سانس در سانس محبت کی باتیں ، کتنا مشکل ہے الوداع کہنا!

سانس در سانس محبت کی باتیں ، کتنا مشکل ہے الوداع کہنا!


شاہ خالد مصباحی، سدھارتھ نگری


دل کی مریادہ ابھی سرد ہی پڑی تھی ، غم کی کیفیت نے ایک لمحہ کے لیے ابھی چین کی سانس لی ہی تھی ۔۔ ۔۔ ادھر سے یہ خبر آئی کہ زمانے کی دشنام آنکھیں ابھی سوئی  نہیں ہیں ، ہوس کے پجاریوں کے مندر آباد ہیں ، طلب سکون میں سر جھکیں ہیں اور دل حرام آشیانے کا مالک بن بیٹھا ہے، ظلم و جبر فطرت بن چکی ہے ، ایک لمحہ تک روشنی چھا جانا یہ ظلمت کے چلے جانے کی دلیل نہیں ہے۔
جبر و تشدد کی دہلیز پر دستک دیتی ہوئی یہ خبر پھیلی کہ احمد آباد کے محمد عارف کی بیوی عائشہ نے ندی میں کود کر خود کشی کرلی۔
سننے کے بعد اتنا دکھ نہیں ہوا ، جتنا ہونا چاہیے تھا کیوں کہ زمانے کی سلبریٹیز  شخصیات میں  خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے کہ
موت کے درندے میں اک کشش تو ہے ثروتؔ
لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکشی کے بارے میں

لیکن مرحوم عائشہ کی ایک ویڈیو جو انہوں نے خود کشی سے قبل ، ندی پر کھڑی ہوکر ، کھلکھلاتے ہوئے دانتوں ، چہرے پر ایک حسین مسکان کے ساتھ بنائی ، میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہوئے ، نہ چہرے پر ڈپریشن کے کوئی آثار اور جاتے جا الوداع اور سلام و دعا کا ترانہ زبان پر سجائے ہوئے۔۔۔ اور جب یہ معاملہ سامنے آیا تو ضرور اہل فکر کو سوچنے اور فکر کرنے پر مجبور کر بیٹھا ۔
کہ آخر اس کے پیچھے کی حقیقت کیا ہے؟
کہ اتنی خوشی خوشی سے جان دے ینا ، اب تک تو زمانے کی معمولات میں شامل نہیں رہا ۔
آخر کیا ہیں اس کے اسباب؟
مرحومہ عائشہ کے باپ کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ 2018 میں عائشہ سے محمد عارف نے نکاح کیا اور مرحوم عائشہ کو جتنی بھی تکلیفیں دینا تھا ہر لحاظ سے محمد عارف اسے ہراساں کرتا رہا ، اور اس کے پیچھے کی سب سے بڑی حقیقت وہی ہے جو جہیز دینے اور لینے ہی کو انجام محبت اور محبت کا آخر جزو سمجھتے ہیں اور اپنا سارا وقار اور عزتیں بیٹے کو جہیز کے روپ میں بیچنے ہی میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ سمجھتے ہیں ۔
شادی contract of goods کے قائل ہیں ناکہ contract of love کے ، لیکن وہ عائشہ اپنی آخری لمحات زندگی میں محبت کو پانے پر ترستے ہوئے جس طریقے سے انجام محبت پر اسے رونا آیا اور اس کی نصیحت کہ یک طرفہ محبت کے سوداگر نہ بنیں ۔۔۔ضرور یہ رائج محبت میں دیوانوں اور دیوانیوں کے لیے ایک سبق ہے۔
مرحوم عائشہ کی آخری گفتگو یہ ضرور بتاتی ہے کہ وہ محبت کے لیے ترستی رہی لیکن مال کی چاہت اور ہوس کا پجاری محمد عارف ، اس کے دل میں جگہ نا بنا سکا اور جہیز کی ہراسمینٹ سے تنگ آکر عائشہ نے سوسائڈ کرلی۔
اتناہی نہیں بلکہ سوسائڈ سے قبل شوہر محمد عارف سے فون پر بات بھی کی ، کہ ہوسکتا ہے محبت کی کڑی جاگ جائے ، لیکن اف محمد عارف!
یہ کہتے ہوئے شوہر نے فون رکھ دیا کہ سوسائد سے پہلے ایک ویڈیو بناکربھیج دو اور اس ویڈیومیں یہ ضرور کہنا جو جون ایلیا کے اشعار کا رنگ لے رہے ہیں کہ میں عارف خان کی وجہ سے سوسائڈ نہیں کررہی ہوں بلکہ میری تقدیر میں زندگی بس یہیں تک تھی ۔
وصل کے سلسلے تو کیا اب تو
ہجر کے سلسلے ہیں بے معنی
کوئی رشتہ ہی جب کسی سے نہیں
دل کے سارے گلے ہیں بے معنی
اتنی ساری بات ہونے کے بعد ویڈیو شوہر عارف کے پاس بھیجا بھی ہے اور پھر اس کا رخ ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت کی طرف ہوتا ہے ، مرحوم عائشہ فون پربات کرتی ہے اور کہتی ہے "ماں میں اپنی زندگی سے تھک گئی ہوں” اور مجھے ندی میں کودنے دے ماں، ماں کہتی ہے تجھے میری قسم ایسا نہ کر، دنیاوالے کہیں گے کہ تیری غلطی ہے!
کیوں کہ حقوق کے تحفظ اور اس کی ادائیگی یکطرفہ عورتوں ہی کے ذمہ رکھنے کا  قائل یہ زمانہ تجھ کو ہی کوسے گا!
بیٹی کہتی ہے نہیں بس میں بہت پریشان ہوگئی ہوں اور زندہ نہیں رہنا چاہتی مجھے دریامیں کودنے دے ماں!

بقول والد ان سب واقعات کے پیچھے کا سبب صرف اور صرف جہیز ہے اور کچھ نہیں اور مرحومہ عائشہ اپنی محبت سے جہیز کی کمی کو شوہر کےدل سے دور نہ کرسکی۔ اور وہ اپنی من چاہی محبت جو میاں بیوی کے درمیاں ہونی چاہیے تھی ، پا نہ سکی۔

کہاں سے آئی ہے لوگو!  یہ رسم جہیز؟
خدا کے دین میں اس کا کوئی سراغ نہیں

آخر کب تک جہیز کی وجہ سے ہماری بہنیں اپنی زندگی سے ہاتھ دھوتی رہیں گی ۔
اللہ اکبر! جہیز کا اتنا چلن ہوگیا ہے کہ بچی کی ولادت ہی کے دن سے والدین کے چہرے مرجھانے لگتے ہیں ، دن و رات اس کی شادی کی فکر والدین کے چین و سکون کو برباد کر رہی ہے ۔
اور کیا آپ کو احساس ہورہا ہے کہ یہ زمانہ پھر دور جاہلیت کا رخ ، abortions کی شکل میں بڑی تیزی کے ساتھ لے رہا ہے ، جس کی بنیادی وجہ جہیز ہے ۔
ملت اسلامیہ سے مودبانہ اپیل ہے کہ ان مسئلوں کو حساس طریقے سے حلکرنے  کی ضرورت ہے۔ کہ آخر ایسا کیوں ہورہاہے؟
اور علمائے کرام کو چاہیے کہ معاشرے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس مسئلے پر غوروفکر کرکے علاقائی طور پر ایک ٹیم بنا کر کریں جس سے قوم کو اس بھیانک زہر آلود رسم جہیز سے بچا کر بچیوں کو ان کا محفوظ مقام دلایا کیا جا سکے۔
جہیز دیتے ہیں کیسے عجیب ہیں یہ لوگ
وراثتوں میں بہن کو  مگر کچھ نہیں دیتے 

شاہ خالد مصباحی کی پچھلی تحریر : ویلنٹائن ڈے: دنیائے محبت کا ایک بد ترین فسانہ!

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے