الیگزینڈرپوپ:اٹھاوریں صدی کانمائندہ شاعر

الیگزینڈرپوپ:اٹھاوریں صدی کانمائندہ شاعر


وقاراحمد ملک

الیگزینڈر پوپ کے والد کانام بھی الیگزینڈرپوپ تھا جو اپنے دور کا سوتی کپڑے کا مشہور تاجراور کیتھولک مذہب کا پیروکارتھا۔ پوپ کی پیدائش 1688 میں برطانیہ کے شہر لندن میں ہوئی۔ اس کا شمار ان گنے چنے ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک عہد کی بنیاد رکھی اور وہ عہد ان کے اپنے نام ہی سے مشہور ہو گیا۔ یہ الیگزینڈر پوپ ہی ہے جس کے نام پر اٹھارویں صدی کے پہلے نصف کو Age of Pope کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
انگریزی ادب میں اٹھارویں صدی کو ادب کا کلاسیکی دور کہا جاتا ہے۔ اور اسی بنیاد پر الیگزینڈر پوپ کو کلاسیکیت کا شہزادہ بولا گیا ہے۔ الیگزینڈر پوپ کی ظاہری اور جسمانی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی پرکشش پہلو نظر نہیں آتا۔ وہ سدا کا روگی بیمار انسان تھا۔ پست قامت پوپ اکثر شدید سردرد کا شکار رہتا۔ اسی سردرد کے باعث وہ اپنی زندگی کو ایک طویل بیماری کہا کرتا۔ ٹی بی کی بیماری نے اس کی ریڑھ کی ہڈی کو متاثر کیا اور وہ کبڑے پن کا شکار ہو گیا۔ ادبی لڑائیوں میں اس کے نقاد اکثر اس کی کبڑی پیٹھ کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ ادب کا طالب علم یہ جان کر حیران ہو گا کہ اس دور میں پوپ کو طنزیہ طور پر کبڑی مینڈک کے نام سے بھی پکارا جاتا۔ پوپ کو دمے کا مرض بھی تھا جو اکثر اس کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن جاتا۔ ساڑھے چار فٹ قد کے حامل اس شاعر کو بیٹھنے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کو سہارا دینا پڑتا جس کے لیے وہ سخت کینوس کا کمر بند استعمال کرتا تھا۔
جسمانی معذوری تو تھی ہی سہی کیتھولک مذہب نے اس کو معاشرتی طور بھی پریشان کیے رکھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ میں کیتھولک مذہب کے پیروکار شدید دباؤ اور پابندیوں کا سامنا کر رہے تھے۔ کیتھولکس کو نہ تو یونیورسٹیوں میں داخلہ ملتا تھا اور نہ ہی وہ سرکاری ملازمت کے اہل سمجھے جاتے تھے۔ ان پابندیوں اور مجبوریوں کے تحت پوپ باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہا۔ پوپ کی ایک آنٹی نے اس کو گھر پر ہی پڑھنا سکھایا۔ لاطینی اور یونانی اس نے ایک پادری سے سیکھی۔ بعد ازاں اس نے فرانسیسی اور اطالوی شاعری کا علم بھی حاصل کیا۔بچپن سے ہی مطالعہ اس کا مشغلہ بنا رہا۔ وہ اپنے والد کی ایک مختصر سی لائبریری میں کتب بینی میں زیادہ وقت صرف کیا کرتا۔
لٹ کا کٹ جانا(RAPE OF THE LOCK) پوپ کی شاہکار نظم ہے۔ ہلکے پھلکے موضوع پر لکھی ہوئی اس نظم کو موک ایپک کا نام دیا گیا جو انگریزی ادب کی ایک معروف صنف ہے۔ اس نظم میں اٹھارویں صدی کے لندن شہر کی خامیوں کو کھول کے بیان کیا گیا ہے۔ خاص کر اس عہد کی اشرافیہ کی خواتین کو تو اس نے نشانے پہ رکھا۔ پوپ کے کارنامے تخلیق کے ساتھ ساتھ ترجمے کے میدان میں بھی نمایاں ہیں۔ پوپ نے مشہورِ زمانہ یونانی شاعر ہومر کی ایپک نظموں ILLIAD اور ODYSSEYکا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمے کے مشکل پن کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوپ کو اس کام پر گیارہ سال لگ گئے۔
پوپ کا انتقال تیس مئی 1744 کو ہوا۔ رومانوی ہوائیں چلنے کی بنا پر اس کے انتقال کے بعد اس کی شاعری کو متروک سمجھا گیا۔ لیکن بیسویں صدی کے نقادوں نے پوپ کے بارے میں مثبت فیصلہ صادر کر کے اس کو انگریز نسل کا ایک اہم اور معتبر شاعر تسلیم کر لیا۔

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے