ہم انسان ہیں، مسلمان ہیں پھر بھی بے حیائی پر آمادہ ہیں!

ہم انسان ہیں، مسلمان ہیں پھر بھی بے حیائی پر آمادہ ہیں!


جاوید اختر بھارتی


ان دنوں سوشل میڈیا پر فرضی آئی ڈی کی بھر مار ہے اور اس میں خواتین کے نام سے لوگ آئی ڈی بناکر سیدھے سادھے بھولے بھالے یا پھر کسی عزت دار کو ریکویسٹ بھیج کر میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں. مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس گھناؤنی حرکت میں مسلمان بھی بہت بڑھ چڑھ کر دل چسپی لے رہے ہیں۔ 
پہلے دوستی کرتے ہیں پھر دھیرے دھیرے اسے فحش کلمات تک لاتے ہیں پھر تصویر کا لین دین کرتے ہیں پھر جب اور بات آگے بڑھتی ہے تو نیم عریاں تصاویر مانگتے بھیجتے ہیں اس کے بعد جب یہ سب اکٹھا کرلیتے ہیں تو اس کا اسکرین شارٹ انہیں بھیجتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق انہیں بلیک میل کی کوشش کرتے ہیں اور اسے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر مانگ پوری نہیں کی گئی تو اسے فیس بک پر اپلوڈ کردیں گے ساری دنیا کے سامنے آپکو بے نقاب کریں گے ۔
دوسری جانب آئی ڈی ہیک کے بارے میں تو سب کو معلوم ہےکہ جب بینک ہیک ہوجاتاہے، اکاؤنٹ ہیک ہوجاتاہے تو ایک فیس بک آئی ڈی کو ہیک کرنا کون سی بڑی بات ہے. ایسا کرنے والوں کو نہ اپنی عزت کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی معاشرے کی کوئی پرواہ ہوتی ہے بلکہ صرف مفاد پرستی ہوتی ہے، ہوس پرستی ہوتی ہے. ابھی چند دنوں قبل کی بات ہے کہ واٹس ایپ سے متعلق کچھ پالیسی تبدیل کرنے کی خبریں آرہی تھیں تو سب کے ہوش اڑ گئے تھے، چہرے مرجھائے ہوئے تھے کہ اب ہماری ساری باتیں، سارے پیغامات کسی کے پاس محفوظ رہیں گے. انسانوں اور مسلمانوں کے ایک معزز طبقے کے اندر بھی زبردست بے چینی تھی. مگر جیسے ہی معاملہ ٹھنڈا ہوا تو فیس بک اور واٹس ایپ پر فرضی تصاویر لگنا شروع ہو گئیں، فرضی نام سے آئی ڈی بھی بننا شروع ہوگئی، ریکویسٹ بھیجنے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا. اب نہ تو کسی مذہبی ایپ اور فولڈر کی یاد آرہی ہے اور نہ ہی کوئی گھبراہٹ ہے. لگتا ہے کہ اب پوری طرح یقین ہوگیا ہے کہ اب ہم جو چاہیں کریں ہماری کسی بھی حرکت کی کسی دوسرے کو خبر نہیں ہوگی. نادان ہیں ایسے لوگ جو یہ بات سوچتے ہیں. انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور جب سے انٹر نیٹ ایجاد ہوا ہے تو ہر ایک کا ڈاٹا کہیں نہ کہیں محفوظ ہوتا ہے. جب ضرورت محسوس کی جاتی ہے تو اس کی زندگی کے ایک ایک لمحات کو کھنگا لا جاتا ہے اور سب کچھ سامنے آجاتا ہے اب سائنس کا زمانہ ہے اور سائنس نے اسلام کی تعلیمات کا سہارا لیا ہے. اس نے قرآن کا سہارا لیا ہے اور جو قوم اپنے آپ کو قرآن والی کہتی ہے اس قوم کی حالت یہ ہے کہ بڑوں کی تعظیم و توقیر بھولتی جارہی ہے، چھوٹوں سے پیار شفقت و محبت بھولتی جارہی ہے. بس صرف اس بات کا گھمنڈ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اس لیے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے ہیں. بے شرمی اور بے حیائی کی حدیں آج انسان پار کرتا جارہا ہے، اور صرف دوسروں کی برائی پر نظر دوڑاتا ہے خود اپنی آئی ڈی پر عورتوں کی تصویر لگاتا ہے یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جس عورت کی تصویر اپنی آئی ڈی پر، اپنی پروفائل پر لگا رہے ہیں وہ بھی کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن ہے. آج ہم کسی کی بہن بیٹی کی تصویر واٹس ایپ اور فیس بک پر لگاتے ہیں تو ہو سکتا ہے کل ہماری بہن بیٹی کی تصویر بھی کوئی اپنی آئی ڈی اپنی پروفائل پر لگا سکتا ہے. تو جب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ہمیں کیسا لگے گا؟ حقیقت یہ ہے کہ آ بیل مجھے مار والا کام تو ہم خود کررہے ہیں –

مگر افسوس صد افسوس کہ انسان تو انسان خود مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ کب کس کی عزت سے کھیل جائے گا، کب کس کے اوپر کیسی تہمت لگا دے گا، کب کہاں کس کو بے عزت کردے گا کوئی بھروسہ نہیں اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا. غیرت تو اتنی مرچکی ہے مسلمانوں کی کہ چوراہے پر کھڑا رہتا ہے تو نقاب میں گزرنے والی خواتین کو دیکھ کر ایسے بدحواس ہوجاتا ہے کہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ کہیں یہ نقاب پوش خاتون اپنے ہی گھر کی نہ ہو. کل تک مسلمانوں کے دشمن اور اسلام کے دشمن بھی اپنا گھر چھوڑ کر کہیں دوسری جگہ کسی کام سے جاتے تھے تو اپنی لڑکیوں کو مسلمانوں کے گھر رکھ کر جاتے تھے کیوں کہ انہیں لاکھ دشمنی کے باوجود بھی یہ یقین رہتا تھا کہ مسلمانوں کے گھر ہماری لڑکیاں محفوظ رہیں گی. اور آج نتیجہ یہ ہے کہ پڑوس کی بہن بیٹیوں کی عزت کو خطرہ خود پڑوسیوں سے ہے، رشتہ دار کی بہن بیٹیوں کی عزت کو خطرہ خود رشتہ دار کے بھائی بھتیجوں اور بیٹوں سے ہے. آئے دن اس طرح کے معاملات کا انکشاف بھی ہوتا رہتا ہے. گھر کے تمام افراد موجود ہوتے ہیں پھر بھی بیٹے کے کان میں موبائل لگا ہواہے. گھنٹوں گھنٹوں بیٹا بات کررہا ہے. گھر سے باہر نکلتا ہے پھر گھر آتا ہے کان میں موبائل لگا ہوا ہے ب،ات چیت ہورہی ہے، باپ ایک بار بھی نہیں پوچھتا کہ کہاں بات کر رہے ہو، کس سے بات کر رہے ہو، کیا بات کر رہے ہو، کیوں بات کر رہے ہو. جب اتنی چھوٹ ہوگی تو بیٹے کا حوصلہ اور بڑھے گا. آج جس سے بات ہورہی ہے کل اس سے ملاقات بھی ہوسکتی ہے. آگ اور پیٹرول اکٹھا بھی ہوسکتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ ناجائز تعلقات کا پردہ فاش ہوگا –
سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ موبائل میں ایک میموری لگی ہوئی ہے، اسی میں ہم نعت رسول بھی رکھے ہوئے ہیں اور اسی میں فلموں کے گانے بھی رکھے ہوئے ہیں، اسی میں علماء کرام کی تقریریں بھی رکھے ہوئے ہیں اور اسی میں فلموں کی اسٹوری بھی رکھے ہوئے ہیں، اسی میں ہم قرآن بھی لوڈ کئے ہوئے ہیں اور اسی میں نیم عریاں تصاویر بھی لوڈ کئے ہوئے ہیں آخر کیا مطلب. شائد مطلب اور مقصد یہی ہوگا کہ راضی رہے رحمن بھی اور خوش رہے شیطان بھی. جہیز میں ایک طرف بیٹی کو ریحل اور قرآن بھ دے رہے ہیں اور دوسری طرف ٹی وی بھی دے رہے ہیں، آخر کیا مطلب. شائد مطلب اور مقصد یہی ہوگا کہ بیٹی ٹی وی کے ذریعے گانے سن کر فلمیں دیکھ کر گناہ کرتی جا اور قرآن پڑھ پڑھ کر گناہ معاف کراتی جا. حد ہو گئی بے حیائی کی. اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہر گھر کا سرپرست خود اپنے گھر کی اصلاح کی ذمہ داری نبھائے. یعنی اب اصلاح معاشرہ مہم نہیں بلکہ اصلاحِ کنبہ، اصلاحِ مکان اور اصلاحِ اولاد کی ضرورت ہے. اور بہترین تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے. تبھی معاشرہ پاکیزہ ہو سکتا ہے، ورنہ نمائش و ریڈیمیڈ طریقوں سے کچھ بھی ہونے والا نہیں اس لئے کہ غیرت تو یہاں تک ختم ہو گئی کہ جلسے اور بزرگانِ دین کے آستانے کو بھی ہم سیر و تفریح کا ذریعہ سمجھ بیٹھے، بزرگانِ دین کے آستانوں اور خانقاہوں میں بیٹھ کر گانجہ اور چیلم خوری کرنے لگے، گاڑیاں اور ٹکٹ کی بکنگ میں کمیشن خوری کرنے لگے. وہاں پہنچ کر بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ فنا ہونا اور فنا فی اللہ ہونے میں کیا فرق ہے. 
***
(سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یوپی
رابطہ 8299579972

صاحب مضمون کا پچھلا مضمون :

دوا، علاج اور بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا!

شیئر کیجیے

One thought on “ہم انسان ہیں، مسلمان ہیں پھر بھی بے حیائی پر آمادہ ہیں!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے