زکوة ایک محکم فریضہ ہے ،جس کی ادائیگی ضروری ہے

زکوة ایک محکم فریضہ ہے ،جس کی ادائیگی ضروری ہے


انوارالحق قاسمی نیپالی

اس دنیا کی بیش بہاقیمتی چیزسے لےکر معمولی سےمعمولی شے تک کاحقیقی مالک وحدہ لاشریک لہ کی ذات گرامی ہے،اورانسان جنہیں ہم بظاہر سیم وزر اورجائداد وغیرہم کامالک خیال کرتے ہیں ،وہ حقیقت میں مالک نہیں ،بل کہ محافظ ہیں ۔
مالک حقیقی نے  انہیں اپنے خزانےسے معمولی یاغیر معمولی مال عطاکرکے یوں ہی آزاد نہیں چھوڑدیاہے کہ جوچاہے وہ کرے اور جہاں چاہے خرچ کرے؛بل کہ ان مالوں میں باری تعالی نے غریبوں ،مسکینوں،یتیموں اوردیگرمصارف کےحقوق متعلق کردیے ہیں ۔
ارشاد باری ہے : انماالصدقات للفقراء والمساكين والعاملين علیھا المؤلفة قلوبھم وفی الرقاب والغارمین وفی سبیل اللہ وابن السبیل فریضة من اللہ واللہ علیم حکیم۔
ترجمہ :یہ صدقات تودراصل (1)فقیروں(2)مسکینوں (3)صدقات کےوصول پر مامور افراد (4)اورمؤلفہ قلوب کےلیےہے(5)اورغلاموں کوآزاد کرنے میں مدد کرنے (6)اورقرض داروں کو(7)اورراہ خدامیں (8)اورمسافروں کےلیےہے ،یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اوراللہ سب کچھ جاننے والاداناوبیناہے۔
لہذازکوة یاصدقات واجبہ کےحق دار بس یہ ذکرکردہ آٹھ اقسام کےہی لوگ ہوں گے ،ان کےعلاوہ کوئی نہیں ؛اس لیے صدقہ مال دار اورطاقت ور کمانےوالےکےلیےجائزنہیں ہے. رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:لاتحل الصدقة لغنی ولاذی مرة سوی ۔
زکوة بنیادی طور پر صاحب نصاب کےاوپر فرض ہے اور صاحب نصاب وہ شخص ہے ،جوساڑھےباون تولہ چاندی یاساڑھےسات تولہ سونایاان دونوں میں سے کسی ایک کےبقدر مالیت کامالک ہو اوران پرسال گذرجائے، توپھر مالک نصاب پر زکوة کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔
زکوة کی ادائیگی کےلیےدن ورات کی کوئی قیدنہیں ہے ، جب چاہےاداکردے،یہ چالیسواں حصہ ؛یعنی ڈھائی فیصد نکالناواجب ہوتاہے،زکوة کی ادائیگی شریعت کے مطابق ہواور اللہ کی نافرمانی سےبچنے کی کوشش کی جائے۔
زکوة ہی کی طرح کھیت کےغلہ پر عشرہے،یعنی ایسے کھیت کےغلوں میں جوآسمانی بارش سےسیراب ہوئی ہو ، ان میں دسواں حصہ اورجونجی یاسرکاری پانی سے سیراب ہوئی ہو ،ان کےغلوں کابیسواں حصہ غریبوں کے لیےنکالنافرض ہے،اسی طرح تجارتی مویشیوں میں بھی ،چاہےوہ پالےجاتےہوں یاخرید وفروخت کئے جاتےہوں زکوة نکالناضروری ہے،کھیتوں کے غلہ میں تو ہرفصل میں زکوة اداکی جائےگی؛البتہ زکوة جوتجارت یا سونے چاندی وروپےمیں فرض ہوتی ہے ،وہ پورے سال گذرجانے پرایک بار واجب ہوتی ہے۔
زکوة اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیوں کہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے۔
(۱) زکاة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة:۲۶۷،صحیح البخاري، کتاب الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۱۰)

(۲) زکاة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة:۱۶۱، تفسیر البیضاوی:البقرة:۲۶۱)

(۳)زکاة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر:۲۹،۳۰)

(۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاة ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف:۱۵۶)

(۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)

(۶) زکاة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:۲۸۰)

(۷) قبر میں زکاة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الجنائز، رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،۷/۴۷۳،دار قرطبة، بیروت)

(۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاة کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوٰت، رقم الحدیث۴۲۹،۱/۲۱۴،دار ابن حزم)

(۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاة ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث:۱۲۳۹۴)

(۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاہ:۳/۶۳)

(۱۱) زکاة سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان للبیہقي،کتاب الزکاة، فصل في من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألة،رقم الحدیث:۳۵۵۷، ۳/۲۸۲، دارالکتب العلمیہ)

(۱۲)زکاة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الزکاة، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ فی الزکاة، رقم الحدیث:۷۳۷۹)۔
فریضہ زکاة کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں:

(۱) جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورة توبہ:۳۴،۳۵)

(۲) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورة آل عمران:۱۸۰)

(۳) ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورة البقرة:۲۵۴)

(۴)زکاة کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورة اللیل:۵ تا۱۱)

(۵)ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے، پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۰۳،۲/۱۱۰،دارطوق النجاة)

(۶) مرتے وقت ایسا شخص زکاة ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورة المنافقون:۱۰، صحیح البخاری، کتاب الزکاة، باب فضل صدقة الشحیح الصحیح، رقم الحدیث:۱۴۱۹، ۲/۱۱۰، دارطوق النجاة)

(۷)ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة)

(۸) ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوة للبیہقي، باب الإسراء ،رقم الحدیث:۶۷۹)

(۹) ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاة:۳/۶۲)

(۱۰) جب لوگ زکاة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۲۵۷۷)

(۱۱) جب کوئی قوم زکاة روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني، تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:۴۵۷۷)۔
اللہ جل شانہ نے زکوة وصدقات نکالنے میں اپنےفضل ومغفرت کاوعدہ کیاہے،فضل مال میں اضافہ کوکہتے ہیں ،جس طرح مال میں اضافہ مطلوب ہے ،اسی طرح ؛بل کہ اس سے بھی بڑھ کر انسان کواپنی مغفرت اوربخشش کی ضرورت ہے ،اس لیے صدقہ وزکوة دےکر اپنی مغفرت وبخشش کاسامان کرناچاہیے اورشیطانی وساوس میں نہیں پڑناچاہیے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں :الشیطن یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرة منه وفضلا واللہ واسع علیم ۔
ترجمہ :شیطان وعدہ دیتاہے تم کوتنگ دستی کااورحکم کرتاہے بےحیائی کااوراللہ وعدہ دیتاہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کااوراللہ بہت کشائش والاہے،سب کچھ جانتاہے۔
یہ ایک حقیقت ہے ،جس میں کسی کوقطعی شک نہیں ہے کہ زکوة دینے سے مال بڑھتاہے،گھٹتانہیں ہے؛پھر بھی بعض مسلمان سب کچھ جانتےہوئےبھی زکوة اداکرنے میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتےہیں،جوایک مسلمان کےلیےبحیثیت مسلمان کسی طرح درست اور جائزنہیں ہے۔
اللہ تبارک وتعالی ہرصاحب نصاب مسلمان کوزکوة اداکرنےکی توفیق عطافرمائےآمین۔

صاحب مضمون کی پچھلی تحریر : دعوت وتبلیغ وقت کااہم تقاضا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے