ہومر: یونان کا عظیم شاعر

ہومر: یونان کا عظیم شاعر

 

وقا راحمد ملک

 

ہومر کون تھا؟ کس دور میں زندہ رہا؟ اس کے کارہائے نمایاں کیا کیا ہیں؟ اس کی اصل عمر کیا تھی؟ ان سوالات کے جوابات کسی کے پاس نہیں۔ خود یونانیوں کے پاس بھی نہیں جن کے دیس کا یہ باسی تھا۔یہ بات بھی طے ہونا ابھی باقی ہے کہ کیا ہومر نام کا کوئی شخص واقعی تھا بھی سہی یا نہیں یا اس کی موجودگی KING ARTHER کے فرضی کردار کی طرح سب افسانوی باتیں ہیں۔ ہومر کے نام کی طرح اس کے کارناموں کا پتہ چلانا بھی تاریکی میں تیر چلانے کے برابر ہے۔
ہومر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک اندھا بھکاری تھا جو یونان کی گلیوں میں بھیک مانگا کرتا تھا۔ یونانی زبان میں ہومروس کے معنی بھی اندھے کے ہیں۔ ہومر قدیم یونان کا عظیم ترین شاعر سمجھا جاتا ہے۔ معروف یونانی تاریخ دان ہیروڈوٹس کے مطابق ہومر کی پیدائش کرائسٹ کی پیدائش سے آٹھ صدیاں پہلے کی ہے۔اس لحاظ سے اس کا دور آٹھویں صدی قبل مسیح ہے۔ ہومر نے آج تک پڑھی جانے والی عظیم رزمیہ نظمیں اوڈیسی اور ایلیڈ تخلیق کیں۔ یونانی دیو مالا کے مطابق ہومر یونانی دریا میلیس کا بیٹا تھا جب کہ اس کی ماں کریتھائس نام کی ایک دریائی پری تھی۔دیومالا کے مطابق دریائے میلیس کے کنارے فیموسس نام کے ایک موسیقار اور شاعر کا سکول قائم تھا۔ فیموسس نے ننھے ہومر اور اس کی ماں کریتھائس پر ترس کھایا کیونکہ ماں بیٹا دونوں بے خانماں پناہ گزینوں کی طرح مارے مارے پھر رہے تھے۔ فیموسس کی باذوق شخصیت کو جب ننھے ہومر نے قریب سے دیکھا تو اس کے اندر بھی علم و ادب اور موسیقی کا شغف پیدا ہوا۔عمر گزرتی رہی جب فیموسس مرنے لگا تو اس نے ہومر کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ ہومر کی نظر شروع ہی سے کمزور تھی۔ فیموسس کے سکول میں جب اس نے تحریر و تصنیف پر زیادہ زور دیاتو اس کی نظر مزید کمزور ہونا شروع ہو گئی اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب ہومر مکمل اندھا ہو گیا۔
عظیم یونانی مفکر اور فلاسفر ارسطو سے منسوب ایک کتاب میں ہومر کے متعلق ایک عجیب و غریب اور دل چسپ قصہ درج کیا گیا ہے۔ روایت کے مطابق ایک دن ہومر آرکیڈیا کے سمندر کے کنارے ماہی گیروں کی بستی میں گیا اور ان سے سوال کیا کہ کیا تمہارے پاس میرے لیئے کچھ ہے؟ ماہی گیروں نے کہا جی ہے لیکن تم کہ وہ چیز تب ملے گی جب تم ہماری ایک پہیلی بوجھو گے۔ پہیلی یہ تھی کہ جو کچھ ہم نے پکڑا تھا وہ پیچھے رہ گیا اور جو کچھ ہم نے نہیں پکڑا وہ ہمارے پاس ہے۔ روایت کے مطابق ہومر وہ پہیلی نہ بوجھ سکا اور کف افسوس ملتے ہوئے دھیرے دھیرے بیمار ہوتا چلا گیا اور اسی غم نے آخر اس عظیم شاعر کی جان لے لی۔ کہا جاتا ہے کہ آج بھی آرکیڈیا اور ایتھنز کے غلہ بان اور چرواہے اس کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔
انگریزی اور یونانی ادب میں ہومر سے منسوب بہت ساری نظمیں آج بھی دل چسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ اس نابغہء روزگار شاعر کے ادبی کام کا ایک بڑا حصہ زمانہ کی خرد برد کا شکار ہو کر گم ہو گیا۔ آج اس کی تمام تر شہرت اوڈیسی اور ایلیڈ کی مرہون منت ہے۔ ایلیڈ میں ٹرائے کی مشہور جنگ کے واقعات کو قلم بند کیا گیا ہے جو یونان اور ٹرائے کے بیچ لڑی گئی تھی۔ اوڈیسی کے انداز بیان اور دوسری صنفی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے ادبی نقادوں کے ایک گروہ کے مطابق یہ یادگار رزمیہ نظم ہومر کی بجائے کسی نسوانی شاعر نے تخلیق کی کیوں کہ اوڈیسی اور ایلیڈ کے انداز بیان میں بھی کافی حد تک تفاوت پایا جاتا ہے۔

وقار احمد ملک کی یہ تحریر بھی پڑھیں: الیگزینڈرپوپ:اٹھاوریں صدی کانمائندہ شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے