خواب خواب کہانی

خواب خواب کہانی

رفیع حیدر انجم

”ماں ،ماں …مجھے کہانی سناؤ. کہانی سناؤ ماں …..”
”بیٹے سوجاؤ، رات بہت ہوگئی. کل سن لینا کہانی.”
”نہیں ماں. مجھے نیند نہیں‌آتی. کہانی سناؤ نا. مجھے نیند آجائے گی….”
ماں‌روز کہانی سناتی ہے. راجہ رانی کی کہانی، جن پری کی کہانی، شیر اور گیدڑ کی کہانی، طوطا اور مینا کی کہانی….آج بھی ایک کہانی سناتی ہے وہ ….
”ایک تھا راجا.اس کی ایک بیٹٰی تھی. بہت ہی خوب صورت. بالکل چاند جیسی….” ماں‌کہانی سنانے لگتی ہے.
”میں سو رہا ہوں‌ماں…” اسے اپنی آواز دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.
”ہاں‌بیٹا.سوجا. کہانی بہت لمبی ہے.پوری سناؤں تو رات ختم ہوجائے گی. کہانی پھر بھی ادھوری رہ جائے گی.سوجا میرے لعل، سوجا تو….” کہانی ادھوری چھوڑ کر ماں‌سوجاتی ہے. اس کا بیٹا کوئی حسین خواب دیکھنے لگتا ہے. سوتے سوتے مسکرا دیتا ہے. مسکراکر ہنس دیتا ہے.
ککڑوں کو….ککڑوں کو….
”صبح ہوگئی بیٹے. جاڈربہ کھول دے ورنہ مرغیاں آپس میں لڑنے لگیں‌گی.”
”ماں‌…سنوگی؟ کیا میں نے دیکھا رات خواب میں‌….”
ککڑوں کو…مرغ مسلسل بانگ دیے جارہا ہے.
”ہاں‌کیا دیکھا تو نے؟”
” وہ تمھاری کہانیوں والی شہزادی ہے نا …رات میرے خوابوں‌میں‌ آئی تھی. اپنے محل کے شاہی باغ سے ڈھیر سارے پھل توڑ لائی تھی. میٹھے میٹھے سیب، رس بھرے انگور، سنترے ، بادام …سچ ماں ! خوب کھلایا مجھے . دیکھو نا میرا پیٹ ….”وہ جھٹ سے اپنی قمیص اوپر اٹھادیتا ہے.
بند کر بیٹے . بند کر اپنی کہانی. لے یہ روٹیاں‌، تجھے پسند ہیں نا مکئی کی سوندھی روٹیاں اور ٹماٹر کی کھٹی میٹحی چٹنی. جلدی سے کھا کر مسجد چلا جا. اور سن جمعراتی بھی لیتا جا. تجھے معلوم ہے نا. آج جمعرات ہے.”
روٹیاں کھا کر وہ چلا گیا ہے. بہت دیر ہوئی اسے گئے…..
ماں‌انتظار کر رہی ہے. اتنی دیر کیوں‌ہوئی آج؟ ….کب کا گیا ہے وہ؟ جانے کب آئے …..مگر اچانک دوڑتے قدموں‌کی آواز سن کر وہ چونک جاتی ہے. اس کا بیٹا دوڑ کر اس کے گلے سے جھول گیا ہے.”
ماں‌، ماں‌….آج مولوی صاحب نے مجھے چھٹی دے دی ، ہمیشہ کے لیے ….اب مجھے روز صبح‌صبح‌مسجد نہیں جانا پڑ گا.”
”کیوں‌بیٹے”
”اب میں اسکول میں‌پڑھوں‌گا…اسکول میں‌…مولوی صاحب نے کہا ہے . اسکول میں‌پڑھ کر آدمی شہزادہ بن جاتا ہے.میں بھی شہزادہ بنوں‌گا اور پھر تمھاری کہانیوں‌والی شہزادی کو ….شہزادی کو….” آگے کیا کہے ؟ وہ سوچنے لگتا ہے.ماں مسکراتی ہے. اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی جاتی ہے. وہ ہنسنے لگتی ہے. سارا کمرہ قہقوں کی گونج سے بھر جاتا ہے.مگر اچانک وہ اس طرح خاموش ہوجاتی ہے جیسے بجتے ہوئے گرامو فون ریکارڈ سے کسی نے سوئی ہٹالی ہو، وہ خوف زدہ نگاہوں سے چاروں طرف دیکھتی ہے. کہیں قہقہوں کے بوجھ سے اس کے بوسیدہ کمرے کی چھت نہ بیٹھ جائے . اینٹیں نہ کھسک پڑیں . وہ حیرت سے اپنی ماں‌کو دیکھتا رہ جاتا ہے.
اب وہ روز اسکول جانے لگا ہے. اس کی ماں ہر رات ایک کہانی سناتی ہے. مگر تھکی تھکی سی بوجھل آواز میں . وہی پرانی کہانی جسے سنتے سنتے وہ تھک چکا ہے. اب وہ جلدی ہی سو جاتا ہے. آدھی کہانی بھی نہیں سن پاتا وہ …..مگر سوتے میں‌مسکرانے لگتا ہے. مسکرا کر ہنس دیتا ہے . صبح اٹھ کر اپنی ماں‌سے خواب کے بارے میں‌کہنا چاہتا ہے مگر نہ جانے کیوں‌خاموش رہ جاتا ہے. اسے مولوی صاحب کی بات یاد آجاتی ہے….اسکول میں‌ پڑھ کر آدمی شہزادہ بن جاتا ہے….اور وہ چپکے سے ماں‌کی نظر بچا کر مسکرا دیتا ہے.
بس کچھ برس اور….
وقت گزرتا ہے…..ماں‌ہر رات ایک کہانی ضرور سناتی ہے. کبھی کبھی اس کی ضد کے بغیر بھی ….اب وہ کہانیاں‌نہیں دہراتی.وہ ہر رات ایک نئی کہانی سناتی ہے مگر…یہ کیسی کہانی ہے؟ یہ اس خوب صورت شہزادی کی کہانی تو نہیں جو ہر رات اس کے خوابوں میں‌آکر اسے اپنے شاہی باغ کے اچھے اچھے پھل کھلایا کرتی تھی.یہ کہانی روکھی سوکھی روٹیوں‌کی کہانی ہے. ان روٹیوں‌سے شہزادی کے بالوں‌میں‌بسی مدہوش کن خوش بو نہیں آتی . ان میں‌تو سڑتے ہوئے پسینے کی بو ہے. پھوک ہے، بے کاری ہے. غریبی اور بیماری ہے.
”ماں یہ کیسی کہانی ہے؟ تم تو خوب صورت شہزادیوں‌کی کہانیاں‌سنایا کرتی تھیں . دیکھو، آج میں نے اسکول کی تعلیم سے بھی فراغت حاصل کرلی ہے. کل مولوی صاحب کے پاس جاؤں‌گا تو وہ کتنے خوش ہوں گے!‌ماں‌…وہ شہزادی کہاں‌گئی؟ تمھاری شہزادی…میری شہزادی…”
”کہانی ختم ہوگئی بیٹے.بھول جا اس شہزادی کو میری طرح گھٹ‌گھٹ کر جینا نہیں‌چاہتا تو بھول جا اس شہزادی کو….”
”مگر ماں‌!….تم….تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ تمھاری آواز کیوں ڈوبتی جارہی ہے ؟ ٹھہرو….میں‌ابھی شیشی سے گولیاں نکال کر لاتا ہوں‌.” مگر آواز ڈوب جاتی ہے. ماں‌کی کہانی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے. باقی رہ جاتی ہیں اس کی ہتھیلی پر نیلی پیلی گولیاں‌…
اور پھر اس کی ماں کی کہانیوں‌کی روکھی سوکھی روٹیاں‌اس کے بوسیدہ کمرے کے کونوں‌کھدروں‌سے نکل نکل کر اسے آدبوچتی ہیں‌.

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے