صنف‌ افسانہ اور اس کا آغاز و ارتقا

صنف‌ افسانہ اور اس کا آغاز و ارتقا


ڈاکٹر احمد علی جوہر
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو، جے، این، کالج، نہرا، دربھنگہ، بہار


اردو کی جدید نثری اصناف میں افسانہ کو ایک اہم صنف مانا گیا ہے۔ اردو میں اسے مختصرافسانہ اور کہانی بھی کہا گیا ہے۔ اپنی صنفی خصوصیات کے اعتبار سے افسانہ، داستان اور ناول سے مختلف صنف ہے۔ ناول اگر زندگی کے ایک دور کا احاطہ کرتا ہے تو افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلو یا ایک انسانی تجربے پرمبنی ہو سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک واقعے یا اس واقعے کے تاثر کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ اردو میں افسانہ کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں، مثلاََ یہ کہ افسانہ ایک ایسا نثری قصّہ ہے جس کے پڑھنے میں آدھ گھنٹہ تک کا وقت لگے یا یہ کہ افسانہ کسی شخص کی زندگی کے سب سے اہم اور دل چسپ موقع کو ڈرامائی شکل میں پیش کرنے کا نام ہے۔ ایک ناقد کا کہنا ہے کہ افسانہ کسی ایک واقعہ کا بیان ہے جس میں ابتدا ہو، درمیان ہو، عروج ہو اور خاتمہ ہو۔ افسانہ کی ایک آسان اور موزوں تعریف یہ کی گئی ہے کہ ’’افسانہ ایک ایسی نثری صنف ہے، جس میں کسی ایک واقعے یا زندگی کے کسی ایک پہلو کو کم سے کم لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ بیان کا ایسا اسلوب اختیار کیا جاتا ہے کہ دل چسپی قائم رہے اور افسانہ کا مقصد بھی واضح ہو جائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ تاثر کی وحدت ہر حال میں برقرار رہے۔ افسانہ کے بارے میں ڈاکٹر اختر اورینوی کی ر ائے ہے۔:

’’ایک اچھّا افسانہ ایک کامیاب ڈرامہ کی طرح معجزہ ہے ایجاز کا۔ باوجود اختصار کے فنّی حیثیت سے وہ ایک حُسنِ کامل ہوتا ہے اور اپنے حُسن وتکمیل کی وجہ سے ناظرین کے لیے ذہنی مسرّت کا سامان۔‘‘ (۱)

لطیف الدین احمد نے افسانہ کی تعریف یوں کی ہے۔:

’’کسی ایک واقعہ یا جذبہ کی تاریخ بیان کر دینا مختصر افسانہ ہے۔‘‘ (۲)

افسانہ کے متعلق سیّد وقارعظیم کی رائے ملاحظہ ہو۔:

’’ افسانہ کہانی میں پہلی مرتبہ وحدت کی اہمّیت کا مظہر بنا۔ کسی ایک واقعہ، ایک جذبہ، ایک احساس، ایک تاثر، ایک اصلاحی مقصد، ایک رُوحانی کیفیت کو اس طرح کہانی میں بیان کرنا کہ وہ دوسری چیزوں سے الگ نمایاں ہو کہ پڑھنے والے کے جذبات واحساسات پر اثرانداز ہو، افسانہ کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جس نے اُسے داستان اور ناول سے الگ کیا ہے۔ مختصرافسانہ میں اختصار اور ایجاز کی دوسری امتیازی خصوصیت نے اُس کے فن میں سادگی، حسنِ ترتیب وتوازن کی صفت پیداکی۔‘‘ (۳)

افسانہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے وحید اختر رقم طراز ہیں:

’’ ادب میں افسانہ اپنے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے بھی کسی حقیقی یافرضی واقعہ کا بیان ہے۔ یہ واقعہ تاریخی بھی ہو سکتا ہے، زمانی بھی، نفسیاتی واردات بھی، تاثر کا زائیدہ بھی․․․․․․․ لیکن کہانی میں واقعہ کو بہرحال اہمّیت حاصل ہوتی ہے کہ کہانی واقعہ کا بیان ہے اس لیے کہانی کا اسلوب ہمیشہ سے بیانیہ رہا ہے۔‘‘ (۴)

اس ضمن میں سعادت حسن منٹو کہتے ہیں۔:

’’ایک تاثر خواہ وہ کسی کا ہواپنے اوپر مسلّط کرکے اِس انداز سے بیان کردینا کہ وہ سُننے والے پر وہی اثر کرے، یہ افسانہ ہے۔‘‘ (۵)

راجندرسنگھ بیدی اپنے مضمون ’’افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل‘‘ میں لکھتے ہیں۔:

’’افسانے اور شعر میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ہے تو صرف اتنا کہ شعر چھوٹی بحر میں ہوتا ہے اور افسانہ ایک ایسی لمبی اور مسلسل بحر میں جو افسانے کے شروع سے لے کر آخر تک چلتی ہے۔ مبتدی اس بات کو نہیں جانتا اور افسانے کو بہ حیثیت فن شعر سے زیادہ سہل سمجھتا ہے۔ پھر شعر، فی الخصوص غزل میں آپ عورت سے مخاطب ہیں، لیکن افسانے میں کوئی ایسی قباحت نہیں۔ آپ مرد سے بات کر رہے ہیں، اس لیے زبان کااتنا رکھ رکھاؤ نہیں۔ غزل کا شعر کسی کُھردرے پن کا متحمل نہیں ہو سکتا، لیکن افسانہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ نثری نژاد ہونے کی وجہ سے اس میں کُھردراپن ہونا ہی چاہیے، جس سے وہ شعر سے ممیّز ہو سکے۔‘‘ (۶)

سلام بن رزاق افسانے کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔:

’’میرے نزدیک ایک عمدہ افسانے کی تعریف یہی ہے کہ جسے پڑھنے کے بعد قاری وہ نہ رہے جو پڑھنے سے قبل تھا۔ ایک اچھاشعر، عمدہ افسانہ ایک بلند پایہ ناول ہمیں مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی کی تہذیب کرتا ہے اور ہماری پراگندہ سوچ کے دھارے کو زندگی کے بیکراں سمندر سے جوڑدیتا ہے۔ نیز جس کے مطالعے کے بعد زندگی ہمیں زیادہ بامعنی اور بامقصد لگنے لگتی ہے۔ اگر افسانہ اس کسوٹی پر کھرا نہیں اُترتا تو پھر وہ افسانہ نہیں محض الفاظ کا ڈھیر ہے۔‘‘ (۷)

افسانہ کی درج بالا مختلف تعریفوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ افسانہ مختصر نثری بیانیہ صنف ہے جس میں زندگی کے کسی ایک گوشہ یا کسی ایک پہلو یا کسی ایک واقعہ کو موثر انداز میں بیان کیا جاتا ہے اور جو قاری کو مسرّت وانبساط کے ساتھ ساتھ بصیرت بھی عطا کرتا ہے۔ افسانہ کو موثر بنانے کے لیے افسانہ نگار کو افسانہ کے فنّی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، تکنیک، جزئیات، منظرنگاری اور زبان واسلوب پر بطور خاص توجّہ دینی ہوتی ہے۔

پلاٹ:

کہانی میں انسانی زندگی سے متعلق جو واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان ہی واقعات کی فنّی ترتیب کو افسانہ نگاری کی اصطلاح میں پلاٹ کہتے ہیں۔ اس فنّی ترتیب میں کہانی کے آغاز، وسط اور انجام کے درمیان منطقی ربط وتسلسل شامل ہے۔ ایسی ہی کہانی قاری کے ذہن پر ایک واحد تاثر چھوڑتی ہے۔

کردارنگاری:

افسانے کے فن میں کردارنگاری کو بڑااہم جُز مانا گیا ہے۔ افسانہ کا براہ راست تعلق انسانی زندگی سے ہے۔ انسانی زندگی کے کسی گوشہ یا کسی پہلو کوکہانی میں کرداروں کے توسط سے پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہانی میں کردارنگاری مقصد نہیں ذریعہ ہے۔ کہانی میں کردار کے سہارے ہی قصّہ آگے بڑھتا ہے اور انجام کو پہنچتا ہے۔ کردار ناول میں بھی ہوتے ہیں مگر افسانہ اور ناول دونوں کی کردارنگاری میں فرق ہے۔ ناول میں کرداروں کی پوری زندگی یا اس کی مجموعی حیثیت کو پیش کیا جاتا ہے جب کہ کہانی میں کردار کی محض ایک جھلک نظر آتی ہے یا اس کے کسی ایک رُخ یا ایک پہلو پہ روشنی ڈالی جاتی ہے۔ بعض کردار مثالی ہوتے ہیں یعنی وہ شروع سے آخر تک نیک ہوتے ہیں یا بد ہوتے ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے کمزور اور معیوب سمجھے جاتے ہیں۔ بعض کردار پے چیدہ ہوتے ہیں یعنی انسان کی طرح ان میں بھی خیرو شرکے پہلو ہوتے ہیں اور ان میں مختلف طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ایسے کردار فنّی اعتبار سے مستحسن تسلیم کیے جاتے ہیں۔ کردار جتنے فطری اور حقیقی ہوں گے، وہ اتنا ہی قاری کے ذہن پر اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ایسی کردارنگاری کو فن کا عمدہ نمونہ مانا جاتا ہے۔ جیسے پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کے کردار مادھو، گھیسو اور بدھیا اورسعادت حسن منٹو، راجندرسنگھ بیدی، کرشن چندر، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کے بعض افسانوں کے کردار قاری کے ذہن ودماغ میں رچ بس گئے ہیں اور بُھلائے نہیں بھولتے۔ بعض افسانوں میں کردار، اس کی شخصیت اور اس کی زندگی کے کسی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی جاتی ہے کہ کردار مرکزِتوجّہ بن جاتا ہے۔ ایسے افسانوں کو کرداری افسانہ کہا جاتا ہے۔ کردار بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں، جیسے حقیقی کردار، علامتی کردار اور تمثیلی کردار، بہتر کردار وہ ہے جو قاری کواپنی طرف متوجہ کرلے اور اس کے دل میں اپنا انمٹ نقوش چھوڑ جائے۔

مکالمے:

کرداروں کے درمیان کی آپسی گفتگو اور ان کی زبان سے جو باتیں کہلوائی جاتی ہیں، انھیں مکالمہ (Dialogue) کہا جاتا ہے۔ بہتر مکالمے وہ ہیں جو مختصر اور برجستہ ہوں اور کرداروں کی ذہنی سطح کے مطابق اور ان کی اپنی زبان میں ہوں۔ اور کرداروں کی داخلی وخارجی شخصیت اور ان کی نفسیات کے عکّاس ہوں۔ ایسے مکالمے موزوں ومناسب اور فطری وحقیقی سمجھے جاتے ہیں جو فنّی اعتبار سے کہانی کو استحکام بخشتے ہیں ۔

تکنیک:

افسانہ کی تشکیل وتعمیرمیں تکنیک ایک اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کے متعلق ممتاز شیریں اپنے ایک مضمون میں یوں رقم طراز ہیں:۔

’’تکنیک کی صحیح تعریف ذرا مشکل ہے۔ تکنیک مواد، اسلوب اور ہیئت سے ایک علیٰحدہ صنف ہے۔ ۔۔۔ فنکار مواد کو اسلوب سے ہم آہنگ کرکے اُسے ایک مخصوص طریقے سے متشکل کرتا ہے۔ افسانے کی تعمیر میں جس طریقہ سے مواد ڈھلتا ہے وہی ’’تکنیک‘‘ ہے۔۔۔۔ اور آخر میں جو شکل پیدا ہوتی ہے اسے ’’ہیئت ‘‘ کہتے ہیں اور جو چیز بنتی ہے وہ ’’افسانہ‘‘۔ ہیئت اور افسانہ میں یہ فرق ہے کہ ہیئت مکمّل شکل ہے اور افسانہ مکمّل چیز۔۔۔۔ صرف اچھّا مواد یا اچھّی تکنیک کسی افسانے کو اچھّا نہیں بنا سکتی۔ کامیاب فنکار ہر طرح کے موضوع سے ایک اچھّا افسانہ تخلیق کر سکتا ہے۔‘‘ (۸)

افسانہ کی کوئی متعیّن اور واجب العمل تکنیک نہیں ہے نہ ہی اس کے کوئی مدارج مقرر کئے جاسکتے ہیں کہ کون سی تکنیک بہترین ہے اور کون سی کم تر۔ تکنیکی معیار ایک نہیں ہو سکتا۔ ہر موضوع اورہر مواد کے لیے الگ تکنیک کی ضرورت ہے۔ ایک خاص مواد ایک خاص تکنیک کے استعمال سے زیادہ پُراثر ہوجاتا ہے۔ اس کا استعمال مجموعی تاثر پیدا کرنے یا اُس کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گویا تکنیک مقصد نہیں بلکہ وسیلہ ہے۔ اُس کی حیثیت ثانوی اور ضمنی ہے۔ کسی مخصوص تکنیک کی پابندی کے لیے ایک خاص قسم کی فنّی بصیرت درکار ہے جس کی مدد سے فن کار اپنی کہانی کو اچھّے تخلیقی ادب کانمونہ بنا سکتا ہے۔

جُزئیات نگاری:

افسانے کے فن میں جُزئیات نگاری کو بھی ایک اہم عنصر کے طور پر تسلیم کیا گیاہے۔ جُزئیات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نہ اتنی طویل ہو کہ افسانہ میں ثقالت اور بوجھل پن کا احساس ہو اور نہ اتنی مختصر ہو کہ افسانہ کی مخصوص فضا بھی نمایاں نہ ہو سکے۔ بہتر جُزئیات وہ ہے جو نہ زیادہ طویل ہو اور نہ زیادہ مختصر، بلکہ موزوں ہو اور جس سے کہانی کی مخصوص فضا کو نمایاں کرنے میں مدد ملے یا جس سے کردار کے کسی پہلو یاکہانی کی تھیم پر روشنی ڈالی جا سکے۔ یعنی جُزئیات فضول نہ ہو بلکہ اس کا براہ راست تعلق کہانی سے ہو۔ ایسی جُزئیات نگاری فنّی اعتبار سے اچھی سمجھی جاتی ہے اور اس سے کہانی فنّی طور پر سجتی، سنورتی اور نکھرتی ہے۔

منظرنگاری:

افسانہ میں جب کوئی واقعہ بیان کیا جاتا ہے تو اس واقعہ سے متعلق کسی اہم منظر (Scene) کو بیان کیا جاتا ہے تاکہ افسانہ میں بیان کردہ واقعہ کو اس کے تمام تر پہلوؤں کے ساتھ اُجاگر کیا جاسکے۔ منظرنگاری سے کہانی میں کئی طرح کی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں جیسے دل چسپی، سحرکاری، واقعہ کا موثر ہونا اوراس کے پس منظر کا نمایاں ہونا وغیرہ۔ اس لیے کہانی میں منظر نگاری کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ یہ بات دھیان میں رکھنے کی ہے کہ منظرنگاری میں نہ بے جا طوالت ہو، نہ غیر معمولی اختصار، بلکہ ایسی منظرنگاری ہو جو کہانی کی فضا اور تھیم کو اُبھارنے اور کہانی کو موثر بنانے میں مدد کرے۔

نقطۂ نظر:

نقطۂ نظر ادب کی ہر صنف کے لیے ضروری ہے کیوں کہ فن کار کی شخصیت کا پورا اظہار ان کے نقطۂ نظر کے ذریعے ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کا نقطۂ نظر اس کے افسانوں پر اپنا عکس ڈالتا ہے کیوں کہ اس کا تعلق افسانے کے مرکزی خیال سے ہوتا ہے اور یہی افسانہ لکھنے کا محرّک بھی بنتا ہے۔ افسانہ نگار اپنی جو بات کہنا چاہتا ہے اس کے لیے وہ ایک پلاٹ بناتا ہے گویا افسانے کے موادکی بنیاد افسانہ نگار کے نقطۂ نظر پر ہوتی ہے۔ نقطۂ نظر ہی ان کے کرداروں کی تشکیل کرتا ہے۔ نقطۂ نظر کو افسانہ میں اتنا حاوی نہیں ہونے دینا چاہیے کہ فن مجروح ہونے لگے بلکہ صرف اس کا عکس افسانہ میں محسوس کیا جانا چاہیے۔

ماحول و فضا:

افسانہ میں ماحول وفضا کی ایک خاص اہمیت ہے۔ افسانہ میں ایک خاص ماحول وفضا کو پیش کیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس ماحول وفضا اور پس منظر کو نمایاں کیاجائے۔ اس کے لیے جُزئیات اور منظرنگاری کا سہارا لیاجاتاہے۔ جس افسانہ میں پیش کردہ واقعہ کے ماحول وفضا اور پس منظر کو اس طرح اُبھارا جائے کہ قاری اس میں اپنی شرکت محسوس کرے اور اس میں رچ بس جائے، وہ افسانہ فنّی طور پر کامیاب سمجھاجاتا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو افسانہ کے فنّی طور پر کمزور ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔

زبان وبیان:

افسانہ نثری صنف سخن ہے۔ اس لیے اس کی زبان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نثری ہو نہ کہ شاعرانہ۔ افسانہ کی زبان کو مسجّع ومقفّیٰ اور انشائیہ نما اُسلوب سے پاک اور صاف ستھری نثر ہونی چاہیے۔ افسانہ میں کرداروں کے مکالموں میں علاقائی بولی ٹھولی، محاوروں، کہاوتوں اور ضرب المثل وغیرہ کا آنا فطری ہے۔ افسانہ کی زبان کو موضوع ومواد اور کردار کی اپنی سطح کے مطابق ہونا چاہیے۔ کہانی میں زبان جتنی موثر ہوگی، کہانی بھی اتنی ہی موثر ہوگی۔

اسلوب:

افسانے میں اُسلوب کی بھی بڑی اہمّیت ہے۔ اسلوب کسے کہتے ہیں؟ اس ضمن میں ممتاز شیریں لکھتی ہیں:۔

’’ایک برتن بنانے کے لیے سب سے پہلے مٹی کی ضرورت ہے۔ اسے ’’خام مواد‘‘ سمجھ لیجیے۔ پھر اس میں رنگ ملایا جائے گا۔ یہ ’’اسلوب‘‘ ہے۔‘‘ (۹)

ممتاز شیریں کے اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ مواد میں رنگ بھرنے کا نام اسلوب ہے۔ جس طرح رنگ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، اسی طرح اسالیب بھی مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ ہر فن کار کا اپنا ایک اسلوب ہوتا ہے جو اُسے دوسرے فن کاروں سے الگ کرتا ہے۔ کسی فن کار کی اِنفرادیت کو پہچاننے، پرکھنے یا یہ پتہ لگانے کے لیے کہ اُس میں اِنفرادیت ہے بھی یا نہیں، اس کے اسلوب کا جائزہ لیا جاتا ہے اور کسی فن پارہ کی قدرو قیمت مُتعیّن کرنے کے لیے اُس کے اسلوب کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ اسلوب یا اسٹائیل محض موضوع کی زیب وزینت یا آرائش نہیں بلکہ ایک وسیلہ ہے جو موضوع یا مضمون کو فن میں تبدیل کرتا ہے۔ اس لیے ایک فن کار کے لیے طریقہ اظہار سے واقف ہونا اور اظہار کے مختلف پیرایوں پر عُبور حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہ فنّی صلاحیت ہوتی ہے جو کہیں تو خداداد ہوتی ہے اور کہیں اکتساب کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے۔ دونوں صورتوں میں فن کار کے لیے مطالعہ، مشاہدہ اور تجربہ تینوں بہت ضروری ہیں۔ افسانہ کے مختلف اسالیب ہوتے ہیں جیسے سادہ، پے چیدہ، رنگین، حکایتی، داستانی، تمثیلی اور حقیقت پسندانہ اسالیب وغیرہ۔ بہتر اسلوب وہ ہے جو موضوع ومواد سے پوری طرح ہم آہنگ ہوکر کہانی میں ایسی کشش پیدا کرے جو قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلے۔

موضوع:

افسانہ کا اپنا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔ دنیا اور انسانی زندگی سے متعلق کوئی بھی واقعہ، جذبہ، احساس، تجربہ، مشاہدہ اس کا موضوع بن سکتا ہے۔ گویا انسانی زندگی جتنی وسیع ہے اتنی ہی وسعت افسانہ کے موضوعات میں پائی جاتی ہے جو زندگی کے سچّے، حقیقی اور فطری مُرقعے پیش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد زندگی کی وسعتوں میں سمٹی ہوئی تمام موجودات کی تشریح، وضاحت، ان کا تجزیہ، توجیہہ وتعلیل پیش کرنا ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں کے مشاہدات وتجربات سمیٹے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انفرادی واجتماعی زندگی کی تصویرکشی کی جاتی ہے۔ کسی بھی موضوع کو افسانہ کے سانچہ میں ڈھالنے کے بعد تخلیق کار اسے کوئی خوب صورت اور موزوں نام دینا چاہتا ہے۔ اکثر اوقات سُرخی کے ذریعہ افسانہ کے مرکزی خیال ومقصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ موقعہ ومحل کے مطابق ہی موزوں اور مختصر سُرخیاں رکھی جانی چاہئیں۔

افسانہ کے بارے میں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہیے کہ اُردو زبان میں یہ صنف مغربی ادب کی دین ہے۔ اس صنف کی ابتدا سب سے پہلے امریکہ میں انیسویں صدی میں ہوئی۔ وہیں سب سے پہلے اس نے ادبی حیثیت پائی۔ اس فن کی بنیاد ۱۸۱۹ء میں واشنگٹن ارونگ کی ’’اسکیچ بُک‘‘ سے پڑی۔ اس کے بعد مختصرافسانہ کی تاریخ میں دوسرا اہم نام نیتھینیل ہاتھارن ۱۸۰۴ء تا ۱۸۶۴ء کا ہے۔ اس نے ایسی کہانیاں لکھیں جو تمثیلی پس منظر میں ایک واحد سچویشن کے گرد گھومتی تھیں۔ اُس نے مختصر افسانہ کو ایک سنجیدہ فن کی شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کیا۔

اَرونگ اور ہاتھارن کے بعدمختصرافسانہ کی تاریخ میں انتہائی معتبرنام ایڈگرایلن پو (۱۸۰۹ء تا ۱۸۴۹ء) کا آتا ہے۔ اس کو جدید مختصرافسانہ کا سب سے پہلا اور بڑا اُستاد مانا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مختصرافسانہ کا تجزیہ کرکے اُس کے لوازم متعیّن کیے تھے۔

پو کی کہانیوں نے دیگر ممالک کے افسانوں پر خصوصاََ فرانس کی کہانیوں پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ فرانس کا عظیم افسانہ نگار موپاساں (۱۸۵۰ء تا۱۸۹۳ء) پو سے بہت متاثر ہوا اور تکنیکی اعتبار سے کہانی کو ایک نیا موڑدیا۔ مختصرافسانہ کی ترقی میں رڈیارڈکپلنگ (۱۸۶۵ء تا۱۹۳۶ء) اور امریکی افسانہ نگار او۔ہنری اور ولیم سڈنی پورٹر نے بھی اہم کردار اداکیاہے۔ مختصرافسانہ کو ایک خوب صورت شکل میں ڈھالنے میں رُوسی افسانہ نگاروں خصوصاََ چیخوف (۱۸۶۰ء تا ۱۹۰۴ء) اور کیوپریون نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ کیوپریون کی کہانی ”Captain Ribnekov” دنیا کی مختلف زبانوں کی بہترین کہانیوں میں سے ایک مانی جاتی ہے۔

مذکورہ افسانہ نگاروں کے علاوہ مغرب میں مختصر افسانہ کو فروغ دینے اور اسے نئے موضوعات واسالیب اور نئی جہات سے آشنا کرنے اور نیا رُخ دینے میں جن افسانہ نگاروں نے حصّہ لیا، ان میں سامرسٹ ماہم (۱۸۷۴ء تا۱۹۶۵ء) اور جیمس جوائس (۱۸۸۲ء تا ۱۹۴۱ء) وغیرہ کانام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ ان مغربی فن کاروں کی افسانوی تحریروں نے پوری دنیا کی زبان وادب پر ہمہ گیر اثر ڈالااور اب ان زبانوں میں بھی مختصرافسانے لکھے جانے لگے جن میں اب تک افسانے نہیں لکھے گئے تھے۔

اردوزبان میں بھی مختصرافسانہ مغربی ادب کے راستہ سے آیا۔ اردو میں افسانہ کا آغاز سجاد حیدر یلدرم اور پریم چند کی افسانوی تحریروں سے ہوا۔ ان دونوں میں اردو کا اوّلین افسانہ نگار کون ہے؟ اس سلسلے میں ناقدین کی مختلف آراء ہیں۔ بعض نے سجاد حیدر یلدرم کو اردو کا پہلا افسانہ نگار تسلیم کیاہے کیوں کہ یلدرم کا پہلا افسانہ ’’نشہ کی پہلی ترنگ‘‘ ، ’’معارف‘‘ علی گڑھ میں ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا جب کہ پریم چند کا پہلا افسانہ ’’دنیاکا سب سے انمول رتن‘‘ ، ’’زمانہ‘‘ کانپور میں ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا۔ بعض ناقدین کا خیال ہے کہ پریم چند اُردو کا پہلا افسانہ نگارہے کیوں کہ اس کی افسانوی تحریریں افسانہ کے فن پر پوری اُترتی ہیں۔ بہرحال اُردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے؟ اس بحث سے قطع نظر، یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ اُردو میں صنف ِافسانہ کوسب سے پہلے پریم چند ہی کی افسانوی تحریروں سے استناد حاصل ہوا۔ دراصل پریم چند نے جو زندگی نزدیک سے دیکھی تھی، اسی سے اپنی کہانیوں کے موضوعات کا انتخاب کیا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ گاؤں، دیہات، غریب کسان اور مزدوروں کے مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ ان ہی کی بدولت اردوافسانہ ایک نئے رُخ سے آشنا ہوا اور اسے ایک نئی سمت ملی۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کی بنیاد اصلاح وحقیقت پسندی پر رکھی ۔ اس کے برعکس سجاد حیدریلدرم نے رومانی اور تخئیلی افسانے لکھے۔ اس لیے اردو کے ابتدائی دور کے افسانوں میں ہمیں دو رجحان نظر آتے ہیں۔ (۱) اصلاح و حقیقت پسندی کا رجحان، (۲) رومانیت و تخیل پرستی کا رجحان۔ اول الذکر رجحان کے سرخیل پریم چند ہیں۔ پریم چند کے بعد اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں سدرشن، اعظم کریوی، سہیل عظیم آبادی اور علی عبّاس حسینی وغیرہ کے نام ایک خاص اہمّیت کے حامل ہیں۔ رومانیت وتخیّلی میلان کی قیادت سجاد حیدر یلدرم نے کی۔ اس رجحان سے متاثر ہونے والوں میں نیاز فتح پوری، سلطان حیدر جوش اور مجنوں گورکھپوری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

اردوافسانہ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ۱۹۳۲ء میں ’’انگارے‘‘ کی اشاعت عمل میں آئی۔ یہ دس افسانوں کا مجموعہ تھا۔ پانچ سجاد ظہیر کے، دو رشید جہاں کے، دو احمد علی اور ایک محمود الظفرکا۔ اس مجموعہ کے افسانوں میں قدیم سماج، مذہب اور اخلاقی اقدار کی دھجّیاں اُڑائی گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مجموعہ اشاعت ہوتے ہی فوراََ ضبط کر لیاگیا، مگر اس مجموعہ نے اردوافسانہ میں ترقی پسندی کی داغ بیل ڈال دی۔ اردوافسانہ میں پریم چند کے ’’کفن‘‘ جیسے شاہ کار افسانہ کی اشاعت نے بھی اردوافسانہ کو ایک نیا راستہ (ترقی پسندی کا راستہ ) دکھایا۔ اردوافسانہ کا سب سے سنہرا دور اس وقت آیا جب ۱۹۳۶ء میں اردوادب میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد پڑی۔ اس تحریک کے زیراثر سب سے زیادہ صنف افسانہ کا فروغ ہوا۔ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عبّاس اور حیات اللہ انصاری وغیرہ نے اس تحریک سے متاثر ہوکر اپنے افسانوں میں سماجی الجھنوں، معاشی تلخیوں اور سیاسی طور کے مختلف پہلوؤں کی بے لاگ مصوّری کی اور ایسے شاہ کار افسانے تخلیق کیے کہ اردوافسانہ کا قد انتہائی بلند نظر آنے لگا۔ ترقی پسند تحریک اپنے عروج ہی پر تھی کہ ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کا سانحہ پیش آیا۔ اس سے ترقی پسند تحریک کو بڑادھچکا لگا۔ اس سانحہ (تقسیم ہند) پر بہت سے افسانے لکھے گئے جن میں بعض اچھّے افسانے بھی ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں بظاہر آزادی تو مل گئی لیکن تقسیم ہند کے واقعہ نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب کو بھی متاثر کیا۔ اب آزادی کے بعد ترقی پسند تحریک رفتہ رفتہ زوال پذیر ہوگئی اور ۶۰۔۱۹۵۵ء کے آس پاس جدیدیت کے رجحان کا آغاز ہوا۔ اس رجحان کے زیراثر علامتی، تمثیلی اور تجریدی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اس رجحان کے زیراثر صنف افسانہ کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ اس رجحان کے زیراثر دوطرح کے لکھنے والے تھے۔ ایک شدّت پسند جدید افسانہ نگار اور دوسرے غیرشدّت پسند یا جدید ترقی پسند افسانہ نگار۔ اوّل الذکر صف میں انورسجّاد، بلراج مین را، سریندر پرکاش، انور عظیم اور رشید امجد اور اس جیسے افسانہ نگار آتے ہیں اور ثانی الذکر صف میں رام لعل، اقبال متین، رتن سنگھ، قاضی عبدالستار، اقبال مجید اور اس طرح کے افسانہ نگاروں کا شمار ہوتا ہے۔ ۸۰۔۱۹۷۵ء تک آتے آتے جدیدیت کا رجحان بھی زوال پذیر ہوا اور ادب میں مابعدجدیدیت ایک رجحان کے طور پر سامنے آئی۔ اب ۱۹۸۰ء کے بعد کہانی میں پھر سے افسانوی لوازم پلاٹ، کردار، مکالمہ، کہانی پن اور جُزئیات وغیرہ پہ بہ طور خاص توجّہ دی جانے لگی اور نئے سماجی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کو موضوع بناکر کہانیاں لکھی جانے لگیں اور کہانیوں میں سماج کی بھرپور عکّاسی کی جانے لگی۔ ۱۹۸۰ء کے بعد سے تاحال جن افسانہ نگاروں نے اردوافسانہ کو نئی جہات سے ہم کنار کرنے اور اس کے ارتقا میں نمایاں حصّہ لیاہے، ان میں سلام بن رزّاق، ساجد رشید، حسین الحق، شفق، عبدالصمد، علی امام نقوی، حمید سہروردی، بیگ احساس، ذکیہ مشہدی، ترنم ریاض، ثروت خاں، شائستہ فاخری، شموئل احمد، شوکت حیات، شفیع جاوید، طارق چھتاری، معین الدین جینابڑے، پیغام آفاقی اور مشرف عالم ذوقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان افسانہ نگاروں نے اپنی افسانوی تحریروں سے اردوافسانہ کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں اور بعض اب بھی دے رہے ہیں۔ صنفِ افسانہ کے عہد بہ عہد ارتقا اور اس کی موجودہ صورت حال کو دیکھ کر یہ کہنا بجا ہوگا کہ صنفِ افسانہ اردونثر کی آبرو ہے۔



حوالے

(۱) اختر اورینوی ’’تحقیق و تنقید‘‘ پٹنہ، ص،۱۳۔

(۲) لطیف الدین احمد ’’فن مختصر افسانہ‘‘ ساقی، سالنامہ، لاہور، ۱۹۳۸ء، ص، ۲۸۔

(۳) وقار عظیم ’’داستان سے افسانے تک‘‘ کراچی، ۱۹۶۰ء، ص،۱۶

(۴) وحیداختر’’الفاظ‘‘ افسانہ نمبر، علی گڑھ، ۱۹۸۱ء، ص،۲۱۔

(۵) محمد طفیل، نقوش، (سمپوزیم) افسانہ نمبر، ۱۹۵۲ء، ص، ۴۶۸۔

(۶) راجندرسنگھ بیدی، افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل، مشمولہ، اردوافسانہ روایت اور مسائل، مرتبہ، گوپی چند نارنگ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۰۸ء، ص،۳۱۔

(۷) سلام بن رزاق، فکروتحقیق، نیاافسانہ نمبر، شمارہ: ۴، جلد:۱۶، اکتوبر تا دسمبر۲۰۱۳ء،

ص،۶۳۹،۶۳۸۔

(۸) ممتاز شیریں، ’’تکنیک کاتنوع ناول اور افسانہ میں‘‘ ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص، ۱۷۔

(۹) ممتاز شیریں، تکنیک کاتنوع ناول اور افسانہ میں، ’’معیار‘‘ لاہور، ۱۹۶۳ء، ص،۱۸۔

***

مقالہ نگار کا تعارفی خاکہ :

نام: احمد علی جوہر
والد کا نام: محمد زبیرعالم
والدہ کا نام: بی بی حسن آراء
پیدائش: 21 فروری 1985ء
آبائی وطن: ایکونہ ٹولہ، پی ٹی ڈومریا، وایا گڑھ بنیلی
ضلع ارریہ، بہار
تعلیمی لیاقت:
گریجویشن: ممتاز پی جی کالج، لکھنؤ
بی اے، یونیورسٹی آف لکھنؤ – 2008ء
ایم اے:جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
ایم فل: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی-2013
موضوع: ”طارق چھتاری کی افسانہ نگاری: اردو افسانے میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی کشمکش کا مطالعہ باغ کا دروازہ کی روشنی میں“
ایڈوانس ڈپلوما ان ماس میڈیاان اردو
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
پی ایچ ڈی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، 2018
موضوع: ”اقبال متین کی ادبی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ“
اعزازات:
جونیئر ریسرچ فیلوشپ، یو جی سی
گولڈ میڈلسٹ (2008) ، بی اے
ممتاز پی جی کالج، لکھنؤ
نیشنل سروس اسکیم سرٹیفیکٹ، گورنمنٹ آف انڈیا
رابطہ: ahmadalijauher@gmail.com

تحقیقی و تصنیفی سرگرمیاں:

کتابیں:

(1) طارق چھتاری: فکروفن
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس، دہلی- 2013
ISBN NO: 978-93-5073-238-0
(2) نکات و جہات
ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی- 2015
ISBN NO: 978-93-5073-546-6

یو جی سی کییر لسٹ میں شامل مضامین:

(1) ”دیدہ ور محقق: پروفیسر حنیف نقوی
(جہان اردو، دربھنگہ،جلد: 13
شمارہ:50,49, جنوری تا جون- 2013
صفحات- 292 تا 305
ISSN NO: 2278-3474
(2) کھوکھلا پہیا کا تجزیاتی مطالعہ
(جہان اردو، دربھنگہ، جلد: 14
شمارہ: 53-54, جنوری تا جون-2014
صفحات: 168تا 174
ISSN NO: 2278-3474
(3) ہم عصر اردو افسانے میں
حاشیائی کرداروں کی عکاسی
(اردو ریسرچ جرنل، دہلی، جلد:1
شمارہ:2, مئی تا جولائی، 2014
صفحات، 75تا 89
ISSN NO: 2348- 3687
(4) انسانیت کا نوحہ گر افسانہ نگار: اقبال متین
(اردو ریسرچ جرنل، دہلی، جلد:2
شمارہ:1, جنوری تا مارچ، 2015
صفحات: 30 تا 32
ISSN NO: 2348-3687
(5) اقبال متین: کثیرالجہات ادبی شخصیت
(اردو دنیا، دہلی)، جلد:17
شمارہ:7, جولائی، 2015
صفحات:50تا51
ISSN NO: 2249-0639
(6) چراغ تہہ داماں: فکری و فنی جائزہ
(اردو جرنل، پٹنہ، شمارہ:6, ستمبر -2015
صفحات: 131تا144
ISSN NO: 2249-7854
(7) میراجی کی شاعری
(فکروتحریر، کلکتہ)، جلد:2
شمارہ:3, جولائی تا ستمبر-2015
صفحات: 45 تا56
ISSN NO: 2394-0557
(8) ملبا کا تجزیاتی مطالعہ
(ایوان اردو)، دہلی، جلد:03
شمارہ:8, دسمبر، 2016
صفحات: 30تا33
ISSN NO: 2321-2888
(9) دانشور نقاد پروفیسر اسلوب احمد انصاری
(جہان اردو، دربھنگہ، جلد:16
شمارہ: 63-64, جولائی تا دسمبر، 2016
صفحات: 24 تا 29
ISSN NO: 2278-3474
(10) عہدساز افسانہ نگار: جوگندرپال
(ثالث، مونگیر، جلد:3
شمارہ:9-10, اکتوبر، 2016
صفحات: 36تا41
ISSN NO:2348-1129
(11) گرتی دیواریں: تجزیاتی مطالعہ
(جہان اردو، دربھنگہ، جلد:17
شمارہ:67-68, جولائی تا دسمبر، 2017
صفحات:171تا177
ISSN NO:2278-3474
(12) اردو کا ارتقا اور اردو ہندی کا رشتہ
(اردو دنیا، دہلی، جلد:21
شمارہ:1, جنوری، 2019
صفحات:10تا13
ISSN NO:2249-0639
(13) عظیم مجاہد آزادی:
رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی
(ادبی نشیمن، لکھنؤ ، جلد:2
شمارہ:4, ستمبر تا نومبر، 2019
صفحات: 5تا7
ISSN NO:2581-5482

یوجی سی کییر لسٹڈ کے علاوہ رسائل و جرائد میں شامل مضامین:
(1) دیویندر اسر اور ان کی افسانہ نگاری
(ایوان اردو، دہلی، جلد:26
شمارہ:9, جنوری، 2013
صفحات:38تا42
(2) صنف افسانہ
(ادبی مجلہ، اصناف ادب نمبر
شعبہ اردو و فارسی، راجستھان یونیورسٹی
جے پور، جون، 2014
صفحات: 139تا147
(3) اردو داستانوں میں ہندستانی اساطیر
اور تہذیب و ثقافت کی عکاسی
(سہ ماہی بھاشا سنگم، پٹنہ، جلد:22-23
شمارہ:1تا4, اکتوبر، 2015 تا مارچ 2016
صفحات:77تا79
(4) شاد عظیم آبادی کی شاعرانہ عظمت
(صحیفہ محبت، اپریل تا جون، 2019
صفحات: 19تا21
(5) چمراسر ناول کا تنقیدی محاکمہ
(چہارسو، جلد:28, شمارہ:9, نومبر، دسمبر، 2019
صفحات:103تا105

مرتبہ کتابوں میں شامل مضامین:
(1) خاکہ نگاری کی فنی خصوصیت
(خاکہ نگاری: اردو ادب میں)
مرتب: ڈاکٹر انیس صدیقی
عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2016
صفحات:309تا320
ISBN NO:93-81029-92- x
(2) تحریک احرار اسلام پسند
(ہندستان کی جدو جہد آزادی میں
مسلمانوں کا کردار)
مرتب: ڈاکٹر غضنفر اقبال
مولانا ابوالکلام آزاد میموریل فورم
کلبرگی، کرناٹک، نومبر، 2019
صفحات: 89تا92

ڈاکٹر احمد علی جوہر کا  تنقیدی و تحقیقی شعور

ڈاکٹر جعفر مسعود

ڈاکٹر احمد علی جوہر اردو کے ایک سنجیدہ اور سلجھے ہوئے ناقد و محقق ہیں۔ وہ بہار کے ارریہ ضلع کے ایکونہ ٹولہ ڈومریا گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم ایکونہ ٹولہ کے پرائمری اسکول سے شروع ہوئی۔‌ بعد ازاں مدرسہ رحمانیہ پی ٹی ڈومریا، مدرسہ دارالعلوم رحمانی منورنگر زیرو مائل ، مدرسہ عالیہ عرفانیہ اور مدرسہ جامعہ اسلامیہ بھدوہی سے ہوتے ہوئے ملک کے معروف ادارے دارالعلوم ندوۃ العلما پہنچے جہاں سے انھیں عالمیت کی باوقار ڈگری تفویض کی گئی۔ عالمیت کی سند حاصل کرنے کے بعد انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری ممتاز نمبروں سے حاصل کی اور انھیں گولڈ میڈلسٹ کا اعزاز عطا کیا گیا۔ 2008 میں وہ ملک کی ممتاز یونیورسٹی جواہر لال نہرو یونیورسٹی پہنچے جہاں سے انھوں نے ایم اے، ایم،فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 2010 میں انھیں یو جی سی کی طرف سے جونئیر ریسرچ فیلوشپ اور 2012 سینئر ریسرچ فیلوشپ سے بھی نوازا گیا۔2015‌میں بہار اردو اکیڈمی نے ان کی کتاب "طارق چھتاری: فکر و فن” پر انھیں وہاب اشرفی ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ ڈاکٹر احمد علی جوہر اپنے طالب علمی کے دور سے سرگرم و فعال رہے ہیں۔ ابھی وہ للت نارائن متھلا یونیورسٹی کے جے این کالج، نہرا دربھنگہ میں درس و تدریس کی خدمات پر مامور ہیں۔
ڈاکٹر احمد علی جوہر ایک بالغ نظر اور ذہین اردو اسکالر ہیں۔ شعر و شاعری کے ساتھ ساتھ ادب کی دیگر اصناف پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کا اصل میدان فکشن تنقید ہے۔ فکشن سے ان کا گہرا لگاؤ ہے۔ فکشن پر ان کی کتاب "طارق چھتاری: فکروفن” ایک اہم کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کتاب میں موصوف نے طارق چھتاری کے افسانوی فن کے تمام گوشوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ طارق چھتاری عصر حاضر کے ممتاز اور نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے کم افسانے لکھ کر جو شہرت و مقبولیت حاصل کی، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا ہے۔ ان کا ایک ہی افسانوی مجموعہ "باغ کا دروازہ” کے نام سے شائع ہوا لیکن اس ایک مجموعہ کی بدولت ہی وہ اردو کی افسانوی دنیا میں معتبر و مستند افسانہ نگار تسلیم کیے گئے، بالخصوص ان کا افسانہ "نیم پلیٹ” اتنا مشہور و مقبول ہوا کہ کئی زبانوں میں اس کے ترجمے کئے گئے اور بیشتر ناقدین نے اس کا تحلیل و تجزیہ کیا۔ فنی اعتبار سے طارق چھتاری کے اس افسانہ کو عالمی ادب میں جگہ ملنی چاہئے۔ اس کے علاوہ "باغ کا دروازہ” بھی طارق چھتاری کے فکر و فن کا شاہ کار ہے۔ بابری مسجد کے انہدام، فرقہ واریت، اور قومی یک جہتی کو تار تار کرنے کی کوشش پر یہ ایک بہتر افسانہ ہے۔ طارق چھتاری کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے دیہات و قصبات سے لے کر 70‌کی دہائی کے شہر تک کو باریک بیں نظروں سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے گاؤں، قصبات اور شہر تینوں پس منظر سے موضوعات اخذ کئے ہیں اور اچھے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں میں نئی نسل کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کے المیہ کا بیان بھی موثر انداز میں ہوا ہے۔ فنی اور تکنیکی اعتبار سے طارق چھتاری نے جدید تکنیکوں کو بھی برتا ہے۔ انھوں نے فلمی تکنیک سے بھی کام لیا ہے۔ ان پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احمد علی جوہر نے طارق چھتاری کے افسانوں کے ان مخفی گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو اب تک منکشف نہیں ہوئے تھے۔ ڈاکٹر احمد علی جوہر کی اس کتاب کو کئی اعتبار سے اہمیت حاصل ہے۔ اول یہ کہ طارق چھتاری کے فکروفن پر باضابطہ آنے والی یہ پہلی کتاب ہے۔ دوم اس کتاب نے طارق چھتاری کے فکروفن کے افہام و تفہیم کی راہ ہم وار کی۔ اس کتاب کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر بہار اردو اکیڈمی نے اس پر اپنا گراں قدر اعزاز وہاب اشرفی ایوارڈ عطا کیا۔ فکشن تنقید میں یہ کتاب ایک اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
ڈاکٹر احمد علی جوہر کی دوسری کتاب "نکات و جہات” کے نام سے شائع ہوئی جو ان کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں بھی بیشتر مضامین فکشن سے متعلق ہیں۔ کچھ مضامین شعری ادب پر ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر احمد علی جوہر کا تحقیقی و تنقیدی شعور کافی پختہ اور نکھرا ہوا ہے۔ وہ ادب کو پہلے ادبی زاویہ سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر اس کے سماجی سیاسی سروکار پر بھی روشنی ڈالتے چلتے ہیں۔ ڈاکٹر احمد علی جوہر ادب کا مطالعہ سرسری نہیں کرتے بلکہ بہت ہی سنجیدگی و باریک بینی سے  کرتے ہیں اور کافی غوروفکر کے بعد اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتوں میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ تعمق اور پختگی پائی جاتی ہے۔ ان کے مضامین و مقالات ہند و پاک کے معتبر و مستند رسائل و جرائد میں شائع ہوچکے ہیں اور مسلسل شائع ہورہے ہیں۔ انھوں نے "اقبال متین کی ادبی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ” کے عنوان سے اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسس جمع کی ہے۔ یہ مقالہ بھی منفرد نوعیت کا ہے۔ اس میں اقبال متین سے متعلق تمام چیزوں کو بہت چھان پھٹک کر جمع کیا گیا ہے اور ان کی تحریروں کا سنجیدہ جائزہ لے کر اردو کی افسانوی دنیا میں ان کے مقام و مرتبہ کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر کہنا یہ ہے کہ ڈاکٹر احمد علی جوہر کی تحریروں میں ان کا منطقی و استدلالی انداز اور ان کا تحقیقی و تنقیدی شعور انھیں منفرد و ممتاز اور بالغ نظر ناقدین و محققین کی صف میں جگہ عطا کرتا ہے۔

(مضمون نگار ممتاز پی جی کالج، لکھنؤ، یوپی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)فون: 9013877433

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے