مغربی بنگال کے مسلمانوں کا سیاسی استحصال وتعلیمی پس ماندگی

مغربی بنگال کے مسلمانوں کا سیاسی استحصال وتعلیمی پس ماندگی

محمد انجم راہی

کانکی،اسلام پور،بنگال


موجودہ ترنمول کانگریس کی حکومت نے سچرکمیٹی کی سفارشات کو نظرانداز کرکے مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کیا. 
ملک میں بسنے والا اقلیتی طبقہ جس کو ہر سطح پر ملک کی سیاسی پارٹیوں نے اور کئی جگہوں پر مسلم طبقہ کی نمائندگی کرنے والے لیڈروں نے معاشی،سماجی اور تعلیمی پس ماندگی کے دلدل میں دھکیل دیا تھا، آزادی کے بعد سے لے کر اب تک اگر مسلمانوں کی ہر سطح پر پس ماندگی کا جائزہ لیا جائے تو بات صاف سمجھ میں آجاتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو صرف اور صرف ووٹ بنک سمجھا، اس کے سد باب کےلئے ایک کوشش کے طورسابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اقلیتوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے کی غرض سے سچرکمیٹی کو تشکیل دیا۔ اس سچر کمیٹی میں اعلیٰ سطح کے شخصیتوں کو شامل کیا گیا۔ جس میں دہلی ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس راجندر سچرکی نگرانی میں سات لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جس کمیٹی کے ممبران میں: سید حامد (سابق وائس چانسلر علیگڈھ مسلم یونیورسٹی)، پروفیسر ٹی کے اُمّن(سابق پروفیسر جواہر لال نہرو یونیورسٹی)،ایم اے باسط، ڈاکٹر ابوصالح شریف (چیف اکانومسٹ، نیشنل کونسل آف ایپلیڈ)، اختر مجید اور راکیش بسنت شامل تھے۔ سید ظفر محمود کو کمیٹی میں ایک افسرِخاص کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنی تمام تر جائزہ اور مشاہدہ کے بعد ٣٠/نومبر ٢٠٠٦ء  کو ٤٠٣/صفحات پر مشتمل رپورٹ ایوان پارلیمنٹ یعنی لوک سبھا میں پیش کردیا تھا۔سچرکمیٹی کی رپورٹ میں خصوصی طورپر ہندوستانی مسلم کمیونٹی کو درپیش مسائل کو اُجاگر کیا گیا ہے۔جس میں مسلمانوں کی پس ماندگی کے اسباب اور حکومتی سطح پر اس کے دفاع کیلئے سفارشات پیش کی گئیں۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آئندہ ایک سوسال تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی ١٧/سے ٢١/فیصد تک ہی رہے گی۔ سچرکمیٹی کے قیام کا خاص مقصد ہندوستانی مسلمانوں کی پس ماندگی کا جائزہ لے کر مسلمانوں کی سماجی،معاشی اور تعلیمی میدان میں ترقی کے لئے اقدامات پر زور دینا ہے۔ سرکاری سطح پر فوری کئی اقدامات کرنے کے لئے، مرکزی حکومت کے ساتھ ریاستی حکومتوں کو بھی سفارشات پر عمل کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی پرزور انداز میں درخواست کی گئی ہے۔ سچرکمیٹی رپورٹ کے مطابق: مسلمانوں میں ۶/سال سے ١٤سال کی عمر کے ٢٥ فی صد بچے ابھی تک اسکولی تعلیم سے یا تو محروم ہیں یا پھراسکول سے دور ہیں۔اعلیٰ تعلیمی سطح پرملک بھر کے کالجوں میں گریجویشن کی تعلیم حاصل کرنے والے ۵۲/طلباء میں سے صرف ایک مسلم طالب علم اور اسی طرح پوسٹ گریجویشن میں ٥٠ طلباء میں سے صرف ایک مسلم طالب علم زیر تعلیم ہیں۔مسلمانوں کی اکثریتی طبقہ کا تعلق اردو زبان سے ہونے کی وجہ سے اردو میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد کاجائزہ لے کر اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی کو بھی اُجاگر کرتے ہوئے سچرکمیٹی رپورٹ کی جانب سے مرکزی وریاستی حکومتوں کواس پر خصوصی توجہ دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اردو میڈیم میں بنیادی سطح کی تعلیم کے ساتھ اعلیٰ سطح کی تعلیم کے لئے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے بھی سفارشات کی گئیں ہیں۔ جس سے مسلم کمیونٹی تعلیمی میدان میں دیگر ہندوستانی کمیونٹی کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل بن کر ملکی سطح پر قومی دھارے میں شامل ہوکر ملک وقوم کا نام روشن کرسکے۔مسلمانوں کی سرکاری نوکریوں کے اعداد وشمار کا جائزہ لے کر اس کمیٹی نے کہا ہے کہ مغربی بنگال اور کیرالہ میں مسلمانوں کے ساتھ نوکریوں کے شعبوں میں کافی زیادہ استحصال ہوا ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی ٢٥فی صد ہے۔ مگر سرکاری نوکریوں میں ان کی تعداد ۲۔۴فی صد رہ گئی ہے۔ جب کہ کیرالہ میں کچھ تعلیمی بہتری ہونے کی وجہ سے ۴۔۰۱ فی صد ہوئی ہے۔ مجموعی طورپر اگر مسلم کمیونٹی کا سنٹرل گورنمنٹ کی نوکریوں میں تناسب دیکھا جائے تو یہاں بھی مسلمانوں کے ساتھ بہت بڑا استحصال یا دھوکہ ہوا ہے۔ ہندوستانی مسلمان سنٹرل گورنمنٹ کی نوکریوں میں خاص طورپر سول سروس کے آئی اے ایس، آئی ایف ایس، آئی پی ایس جیسے  اہم عہدوں میں: ۸۔۱/فی صد، ریلوے کی نوکریوں میں مسلمانوں کا تناسب:۵۔۴/فی صد، سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلمان کی ۵۔۶/فیصد ہی ہے۔ جو یہ بتاتا ہے کہ ملک میں بسنے والا ایک بہت بڑا اقلیتی طبقہ کے ساتھ آزادی کے بعد سے ہی سماجی وسیاسی استحصال ہوا ہے۔ رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق: ٠١٠٢؁ میں مغربی بنگال میں مسلمانوں کو اوبی سی کا درجہ دے کر تمام ریاستی سطح کی سرکاری ملازمتوں میں ١٠/فی صد مختص /محفوظ کیا گیا تھا۔ جب کہ اس پر سخت الفاظ میں چوطرفہ تنقیدکی گئی کیوں کہ اوبی سی میں زمرہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ اس میں مسلم طبقہ کا نمبرجملہ ٥٦ نمبروں میں ٤٩/واں ہے۔ جب کہ مسلمانوں کی کل ریاستی آبادی ٠١٠٢؁ میں ۲/کڑور سے تجاوز کرچکی تھی۔ جس میں سے کچھ مسلمانوں کو چھوڑکرصرف ۵۸/فی صد مسلم کو اوبی سی قرار دیا گیا۔ جب کہ آبادی کے لحاظ سے اس فی صد میں مزید اضافے کی سخت ضرورت تھی۔ موجودہ ترنمول کانگریس حکومت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ترنمول کانگریس کی حکومت کے مقابلے ٧٠٠٢؁ سے لے کر ٠١٠٢؁ تک کی کمیونسٹ حکومت نے مسلمانوں کے لئے زمینی سطح پر کئی طرح کے سماجی، معاشی، اور تعلیمی ترقی کے کام کیے ہیں۔ کمیونسٹوں کے دورمیں مغربی بنگال میں مدرسہ بورڈ کو مستحکم ومنظم کرنے کی کوشش نے  زور پکڑا، اس کے علاوہ مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے سچر کمیٹی کی سفارشات پر توجہ دے کر  اور اس پر عمل کرتے ہوئے ایم۔ایس۔کے۔ جیسے مدارس کا قیام عمل میں لایاگیا۔ کئی ضلعوں میں انجینئرنگ ومیڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لانے کے ساتھ تعلیمی اداروں میں منظم طریقے سے دھیان دیتے ہوئے اس پر انصرامی کوشش کی شروعات ہوئی۔ اردو اکاڈمی کو از سر نو منظم کرتے ہوئے اس کے دائرہ کار کو وسیع کیا گیا۔ اردو اخبارات کو مکمل آزادی دی گئی. پریس واخبارات کی آزادانہ خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے احترام میں مزید اضافہ ہوا۔تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے کمیونسٹوں نے اپنے آخری دور میں کافی کوششیں کیں ۔ مگر چونکہ ریاست کے مسلمانوں کو سچر کمیٹی رپورٹ نے پس ماندگی کا چشمہ دکھا کر ایک خلفشار میں مبتلا کردیا تھا۔ جس کا فائدہ اٹھا کر ممتا بنر جی نے مسلمانوں کے دردکو بھانپ کر سیاسی فائدہ حاصل کرتے ہوئے مرہم پٹی کرتے ہوئے مختلف وعدوں کے ذریعہ مسلمانوں کو سرسبزوالاخواب دکھادیا۔ جوکہ آہستہ آہستہ صرف سیاسی ہتھکنڈہ ثابت ہوکرممتابنرجی کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ سیاسی استحصال اوردھوکہ کیا گیا۔ ١١٠٢؁ میں ترنمول کانگریس کی حکومت بننے کے بعد کمیونسٹوں نے جس تیزرفتاری اور وسیع ذہنیت کا پیغام مسلمانوں کو دیکر مسلمانوں کیلئے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا،ترنمول کانگریس کی حکومت آنے کے بعد مسلمانوں کی اس تعمیری وترقیاتی رفتار میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہونا شروع ہوگیا۔ ریاستی سطح پر مختلف اردو اخبارات کو بندہونے کے  چھولئےڑدیا گیا۔ اردو آبادی کے تعلیمی اداروں کی خستہ حالی میں اضافہ ہوا۔ اردو ذریعہ تعلیم کے طلباء کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے انہیں سرکاری سطح کی  ملازمتوں میں بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ تعلیمی اور دیگر عوامی اداروں کو سیاسی آماج گاہ بنایا گیا۔ سرکاری ٹیچروں پر ریاستی حکومت کی طرف سے کھلے عام سیاست کرنے پر قانونی روک لگانے کے بجائے انہیں مکمل آزادی دے دی گئی۔جس سے ٹیچروں نے اسکولوں میں توجہ دینے کے بجائے سیاسی جھنڈوں کو تھام کر اپنی گمنامی کو سیاسی نام ونمودگی کو پروان چڑھانے  لیے گلی محلوں میں جا جاکر سیاست کرنا شروع کردیا۔ جس سے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں کا کافی نقصان ہوتا رہا۔ بدعنوانیوں کا بازار کافی عروج پر پہنچتا گیا۔ جس کے پیش نظر چاکولیہ اسمبلی حلقے سے تعلق رکھنے والے ایم ایل اے علی عمران رمض نے کئی بارموجودہ حکومت کے  کئی لیڈروں پر روپیہ لے کر  سرکاری نوکری دینے کا الزام لگایا۔ اسلام پور سب ڈویژن کے تحت گوالپوکھر میں کانگریس کے لیڈر ماسٹر نسیم نے ترنمول لیڈروں پر الزام عائد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ”راستوں کا اودھ گاٹھن کٹ منی لینے کیلئے کیاجاتا ہے“۔ اس طرح کی بیان بازیوں سے معاشرے وسماج میں موجودہ حکومت کے تئیں کافی زیادہ تشویش میں اضافہ ہوا کیوں کہ موجودہ حکومت کے کارندے اور پنچایت سطح کے ممبر ومکھیا کے ذریعہ غریبوں کو دی جانے والی اکثر اسکیموں میں کٹ منی کھلے عام لیا جانے لگا۔ اندرآواس کے نام پرکچھ رقومات لینے کے خلاف مغربی بنگال کے مختلف بلاکوں میں علاقے کے لوگوں نے شکایت بھی درج کیا مگر اس پر کسی طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ الغرض پنچایت سطح سے لے کر اونچی سطح تک کرپشن اور رشوت خوری کافی عروج پر پہنچتی چلی گئی۔ عوامی اور تعلیمی اداروں میں پبلک کیلئے راست طریقے پر کام کرنادشوار ہوتا گیا۔ ریاستی حکومت کو سیاسی اور ہٹ دھرمی کا چشمہ اتارکران چیزوں پر توجہ اور دھیان دینا چاہئے اور بنیادی ضروریاتی کاموں کی تکمیل کیلئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔ پولیس انتظامیہ، حکومت کی طرف سے چلائی جارہی عوامی اداروں کوموجودہ ترنمول حکومت کو اپنی سیاسی بندش سے آزادکرتے ہوئے آزادانہ طورپر قانونی وانتظامی اور فلاحی انتظام سنبھالنے کے مواقع عطا کرناچاہئے۔ اقلیتوں کے لیے سچرکمیٹی نے جو سفارشات پیش کئے تھے اس پر جلد از جلد زمینی سطح پر کاموں کی شروعا ت کرنا چاہئے۔ مسلم طبقہ کا سیاسی بھروسہ ترنمول حکومت پردوبارہ بحال تبھی ہوگاجب سچرکمیٹی کی سفارشات کے مد نظر موجودہ ترنمول حکومت حکومتی سطح پر مسلمانوں کے  تعلیمی بنیادی ڈھانچہ کو درست کرنے کے لئے کچھ اقدامات اور اعلانات کرے، ورنہ مغربی بنگال کی مسلم کمیونٹی اپنی سیاسی استحصالی کے ازالہ کے لئے مختلف سیاسی پارٹیوں میں بکھر کر اپنے کمیونٹی کی فلاح وبہبودگی کیلئے دیگر سیاسی،سماجی، تعلیمی وجوہ اور ترقی کے لئے نئی سمت چل نکلے گا۔
محمد انجم راہی کی یہ نگارش بھی ملاحظہ فرمائیں :

رہ نماؤں میں انسانیت کے لیے ہمدردی کا جذبہ اورروزمحشر جواب دہی کا خوف ہونا ضروری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے