رات اتری تھی درمیانی شب

رات اتری تھی درمیانی شب

مسعود بیگ تشنہ

رات اتری تھی درمیانی شب
مجھ پہ گزری تھی درمیانی شب
خوب اترا تھا نور بستر پر
خوب نکھری تھی درمیانی شب
لفظ اترے تھے رات سینے پہ
لوح اتری تھی درمیانی شب
ہاں سنانا تھا زمزمہ دل کا
ہاں ضروری تھی درمیانی شب
تھی معطّر گلاب تنہائی
مہکی نکھری تھی درمیانی شب
بس کہ وہ شب تھی، آخری شب تھی
خوب گزری تھی درمیانی شب
خوب تشنہ تھا رات کا جادو
خوب نکھری تھی درمیانی شب

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے