نظمائے  مدارس کی رشوت خوری

نظمائے مدارس کی رشوت خوری

شاہ خالد مصباحی 

مدارس جیسے وہ مہکتے آشیانے جو صدیوں سے اس بنجر زمین پر گل کھلا رہے ہیں ، تاریک دلوں کو منور کر رہے ہیں یوں لگتا ہے کہ اپاہج ہوتے جارہے ہیں. 
میرا خیال ہے کہ جس زمانے میں باقدر افراد کی موجودگی میں ایک اپاہج نما ترقیاتی ڈھانچہ عمل میں آتا ہو ، تو یہ ماہرین زمانہ پر ایک نقص ہے ، داغ ہے اور لیاقت پر دھبہ ہے. جس کو سلجھانے اور عمل کی طاقت رکھنے کے باوجود بھی اس کے حل پر غور نہیں کیا جاتا۔
وسائل بھی موجود ہیں اور افکار عالیہ کے مقتدر بھی. لیکن صاحب ذوق کی بے قدری نے اس معاشرے و سماج کا رخ اندھیروں کی طرف موڑ دیا ہے، جس کو ارباب بصیرت محسوس بھی کررہے ہیں۔
جشن حضور حافظ ملت کے موقع پر اس ناچیز کو، عظمتوں کا رنگ لیے ہوئے بارگاہوں میں ، حاضر ی دینے کا شرف حاصل ہوا. مخلص و محب الطلبا و العلما استاذی ہارون رضا مصباحی  نے حالات پر تذکروں کو یوں نیا موڑ دیا کہ  مفتی عابد رضا مصباحی، مولانا فیاض احمد برکاتی مصباحی و فاضل اشرفیہ دلشاد احمد مصباحی ، محب الحق مصباحی اور نعمان رضا مصباحی وغیرھم مجلس میں حاضرین کے لب رواں کلمات پر دنگ ، حالات کے زخم بے ڈھنگ ، حد تو اب یہ ہے کہ رواں آنکھیں دریائے تلاطم  سجائے ہوئے اور دامن زار پر بحر احمر کی سرخیوں کی تازگی لیے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ۔۔۔
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
(علی سردار جعفری )
حکومت سے منظور شدہ مدارس کے شکستہ ماحول پر طنز کستے ہوئے علامہ فیاض احمد مصباحی برکاتی کا ایک درد بھرا جملہ کہ ” مدارس میں نوکری وہی کرے جو ذہنی طور سے اپاہج ہو ” 
اس جملے کو اگر فکری طور پر نہ لیا جائے اور رشوت کے تئیں بدلتے مدارس کے مناظر اور نظمائے مدارس کے بدلتے تیور پر نظر رکھ کر اگر آج علما کرام شکنجہ نہیں کستے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ نیکیوں کی آماجگاہیں برائیوں کی خیمہ گاہ بن جائیں. جیسا کہ  علامہ عبید اللہ خان مصباحی  نے عزیز المساجد میں منعقد عرس عزیزی کے پروگرام میں اپنے ایک آئ اے ایس دوست، آفیسر کے حوالے سے بتایا کہ کسی اور ڈپارٹمنٹ میں رشوت خوری کا بازار اتنا گرم نہیں جتنا کہ ایڈیڈ مدارس ( حکومت کے مالی تعاون سے جاری مدارس) میں ہے۔

رشوت خوری سے پاک سماج و معاشرے کی تعلیم دینے والی وہ جگہیں جن کو ہم مدارس کے نام سے جانتے ہیں ، حلال و حرام کی تمیز دینے والی یہ جگہیں افسوس کہ اب بد تمییز افراد سے پاک نہیں۔
میں مانتا ہوں کہ زندگی کا کوئی شعبہ رشوت سے  خالی نہیں کہ جدھر دیکھئے ہرطرف رشوت خوری کابازار گرم ہے. آپ کاکوئی کام بغیررشوت کے نہیں ہوسکتا. رشوت خوری کی وبا اس قدرعام ہے کہ اس کی وجہ سے قانون چند ٹکوں کے بدلے بکتاہے اوراس کی سرعام بولی لگتی ہے. بےگناہ غریب مجرم اورقاتل ٹھہرتا ہےاورسرمایہ دار رشوت کے جادو سے بےگناہ اورپاکباز بن جاتاہے. قاتل اورمنشیات فروش، رشوت کے دم قدم سے سوسائٹی کامعزز ممبرشمار ہوتاہے،اس پرکسی کوہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہوتی. گویا رشوت دے کر آپ انسانوں کاخون ناحق بہاسکتے ہیں،ان کے مستقبل سے کھیل سکتے ہیں، ان کی صلاحیتوں کو تباہ وبرباد کرسکتےہیں. اس کے ذریعہ آپ قانون خرید سکتے ہیں،جھوٹے گواہوں کاانتظام کرسکتےہیں،زمینوں اورمکانوں پرناجائز قبضہ کرسکتےہیں،من گھڑت میڈیکل رپورٹس حاصل کرسکتے ہیں،امتحانات میں اعلی نمبرات سے پاس ہوسکتے ہیں،
یاد رکھیں حکومتی عہدے بھی حاصل کرسکتے ہیں،پانی اوربجلی کے کنکشن لےسکتےہیں،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرسکتے ہیں،انتخابی نتائج تبدیل کرواسکتے ہیں.
کوئی شعبہ ہو آج کل تو شاد
نذر و رشوت کا راج ہوتا ہے
(شمشاد شاد)
لیکن نظام مدارس پر اس کا پڑتا ہوا اثر ضرور مدارس کے مقاصد کو کھو رہا ہے اور بزرگوں کے دیرینہ خواب بکھر رہے ہیں ۔
ہم نے تو پاکیزہ ، صالح اور ایک مثالی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے مدارس کا قیام عمل میں لایا تھا ، لیکن ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم ارباب مدارس بہت پہلے اپنے مقاصد کو پس پردہ ڈال چکے ہیں ۔
ابن عطیہؒ نے فرمایا ہے کہ جس کام کا پوراکرناکسی شخص کے ذمہ واجب ہو اس کے پوراکرنے پر کسی سے کوئی معاوضہ لینا اوربغیرلئے نہ کرنا اللہ کاعہد توڑنا ہے. اس طرح جس کام کا نہ کرنا کسی کے ذمہ واجب ہے کسی سے معاوضہ لے کر اس کو کردینا یہ بھی اللہ کا عہد توڑناہے.
عہد الہی کے وفا کرنے کی تعلیم دینے والے وہ رشوت خور نظمائے مدارس شریعت کے کس پیج میں اپنا چہرہ چھپائیں گے. حق و انصاف کی آواز آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے مفقود ہوتی چلی گئی اور یہ بھی بس ایک آواز در گزر ثابت ہوگی. 
نماز بھی ادا ہوتی رہی ان کی مگر جب بھی
ملی رشوت تو حاکم نے چھپا کر جیب میں رکھ لی

غیروں کا ہماری زبانوں پر ، عزت و شوکت پر مسلط ہونا ، ہماری مساجدوں میں آگ لگانا ، ہماری شرافتوں پر گندگی اچھالنا اور حد تو یہ ہے کہ اب ہمارے ہر عمل پر ان کا ایک بنا بنایا جال سیٹ ہے کہ ابھرتے ہی ہمارے اوپر ڈال دیا جائے. اور ہم پر یوں غنودگی طاری ہے کہ حالات کی بے بسی پر چوں چرا بھی نہیں کرسکتے.
معلوم کیا ہوتا ہے کہ ساری قومیں سکھ اور چین کی زندگی گزار سکتی ہیں ، ہر قوم کا بچہ اپنی لیاقت کو بڑھ چڑھ کر ابھار سکتا ہے ، ہر محفل اپنی مذہبیت بھرے اثرات سے مجمع کو رنگ دے سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے.
قصور ہمارا کیا ہے ، جرم ہمارا کیا ہے اور اتنے بڑے سماج میں مجرم ہم ہی کیوں بنے بیٹھے ہیں.
صرف اور صرف اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں.
کیا ان ارباب مدارس کو یاد نہیں جو صبح و شام اپنی تقریروں میں بیان کرتے رہتے ہیں کہ جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجاتی ہے تواس پردشمن کارعب مسلط کردیا جاتا ہے”(مشکوٰۃ)ایک دوسری جگہ آپ ﷺ کاارشاد ہےکہ”رشوت دینے اورلینے والے دونوں پراللہ کی لعنت ہے”(ترمذی)اس کے علاوہ اوربھی بہت ساری روایات موجود ہیں جس میں رشوت کاتذکرہ کیاگیا ہے،رشوت ایک انتہائی بری اورخسیس عادت ہےجوپورے معاشرے کےلئے مضرِ ہےاس کا لینا دینادونوں ناجائز ہے. رشوت دینے والا اس سے ناجائز مقصد حاصل کرتاہے ہےاوررشوت لینے والاپیسے لے کر ظالم کی مدد کرتاہے اورمظلوم کومحروم کردیتاہے جوبہت بڑاظلم ہے،اس سے قوم کے مظلوم اورپسماندہ افراد سسک سسک کرزندگی گزارتے ہیں جوانتہائ افسردہ اور ہماری نسلوں پر غلط طریقہ کار ثابت ہوتا چلا جارہا ہے ۔
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں


mohdkhalidmisbahi786@gmail.com

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے