بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!

بنت حوا کی خودکشی کا ابن آدم ذمہ دار!


عائشہ ،جہیز، شریعت، ہم اور ہمارا معاشرہ

تحریر: جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com
گذشتہ دنوں عائشہ نامی لڑکی پل پر سے کود کر جان گنوا بیٹھی، یعنی خودکشی کرلی. سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہورہے ہیں. کوئی لڑکی کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ جہنمی ہوگئی،کوئی کہتا ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے. کوئی لڑکی کے بارے میں کہتا ہے کہ حالات سے مقابلہ کرنا چاہیے تھا. مگر کوئی یہ نہیں کہتا ہےکہ جہیز کے بغیر میں اپنی شادی کروں گا، بغیر جہیز لئے اپنے بیٹے کی شادی کروں گا. 
بس فیس بک پر پوسٹ لگایا جا تا ہے اور اسٹیج سے خطاب کیا جاتا ہے کہ جہیز ناسور ہے، لیکن عملی طور پر جہیز روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا اور یہاں تو جو زیادہ جہیز دیتا ہے اور جسے زیادہ جہیز ملتا ہے، اسی کی تعریف کی جاتی ہے. گھر میں اسی کو اہمیت دی جاتی ہے. 
خبروں کے مطابق عائشہ کی شادی2018 میں ہوئی تھی. سسرال والے بار بار جہیز سے متعلق طعنہ دیا کرتے تھے. عائشہ نے خودکشی تو کرلی لیکن بہت سارے سوالوں کو چھوڑ گئی اور اب انہی سوالوں کے جواب کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے. عائشہ نے اپنی آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں اپنے خاندان والوں سے باتیں کی اپنے والدین سے بھی باتیں کی. سسرال میں اس کے اوپر جو بیتی تھی اسے بتاتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ میں عنقریب موت کو گلے لگا لوں گی، پل سے کود کر جان دے دوں گی لیکن اب سسرال کی چوکھٹ پر قدم نہیں رکھوں گی. خبروں کے مطابق ماں باپ نے منع کیا کہ بیٹی ہرگز ایسا قدم نہ اٹھانا لیکن عائشہ نے ماں باپ کی بات بھی نہیں مانی. یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ شاید ماں باپ کو یہ گمان نہیں رہا ہو گا کہ ہماری بیٹی جو کہہ رہی ہے وہ کر گذرے گی یا کہ پھر ماں باپ نے بھی بس رسمی طور پر منع کردیا ہو اور انداز گفتگو کچھ ایسا رہا ہو کہ عائشہ مایوس ہو گئی ہو. احساس کم تری کا شکار ہو گئی ہو اور پھر اسے اپنے شوہر سے کچھ امیدیں وابستہ رہی ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ اب ایسی صورت میں شاید اسے ترس آجائے اور اس کے دل میں میری محبت جاگ اٹھے اور اس نے بتانا شروع کیا کہ میں ندی کے پل پر کھڑی ہوں، زندگی اور موت کی سیما ریکھا پر کھڑی ہوں؛ اب سے تم مجھے اپنا لو ، اپنا رویہ تبدیل کرلو ،مجھ سے محبت کرو اور میرے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم رکھنے اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا وعدہ کرو ورنہ میں پل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلوں گی لیکن شوہر بھی کتنا بڑا ظالم تھا جس کے سینے میں بیوی کی محبت نہیں جاگی اسے ذرہ برابر رحم نہ آیااور ظلم و جبر کی چٹان بن کر کہتا ہے کہ خود کشی کرنے سے پہلے ویڈیو بنالینا اور اس ویڈیو میں اپنی خودکشی کا کسی کو ذمہ دار نہ ٹھہرانا اور وہ ویڈیو مجھے سینڈ کردینا پھر خودکشی کرلینا. عائشہ نے ہنستے مسکراتے ہوئے ویڈیو بنائی اور اپنی ویڈیو میں اپنی خودکشی کے لئے کسی کو ذمہ دار نہ ٹھہراتے ہوئے یہ ضرور کہا ہے کہ میں اپنے اللہ سے سب کچھ بتاؤں گی. اور یہی بات کہہ کر عائشہ نے اپنے میکے سے لے کر سسرال والوں تک سب کو اپنی موت اپنی خودکشی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا. اب رہ گئی بات اس کے شوہر کی تو اس نے خود ظالم ہونے کا ثبوت دیا. ایک طرف ویڈیو بنانے کے لئے بھی کہہ رہا ہے اور دوسری طرف اپنے کو بری ثابت کرنے کے ساتھ ہی ویڈیو سینڈ کرنے کے لئے بھی کہہ رہا ہے اور خودکشی کے لئے للکار بھی رہا ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ظالم اور بے رحم ہے. جہیز کا لالچی ہے. اور وہ عائشہ پر حد سے زیادہ ظلم کرتا تھا. اور عائشہ حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہار گئی اور موت کو گلے لگا لیا. آئے دن اخبارات کے صفحات پر خبریں دیکھی جاتی ہیں کہ فلاں خاتون نے خودکشی کرلی، بچوں سمیت خودکشی کرلی لیکن اس پر ہنگامہ برپا نہیں ہوتا. پھر عائشہ کی خودکشی پر اتنا ہنگامہ برپا کیوں ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ آج بھی معاشرے کے اندر پنپ رہی خرافات کو اور جہیز کے مطالبے جیسی منحوس بیماری کی پردہ پوشی کی جارہی ہے. 
عائشہ نے خودکشی کرلیں. فوراً کہنے والوں نے کہہ دیا کہ وہ جہنمی ہو گئی. میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جنتی ہو گئی کیوں کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے سے منع فرمایا ہے. اب ایسی صورت میں ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دو لوگ لڑائی کرتے ہوئے غصے کی حالت میں دونوں اپنے گھر سے تلوار لے کر آئے پھر دونوں لڑنے لگے اور لڑائی کرتے ہوئے ایک شخص کو تلوار لگ جاتی ہے اور اس کی موت ہو جاتی ہے تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ دونوں جہنمی ہیں. لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ایک قاتل اور دوسرا مقتول پھر دونوں جہنمی کیسے تو نبی نے فرمایا کہ دونوں غصے کی حالت میں تھے اور غصہ حرام ہے. دونوں کی نیت ایک ہی تھی یعنی ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی یعنی دونوں کے فیصلے غلط، دونوں کے ارادے غلط اس لئے دونوں جہنمی ہوئے. اب آئیے احادیث کی کتابوں میں ملتا ہے کہ نبی نے فرمایا کوئی زہر کھا کر نہ مرے ورنہ وہ سمجھ لے کہ زہر کھا کر یا زہر پی کر مرے گا خودکشی کرے گا تو جہنم کے اندر اسے وہی سزا دی جائے گی. وہ زہر پیے گا پورا جسم زہر آلود ہو جائے گا اور وہ مر جائے گا پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر وہ زہر پیے گا پھر مرے گا یہی سلسلہ سزا کی شکل میں چلتا رہےگا. نبی نے فرمایا کہ کوئی چاقو سے گود کر یا پیٹ میں گھونپ کر خودکشی کرے گا تو اسے جہنم میں وہی سزا دی جائے گی اور وہ اپنے پیٹ میں جسم میں چاقو گھونپتا رہے گا. 
کوئی پہاڑوں سے کود کر خودکشی کرے گا تو اس کی سزا بھی وہی ہوگی کہ جہنم میں وہ پہاڑوں سے کود کر ہلاک ہوتا رہے گا. اللہ کے نبی نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی چھت پر منڈیر باندھ دیا کرو اور اگر منڈیر نہ باندھی ہو تو چھت پر نہ سویا کرو ایسی صورت میں تمہاری حفاظت کی ذمہ داری اللہ کی نہیں ہے اور جو ایسا کرے گا کہ بغیر منڈیر والی چھت پر سوئے گا اور اس پر سے گرکر مرے گا تو اس کی موت بھی خودکشی میں شمار ہو گی. اب اس سے عائشہ کی خودکشی کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے. مگر آگے حقوق العباد کا مسلہ بھی ہے. میاں بیوی کے حقوق کا مسٔلہ بھی ہے. اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص دسترخوان پر رزق حلال سے حاصل کھانے کا ایک لقمہ پیار ومحبت کے ساتھ اپنی بیوی کے منھ میں ڈال دے گا تو وہ عبادت میں شمار ہوگا اسے ثواب ملےگا. تو جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں کھانے کا ایک لقمہ ڈالنے کے بجائے تھپڑ مارے، بیوی سے پیار محبت بھری گفتگو کرنے کے بجائے اسے ماں بہن کی گالی دے، کھانا کھلانے کے بجائے اس سے جہیز مانگے ، بیوی کا دامن خوشیوں سے بھر نے کے بجائے اسے خودکشی کرنے کے لئے مجبور کرے تو کیا وہ جہنمی نہیں ہوگا؟
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عورت صرف بیوی ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ بیٹی بھی ہوتی ہے،بہن بھی ہوتی ہے، بہو بھی ہوتی ہے اور ماں بھی ہوتی ہے وہ غلام نہیں ہے. مذہب اسلام نے عورت کو گھر کی زینت کہا ہے اور اس کے دل میں اتنی ہم دردی رکھا ہے کہ وہ ساری مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے تمہارا ہاتھ بٹاتی ہے. ورنہ اسے اختیار ہے وہ چاہے تو تمہارے بچے کو مفت میں دودھ تک نہ پلائے پوری قیمت تم سے طلب کرے اور تمہیں دینی پڑے گی کیوں کہ یہ اختیار خود مذہب اسلام نے دیا ہے. یہ تو اس کی رحم دلی اور دریا دلی ہے کہ وہ تمہارے بچے کی دیکھ بھال کرتی ہے اور اس دیکھ بھال کی قیمت تم سے طلب نہیں کرتی. اور تم اس سے جینے تک کا حق چھیننے لگے. اگر اب بھی کھل کر جہیز کی مخالفت نہیں ہوئی تو انجام بھیانک ہوگا. دینی اصول و ضوابط کا تقدس پامال ہوگا. دین و مذہب کی پرواہ کئے بغیر ناجائز تعلقات قائم ہوں گے اور مسلمانوں کا سر شرم سے جھکے گا. مسلم خاندانوں کو رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا. اور یہ سب سلسلہ شروع ہو چکا ہے. پھر آئے دن کوئی نہ کوئی عائشہ خودکشی کرتی رہے گی اور ہم کہیں گے کہ جہنمی ہو گئی. ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہالت و تاریکی اور ظلم و ستم کا کیسا بدترین زمانہ تھا کہ لوگ جوا کھیلنے میں اپنی بیویوں تک کو ہار جایا کرتے تھے، پیدا ہوتے ہی بیٹی کو زندہ زمین کے اندر دفن کردیا کرتے تھے،شوہر کے مرجانے پر اس کی بیوی کو بھی چتا کے ساتھ جلا دیا کرتے تھے، لیکن نبی کریم نے ایسی تعلیم دی اور ایسا اخلاق کریمانہ پیش کیا کہ وہ عالم انسانیت کے لئے مشعلِ راہ بن گیا. آج کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسی نبی کی امت دولت کی فراوانی میں اور جدید روشن خیالی میں غرق ہونے لگی اور بات بات پر بیویوں کو طلاق دینے لگی، جہیز کے لئے منھ کھولنے لگی، مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں بیویوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے لگی اور یہاں تک کہ خودکشی تک کے لئے مجبور کرنے لگی. خدارا اب سے اللہ و رسول  کی تعلیمات کے مطابق شادی بیاہ کی تقریبات کو انجام دینے کے لئے عہد کرنے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ایک باپ کو اپنی بیٹی کے کفن دفن کے لئے مخصوص طریقے سے کپڑا اور دو گز زمین بھی دینی پڑے گی-

***

( سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین)محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

رابطہ: 8299579972

صاحب مضمون کی پچھلی نگارش : مسلسل اصلاح معاشرہ لیکن سب کچھ بے اثر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے