ہندوستان میں مسلم قیادت کا فقدان

ہندوستان میں مسلم قیادت کا فقدان

محمد شمشاد 

 ہندوستان میں مسلم قیادت کی بات کی جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں مسلمانوں کی قیادت بہت برے دور سے گزر رہی ہے. ایک طرف مسلمانوں کے بارے میں عام تصور تھا کہ وہ ایک جھنڈے تلے متحدہیں. ان کا مذہب اوردین اسلام ایک ہے. ان کی کتاب قرآن ایک ہے. وہ ایک ہی پیغمبرمحمد رسولﷺ کے پیروکار ہیں. ان کی نمازیں ایک ہیں اور وہ سب اسی کو مانتے ہیں. لیکن جب ان کے اندر جھانکنے اور ان کے رسم و رواج کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہندوستانی مسلمانوں سے زیادہ بکھری ہوئی کوئی اور قوم نظر نہیں آتی ہے. ہندوستانی مسلمان ذات پات کے نام پر پوری طرح بکھرے نظر آتے ہیں. وہ علاقائی،مسلکی،جماعتی، برادری، سماجی، ثقافتی اور نہ جانے کن کن بنیادوں پر پوری طرح بٹے نظر آتے ہیں. وہ مسجد میں ایک امام کے پیچھے نماز ضرور پڑھتے ہیں جہاں امیر غریب، اونچ نیچ، بڑے چھوٹے،تعلیم یافتہ یا جہالت اور ذات پات کی بنیاد پران کے درمیان کوئی تمیز نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ وہ ایک امام کے پیچھے ایک ہی ِصف میں ایک ساتھ ہی کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں. لیکن مسجد سے نکلتے ہی وہ مختلف گروہوں، جماعتوں میں بٹ جاتے ہیں
حالاں کہ آزادی سے قبل ہندوستانی مسلمانوں میں کسی نہ کسی طرح قیادت موجود تھی اور یہاں کے سارے مسلمان کسی بھی رہنما کے ایک آواز پہ لبیک کہا کرتے تھے. جب کہ اس وقت بھی ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مسلم لیگ، جمیعت العلماء،جماعت اسلامی اور کئی مکتبہء فکر موجود تھیں اوروہ ان کے افکار و عقائدسے متاثر ہوتے تھے. اس کے باوجود وہ سیاسی طور سے ہرکسی کی آواز پر لبیک کہا کرتے تھے. ان کے درمیان اس طرح کے  اختلافات نہیں تھے جو آج پائے جاتے ہیں. الگ الگ مکتبہء فکر میں بٹے ہونے کے باوجود بھی وہ تقریباََ ہر معاملے میں متحد نظر آتے تھے. اب سوال پیدا ہونا لازمی ہے کہ آخر ایسا کیوں؟
آخر اس کی کیا وجوہات ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے. جب ان کے وجوہات پر غور و خوض کیا جاتا ہے تو ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ گزشتہ ستر سالوں میں ہندوستان میں مسلم قیادت کا رویہ نا قابل فہم اور نا قابل اعتماد رہا ہے بلکہ یو ں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان سترسالوں کے درمیان مسلم قیادت یا قایدین کے ذریعہ اس ملک میں برپا کی جانے والی تقریباََ ساری تحریکیں کسی خاص مقصد کے لئے قائم کی گئی تھیں اور ان تحریکوں کے ذریعہ لگائے جانے والے تمام نعرے ایک ہی طرح کے رہے ہیں جو مسلمانوں کی توجہ کے خاص مرکز رہے ہیں. ان نعروں میں کچھ پر شور اور ہمہ گیر تھیں توزیادہ تر غیر موثرنعرے تھے. اوراگران تحریکوں کے بارے میں غور وفکر کیا جائے تو ان تحریکوں میں سنجیدگی اور مدبرانہ فکرکی کمی نظر آتی ہے. اگر مسلم قیادت کے حالات کا بغور اور باضابطہ طور سے مطا لعہ کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم قیادت کے ذریعہ چلائی جانے والی تقریباً تمام تحریکیں یا تو ردعمل کے طور پر چلائی گئیں تھیں یا پھر اپنے انفرادی اغراض و مقاصدکو لے کر چلائی گئی تھیں. ان تحریکوں اور  نعروں سے شاید ہی عام مسلمان واقف رہے ہوں. ان مسلمانوں کے سامنے ان تحریکات کے نصب العین، ان کے طریقہ کار،ان کے اعمال، ان کے نتائج، مضمرات اور ان کے عواقب  کو کبھی بھی زیر بحث نہیں لایا گیا. بالخصو ص انہیں برپا کرنے والے مسلم قیادت کے ذریعہ غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نعرے کسی بھی طریقے سے قومی و ملی نہیں تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ کبھی مسلمانوں کا نعرہ تھا ہی نہیں بلکہ یہ ایسے جذباتی،دل کش اور عوامی ٹیپس رہے ہیں جن کا مقصد عوام کے شعور کو بیدار کرنے کے بجائے ان کے جذبات کو اکسانا ہوتا ہے. اور ان کے جذبات کو ابھار کر اپنا کام نکالنا بھی سیاست کے کھیل کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اسی کھیل سے وہ مذہبی علماء کرام، قایدین و لیڈران اپنی سیاست چمکانے کا کام کرتے ہیں. 
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلم قیادت کو کبھی بھی کسی عوامی تحریک چلانے کا تجربہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی مسلم قیادت نے کبھی عوام کو مخا طب کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے. حالاں کہ شاہ بانو کا کیس اوراس طرح کے کئی مسائل کو لے کر مسلم پرسنل لا بورڈ نے ملک بھر میں مسلم پرسنل لاء تحفظ تحریک چلانے کی کوشش کی تھی. اردو بچاؤ تحریک،مسلم یونیور سیٹی بچاؤ تحریک اور بابری مسجد بچاؤ جیسی بہت ساری تحریکیں ہندوستان میں برپا کی گئیں تھیں اور انہوں نے شعوری طور پر ان تحریکوں اور نعروں کو بلند کرنے کی کوشش کی تھی. مسلمان ان تحریکوں کو حقیقت اور ان نعروں کو اپنا نصب العین سمجھ کر سڑک پر آگئے تھے. حالاں کہ اس قیادت کے نزدیک ان کے مقاصد کچھ اور ہی تھے یہ تحر یکیں اپنے انجام تک پہونچی یا نہیں یہ آج بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے، لیکن ان تحریکوں کے قائدین کو کچھ ہوا ہو یا نہیں انکا اپنا کام تو بنتا ہی گیا. بہر حال ان تحریکوں کے برپا کر نے والی قیادت کو کچھ نہیں بھی ہوتا ہے تو کم از کم اتنا تو ضرور ہوجاتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کے سامنے ان کا قد کافی بلند ہوجاتا ہے اور ان کے متبعین اور پیروکاروں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوتاہوا نظر آتا ہے.  کسی کو اس کی بنا پر گورنر سپ مل جاتی ہے تو کسی کوراجیہ سبھا و لوک سبھا کی رکنیت مل جاتی ہے. 
ہندوستان میں ان تحریکوں کے دوران کم از کم تین نعرے ضرور لگائے جاتے ہیں. ان میں سب سے پہلے حکومت کی جانب سے مسلمانوں کی حق تلفی کی آواز لگائی جاتی ہے. اس کے بعداکثریتی فرقہ کے مظالم اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کی حق تلفی کی بات آتی ہے اور پھر مسلمانوں کی مسلسل جانی، مالی، ثقافتی اور تہذیبی استیصال و استحصال کی باتیں کی جاتی ہیں
شروع سے ہی مسلمانوں میں یہ بات پوری طرح راسخ ہو چکی ہے کہ ان  اس پس ماندگی اور استحصال میں حکومت اور یہاں کے اکثر یتی فرقہ کا ہاتھ ہے لیکن مسلمانوں کے درمیان یہ امور کبھی سنجیدگی کے ساتھ زیر بحث ہی نہیں آیا کہ دراصل اس پسےماندگی کی ذمہ دار مسلمانوں کی کمزور قیادت بھی ہے. اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کے مسائل اور ان کی پسماندگی کے بارے میں حکومت نے کبھی سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کی عدم توجہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی کمزور قیادت کی غیر سنجیدگی ہے اگردنیا کے کسی ترقی پزیر یا ترقی یافتہ قوم کی ترقی و عروج کا جائزہ لیں تو اس سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ گزشتہ سالوں میں حکومت نے جس طبقہ کو جتنا واضح سنجیدہ، صاف اور قابل اعتماد پایا ہے اس کے مطالبات کو اسی قدر موثر طور پر تسلیم کیا  ہے اور اسے پور ابھی کیا جاتا ہے. اسی وجہ کر مسلمانوں کے معاملے میں حکومت عدم توجہی کی شکار اور اپنے فرائض کی ادائگی میں ناکام ہو تی رہی ہے. اس نے مسلم قیادت کو کبھی واضح، سنجیدہ، صاف اور قابل اعتماد نہیں پایا ہے
غور طلب بات یہ ہے آج مسلمانوں کے درمیان علم اور تحقیق کے تمام اساسیات (Fundamentals) جمود کے شکار ہوچکے ہیں.علم (Knowledge,Education)، معلوماتInfomations) (، حساسیت(Sensivity)، مستقبل کی فکر (Prescience & Forsee the Future)، ادراک و شعور(Perception) ، تحقیق(Research) اور تخلیق (Creativity) کی دنیا میں نمونہ (Ideal Idea) فکر فرضیہ و قیاس(Hypothesis) اور نظریات (Theoriese) ذی فہم، اختراق (Intellectual Back-through) کرنے مرجع گروہ (Refrence Group) اور منصف وحاکم (Refree) بننے اور بنے رہنے کی صلاحیت مفقود ہوکر رہ گئی ہے .ایسا لگتا ہے کہ ان میں اساسی حرارت و بنیادی حقوق (Fundametal Rights) کو حاصل کرنے کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے.
مسلمانوں میں عام طور سے یہ بات پھیل چکی ہے کہ ان کی تباہیوں کی ذمہ دار حکومت ہند اور یہاں کی اکثریت ہے اس لئے کسی بھی حال میں ان کی پس ما ندگی اور تباہی کی ذمہ دار مسلم قیادت نہیں ہے. جب کہ دنیا میں اس طرح کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں کہ بعض قومیں ایسی بے توجہی و تعصب برتے جانے اور اس سے کئی گنا زیادہ مظالم کے باوجود اپنی عزم و بصیرت، دیانت داری، لگن ومحنت اور قربانیوں کی وجہ کر اپنے اعلی ترین مقاصد کوحاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں، اور وہ قومیں ترقی کے بام عروج پر پہنچ گئی ہیں، اور انہیں کسی ظالم حکومت کا ظلم اور ان کی بے توجہی، ان کا ایک بھی بال بیکا نہ کرسکی ہے. 
اس وقت مسلمانوں کی قیادت میں جو بگاڑ آیا ہے اسے ہم اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ مسلم قیادت ایک طرف بے بصیرت(Visionless)، کم علمی (knowlegeless)، بد ذہن(Mindless) ، ناتواں اور کمزور(Impotent & Failure)، بے اثر (Ineffectual)، نا قابل اعتماد(Unfaithful) ہو چکی ہے تو دوسری طرف وہ اپنی وحدت (Integrity) بھی کھو چکی ہے. جب کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا صرف قائدانہ عزم اور ذمہ داریاں،اور اخلاقیات رکھنے والے افراد اور قوموں سے ہی استعداد کا مطالبہ کرتی ہے.کبھی بھی غلامانہ ذہنیت رکھنے والے افراد اور قوم سے استعداد کا مطالبہ نہیں کرتی ہے .اور ایسا مطالبہ صرف اعلی ترین استعداد اور صلاحیت رکھنے والی قوم سے ہی ہوتا ہے .اس وقت ہندو ستانی مسلمانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس علمی استعداد کی کمی ہے، اس لئے انہیں اس طرح کی ترقی کے مواقع میسر نہیں ہیں. اس کے برعکس تاریخ بالکل ہی مختلف بات کہتی ہے مسلمان بے عزم اور بے حوصلہ ہیں. ان کے یہاں استعداد پائی ہی نہیں جاتی ہے
موبائل نمبر +91-70115959123 – 9910613313: Email:-mshamshad313@gmail.com

محمد شمشاد کی پچھلی تحریر :

مغربی بنگال کے انتخاب میں مسلم پارٹیوں کا ڈر کیوں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے