حرم مدینہ کی شرعی حیثیت

حرم مدینہ کی شرعی حیثیت

محمد شہروز کٹیہاری*

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس علیہ التحیة والثنا نے ارشاد فرمایا
"ان ابراھیم حرم مکة وانی حرمت المدینة مابین لا بتیہا لا یقطع عضاھھا و لا یصاد صیدھا” (١)
ترجمہ :- حضرت ابراہیم (علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کے دونوں پتھریلی کناروں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں ،اس کے کسی درخت کو کاٹا جائے نا کوئی شکار شکار کیا جائے. 
یہ حدیث امام مسلم کی روایت کردہ ہے. اس حدیث کی ہم معنی امام بخاری و امام مسلم دونوں نے حضرت انس بن مالک ،حضرت علی ابن ابی طالب ،حضرت ابو ھریرہ اور امام مسلم نے حضرت رافع بن خدیج ،حضرت عبد اللہ بن زید بن عاصم ،حضرت سعید ابن ابی وقاص، حضرت ابو سعید خدری ،حضرت سہیل بن حنیف رضی اللہ عنھم اجمعین سے بہت سی حدیثیں نقل کی ہیں- اس کے لئے بخاری شریف باب حرم المدینہ و مسلم شریف کا متعلقہ باب باب فضل المدینة دیکھا جا سکتا ہے
البتہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے "لا یختلی خلاھا” (یہاں کی گھاس نا کاٹی جائے) اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نے” لا یھراق فیھا دم ولا یحمل فیھا سلاح لقتال ولا یخبط فیھا شجر الا لعلف” (اس میں خون بہایا جائے نا جنگ کے لئے ہتھیار اٹھا یا جائے اور نا چارے کے علاوہ کسی اور مقصد سے پتے توڑے جائیں)
کا اضافہ کیا ہے (٢)

مدینہ کے حرم ہونے پر مذاہب: —
حرم مکہ کی طرح مدینہ منورہ کے حرم ہونے سے متعلق تین مذاہب ہیں. 
پہلا مذہب: مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ منورہ میں بھی حرم ہے ،اس میں شکار کرنا ،درخت کاٹنا وغیرہ جائز نہیں ،جو ایسا کرے وہ گنہ گار ہوگا ،مگر اس پر ضمان واجب نہیں ،جب کہ حرم مکہ مکرمہ میں شکار کرنے سے ضمان واجب ہو جاتا ہے —
یہ مذہب امام زہری ،امام شافعی ،امام مالک ،امام احمد بن حنبل اور حضرت اسحاق رضی اللہ تعالی عنھم کا ہے-
دوسرا مذہب: 
حرم مدینہ میں شکار وغیرہ کرنے سے حرم مکہ کی طرح ضمان بھی واجب ہوجاتا ہے-
یہ مذہب محمد ابن ابی ذئب کا ہے( ٣)
ان دونوں مذہب کے ائمہ کی دلیلیں وہی احادیث ہیں جو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے حوالے سے مذکور ہوئیں. 
امام نووی فرماتے ہیں
"ھذہ الاحادیث حجة ظاہرة فی تحریم لصید المدینة و شجرھا” (۴)
یعنی یہ حدیثیں مدینہ میں شکار کرنے ،اس کے درخت کاٹنے کی حرمت پر صریح دلیل ہیں. 
تیسرا مذہب:  مدینہ منورہ میں حرم مکہ مکرمہ کی طرح کوئی حرم نہیں ،لہذا اس میں شکار کرنا ،درخت کاٹنا، گھاس اکھیڑنا سب جائز ہے-
یہ مذہب حضرت سفیان ثوری، حضرت عبداللہ ابن مبارک، حضرت امام ابو حنیفہ ،حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رضی اللہ تعالی عنھم کا ہے – ان ائمہ کی دلیلیں علامہ بدرالدین عینی نے عمدة القاری ج۵ص ١٣٦ میں شرح و بسط سے ذکر فرمائی ہیں -اور قائلین حرم مدینہ کی دلیلوں کا جواب اس طرح دیتے ہیں
"انما قال ذالک لا لانہ لما ذکروہ من تحریم صید المدینة و شجرھا بل انما اراد بذالک بقاء زینة المدینة لیستطیبوھا و یالفوھا” (٦)
یعنی حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان مدینہ منورہ کے درخت اور شکار کو حرام کرنے کے غرض سے نہیں ہے بلکہ مدینہ منورہ کی زینت کو باقی رکھنے کے لیئے ہے تاکہ لوگ مدینہ سے محبت و رغبت رکھیں. 
خلاصہ یہ نکلا کہ مدینہ منورہ کی گھاس،پھوس ،جانوروں اور درختوں کا ادب و احترام ائمہ شافعیہ ،ائمہ حنبلیہ ،ائمہ مالکیہ اور متعدد صحابہ و تابعین رضوان اللہ تعالی عنھم اجمعین کے نزدیک واجب ہے-البتہ حضرت سفیان ثوری ،اور جملہ ائمہ احناف کے نزدیک احترام مسحتب ہے تاکہ وہاں کی زینت باقی رہے
حدود حرم مدینہ :
حرم مدینہ کے حدود کے تعلق سے احادیث مبارکہ میں مختلف الفاظ آئے ہیں -صحیح مسلم میں حضرت رافع بن خدیج ،حضرت جابر بن عبداللہ ،حضرت سعید بن وقاص ،حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنھم سے "وبین لابتیھا” اور اسی کے ہم معنی الفاظ مروی ہیں (٧)
علامہ یحی ابن شرف نووی "لابة” کی تشریح میں فرماتے ہیں "وھی الارض الملبسة حجارة سوداء و للمدینة لابتان شرقیة و غربیة” (٨)
یعنی کالی پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور مدینہ میں اس طرح کی دو زمینیں تھیں ایک مشرق جانب اور دوسری مغرب جانب-
مسند احمد بن حنبل اور طبرانی میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ سے "مابین عیر الی احد” جبل عیر سے جبل احد تک مروی ہے (٩)
صحیح بخاری میں حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے "مابین عیر الی کذا” جبل عیر سے وہاں تک ہے( ١٠) مگر امام مسلم نے صحیح مسلم میں "الی کذا” کی صراحت حضرت علی ہی کی روایت سے "الی ثور” (جبل ثور تک) سے کی ہے( ١١)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک روایت "مابین جبلیھا” (مدینہ منورہ کے دونوں پہاڑوں کے درمیان) کی بھی ہے( ١٢)
امام بخاری نے "عیر "کا ذکر کیا ہے اور” ثور "کا ذکر نہیں کیا ہے ،اس کی وجہ امام ابن المنیر نے یہ بتائی کہ امام بخاری کے نزدیک مدینہ منورہ میں "ثور” نامی کوئی پہاڑ تھا ہی نہیں اس لئے انہوں نے لفظ "ثور” کو قصدا چھوڑ کر "کذا”کی صراحت فرمائی( ١٣)
حضرت مصعب زھری رضی اللہ عنہ جبل عیر اور جبل ثور دونوں کے مدینہ منورہ میں ہونے سے انکار کرتے ہیں کہ عیر و ثور نامی دو پہاڑ مکہ مکرمہ میں ہیں ناکہ مدینہ منورہ میں -قاضی عیاض رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک قول کے مطابق مدینہ منورہ میں بھی” عیر "نام سے پہاڑہونا مشہور ہے اسی کے مثل "محکم” اور "مثلث "میں بھی مذکور ہے( ١۴)
جبل ثور سے متعلق المحب البصری نے "الاحکام” میں فرمایا کہ مجھے ایک ثقہ عالم ابو محمد عبد السلام بن مزروع نے بتایا کہ جبل احد کے بائیں جانب ایک چھوٹا سا پہاڑ ہےجسے ثور کہا جاتا تھا، لھذا ثور والی روایت درست ہے البتہ اکابر علما کو اس کی عدم شہرت کی وجہ علم نا ہو پایا- اسی طرح کی ایک روایت ابو محمد عبدالسلام بن مزروع ہی سے قطب الدین حلبی نے بھی اپنی شرح میں ذکرکی ہے( ١۵)
اس لیئے امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ بھی احتمال ہے کہ مدینہ کے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کا نام ثور بھی ہو مگر شہرت کسی دوسرے نام سے ہو (١٦)
ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حدیث میں مراد مکہ مکرمہ کے جبل عیر و جبل ثور کے درمیان کی دوری ہو( ١٧)
امام نووی جبل عیر و ثور کے تعلق سے ائمہ کے اقوال اور اس پر اپنی رائے قائم کرنے کے بعد فیصلہ کن انداز میں حرم مدینہ منورہ کی حد بندی اس طرح کرتے ہیں
"فما بین لابتیھا بیان لحد حرمھا من جھتی المشرق والمغرب وما بین جبلیھا بیان لحدہ من الجنوب والشمال”
یعنی مشرق ومغرب کی حد بندی "ما بین لابتیہا” (دونوں پتھریلی زمین کے درمیان) اور جنوب و شمال کی حد بندی "مابین جبلیھا” (دونوں پہاڑوں کے درمیان) سے فرمایا (١٨)
حاصل کلام؛–
خلاصہ یہ کہ حد بندی چاہے جو بھی ہو اجلہ ائمہ کے نزدیک مدینہ منورہ کا ،وہاں کے جنگلات اور گھاس پھوس تک کا احترام کم از کم مستحب ضرور ہے بلکہ ائمہ کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک احترام واجب ہے-


مراجع
(١) صحیح مسلم ،باب فضل المدینة ج ١ ص ۴۴٠ مختار کمپنی دیو بند سن طباعت ١٩٨٦ء
(٢) صحیح مسلم، باب فضل المدینة ج ١ص ۴۴٣
(٣) عمدة القاری ج ۵ ص١٣۵
(۴) شرح مسلم للنووی ج ١ ص ۴۴٠
(۵) عمدة القاری ج ۵ ص ١٣۵ ،١٣٦
(٦) نفس مصدر
(٧) مصدر سابق
(٨) شرح مسلم علی حاشیة مسلم ج١ ص۴۴٢
(٩) عمدة القاری شرح بخاری للعلامة بدرالدین العینی ج ۵ص ١٣۵
(١٠) صحیح بخاری ج ١ ص ٢۵١ باب حرم المدینہ
(١١) صحیح مسلم ج ١ص ۴۴٢
(١٢) نفس مصدر
(١٣) عمدة القاری ج ۵ ص ١٣۴
(١۴) نفس مصدر
(١۵) نفس مصدر
(١٦) شرح مسلم علی حاشیة مسلم ج ١ ص ۴۴٢
(١٧) عمدة القاری ج ۵ ص ١٣۵
(١٨) شرح مسلم ج ١ ص ۴۴٢



*موہنا، چوکی، کدوا، کٹیہار ،بہار
7545976669

  صاحب مضمون کی پچھلی نگارش :بندگی شیخ مصطفی عثمانی، احوال و آثار :ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے