گُلوں پر سخت پہرے ہو گئے ہیں

گُلوں پر سخت پہرے ہو گئے ہیں


مسعود بیگ تشنہ

گُلوں پر سخت پہرے ہو گئے ہیں
ہمارے زخم گہرے ہو گئے ہیں
لبوں پر پیاس آ کر جم گئی ہے
سبھی منظر اکہرے ہو گئے ہیں
حدِ تعبیر سے آگے نکل کر
ہمارے خواب گہرے ہو گئے ہیں
بہت چبھنے لگے ہیں آج کل یہ
سبھی سپنے سنہرے ہو گئے ہیں
ہمیں آواز کیوں دے گا زمانہ
خبر ہے سب کو، بہرے ہو گئے ہیں
طلاطم کی خبر دیتے نہیں ہیں
سمندر کتنے گہرے ہو گئے ہیں
بھلی پہچان تھی تشنہ ہماری
بھلا ہم کس کے چہرے ہو گئے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے