مغربی بنگال میں اویسی کی آمد کیوں؟

مغربی بنگال میں اویسی کی آمد کیوں؟

محمد شمشاد
ایک جمہوری ملک میں کسی بھی پارٹی کو سیاسی طور سے زندہ رہنے اور حکومت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہرانتخابی عمل کو اہم اور لازمی عنصر قرار دے، جس کے دور رس نتائج بھی ہوتے ہیں. ہر انتخاب کے نتائج پر ہی کسی پارٹی کی سیاسی زندگی منحصر ہوتی ہے اوراسی نتائج کی بنیاد پر اس کی قیادت کی قداور اس کی مقبولیت کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے
مغربی بنگال اور آسام کا اسمبلی الیکشن سیکولر پارٹیوں اور بھاجپا کے لئے ایک خاص اہمیت کاحامل ہے. یہ انتخاب ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب ملک بھر کے کسان، روز مرہ مزدورسڑکوں پر ہیں، بے روزگارنوجوان، دلت وپس ماندہ لوگ نا امیدی کے شکار ہیں اور اقلیتوں و دبے کچلے افراد منہگائی اور ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن و بدعنوانیوں سے پریشان ہیں. جب کہ وہ سبھی شہری جو اس ملک کی ترقی چاہتے ہیں، چا ہے وہ نوجوان ہوں یا کسان مزدور ہوں یا دلت، کے درمیان مرکزی حکومت کی پالیسیوں کو لے کر بہت ساری الجھنیں اور بے چینیاں پائی جارہی ہیں اور وہ سب کے سب اس وقت بحران کے شکار ہیں. اور اس کی بنا پر پورے بھارت میں جگہ جگہ احتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں
واضح رہے کہ آسام اور مغربی بنگال دو ایسی ریاستیں ہیں جہاں کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلمان بستے ہیں. بھاجپا مغربی بنگال کے الیکشن میں کسی بھی قیمت پر جیت حاصل کرنا چاہتی ہے. اس کے لئے بھاجپا ووٹروں کے درمیان ہندو مسلم کر کے فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا چاہے گی اور دوسری جانب ہندوتوا کے نام پرہندو ووٹروں کا پولرائزیشن کرنا چا ہے گی تاکہ ہندوؤں کا زیادہ سے زیادہ ووٹر اندھ بھکت بن کربھاجپا کی جھولی میں جا سکے. اس کے علاوہ بھاجپا اس بات کی بھی پوری کوشش کرے گی کہ کسی بھی طریقہ سے سیکولر ووٹر تقسیم ہو. اس کے ساتھ ہی سبھی سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بھی اپنی سیکولرپالیسیوں کے نام پر سیکولر ووٹوں کوحاصل کرنا چا ہتی ہیں لیکن وہ کسی بھی حال میں متحد ہوکر بھاجپا کا مقابلہ کرنا نہیں چاہتی ہیں. ظاہر ہے اس آپسی ٹکراؤ کی بنا پر سیکولر ووٹروں کا تقسیم ہونا لازمی ہے
بھاجپا کے ممبر پارلیا منٹ شاکشی مہاراج نے اپنے ایک بیان میں یہ تسلیم کیاہے کہ اسدالدین اویسی نے بھاجپا کو بہار کے الیکشن میں فائدہ پہنچایا ہے جس کی وجہ سے بہار میں نیتش کمار کی قیادت میں این ڈی اے (NDA) کی حکومت بن سکی ہے. اب اسدالدین اویسی مغربی بنگال اور اتر پردیش میں تال ٹھوکنے میں لگے ہوئے ہیں جہاں وہ بھاجپا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں گے .جو بات بھاجپا کے لوگ دبے لفظوں میں بیان کرتے تھے اسے شاکشی مہاراج نے کھلے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو قابل تعریف بھی ہے. بہرحال بھاجپا بہت دنوں سے اس بات کی کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اتحادالمسلمین مغربی بنگال کے الیکشن میں حصہ لے تاکہ مغربی بنگال سے ممتا بنرجی کو ہرانے میں اسے مدد حاصل ہو. بہار میں پانچ اور مہاراشٹرا میں دو سیٹوں پر کامیابی ملنے کے بعداسدالدین اویسی اور ان کے مقامی رہنماؤں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور انہوں نے اس ملک کی کئی ریاستوں میں الیکشن لڑنے کا اعلان بھی کر دیا ہے جس میں مغربی بنگال بھی شامل ہے
چند دنوں قبل اسدالدین اویسی مغربی بنگال کے ایک پیر زادہ سے ملاقات کی غرض سے گئے بھی تھے. اس ملاقات کے بعد اویسی نے اعلان کیا تھا کہ پیرزادہ صاحب جو فیصلہ کریں گے. اس کے مطابق ان کی پارٹی مغربی بنگال میں کام کرے گی. اس اعلان کے فورا بعد گودی میڈیا سرگرم عمل ہو گئی. قابل ذکر بات یہ ہے کہ گودی میڈیا اویسی کے آنے سے قبل ہی اعلان کر چکی تھی کہ موصوف اویسی صاحب جنوری کے پہلے ہفتہ میں مغربی بنگال کا دورہ کریں گے اور موصوف پیرزادہ صاحب سے ملاقات کریں گے. کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پیزادہ صاحب جب بھی دہلی کا سفر کرتے ہیں تو وہ بھاجپا رہنما و سابق مرکزی وزیرشہنواز حسین کی رہائش گاہ پر ہی ٹھہرا کرتے ہیں. ایک خبر یہ بھی ہے کہ 21 جنوری کے بعد پیرزادہ صاحب اپنی نئی پارٹی کا اعلان بھی کر سکتے ہیں. پیرزادہ صاحب اگر اپنی پارٹی کا اعلان اویسی کی ملاقات کے قبل کرتے تو شاید انہیں ہندوستانی اور گودی میڈیامیں وہ کوریج نہیں ملتا انہوں نے اویسی کو بلا کر پہلے اپنا قد بڑھا لیا اب وہ اپنی نئی پارٹی بنانے کی کوشش کررہے ہیں
اب اویسی اور پیزادہ دونوں سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ انہیں مغربی بنگال کے مسلمان الیکشن کے موسم میں ہی کیوں یاد آئے ہیں. یہاں کئی چھوٹے بڑے فسادات ہوئے ہیں. کانکی نارہ کا فساد تو تین مہینوں تک مسلسل جاری رہا، تیلنی پاڑہ میں کئی بار فسادات ہوتے رہے رانی گنج اور آسنسول میں بھی فساد ہوئے، ممتا بنرجی کے دور حکومت میں چھوٹے بڑے تقریبا دس فسادات ہوئے ہیں. اس کے علاوہ اس ممتا بنرجی کے دور اقتدار میں مسلمانوں کے سنگین مسائل بھی حل نہیں ہوئے ہیں ان فسادات کے زمانے میں اور مسلمانوں کے مسائل میں نہ پیر کا پتہ تھا نہ ہی کوئی مرید کی خبر تھی آخر ایسا کیوں؟ کہاں تھے وہ پیر و مرید۔
اویسی کو بھاجپا کا مد مقابل جتنا گودی میڈیا نے بنایا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کے بھائی اکبرالدین اویسی اور ان کی پارٹی کے بڑبولے وارث پٹھان جیسے لوگوں نے بنایا ہے. یہ حضرات صرف مسلمانوں کو ہی نہیں ہندو فرقہ پرستوں کو بھی بنا وجہ للکارتے رہتے ہیں. حیدرآباد کے بلدیاتی الیکشن میں بھاجپا چندر شیکھر راؤ کی پارٹی سے بالمقابل تھی لیکن پولرائزیشن کے لئے اویسی بلا وجہ مودی، یوگی، سوریا کو للکارتے رہے اور ان کی نوک جھونک میں بھاجپا پولرائزیشن کرنے میں پورے طور پر کامیاب ہو گئی. اویسی کو بغیر برا بھلا کہے جو سیٹیں ملنے والی تھیں وہ ملیں مگر پولرائزیشن سے بھاجپا کو چار پانچ 4-5سیٹوں کے بجائے 49 سیٹوں پر کامیابی مل گئی. مہاراشٹرا کا الیکشن ہو یا بہار کا انتخاب ہو ہر الیکشن کا جائزہ لیا جائے تو بھاجپا اور اتحادالمسلمین ایک دوسرے کی ضرورت بن گئی ہے
واضح رہے کہ صوبہ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01%فیصد ہے مغربی بنگال اسمبلی کی294 سیٹوں میں سے 218 سیٹیں ایسی ہیں جہاں کافی تعداد میں مسلمان آباد ہیں اور وہاں کے انتخاب کی جیت اور ہار میں موثر رول ادا کرتے ہیں. مغربی بنگال میں مسلمانوں کی کچھ تنظیمیں اور انفرادی طور سے کچھ لوگ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ مغربی بنگال کی تمام سیکولر پارٹیاں کسی ایک محاذ میں شامل ہوجائیں اور متحدہ طور سے بھاجپا سے مقابلہ کریں لیکن فی الوقت ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے. بایاں مخاد کسی بھی صورت میں ترنمول کانگریس سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتی ہے. جب کہ کانگریس پارٹی کسی بھی صورت اور مصالحت کیلئے تیار نظر آرہی ہے. اور اس کی وجہ یہ مانا جاتا ہے کہ مغربی بنگال میں اب کانگریس کے پاس کچھ بچا نہیں ہے. جب کہ اس وقت مغربی بنگال کا مسلمان ممتا بنرجی حکومت سے بہت زیادہ ناراض ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ کانگریس اور بائیں بازوں کی پارٹیاں اپنی نصب العین کی وجہ سے کسی بھی حال میں بھاجپا سے ہاتھ نہیں ملا سکتی ہیں لیکن بنگال کا مسلمان ایسی حالت میں کر ہی کیا سکتا ہے سوائے اس کے کہ مسلمان ان پارٹیوں کے سامنے کچھ شرائط کے ساتھ پر زور مطالبہ کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے اور امیدوار بھی ان کے من پسندکے ہوں. یہ شرائط جن پارٹیوں کو تسلیم نہ ہو انہیں ووٹ نہ دینے کی دھمکی بھی دی جا سکتی ہے مگر ووٹوں کو تقسیم کر کے اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچانا اور فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچانا کہاں کی عقل مندی مانی جا سکتی ہے
اگر مغربی بنگال کے مسلمان اسدالدین اویسی کو جتانے میں لگ گئے تو بنگال کا بھی وہی حال ہوگا جو مہاراشٹرا اور بہار کا ہوا ہے. ممکن ہے اویسی کو بنگال کی دو چار سیٹوں پر کامیابی مل بھی جائے گی مگر جس طرح مہاراشٹرا میں اویسی کی پارٹی اتحادالمسلمین کو دو سیٹوں پر کامیابی مل تو گئی لیکن مجلس کی وجہ سے مہاراشٹرا کی اسمبلی الیکشن میں بھاجپا کو کم سے کم پچیس سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے یہی حال بہار کے الیکشن میں بھی ہوا یہاں مجلس کو صرف پانچ سیٹوں پر کامیابی ملی لیکن اس نے صرف سیمانچل میں جدیو اور بھاجپا اتحاد کو دس سیٹوں پر جیتنے میں مدد کی. جب کہ پورے بہار میں انکے مورچہ (اوپندر کشواہااور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی)کے ذریعہ تقربا بیس سیٹوں پر جدیو و بھاجپا اتحاد کو فائدہ پہنچانے میں مدد ملی ہے. اگر مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے سیکولر پارٹیوں کو پچیس تیس سیٹیں کم ہوجاتی ہیں اور اس وجہ کر بھاجپا کو مغربی بنگال میں بہار کی طرح حکومت بنانے کا موقع مل جاتا ہے تواسے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا نقصان کا سودا کہا جاسکتا ہے

A-169/2,A.F.Enclave-2,Jamia Nagar,New Delhi-110025
موبائل نمبر +91-70115959123 – 9910613313: Email:-mshamshad313@gmail.com

صاحب مضمون کی پچھلی تحریر یہاں پڑھیں :
مغربی بنگال کااسمبلی انتخاب: مسلمان کیا کریں
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے