مسائل کا تصفیہ بھی ہوگا اور ملک خوشحال بھی!

مسائل کا تصفیہ بھی ہوگا اور ملک خوشحال بھی!


(بس حکمراں مخلص و باوفا ہو جائیں)


محمد قاسم ٹانڈؔوی

موبائل :09319019005


جمہوری نظام کی خصوصیت اور عوام کی منتخب کردہ حکومتوں کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہاں قانونی دائروں میں رہ کر حکومت اور اہل اقتدار کے خلاف احتجاج و مظاہرہ کرنا آسان ہوتا ہے، جس کا حق عوام کو بلاتفریق مذاہب و طبقات آئین کی طرف سے دیا گیا ہوتا ہے اور عوام کے اس حق کی اجازت اور وکالت ہمارے ملک کی سپریم کورٹ آرٹیکل=19 میں اس طرح بیان کرتی ہےکہ:
"کسی بھی مسئلہ پر اپنی الگ رائے رکھنا ہندوستانی عوام کا بنیادی حق ہے”۔
آج ملک کا کسان گذشتہ دو ماہ سے اپنے اسی حق کی بازیابی کےلئے جد و جہد اور سعی کر رہا ہے اور مرکزی حکومت کے منظور کردہ زراعتی بلوں کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر احتجاج و مظاہرہ کر رہا ہے۔
آج ہر طبقہ اور خطہ سے منسلک ارباب حل و عقد اور بالغ نظری کی حامل اہم شخصیات موجودہ حکومت کی ضد و ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:
"آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے جب طاقت و اقتدار کے نشہ میں اپنے ہی ملک کے کسانوں کے ساتھ ہماری حکومت دشمنوں اور ملک مخالف عناصر جیسا برتاؤ کر رہی ہے، کہ مظاہرین کی راہوں پر کنٹیلے تار، کیل جڑی لوہے کی چادریں اور سیمنٹ پتھر سے تیار آہنی دیواریں کھڑی کی گئیں، اور دہلی کی سرحدوں پر وہ نظارہ پیش کیا گیا جو کبھی کبھار سخت تناؤ کے وقت دو ملکوں کی سرحدوں پر دیکھنے کو ملتا ہے”۔ اور ان سب چیزوں کے اہتمام کی ضرورت اس لئے سمجھی گئی تاکہ احتجاج و مظاہرہ میں شامل ریاست ہریانہ، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش و اتراکھنڈ کے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکا جاسکے اور ان کی ہمت و حوصلہ کو پست کیا جاسکے؟ لیکن شاید ہماری حکومت کی یہ بھول رہی ہوگی کہ موجودہ دور کمپیوٹر اور نیٹ کا ہے، جہاں وقوع پذیر کوئی بھی حادثہ اور معاملہ آناً فاناً لوگوں کے رو برو ہو جاتا ہے، جس پر فوری طور پر کمنٹس اور تبصرہ بازی ہونے لگتی ہے۔ یہاں بھی یہی ہوا کہ محنت کش مظاہرین کے جتھے اور ریلے کو روکنے کےلئے حکومت کی زیر نگرانی جو پلان تیار کیا گیا تھا اس پر جلد ہی عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا پر متحرک و سرگرم رہنے والوں کی نظریں پڑ گئیں، جس سے کہ ان سب انتظامات کی بدولت ہمارے ملک کے نصیب میں ایک اور مرتبہ بےعزتی اور کِرکِری درج ہو گئی۔ جن کو دیکھ کر ہر خاص و عام خود کو یہ سمجھانے میں لگ گیا کہ یہ احتجاج و مظاہرہ کرنے والے دراصل اس ملک کے کسان ہیں یا غدار؟ ہمارے بڑوں نے آزادی کی جنگ کیا اسی لئے لڑی تھی اور ملک انگریزوں کے چنگل سے اسی لئے چھڑایا تھا کہ آزاد ہندوستان میں اپنے حقوق کی آواز بھی بلند نہیں کرسکتے؟ آئین کا مسودہ تیار کرنے اور آزاد ہندوستان کے قوانین مرتب کرنے والوں نے اس ملک کو چلانے اور ہر پنج سالہ دور پر نظام حکومت تشکیل دینے کےلئے ایسے ہی سنہری خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے جو مئی/2014 سے پورے تسلسل کے ساتھ ملک کے عوام دیکھتے اور جھیلتے آ رہے ہیں؟ کیا ظلم و بربریت کے خلاف علم بغاوت اور "ہندوستان چھوڑو” تحریک کا آغاز ہمارے مجاہدین آزادی نے یہی جان کر کیا تھا کہ سیکولر ملک میں تشکیل پانے والی حکومتیں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ ہی غداران وطن جیسا سلوک کریں گی؟
نہیں؛ ہرگز نہیں، بلکہ ہمارے اکابرین اور مجاہدین آزادی نے اس ملک کو آزاد کرایا تھا یہ سمجھ کر کہ یہاں ایک ہی گھاٹ اور چشمہ پر شیر اور بکری کی مانند ہندو مسلم سیراب ہوا کریں گے، یہاں مندر میں بجنے والے گھنٹے اور مسجد سے گونجنے والی اذان سے سبھی طبقات و خاندان لطف اندوز ہوا کریں گے، یہاں نانک و چشتی اور رام و بسمل ایک ہی محلے اور چبوترے پر بیٹھ کر اپنی کتھا اور حکمت کے موتیوں سے فضا کو ہندو مسلم اتحاد سے خوش گوار اور ماحول کو آپسی پیار و محبت کی چاشنی سے گل گلزار کریں گے، گاندھی و آزاد کے خوابوں کی یہ جنت نما سرزمین مذہبی منافرت سے پاک، باہمی گروہ بندی سے کوسوں دور اور فرقہ وارانہ فسادات اور آپسی تعصب پرستی کا شکار کسی قیمت نہ ہونے دی جائےگی۔
مگر افسوس صد افسوس! جن باتوں اور جن اندیشہ و خدشات کا جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں نے اور بےدریغ اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والوں نے سوچا تک نہیں ہوگا آج ان تمام خدشات نے نہ صرف جنم لے لیا ہے بلکہ ہمارا یہ ملک پوری طرح ان کی بھیانک لپٹوں میں آج جھلس رہا ہے اور اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے معدودے چند لوگوں کو چھوڑ کر دیگر تمام طبقات و مذاہب کے ماننے والے خود کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ جس کا اظہار وقفہ وقفہ سے ہر برادری اور ہر مذہب کے ماننے والوں کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔
جمہوریت پسند حکومتیں ایک صحت مند سماج کو تشکیل اور خوش حال معاشرے کو پروان چڑھانے میں یقین رکھا کرتی ہیں، اور جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہی ہوتی ہے کہ وہاں بلاتفریق مذہب اور بلا امتیاز قوم و ملت سب کی فوز و فلاح پیش نظر ہوا کرتی ہے، تعلیم و ترقی کے مواقع اور حصولیابی کے میدان میں یکساں سلوک برتا جاتا ہے تاکہ بحیثیت قوم ملک کا ہر ہر فرد کسی وجہ سے اپنے اہداف و مقاصد میں پیچھے نہ رہ جائے۔ اگر انہی اصول و ضوابط پر قائم و دائم رہ کر سیاسی جماعتیں حکمرانی کرتی رہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں رہ جاتی ہے کہ ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا نہ ہو؟ عوامی سطح پر دلوں سے رنجشیں دور نہ ہوں؟ اور اس وقت ملک گیر سطح پر جو آپسی تناؤ اور مذہبی اختلاف و انتشار کا ماحول نظر آ رہا ہے، وہ سب دور اور ختم ہو کر ہمارے اس ملک کی جو اصلی خوبی اور پرانی گنگا جمنی تہذیب و روایت ہے اس کا مشاہدہ اور دور دورہ نہ ہو جائے؟ بس ضرورت حکمرانوں کے مخلص و باوفا اور ہم درد ہونے اور قوم و ملت کی سالمیت کا احساس اپنے اندر پیدا کرنے کی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ جس دن ہمارے حکمراں مذکورہ خوبی اور اوصاف سے خود کو مزین و مرصع کر لیں گے اسی دن تمام مسائل کا تصفیہ بھی ہو جائےگا اور اسی دن ملک خوش حالی و ترقی کے راستے پر گامزن بھی۔
(mdqasimtandvi@gmail.com)

صاحب مضمون کا گذشتہ مضمون یہاں پڑھ سکتے ہیں : جمہوریت نام ہے عوامی حقوق کے تحفظات کا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے