مولاناریاست علی ظفر بجنوری: مختصر حیات وخدمات

مولاناریاست علی ظفر بجنوری: مختصر حیات وخدمات


انوارالحق قاسمی نیپالی
دارالعلوم دیوبندکے معتبراستاذحدیث،استاذالعلماء ،ملکی سطح پر مقبول ومشہور تنظیم جمعیت علماء ہند کے نائب صدر ،یگانہ روزگار شاعر ،بڑےقلم کار ،اردو وعربی زبان پر گہری بصیرت رکھنےوالے بےمثال ادیب ،دارالعلوم دیوبند کےشعبہ شیخ الہند کے سابق ڈائرکٹر وناظم اعلی ، ،ترانہ دارالعلوم دیوبند کےتخلیق کار ،دارالعلوم دیوبند کےسابق ناظم تعلیمات ،ماہنامہ دارالعلوم دیوبند کےسابق مدیر،اول پوزیشن کےساتھ سند فضیلت حاصل کرنے والے وقت کےمحنتی طالب علم،کتاب اللہ کےبعد سب سےمقبول کتاب "بخاری شریف” کےزبردست شارح ،سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدفخرالدین صاحب کےمعتمد شاگرد ،”شوری کی شرعی حیثیت”تصنیف کرکے امت پراحسان عظیم کرنے والے نایاب مصنف ،قاضی محمداعلی تھانوی کی مشہور زمانہ کتاب "کشاف الاصطلاحات الفنون ” کی تحقیق ومراجعت اور تصحیح وتنقیح کاکام کرنےوالے بلندپایہ عالم دین ،رئیس المحدثین حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری مختصر علالت کےبعد 20/مئی 2017ء مطابق 23/شعبان المعظم 1438ھ کی درمیانی شب 77/سال کی عمرپاکر اس فانی دنیاسے چل کر دائمی دنیامیں ہمیشہ ہمیش کےلیے داخل ہوگئے:اناللہ واناالیہ راجعون،نوراللہ نرقدہ۔
دارالعلوم دیوبند کےاستاذ حدیث اور ماہنامہ دارالعلوم کے مدیر حضرت مولانا محمدسلمان صاحب بجنوری نقشبندی حفظہ اللہ لکھتے ہیں  اگر آپ، رسوخ فی العلم، قوتِ استنباط، دقتِ نظر، سلاستِ بیان، فکر وتدبر،اصابتِ رائے، سلامتی فکر، صبر وقناعت، زہد واستغناء، تقویٰ وپاک دامنی، جود وسخا، غریب پروری ومہمان نوازی، ادائے حقوق، عالی حوصلگی وسیرچشمی، خوش گفتاری ونرم خوئی، شفقت ومحبت، احساسِ ذمہ داری، ذہانت وظرافت، بھرپور خوداعتمادی کے ساتھ کامل تواضع، قوتِ فیصلہ، دوربینی، دیانت وامانت، اعلیٰ تدریس وخطابت،  نظم ونثر پر مثالی قدرت، سلیقہٴ زندگی، آدابِ مجلس کی رعایت اور سادگیِ بے تکلفی کا مجسم نمونہ دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت مولانا کی شخصیت تھی اور یقین فرمائیں کہ ان اوصاف میں سے کسی کا تذکرہ بھرتی کے لیے نہیں کیاگیا؛ بلکہ ان کی شخصیت کے طویل مطالعہ پرمبنی ہے۔
حضرت مولاناریاست علی ظفر بجنوری 9/مارچ 1940ء کو "علی گڑھ” میں پیداہوئے ،آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والاضلع بجنور ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے استاذ تفسیر وادب حضرت مولانامفتی محمد ساجد صاحب قاسمی رقم طراز ہیں : آپ نسبی اعتبار سے ایک شریف خانوادے کے چشم و چراغ تھے، آپ کا سلسلہٴ نسب میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے ، اوریہ بات پایہٴ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ نسبی خصوصیات نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔آپ کو بھی نسبی خصوصیات سے ایک وافر حصہ ملا ہوا تھا؛ چنانچہ مہمان نوازی وکرم گستری، ہم دردی و غم گساری، شرافت ومروت اور ذکاوت وذہانت آپ کی نمایاں موروثی صفات تھیں۔
والد صاحب کا سایہٴ عاطفت بچپن ہی میں آپ کے سر سے اٹھ گیا تھا، آپ کے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب ( سابق ناظم کتب خانہ دار العلوم دیوبند) بغرضِ تعلیم و تربیت آپ کو اپنے ساتھ دیوبند لائے ، آپ نے دار العلوم دیوبند میں ان کی سرپرستی میں تعلیم کی تکمیل کی اور فرسٹ پوزیشن سے دور ہٴ حدیث کا امتحان پاس کیا۔
آپ نے جس ماحول میں نشو ونماپائی، وہ ابتدائًا آپ کا خاندانی ماحول اور ثانیاً دار العلوم دیوبند کا علمی وروحانی ماحول تھا، جو اساتذہ ٴ دار العلوم( جو بیک وقت اساطینِ علم اور اصحابِ نسبت بزرگ تھے) کے سانسوں سے پُر تھا، ان میں سے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی، حضرت مولانا فخرالدین احمدمرادآبادی، حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور شیخ الادب حضرت مولانا محمداعزازعلی امروہوی خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
حضرت مرحوم کاانداز درس بہت ہی نرالہ تھا. ہرعبارت کاصحیح مفہوم طلبہ کےذہن ودماغ میں نقش اور پیوست کردیتےتھے. بوقت ضرورت محفل کوزعفران داربنادیتےتھے. الغرض بحربیکراں نے مرحوم کو افہام وتفہم کاملکہ عطاکیاتھا۔
حضرت مولاناخالد سیف اللہ صاحب رحمانی  دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں کہ مولانا کو تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہ دینے کا موقع نہیں ملا؛ حالاں کہ اگر وہ اس جانب توجہ دیتے تو ان کا شمار ان کے دور کے بڑے مصنّفین میں ہوتا؛ لیکن ان کی دو تحریری یادگاریں ہمارے سامنے ہیں، ایک: ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“، جس میں انھوں نے شورائی نظام کی اہمیت اور اس کے اختیارات پر بڑی فاضلانہ گفتگو کی ہے؛ اگرچہ ایک خاص پس منظر میں استاذ گرامی حضرت مولانا معراج الحق صاحب کے ایماء پر انھوں نے یہ کتاب تالیف کی ہے؛ لیکن نفسِ موضوع کے اعتبار سے بھی یہ بڑی اہم کتاب ہے اوراُردو زبان میں شاید اس مسئلہ پر اتنی تفصیل کے ساتھ قلم نہیں اُٹھایا گیاہے۔
دوسرا کام؛ بلکہ کارنامہ ”ایضاح البخاری“کی ترتیب ہے، یہ کام میری نظر میں اس لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کتاب نے مولانا فخر الدین احمد صاحب کو علمی و درسی دنیا میں زندہ رکھا ہے، امام شافعی سے منقول ہے کہ لیث ابن سعد امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے؛ لیکن ان کے شاگردوں نے ان کو ضائع کردیا؛ چنانچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ علمی شخصیتیں اکثر اپنے تصنیفی و تالیفی کارناموں سے زندہ رہتی ہیں، اور اگر کسی شخص کو تصنیف و تالیف سے اشتغال کا موقع نہیں ملا، یا ان کا علمی سرمایہ محفوظ نہیں رہا تو اگر شاگردوں نے ان کے افادات کو جمع کیا تو یہ ان کی زندگی کو باقی رکھتا ہے، ورنہ آہستہ آہستہ ان کی شخصیت لوگوں کے ذہن سے محو ہوجاتی ہے، اس کی سب سے بڑی مثال خود امام ابوحنیفہ ہیں کہ آپ کی براہ راست تصنیفات محفوظ نہیں رہ سکیں اور جو چیزیں باقی ہیں اور آپ کی طرف منسوب ہیں، اہل علم کے نزدیک ان کی نسبت مشکوک ہے؛ لیکن آپ کے باکمال شاگردوں، خاص کر امام محمد کے ذریعہ آپ کا علمی وفقہی سرمایہ محفوظ ہوگیا، جو آج اہلِ علم کی آنکھوں کا سرمہ بنا ہوا ہے اور اہل السنة والجماعت کی غالب تعداد آپ ہی کے فقہی اجتہادات کی متبع ہیں ۔

حضرت مولانا مفتی سلمان صاحب منصورپوری حفظہ اللہ حضرت کے ترانہ کی مقبولیت کےحوالے لکھتے ہیں کہ جس وقت دارالعلوم میں صدسالہ عالمی اِجلاس ہوا اور اُس کی افتتاحی نشست میں پوری شان وشوکت کے ساتھ دارالعلوم کا ترانہ:

”یہ علم و ہنر کا گہو ا رہ * تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں ایک شعلہ ہے* ہر سرویہاں مینارہ ہے“

پڑھا گیا، تو سننے والا ہر شخص جھوم اُٹھا اور ہر طرف اِس ترانہ کی دھوم مچ گئی، الفاظ کی چست بندش، تاریخ کے تناظر میں معانی کی جامعیت، اَشعار کی صورت میں فکرِ دیوبند کی بھرپورترجمانی اور دارالعلوم سے وابستہ بلند مرتبہ شخصیات کے پاکیزہ اور برمحل تذکرے نے اِس ترانہ کو جو قبولیتِ عامہ عطا کی، اس کی نظیرنہیں ملتی۔

مزید لکھتے ہیں کہ جمعیة علماء ہند اور اُس کی فکر سے آپ بچپن سے وابستہ رہے؛ تاآں کہ عمر کے آخری دس سالوں میں جمعیة علماء ہند کے مرکزی نائب صدر کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اور جب ”مباحث فقہیہ جمعیة علماء ہند“ کے فقہی اجتماعات کا سلسلہ شروع ہوا، تو جب تک صحت رہی اُن کی نظامت کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوتی تھی، جسے آپ پوری کامیابی سے انجام دیتے تھے۔

آپ کو شعرواَدب کا اصاف ستھرا ذوق بھی عطا ہوا تھا، جو آپ کی فطری ذہانت وذکاوت سے ہم آہنگ تھا، جس کو اُستاذ الشعراء مولانا محمدعثمان کاشف الہاشمی کی رفاقت نے دوآتشہ بنادیا تھا؛ چنانچہ آپ کے قلم سے ایسے بلندپایہ پاکیزہ اَشعار صادر ہوئے جو زبان زدِ خاص وعام ہوگئے۔ بالخصوص دارالعلوم دیوبند اور جمعیة علماء ہند کا بہترین ترانہ آپ کی یادگار ہے، اُن کے علاوہ آپ نے جو نعتیں یا غزلیں لکھیں، اُن سے آپ کی فکری لطافت اور حسن ذوق کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سب تخلیقات ”نغمہٴ سحر“ کے نام سے ۱۴۴/صفحات پر مشتمل کتاب میں شائع کردی گئی ہیں۔ باذوق حضرات اُس سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔

حضرت مولانا نورعالم خلیل امینی صاحب لکھتےہیں کہ مولانا کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ معاشرتی زندگی جینے کے فن میں بڑے ماہر تھے۔ کوئی آدمی اُن سے کوئی معاملہ کرکے کبھی بے مزہ نہ ہوتا تھا؛ کیوں کہ وہ کسی بات پر خواہ وہ کتنا ہی غصہ دلانے والی ہو زبان سے یا چہرے مہرے کی کسی ادا سے خفگی کا اظہار کرتے نہ برا منانے کی کیفیت نمایاں ہونے دیتے، وہ اشتعال انگیز صورتِ حال میں بھی شگفتہ رو اور خندہ جبیں رہتے۔

اُنھوں نے لوگوں کو اپنی ادائے زندگی سے خوشی ہی دی، رنج وغم سے اُنھیں ہمیشہ دور رکھا۔ اُن سے ملنے والوں کو سکون واطمینان کا سرمایہ ملا، انتشار وتشویش کی کسی صورتِ حال سے کبھی واسطہ نہ ہوا۔ اِس طرح کا آدمی پسِ مرگ اپنے بعد کے لوگوں کو بہت یاد آتا ہے جو اُن کا صرف ذکرِ خیر کرتے اور بے پناہ دعاؤ سے نوازتے ہیں

مرحوم نے تین صاحب زادے چھوڑے ہیں :(1)مولانامحمدسفیان قاسمی(2)مولاناقاری عدنان  قاسمی(3)مولانامفتی سعدان قاسمی ۔

اللہ حضرت الاستاذ کی جملہ خدمات کوقبول فرمائے،مرحوم کی مغفرت فرمائے ،درجات بلند فرمائے،پس ماندہ گان کوصبرجمیل عطاء فرمائے ،آمین۔

صاحب مضمون کی گذشتہ تحریر :مولانامتین الحق اسامہ قاسمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے