معرو ف سوانح نگارشاہ عمران حسن کی پانچویں سوانحی کتاب”حیاتِ علی“ جلد منظرِ عام پر

معرو ف سوانح نگارشاہ عمران حسن کی پانچویں سوانحی کتاب”حیاتِ علی“ جلد منظرِ عام پر



پریس ریلیز

نئی دہلی، ”جب میں نے عالم اسلام کی معروف شخصیت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی عرف مولانا علی میاں پر کام کی ابتداکی تو اپنی دیگرسوانحی کتابوں کے مقابلے میں مجھے ان پر کام کرنا زیادہ دشوار لگا کیوں کہ ایک صدی پر مشتمل مولانا علی میاں کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی ہے، اُن واقعات میں سے اپنی کتاب کے لیے مواد کا انتخاب ایک مشکل ترین کام تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نہ صرف یہ موقع عنایت کیا بلکہ میرے ناتواں قلم میں اتنی طاقت پیدا کر دی کہ میں288صفحات پر مشتمل کتاب تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔“
ان خیالات کا اظہار ہندوستان کے معروف سوانح نگار شاہ عمران حسن نے ایک پریس بیانیہ میں دیا ہے۔ شاہ عمران حسن نے  مزید کہا کہ وہ کئی سالوں سے کتاب ”حیاتِ علی“پر کام کر رہے تھے، اب کتاب تیار ہوچکی ہے اور پریس میں جانے والی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ سنہ 2020، لاک ڈاون اور کورونا وائرس کی وبا کے درمیان ورک فروم ہوم کرتے ہوئے شاہ عمران حسن نے ایک اہم کام کو پورا کیا ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔
شاہ عمران حسن نے کہا کہ مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ”انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر“ کے مطالعہ نے انہیں بے حد متاثر کا تھا۔
اِس کتاب کے مطالعہ نے جہاں شاہ عمران حسن کے اندر ماضی وحال اور مستقبل کے حوالے سے مسلمانوںکے تئیں سوچنے سمجھنے کی طاقت پیداکی، وہیں اس کتاب نے ان کے اندر تحقیقی اور علمی انداز میں کام کرنے کا مادّہ بھی پیداکیا؛ حتی کہ علمی وتحقیقی کام کرنا ان کی حیثیت عرفی بن گئی ہے۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی عرف علی میاں کی حیات و خدمات پر مشتمل لکھی جانے والی شاہ عمران حسن کی یہ پانچویں سوانحی کتاب ہے۔یہ کتاب بھی حسب معمول نئی دہلی کے اشاعتی ادارے ”رہبربک سروس“سے شائع 2021 ءمیں شائع ہو رہی ہے۔“ واضح ہو کہ2012ءمیں شاہ عمران حسن نے ہندوستان کے معروف عالم دین اورآل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے بانی مولانا منت اللہ رحمانی کی مفصل سوانحِ عمری بعنوان ”حیاتِ رحمانی“لکھی تھی، اہلِ علم کے درمیان اس کتاب پر بڑی چرچا ہوئی اور اس کتاب پر اُنھیں بہاراُردو اکادمی کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا ۔
حیاتِ رحمانی کی کامیابی کے بعد انھوں نے2015ءمیں عالم اسلام کے معروف عالم دین و تخلیقی مفکر مولانا وحیدالدین خاں پر ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب ”اوراقِ حیات“ تیار کی۔وہ کتاب بھی بہت کامیاب ہے اور پورے ہندوستان میں اس کتاب کی دھوم مچی ہوئی ہے ۔ اوراقِ حیات کو پڑھے یا سمجھے بغیر مولانا وحیدالدین خاں کو سمجھنامشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ اوراقِ حیات مولاناوحیدالدین خاں کو سمجھنے کاواحد ذریعہ ہے ۔اس کتاب کی خوب صورتی اوراس کا استناد یہ ہے کہ مولانا کے افکار و تصورات اور زندگی کے مہ وسال کو ان کی ہی تحریروں کی مددسے مرتب کیا گیا ہے۔
سنہ2016 ءمیں امارت شرعیہ بہار کے امیر شریعت و معروف عالم دین مولانا محمد ولی رحمانی پر تحریر کردہ کتاب”حیات ولی“ ،شاہ عمران حسن کی قلم سے
نکلنے والی تیسری سوانحی کتاب ہے ، جو بہت کامیاب رہی اور پورے ملک ہندوستان میںاس کتاب کو مقبولیت اور شہرت ملی۔ اس کا ہندی ایڈیشن بھی شائع ہوکر مقبول ہو چکا ہے۔
شاہ عمران حسن کی چوتھی سوانحی کتاب ”حیاتِ غامدی“ ہے جو کہ دراصل”مکتبہ فراہی“ کے ایک اہم عالم دین اور محقق جاویداحمد غامدی کی علمی اور تحریکی
زندگی کے ذیل میں تیار کی گئی ہے ،یہ160صفحات پر مشتمل ہے ، اس کی اشاعت 2017ءمیں عمل میں آئی اوراس کو اہلِ علم نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہندوستان کے اندراورباہر اِس کتاب کا مسلسل مطالعہ کیا جارہاہے ۔
اس کے علاوہ ان کا افسانوی مجموعہ ”ادھورے خواب “ 2018ءمیں منظر عام پر آچکا ہے۔اس افسانوی مجموعہ پر انہیں بہار اردو اکادمی جانب سے ایوراڈ بھی مل چکا ہے۔

شاہ عمران حسن نے مدرسے کی تعلیم سے قطعاً لا تعلق ہونے کے باوجود عالم اسلام کی چار اہم مذہبی شخصیتوں کا انتخاب کیا اور جس سلیقے، توازن اور
غیر جانب داری کے ساتھ ان کے حالاتِ زندگی اور کارناموں کو بیانیے کی صورت دی ایسی روش فی زمانہ دیکھنے کو شاذ و ناد ر ہی ملتی ہے ، کہ سوانحی
تحریروں میں عقیدت و عصبیت کسی نہ کسی طور اپنی جھلک دکھلا ہی جاتی ہیں۔
شاہ عمران حسن ہندوستان بھر میں سوانحی ادب میں بلا تفریق ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔اُنھوں نے مختلف مکتب ِ فکر کے اہلِ علم پر کام کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر مسلک اور ہر حلقے میں پڑھے جاتے ہیں ۔
عالم اسلام کے معروف مفکراور داعی دین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی دینی اورملی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اُن کے حالات وکوائف پر بہت سے مقالے اورمضامین انگریزی اور اُردو میں شائع ہو چکے ہیں ۔ تاہم ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو عام فہم ہو ار جس میں مولاناسیدابوالحسن علی ندوی کی زندگی کا اجمالی نقشہ کھینچا گیا ہو۔”حیات علی“ میں اس کی
پوری کوشش کی گئی کہ کوئی بھی شخص اس کو پڑھ کر ان کے مشن ااور کارنامہ کو سمجھ سکتا ہے۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ عام فہم اور سلیس زبان میں تحریر گئی ہے، جس سے دینی مدارس وابستہ افراد کے ساتھ دیگر شعبہ جات کے افراد بھی استفادہ
کرسکتے ہیں۔
امید کی جانی چاہئے کہ شاہ عمران حسن کی مولاناسیدابوالحسن علی ندوی پر لکھی جانے والی زیر طبع کتاب ”حیاتِ علی“بھی ایک اہم دستاویزی کتاب ثابت ہوگی اور مولاناسیدابوالحسن علی ندوی جیسی عبقری شخصیت کو جاننے میں معاون ثابت ہوگی نیز اسلامی کتب خانوں میں ایک اضافہ بنے گی۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے