خاموشی

خاموشی

حسین قریشی 


مدرسے کی چھٹی ہو چکی تھی۔ تمام بچے اپنے اپنے گھر جا رہے تھے۔ استاد نے اپنے چہیتے شاگرد ذاکر کو آواز دی۔ کہا کہ "میں گھرتاخیر سے پہنچوں گا۔ تم یہ روپیے لو اور سبزی خرید کر گھر پر دے دو۔” ذاکر بے  فرماں بردار مفلس لڑکا تھا۔

ذاکر کے والد دن بھر پھلوں کی ٹوکری لئے پھرتے رہتے تھے۔ شام کو محنت کی کمائی سے بچوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ ذاکر کی والدہ بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئی تھی۔ ذاکرہوشیار و ہونہار تھا۔ فرمانبردار ہونے کی وجہ سے استاد اسے عزیز رکھتے تھے۔ مدرسہ کے بعد بھی وہ ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ان کے گھر کے تمام لوازمات لا کر دیتا تھا۔ گھر و باہر کے تمام  ضروری کام وہ بخوبی کرتا تھا۔
استاد کے دو بچے تھے۔ حسنین اور کنیز۔ ذاکر ان کے ساتھ کھیلتا، ان کا دل بہلاتا انھیں باہر کی سیر کرواتا تھا۔ استاد، ذاکرکواپنے ساتھ کھانا کھلاتے، بائیک پر اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اسے بہت خوشی ہوتی تھی۔ ذاکر کا روز گھر پر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وقت کی کوئی قید نہیں تھی۔ استاد کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ذاکر کے والد بے فکر رہتے تھے۔ ذاکر عشاء کی نماز کے بعد برابر گھر آجایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی استاد بائیک سے چھوڑنے آتے تھے۔ استاد کے گھر کے تمام حالات سے ذاکر بحسن وخوبی واقف تھا۔ وہ صاف و نیک دل انسان تھے۔ وہ اپنے کام مؤثر طرز پر کیا کرتے تھے۔ وہ اپنی اہلیہ شہناز کو ہمیشہ سمجھاتے رہتے تھے کہ فلاں کام ایسے کیا کرو، یہ درست نہیں، بچوں کو صاف ستھرا رکھا کرو۔ صحت و تندرستی کے گُر بھی بتاتے تھے۔

سمجھانے کے باوجود شہناز باجی جب عمل نہ کرتیں یا  دیگر کاموں کے بعد استاد کے کام کرتیں، جس کی وجہ سے  اکثر استادِ کو تاخیر تاخیر ہوجاتی تھی۔ سبھی کا کام کرنے کا طریقہ اور بات کرنے کا لہجہ یکساں نہیں ہوتا ہے نا۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں پراستادِ محترم باجی پر غصہ ہوجا تے تھے۔ وہ کہتے” میں نے سمجھایا پھر بھی تم سمجھتی نہیں ہو۔ اور کام غلط کرتی رہتی ہو۔ دماغ کا پتہ ہی نہیں ہے تمھیں۔ نا لائق ہو تم۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود باربار کہنا اور سمجھانا پڑھتا ہے۔ حد ہو گئی۔” اور جب باجی بھی استاد کو الٹ کر جواب دیتیں تو استاد مزید غصہ ہو جاتے تھے۔ پھر بات بگڑ جاتی تھی۔ باجی بھی غصہ ہوجاتیں اور پھر یہ آپسی بحث اتنی بڑھ جاتی کہ کبھی کبھی باجی کو مار بھی پڑتی تھی۔ جس سے گھر کا ماحول خراب ہو جاتا تھا۔ گھرمیں بات چیت بند ہوجایا کرتی تھی۔

اس دوران ذاکر بغیر کچھ بولے حسنین اور کنیز کو باہر دکان پر چاکلیٹ یا بِسکٹ دِلوانے کے لیے لے جایا کرتا تھا۔ تاکہ وہ چیخ و پکار نہ کرے۔ روئے نا ،گھبرائے نا اور والدین کی بحث کے منفی اثرات ان کی شخصیت پر نہ پڑے۔ ذاکرکی سوچ تھی کہ بچے تو بڑوں کی تقلید سے ہی سیکھتے ہیں۔ انھیں وہ تمام کام جو ان کے بڑے کرتے ہیں اچھے لگتے ہیں۔ بچے ان کی نقل کرتے رہتے ہیں اور جب انہیں ہوش آتا ہے کہ یہ غلط ہے تب دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس وقت ذہن کو منتقل کرنا اور اپنےبرتاؤ میں تبدیلی لانا مشکل ہوجاتا ہے۔

ذاکر نے سنا تھا ” گیلی لکڑی کو ہر سمت موڑا جاسکتا ہے مگر سوکھی لکڑی کو نہیں۔” عادتیں بچپن سے ہی نشو ونما پاتی ہیں۔ اسی سوچ و فکر سے ذاکر بچوں کو اس طرح کے ماحول سے کچھ وقفے کے لئے دور رکھتا تھا۔ گھر میں بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑا تھوڑی دیر تک ہی چلتا مگر اپنے اثرات تین چار دنوں تک چھوڑ جاتا تھا۔ اس درمیان گھر میں تناؤ رہتا تھا۔ یوں سمجھو خوشیاں گُم ہوجاتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ باجی استاد کو منانے میں کامیاب ہوجاتی تھی اور گھرمیں دوبارہ خوشیوں کا ماحول ہوجاتا تھا۔ سب مل کر ایک ساتھ کھانا کھانے بیٹھ جاتے کچھ ہنسی مذاق کے قہقہے فضاؤں میں گونج اٹھتے تھے۔ حسنین اور کنیز بہت خوش ہوتے تھے۔ اس طرح کے حالات ہوتے رہتے تھے۔ چند دن پہلے بحث میں باجی کو سر پر چوٹ لگ گئی تھی۔ باجی بہت روئیں تھے۔ ذاکر کا دل بھی بھر آیا تھا۔ ذاکر سوچنے لگا کہ یہ حالات ایسے کیوں ہوجاتے ہیں۔ اُس دن استاد کسی کام سے باہر گاؤں گئے ہوئے تھے۔ اتوار کا دن تھا مدرسے کوچھٹی تھی۔ معمول کے مطابق ذاکر گوشت و سبزی لے کر گھر پہنچا۔ باجی کو دیا۔ بچوں سے باتیں کی، انھیں چاکلیٹ دیا۔ باجی کھانا بنانے کی تیاری میں مصروف تھیں ۔ ذاکر نے باجی سے کہا
"باجی میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔”
باجی نے کہا ہاں، بولو۔۔۔۔ ذاکر کیا کہنا ہے؟
ذاکربولا، باجی، برا مت ماننا۔
باجی نے کہا ، اوکے بابا مجھے برا نہیں لگے گا۔۔۔۔ تم کہو۔۔۔۔۔
ذاکرنے کہا "باجی ،۔۔۔۔۔۔۔ استاد کا تم سے بحث کرنا،جھگڑا کرنا اور تم پر ہاتھ اٹھانا اس کی وجہ میں نے تلاش کی ہے۔”
ارے واہ!!!!! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ بتاؤ۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ کیا وجہ ہے ذرا ہم بھی تو سنیں۔ باجی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ذاکربولا۔۔۔ باجی وہ ۔۔۔ وجہ ۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔ہے۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔
باجی نے کہا، "یہ کیا وہ۔۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔ لگا رکھا ہے۔ صاف صاف بولو ذاکر”
وہ ۔۔۔۔۔۔ باجی تمھارا۔۔۔ اُلٹاکے جواب ۔۔۔ دینا ۔۔۔ اسی سے بات بگڑ جاتی ہے۔

حسین قریشی کا یہ افسانچہ بھی ملاحظہ کریں : کلیٖن چٹ

شیئر کیجیے

One thought on “خاموشی

  1. ہمارے اندر ایسی کئی انسانی کمزوریاں ہیں جن پر اگر ہم قابو پا لیں تو ہماری اپنی زندگی اور خود سے متعلق دیگر لوگوں کی زندگیاں مزید خوشگوار ہو سکتی ہیں ۔ خاص طور پر گھر کا ماحول اگر ناخوشگوار ہو تو بچوں کی نفسیات پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ لہذا ماں باپ کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔
    اس حقیقت اور مسئلے کو افسانہ نگار نے ایک کہانی کی شکل میں پیش کرنے کی سعی کی ہے ۔
    میرے خیال میں کہانی تھوڑی سی محنت سے مزید موثر بن سکتی ہے ۔
    حسین قریشی صاحب کا اشتراک ڈاٹ کام پر خیر مقدم کرتا ہوں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے