے کے سبب یہاں ہمیشہ معمول کا بھیڑ بھڑکا نہیں ہوتا۔ شاید بائیں سمت ملحقہ مردہ خانے کی اداسی ہے،جو چوبیسوں گھنٹے ایک یاسیت اور تعزیت، فضا میں نشر کرتی رہتی ہے۔ دن کے وقت اسٹاف، مریض اور ایمبولینس کی آوا جاہی کچھ غنیمت رہتی ہے۔مگر صبح کے ان اولین ساعتوں میں یہاں شور شرابہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ نائٹ شفٹ میں نیند کا الٹا پیٹرن، تھکاوٹ اور کسل مندی کوبڑھاتاہے۔ سر کا بھاری ہونا، آنکھوں کا جلنا، زبان پر جمی کھرنڈ طبیعت کو مکدر سی کردیتی ہے۔ میں اس وقت ایمرجنسی وارڈ کا انچارج ڈاکٹر تھا۔ رات کی تھکاوٹ اور بیزاری کو بھگانے کے لئے منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ضروری تھے۔ بھاپ اڑاتی ہوئی چائے کا ایک کپ تھکے تھکائے دماغ کے فارمیٹ کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ساتھ میں ادرک کا تڑکہ ہو تو پورا سافٹ ویر ہی بدل جاتاہے۔ چائے نے میری طبیعت کسی قدر بحال کردی۔ وارڈ میں معمول کا ایک چکر میرا آج کا آخری ٹاسک تھا۔ سب کچھ قابو میں تھا۔ ڈیوٹی نرس سے ضروری معلومات کا تبادلہ۔مریضوں کا مارننگ چیک اپ۔ دواؤں کا انتخاب۔ کچھ ایک کے عزیز و اقارب سے ملاقات اور تسلی۔ روزمرہ کے معمولات سے فارغ ہوکر واپس اپنے کیبن میں پہنچا تو ٹیبل پر صبح کا اخبارمیرا منتظرتھا۔
مطالعے کے میرے انہماک کو توڑنے والی ایمبولینس کی آوازتھی جودیکھتے ہی دیکھتے برآمدے تک پہنچ گئی۔ شاید کوئی ناگہانی صورت حال تھی۔ میں مستعد ہوکر واپس وارڈ کی طرف لپکا۔ شہر کے مشرقی حصے میں کوئی حادثہ ہوگیا تھا۔ تین زخمی تھے۔ دو کو معمولی چوٹ تھی۔ نرس کو ابتدائی مرہم پٹی کا کہہ کرمیں تیسرے کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کا ایک ہاتھ زیادہ متاثر ہوچکا تھا۔ شاید ہڈی کو نقصان بھی پہنچا ہو۔فرسٹ ایڈ کے طور پر پین کلر اور عارضی پٹیوں کے بعد ایکس رے اور ایم، آر۔ آئی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ مریض کی حالت نازک تھی تا ہم بر وقت اسپتال تک رسائی نے نقصان کے خطرے کو کافی کم کردیا تھا۔ میری شفٹ ختم ہورہی تھی۔ ڈاکٹر ہونے کے ناطے اس طرح کے حالات میرے لئے حیرت ناک نہیں تھے۔تاہم ان دوستوں کی خدائی فوجدار ی میرے لئے متحیر کن ضرور تھی۔ جو اس بار بھی زخمیوں کوبر وقت یہاں تک پہچانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔
قدرت بعض لوگوں کو کسی مخصوص کام کے لئے منتخب کرتی ہے۔میرے یہ بچپن کے دوست بھی اسی خاص گروپ سے متعلق تھے۔ پہلا بشارت احمد،بچپن سے سمارٹ تھا۔ مثبت سوچ اور پڑھا لکھا۔ کالج کے بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہوا۔ خودکے ساتھ کمپنی کی ترقی کو بھی پر لگ گئے۔ چھے ہندسی تنخواہ کا حق دار ہوا تو چار ہندسے خدمت خلق کے لئے اٹھا رکھے۔ دوسرا دوست باقرمرزا ایک کاروبار ی جوان تھا۔ تجارتی سوجھ بوجھ کا ماہر۔ جو کہتا اس کو جینے کی کوشش کرتا۔ خود بھی کائیاں تھا۔ کاروبار میں ترقی رہی۔عوامی فلاح و بہبودکے لئے اس نے آمدنی کا ایک بڑا حصہ مختص کردیا۔ تیسرا دوست سلیم صدیقی غریب طبقے کا ایک عام نوجوان تھا۔ کچھ باپ کی کوشش۔ کچھ سرکار ی مدد۔ جوں توں کرکے ڈگری تو مل گئی۔مگر اچھی کمائی کے لئے خلیجی بے ساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ آج چھے سال سے ریال کی کمائی جاری تھی۔ نہ والدین کو کمی محسوس ہونے دی نہ اپنے دوستوں کے عظیم مقصد کو نظر انداز کیا۔یہ تینوں بچپن کے دوست، کلاس فیلو اور پڑوسی تھے۔ کھاتے پیتے اور رہتے بھی ساتھ ہی تھے۔ لڑنا جھگڑنا بھی ساتھ ہی رہا۔ مظلوم اور پریشان حال لوگوں کی امداد ہی ان کا نصب العین تھا۔ ایکسیڈنٹ، فساد، یا پھر قدرتی آفات ہر افتاد کے سامنے سینہ سپر رہتے۔ان کا ساتھ سلیم کے خلیج جانے پر بھی نہیں چھوٹا۔ اس بیچ اپنی جاب کی وجہ سے میں البتہ رحمت نگر سے یہاں سرکاری کوارٹر میں شفٹ ہوگیا۔ تاہم ان کی خبر مجھے ملتی رہتی تھی۔
زمانہ سرپٹ بھاگ رہاتھا۔ واردات اور طریقہ واردات کیوں پیچھے رہتے۔ ٹیسٹ اور ون ڈے سے ہوتا ہوا اب یہ کھیل ٹونٹی ٹونٹی تک پہنچ چکا تھا۔ فاسٹ فوڈ کے اس دور میں دنگا فساد نے بھی اپنے انداز بدل لئے تھے۔ اب ماب لنچنگ اور گینگ ریپ کے بھیس میں تانڈو ہورہے تھے۔ تاہم زخموں پر مرہم لگانے کے متوازی کارخانے بھی چل رہے تھے۔اور یہ باقر، بشارت اور سلیم جیسے سر پھروں کے مرہون منت تھے۔
دیش بدل رہاتھا۔ سیا سست کے داو پیچ بھی بدل رہے تھے۔ نئے دور کے نئے راوی نے کچھ الگ ہی تیور اپنا رکھے تھے۔فلمی ہیرو کی خودکشی بھی ملک بھر میں فسادات کا پٹارہ کھول سکتی تھی۔ اس نئے سچ کے پرانے دنگوں میں مہلوکین کا گراف مہنگائی کی مانند اوپر ہی اوپر جارہا تھا۔ آسرا دینا، جان بچانا اور عزت کی حفاظت کرنا ان کا اختصاص تھا۔میں نہ صرف ان کے کارنامے سن رہاتھا بلکہ دیکھ بھی رہا تھا۔ کبھی شادگنج میں جھلسے ہوئے امام کا علاج کروانے میں مشغول تو کبھی شانتی نگر کے زخمی پجاری کی مرہم پٹی میں لگے ہوئے تھے۔ رات کا پہلا پہر تھا۔میری ڈیوٹی کی شروعات تھی۔ سلیم کا فون آیا۔ اس کی آواز ڈوب رہی تھی۔ جان کنی کے انداز میں وہ مجھے مدد کے لئے بلا رہا تھا۔وہ وطن پہنچتے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ خدمت خلق میں جٹ چکا تھا۔ کافی سراسیمہ لگ رہا تھا۔ شہر میں دنگے اپنے شباب پر تھے۔ ایسی حالتوں میں میرا اسپتال چھوڑ کر باہر جانا مصلحت کے خلاف تھا۔ مگر مصلحت اور ضمیر کے بیچ کبھی بنی بھی نہیں تھی۔ ایک نرس اور چوکی دار کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔خبروں کے مطابق ان تینوں کو ان کی گاڑی سمیت جلایا گیا تھا۔سڑکوں پر سائرن اور سرکاری بوٹ دھمک پیدا کررہے تھے۔ راستوں کے دونوں جانب جلے ہوئے دکان اورمکان ماتم کناں اور متحیر کھڑے تھے۔ چاروں طرف پھیلے دھوئیں کے بیچ جابجا جلی ہوئی گاڑیاں کسی ہالی ووڈ کے فلمی سیٹ کے مشابہ لگ رہی تھیں۔ رحمت نگر ناکے پر مجھے دور ہی سے باقر کی گاڑی کا جھلساہوا ڈھانچہ نظر آنے لگا۔ گاڑی سے اب بھی یہاں وہاں دھواں نکل رہاتھا۔ پاس ہی کچھ لوگ ایک گول دائرے کی شکل میں جمع کھڑے تھے۔ دائرے کے بیچوں بیچ ایک چادر پر تین جسم اوپر تلے رکھے ہوئے تھے۔ یا شاید پڑے ہوئے تھے۔ پاس کی گلیوں میں لگ رہے اللہ اکبر اور ہر ہر مہادیو کے نعرے ریڑھ کی ہڈی میں سہرن پیدا کرنے کے لئے کافی تھے۔ چادر پر پڑے کوئلے کے تینوں ڈھیر بالکل ساکت تھے۔ جلے ہوئے ان لوتھڑوں میں حیرت انگیز طور پر چہرے شناخت لائق بچے تھے۔ یہ ان لوگوں کا انجام تھا۔ جن کے بہی کھاتوں میں کئی زندگیوں کو بچانے کا ثواب درج تھا۔باقر اور بشارت کی حیرت زدہ کھلی ہوئی آنکھیں منجمد ہوچکی تھیں۔ کچھ ان کہی باتیں، کچھ ان سنی سچائیوں کا عکس وہاں پتھر بن کر قید تھا۔ لیکن سلیم کی آنکھوں میں زندگی کی رمق ابھی باقی تھی۔ وہاں ایک ڈراونی فلم تھی جو وہ پوری دنیا کو بتانا چاہتا تھا۔ اگر میں ٹیلی پیتھی کا ماہر ہوتا تو شاید وہ کہانیاں چرا لیتا۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کے ساتھ ایک امید بھی تھی۔ شاید کوئی آئے گا اورجادو کی چھڑی گھمائے گا۔ جیسے وہ گھمایا کرتے تھے۔
وہ میرے دوست تھے۔ میں اپنی ساری قابلیت، اثر و رسوخ، سرکاری طاقت اور اسٹاف کے ساتھ مل کر بھی ان کے لئے کچھ کر نہیں پایا۔ اسی فی صد جھلسے ہوئے جسم کو دوا کی نہیں دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔سلیم کی آنکھوں میں امید کی روشنی مند ہوتے ہوتے بجھنے لگی۔میری آنکھوں کی بے بسی کو شاید اس نے پڑھ لیا تھا۔یہاں الفاظ کا کوئی کام بھی نہیں تھا۔ وہ بول نہیں سکتا تھا۔ میری بولتی بند تھی۔ اس اداس سناٹے میں صرف اس کی اکھڑتی ہوئی سانسیں ہی گویا تھیں۔ میرے ہاتھوں پیا گیا پانی اس کا آخری گھونٹ ثابت ہوا۔ایک ہچکی۔۔۔ اورتخلیہ۔ زمین کی بھوک بھی کمال کی چیز ہوتی ہے۔ نہ معلوم کتنے آسمانوں کو کھاچکی تھی۔میں اپنے دوستوں کی یادوں کو تتلیوں کی صورت سنبھال کر وہاں سے اٹھا۔ جو میری ذات پر بے بسی کے گہرے رنگ چھوڑتے جارہے تھے۔
آدھی رات سے پہلے میں واپس اپنے اسپتال پہنچ چکا تھا۔ اس رات میں ڈیوٹی کے اختتام تک کافی مصروف اور مغموم رہا۔ میر ی شفٹ کا اختتام ہونے کو تھا۔ آج کی نو زائیدہ نرم دھوپ بھی سہمی سہمی سی لگ رہی تھی۔ پرندے حمدو ثنا کے بجائے عزہ داری پر لگے ہوئے تھے۔ آج پہلے جیسا سکون نہیں تھا۔ نہ اسپتال میں،نہ شہر میں، نہ دماغ میں۔ ایمرجنسی وارڈ سے لے کر مردہ گھر اور شعبہ پوسٹ مارٹم تک ہاری ہوئی فوج کا بیس کیمپ لگ رہے تھے۔ بھاپ اڑاتی چائے میں پہلے والا ذائقہ بھی نہیں تھا۔ نہ دماغ کا فارمیٹ ہوا نہ سافٹ ویر بدل سکا۔ چائے سے گرا تو اخبار میں اٹکا۔ کہیں آگ زنی تو کہیں چھرے بازی کی خبریں تھیں۔ کسی مندر پر حملہ توکسی مسجد پر پتھراو کے قصے تھے۔ آگے پڑھ نہ پایا۔ الفاظ چاقو، چھرے، بشارت، باقراور سلیم کی شکل میں گڈ مد ہوکر ناچنے لگے۔ اخبار بند کرکے میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ معمول کے میرے وارڈ کے آخری چکر سے پہلے ایک منظر نے میرے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔ وہاں اسی وقت میرے دوستوں کی لاشیں اسپتال کے کمپاونڈ میں لائی جارہی تھی۔ اب ان کی کاغذی کاروائیاں اور پوسٹ مارٹم کا سلسلہ شروع ہونے کو تھا۔ مزید رکنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔میں ٹوٹے دل اور بھاری قدموں کے ساتھ گھر کی طرف چل دیا۔ سارا دن ڈسٹرب رہا۔ نہ بیوی سے سیدھی بات ہو پائی، نہ بچے کے ساتھ کھیل پایا۔ کھانا۔۔۔۔ کھانے کو آرہا تھا۔ سونا، سونے سے زیادہ بیش قیمت ہوچکا تھا۔شام تک بستر پر پڑا اینڈھتا رہا۔
کام کا دباؤ، شہر کے حالات، ایسے میں ڈیوٹی کے اوقات بھی بڑھ چکے تھے۔ جو رات کے بجائے شام ہی سے شروع ہورہی تھی۔ مغرب کے بعد جب کام پر آیا تو تینوں دوستوں کے والدین اور عزیزوں کو پوسٹ مارٹم سینٹر کے باہر روتے ہوئے پایا۔ والدین کے لئے جوان موت سے بڑا کوئی صدمہ نہیں ہوتا۔
قسمت کا یہ رنگ بھی عجیب تھا جب تک تینوں زندہ رہے۔ ساتھ میں رہے۔ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا۔ سونا جاگنا یہاں تک کہ مرنا بھی ساتھ ہی رہا۔ لیکن پوسٹ مارٹم نے ان کی دوستی کا بھی پوسٹ مارٹم کردیا تھا۔ بشارت کے جسد خاکی کو احمدیوں کے قبرستان میں پیوند خاک کیا گیا۔باقر شیعہ شہر خاموشاں میں خاموشی سے جاکر سوگیا۔ مگرسلیم کا جنازہ سنی مقبرے میں ایک نئے تنازعے کا سبب بن رہا تھا۔ میت میں شامل ایک جماعت فاتحہ خوانی پر مصر تھی۔ تو دوسری جماعت اسے بدعت قرار دیرہی تھی۔
۔۔۔

تنویر احمد تما پوری کا پچھلا افسانہ یہاں پڑھیں:وائرس

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے