فن کار

فن کار

 

ڈاکٹر ذاکر فیضی


”سوریہ باراینڈریسٹورنٹ“ میں وہ تینوں ایک گول میز کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ چوتھی کرسی خالی تھی۔
کہانی کارنے پہلوبدلا۔۔۔۔”ابھی تک نہیں آیا۔ بہت وقت لگادیا۔“
”ہاں یار، یہ وقت کی قدرنہیں کرتا۔“آرٹسٹ نے ایش ٹرے میں سگریٹ مسلی۔
”یہ عام لوگ بہت سُست ہوتے ہیں بھئی۔“ فلم ساز نے گھڑی دیکھی۔
وہ چاروں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن بہت گہرے دوست تھے۔۔۔۔کہانی کار، آرٹسٹ، فلم ساز اورچوتھا۔۔۔چوتھاکوئی فن کار نہیں تھا۔ ایک عام آدمی تھا۔۔۔۔اس کامیڈیکل اسٹورتھا۔
”تیراکیاخیال ہے، کہیں وہ میڈیکل پر تونہیں؟“ کہانی کارنے آرٹسٹ سے پوچھا۔
”ارے سنڈے کو وہ میڈیکل بند رکھتاہے۔“ فلم ساز نے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی کوگھورتے ہوئے کہا۔
”یار! ہربات کی حد ہوتی ہے۔ ہم چاروں کا سات بجے ملناطے تھا۔۔۔آٹھ بج رہے ہیں بے وقوف ابھی تک نہیں آیا۔“ آرٹسٹ زیادہ جھنجھلارہاتھا۔۔۔۔۔ شام ڈھل رہی تھی، اُس کی طلب بھی بڑھ رہی تھی۔
وہ تینوں آج کی مخصوص شام برباد نہیں کرناچاہتے تھے۔۔۔۔چوتھے کاموبائل بھی کام نہیں کررہاتھا۔
یوں توروز شام کومیڈیکل اسٹورپر محفل جمتی تھی۔
کہانی کاراپنی کہانیاں سناتااورادبی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے صرف اپنی کہانیوں کی ہی باتیں کرتا۔
آرٹسٹ اپنی تصاویر اورپورٹریٹ کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔
فلم ساز وہدایت کار اپنی فلموں کی ہی باتیں کرناچاہتا۔۔۔روز ایک نئی فلم شروع کرنے کی بات ہوتی۔۔کبھی اسکرپٹ پرکام چل رہاہوتا۔ کبھی کا سٹنگ کامسئلہ۔ لیکن چوتھاکم گوتھا۔۔۔تینوں کی سنتاتھا۔۔۔اسے فنون لطیفہ سے بے حد محبت اوردل چسپی تھی۔ وہ ادب کا مطالعہ کرتا۔۔۔فلمیں دیکھتا۔۔۔آرٹ گیلریزمیں بھی جاتاتھا۔
”ابے کیوں گھورے جارہاہے اس کو، کیاکچّا کھائے گا۔“ کہانی کارنے فلم ساز سے کہا،جو سامنے والی لڑکی کوبرابرگھورے جارہاتھا۔
”نہیں یار میں دیکھ رہاہوں، اس لڑکی کا اسکرین لک ہے۔“ فلم ساز نے بات بنائی۔
”ہاں ہاں ہمیں معلوم ہے۔ توکون سے کیمرے کی آنکھ سے اس کااسکرین ٹیسٹ لے رہاہے۔“ تینوں نے زوردارقہقہہ لگایا۔۔۔۔کچھ دیرکے لیے تینوں کاذہن چوتھے کی طرف سے ہٹ گیا۔
دراصل یہ پارٹی ان تینوں نے اپنے اپنے میدان میں کامیابی ملنے پر چوتھے کودی تھی……اورچوتھاہی غائب تھا۔
ایک سال قبل شہر میں ایک حادثہ ہواتھا۔۔۔۔ایک لڑکی کے والدین کا قتل کرکے لڑکی کے ساتھ زناکرنے کے بعداس کے چہرے پرتیزاب پھینکاگیا۔
وہ لڑکی بہت حسین تھی۔ جس ڈگری کالج سے وہ ایم۔ ایس۔ سی کررہی تھی، اسی کالج میں ایک صوبائی وزیر کابیٹابھی پڑھتاتھا۔ وہ اس لڑکی کاعاشق تھا۔ لیکن لڑکی لفٹ نہیں دیتی تھی کیوں کہ وہ اس کی فطرت سے واقف تھی۔۔۔۔کالج کی کئی لڑکیوں کے ساتھ اس کے قصے سننے میں آئے تھے۔
وزیر کابیٹالڑکی کوحاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کرچکاتھا۔ سچی محبت کادم بھی بھر تاتھا۔۔۔۔لیکن لڑکی نفرت کرتی تھی۔
ایک دن تنہادیکھ کرلڑکے نے کالج کی ایک گیلری میں لڑکی کاراستہ روک لیا۔۔۔۔”پلیزمیری بات سمجھو۔۔۔میں۔۔۔۔واقعی تم سے محبت کرتاہوں۔“
”تم نے پھر بدتمیزی کی۔۔۔ابھی پرنسپل کے روم لے جاتی ہوں۔“ لڑکی بھڑکی۔
”اے رانی! اتنی شریف نہ بن، مان جاورنہ۔۔۔۔۔“ لڑکے نے تیوربدل لیے۔
”تڑاخ!“ لڑکی نے غصے میں کانپتے ہوئے اسے تھپڑمارا۔
لڑکاسکتے میں آگیا۔۔۔۔لڑکی کے جانے کے بعدوہ چیخا۔۔۔۔۔” بِچ! اب میں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“ اوراس نے ایک خطرناک منصوبہ بنایا۔
اس بات کے چند روزکے بعد صوبائی وزیر کابیٹااپنے دوہم خیال لڑکوں کے ساتھ لڑکی کے گھر پہنچا۔۔۔۔سب سے پہلے انہوں نے لڑکی کے والدین کو قتل کیا۔۔۔۔پھرلڑکے نے اوراس کے ساتھیوں نے لڑکی کے ساتھ زناکیا۔۔۔اورواپس جاتے وقت لڑکی کے چہرہ پر تیزاب پھینک دیا۔
ایک ہفتے تک مقامی اخباروں نے خوب چٹخارے دار خبریں بنائیں۔ مقدمہ چلا۔ لڑکی سے ’ایسے ایسے‘ سوالات کئے گئے۔ جن کاجواب لڑکی کے پاس نہیں تھا۔۔۔۔صوبائی وزیرکابیٹامقدمہ جیت گیا۔
جب یہ خبر چاروں دوستوں تک پہنچی، اس وقت وہ میڈیکل اسٹور پر موجود تھے۔چوتھے نے فکر مندانہ لہجے میں کہا:
”انسان کو آخر یہ کیا ہوتا جا رہا ہے؟“
”حیوان ہوتا جا رہا ہے، اور کیا؟“کہانی کار نے فیصلہ سنا دیا۔
”طاقت کا بول بالا ہے بھئی۔۔۔۔وزیر کا بیٹا ہونا کوئی معمولی بات ہے بھلا۔“آرٹسٹ نے اپنی سیاسی سمجھ ظاہر کی۔
”دنیا سے انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔“ فلم ساز نے اپنے سماجی شعور کا اظہار کیا۔
کچھ دیر تو وہ اس واقعہ پر افسوس کرتے رہے۔ پھر ان کے درمیان تانیثیت پر بحث کا آغاز ہو گیا۔ کہانی کار، فلم ساز اور آرٹسٹ کا ماننا تھا کہ لڑکیاں اور عورتیں ایسے حادثات کی خودذمہ دار ہیں۔
کہانی کار نے کہا: ” کبھی آپ لوگوں نے غور کیا۔۔۔مردوں کے جوتوں،انڈر گارمینٹس اور شیونگ کریم کا بھی اشتہار ہوتا ہے تو بھی اس میں لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں۔۔۔۔کیوں؟“
”ہاں یہ عجیب بات ہے۔“ آرٹسٹ نے طنزاََکہا۔
”عورت کی آزادی کے نام پر بے حد بے شرمی اور بے ہودگی پھیلتی جا رہی ہے۔“ فلم ساز نے فلسفیانہ انداز اختیار کر لیا۔
چوتھے نے تینوں کو باری باری دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا: ”یہ تو حقیقت ہے کہ مردوں کے لئے استعمال ہونے والی چیزوں میں بھی لڑکیاں ہی نظر آتی ہیں، مگر کیا کبھی ہم نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان پروڈکٹ کی کمپنیوں کے مالک بھی زیادہ تر مرد حضرات ہی ہوتے ہیں۔اور ایڈ بنانے والی ایجنسیوں کے مالک بھی مرد ہی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ آخر کیوں وہ لڑکوں کا استعمال نہیں کرتے۔ پبلک تو وہی دیکھتی ہے جو کمپنیاں دکھاتی ہیں۔اس اعتبار سے تو معاشرے کی گرتی ہوئی قدروں کی ذمہ دار عورتیں نہیں ہیں۔ہزاروں سال سے عورت کا استحصال ہوتا چلا آ رہا ہے۔۔۔۔۔ہمارے عہد میں اس نے ترقّی اور آزاد خیالی کا نیامکھوٹا پہن لیا ہے۔“
ابھی یہ بحث جاری ہی تھی کہ اچانک کہانی کار کو خیال گزرا کیوں نہ اس حادثے پر کہانی لکھی جائے۔
پھر کہانی کارنے کہانی لکھی اورنیشنل لیول کے کہانی مقابلے میں پہلاانعام حاصل کیا۔۔کہانی کارکی کہانی لے کر فلم سازنے فلم بنائی۔۔۔فلم نے نیشنل ایوارڈ حاصل کیا۔
آرٹسٹ بھی اس حادثے سے بہت متاثرہواتھا۔ اس نے بھی الگ الگ زاویوں سے تصویریں بنائیں۔۔۔۔اورآرٹ گیلری کا اہتمام کرکے شہرت اوردولت پائی۔
تینوں ہی فن کارآج بہت ہی خوش تھے۔ چوتھے کاانتظارتھا۔
ویٹر کئی بارآچکاتھا۔ لیکن وہ ہربار’کچھ دیررک کر‘ کہہ کرٹال رہے تھے۔
”یاراس کے بغیر جشن کا مزہ نہیں آئے گا۔“ کہانی کارنے پانی پیتے ہوئے کہا۔
”شام بے کارکردی اس نے۔“ آرٹسٹ بہت چڑھ رہاتھا۔
”ایساکرتے ہیں جشن کاسامان لے کراس کے گھر چلتے ہیں۔ شاید وہ گھرپرہو۔“ فلم ساز نے تجویز رکھی۔
”لیکن یہ باروالے کیاسوچیں گے۔ نہ کھایانہ پیا۔گلاس توڑابارہ آنا۔۔۔۔“ کہانی کارنے قہقہہ لگایا۔
”کچھ نہیں یار! اس بارکا منیجر میرابہت بڑافین ہے۔ مجھ سے فلموں میں چانس مانگتاہے سالا۔۔۔۔۔“ فلم ساز نے اپنی بائیں آنکھ دبائی۔
”توٹھیک ہے۔۔۔۔گھرچلتے ہیں۔۔۔۔“ تینوں اٹھ کر بارسے باہرآگئے۔
وہ تینوں چوتھے کے گھر پہنچے۔ گھنٹی بجانے پرچوتھے نے دروازہ کھولا۔ کہانی کاردہاڑا۔۔۔۔”ابے سالے یہاں مررہاہے۔۔۔وہاں ہماری شام سڑاکر۔“
”یاروہ۔۔۔۔“ چوتھاہکلایا۔ ”بیوی کواسپتال لے گیاتھا۔“
”بیوی؟“ تینوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا۔ ”ابے ایک ہی دن میں بیوی کہاں سے ٹپک گئی۔“
”وہ۔۔۔۔۔میں نے۔۔۔۔چارمہینے ہوئے کورٹ میرج کرلی۔۔۔۔۔سوری! تم لوگوں کو نہیں بتاسکا۔“
پھر وہ چاروں کمرے میں آکر بیٹھ گئے۔
”ویسے وہ ہے کیسی؟“ تیری بیوی؟“ آرٹسٹ نے ہاتھ مسلتے ہوئے معلوم کیا۔
”بہت اچھی ہے۔“ چوتھے نے مسکراتے ہوئے کہا۔”میں پانی لے کرآتاہوں۔“
یہ کہہ کر وہ اٹھاہی تھاکہ اس کی بیوی ہاتھوں میں جگ اورگلاس لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
تینوں اس کی بیوی کو دیکھ کر اُچھل پڑے۔۔۔وہ بے حد بدصورت اورڈراؤنی تھی۔
چوتھے نے کہا۔۔۔۔”یہ وہی ہیں، جس پر آپ تینوں فن کاروں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیاہے۔۔۔۔میں ان کے لیے کچھ نہیں کرسکا، میں نے ان سے شادی کرلی۔“
تینوں فن کاروں نے سوالیہ انداز میں ایک دوسرے کو ایسے دیکھا جیسے سوال پوچھ رہے ہوں۔ فن کار کون ہے؟ ہم یا۔۔۔
***

ذاکر فیضی کا پچھلا افسانہ : ٹوٹے گملے کا پودا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے