ہمارے خواب سب ٹھہرے ہوئے ہیں

ہمارے خواب سب ٹھہرے ہوئے ہیں

مسعود بیگ تشنہ

ہمارے خواب سب ٹھہرے ہوئے ہیں
ہمارے زخم کیوں گہرے ہوئے ہیں؟
نہیں ٹھہرا ہوا زیرِ فلک کچھ
زمیں گردش میں، ہم ٹھہرے ہوئے ہیں
بَنا آئینہ چہروں کا ٹِھکانا
بِنا آئینہ کیوں چہرے ہوئے ہیں؟
ہمارے سر بندھا ہے کوئی سہرا
یا سب جھوٹے لکھے سہرے ہوئے ہیں
خدا بھی اُن کو سمجھانے سے قاصر
جو اندھے، گونگے اور بہرے ہوئے ہیں
یہاں سے واں تلک پہرے لگے ہیں
کہیں مذکور یہ پہرے ہوئے ہیں!
ابھی تھوڑا بہت سنتے ہیں تشنہ
ابھی تھوڑے بہت بہرے ہوئے ہیں

صاحب غزل کا تعارف اور نمونہ کلام یہاں پڑھیں:مسعود بیگ تشنہ: ایک صاحب طرز منفرد شاعر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے