بندگی شیخ مصطفی عثمانی، احوال و آثار :ایک مطالعہ

بندگی شیخ مصطفی عثمانی، احوال و آثار :ایک مطالعہ

محمد شہروز کٹیہاری

نام کتاب:. بندگی شیخ مصطفی عثمانی:احوال و آثار
تصنیف:مولانا ابرار رضا مصباحی
سنہ اشاعت: ستمبر 2017ء/ذی الحجہ 1438ھ
صفحات:282
تعداد:چھ سو (600)
قیمت:Rs.350
ناشر: شاہ عبد العلیم آسی فاونڈیشن
انتساب :مجمع البحرین حضرت مفتی شیخ محمد عبید الرحمان دام فیضانہ
(زیب سجادہ:خانقاہ رشیدیہ جون پور ،یوپی)
طباعت بتعاون: ایڈو کیٹ الحاج محمد عبد العلی شکوری رشیدی(مختار عام خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار پورنیہ۔ساکن عملہ ٹولہ کٹیہار)
***

خانقاہ رشیدیہ جون پور کے بانی اور شہرہ آفاق کتاب "مناظرہ رشیدیہ”کے مصنف قطب الاقطاب محمد رشید عثمانی قدس سرہ ہیں _ ان کا مزار جون پور ہی میں ہے _ ان کے والد گرامی حضرت بندگی جمال الحق شیخ مصطفی عثمانی علیہ الرحمة والرضوان ہیں_ ان کا مزار خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار،پورنیہ،بہار میں ہے _ یہ کتاب ان ہی کی تفصیلی اور تحقیقی سوانح حیات ہے _ اس موضوع پر یہ پہلی باضابطہ کتاب ہے _
کتاب کی شروعات مولف کی "صدائے دل ” سے ہوتی ہے _ بعدہ زیب سجادہ مجمع البحرین مفتی محمد عبید الرحمان رشیدی کے دعائیہ کلمات ہیں _ مفتی سید شاہ محمود احمد رفاقتی ،سجادہ نشیں خانقاہ رفاقتی مظفر پور کا تاثر بھی شامل کتاب ہے _ مفتی محمود احمد رفاقتی لکھتے ہیں _
"اگر فقیر نے ان کو (مولف کو) نا دیکھا ہوتا تو سمجھتا کہ کسی سن رسیدہ دیدہ ور عالم نے لکھا ہے”
مفتی صاحب کے اس تاثر نے مطالعہ کے سلگتے شوق پر پٹرول کا کا م کیا _ اشتیاق اتنا بڑھا کہ یومیہ معمولات ترک کرکے مطالعہ میں مستغرق ہوگیا _مسلسل دو دن کے مطالعہ کے بعد 12 اگست کی صبح فراغت پائی _
کتاب میں پروفیسر جمال نصرت کا تاثر بھی شامل ہے _ انھوں نے مولف کتاب کی کاوشوں کو سراہنے کے ساتھ ڈھیر ساری دعاوں سے نوازا ہے __ تقریبا 25 صفحات پر مولف کا مقدمہ ہے _ پورنیہ کے سیاسی ،مذہبی، علمی حالات کا تفصیل سے ذکر ہے __ اصل کتاب صفحہ اکیاون (51) سے ہے _ تسمیہ شریف سے اصل کتاب کی شروعات ہوتی ہے _
کتاب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا ابرار رضا مصباحی نے اپنا نام زیر تالیف غالبا از راہ انکساری لکھا ہے، ورنہ یہ کتاب تالیف نہیں بلکہ مصباحی صاحب کی با ضابطہ تصنیف ہے ، جو تحقیق کے منہج پر لکھی گئی ہے __ تالیف میں عموما "حاطب اللیل” کی طرح ہر رطب و یابس کو جمع کردیا جاتا ہے اور بس _ مولف کی اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی _ مواد اگر خام ہو تو اس کی جواب دہی صاحب ماخذ پر ہوتی ہے ،مولف پر نہیں _ جب کہ تحقیق میں دودھ کو پانی سے الگ کرنے کی سی محنت کرنی پڑتی ہے _ مولانا نے اس کتاب میں یہی کام کیا ہے _ مولف موصوف بلکہ محقق گرامی مولانا ابرار نے جگہ جگہ تحقیق کے ایسے جوہر بکھیرے ہیں کہ یہ انہی کا حصہ ہے _ مختلف روایات کی تلاش ،ان کے درمیان تطبیق، تطبیق ممکن نہ ہو تو ترجیح و تردید یہ سب تحقیق کا حصہ ہیں _ مصباحی صاحب نے کتاب میں ان سب سے کام لیا ہے _
تحقیق کی چند جھلکیاں یہ ہیں
(1) محمد اسحاق بھٹی نے "فقہائے ہند ” میں شیخ مصطفی عثمانی کا لقب "شیخ رومی عثمانی ” بتایا ہے _ مصباحی صاحب نے اپنی کتاب کی شروعات ہی محمد اسحاق بھٹی پر تعاقب سے کیا ہے _ اور واضح کیا ہے کہ شیخ مصطفی عثمانی کا لقب "جمال الحق” اور ” حضرت بندگی” تھا _ البتہ آپ کے مورث اعلی مخدوم یخشی رومی "شیخ رومی "اور” مخدوم رومی ” کے لقب سے یاد کیے جاتے تھے _
(2) مولانا عبد المجتبی رضوی نے ” تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ رضویہ” میں بانی خانقاہ رشیدیہ شیخ محمد رشید عثمانی اور شیخ یسین جھونسوی کو حضرت جمال الاولیا کوڑوی کے خلفا میں شمار کیا ہے _ مگر مصباحی صاحب نے سمات الاخیار،گنج رشیدی وغیرہ سے ثابت کیا ہے کہ دونوں بزرگوں کی جمال الاولیا سے شاگردی تو ثابت ہے ،پر خلافت نہیں _
(3) ایک معرکة الآرا بحث حضرت بندگی شیخ مصطفی عثمانی کے سنہ وصال پر چھڑ گئی ہے _
نزھة الخوطر میں سن وصال 1076ھ مذکور ہے _
فقہائے ھند میں بھی 1076ھ مذکور ہے _
میر سید غلام علی آزاد بلگرامی نے "ماثر الکرام”کے حاشیہ پر 1022ھ لکھا ہے _ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نزھة الخواطر کا حوالہ دیا ہے ،جب کہ اس میں 1076ھ مذکور ہے _
اور سمات الاخیار میں ہے کہ آپ کے وصال کا سن تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا _
ان سارے اقوال کا ذکر کرنے کے بعد مصباحی صاحب متعدد شواہد لاتے ہیں ،پھر لکھتے ہیں:
"اس طرح واضح ہوتا ہے کہ حضرت کا وصال مناقب العارفین کی تصنیف سے قبل اور شیخ محمد رشید کے عقد کے بعد یعنی 1032ھ اور 1040 ھ کے درمیان ہوا ہے۔۔۔۔بعض قرائن کی نبیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ آپ کا وصال 1038 ھ میں ہوا ہے_
(4) حضرت شیخ مصطفی عثمانی کے مورث اعلی میں ایک مخدوم شیخ یخشی رومی آتے ہیں _ ان کا نام سمات الاخیار میں "یخشی” (ابتدا بہ یا ئےحطی) لکھا ہے _ گنج ارشدی میں "بخشی”(ابتدا بہ بائے ابجد)ہے _بحر ذخار میں بھی بائے ابجد کے ساتھ بخشی ہے _
ان سب روایات کے بعد مصنف کتاب ھذا لکھتے ہیں:
"اس طرح مخدوم رومی کے نام نامی میں مختلف روایتیں ہیں ، لیکن اصل نام یخشی (بالیا) ہے جو کتابت کی غلطی سے "یخشی”سے "بخشی”ہوگیا ہے_”
یہاں میں مصباحی صاحب کی توجہ اس طرف دلانا چاہوں گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یخشی کی وجہ ترجیح کتاب میں مذکور ہوتی_کتابت کی غلطی کا احتمال یخشی اور بخشی دونوں میں ہے _ اس لیے یخشی کو چن لینے پر وجہ مذکور ہونا چاہیے تھا _
(5) شیخ مصطفی عثمانی قدس سرہ بعد فراغت سکلائی سے ترک وطن کرکے سیدھے جون پور پہنچے یا پھر درمیان میں امیٹھی میں بھی کچھ عرصہ رہے _ فقہائے ہند میں محمد اسحاق بھٹی نے سکلائی سے امیٹھی پھر امیٹھی سے جون پور جانے کا ذکر کیا ہے_
مگر مصباحی صاحب امیٹھی جانے کو تسلیم نہیں کرتے _ان کے نزدیک شیخ مصطفی عثمانی سکلائی سے جون پور پہنچے پھر وہاں سے پورنیہ تشریف لائے _
مولانا مصباحی نے کن شواہد کی بنا پر محمد اسحاق بھٹی کی روایت کو رد کیا ہے یہ کتاب میں مذکور نہیں ہے _غرض کہ یہاں بھی تحقیق کو تشنہ چھوڑ دیا گیا ہے _
(6)صفحہ 82 کے آخر میں ایک جگہ کتابت کی غلطی بھی محسوس ہوئی _ عبارت یہ ہے
"شیخ قیام الدین نے بندگی شیخ نظام الدین کو جو تحریر خلافت و اجازت عطا کی ہے”
میرے خیال میں یہاں شیخ نظام الدین کی جگہ شیخ مصطفی عثمانی کا نام ہونا چاہئے _انہی کی خلافت کا ذکر چل رہا ہے اور آگے جو تحریر خلافت کتاب میں پیش کی گئی ہے ،اس میں بھی جمال الحق شیخ مصطفی عثمانی قدس سرہ کا ہی نام مذکور ہے _
(7) صفحہ 28 کے آخر میں پورنیہ ضلع کی چو حدی بیان کی گئی ہے _ اس میں بھا گل پور کو پورنیہ سے مغرب درشایا ہے _ جب کہ تقسیم پورنیہ سے قبل یا بعد کسی وقت بھی کسی طرح بھاگل پور پورنیہ سے مغرب نہیں آتا_
غرض کہ من جملہ یہ کتاب حضرت بندگی جمال الحق شیخ مصطفی عثمانی قدس سرہ کی حالات زندگی اور خانقاہ مصطفائیہ چمنی بازار کی تاریخ پر خصوصا اور خانقاہ رشدیہ و سلسلہ رشیدیہ پر عموما ایک علمی دستاویز ہے،ساتھ ہی مولانا ابرار رضا مصباحی زید مجدہ کی تحقیقی صلاحیتوں کا زندہ شاہ کار __تحقیق کا کام کتنا جگر سوز ہوتا ہے یہ وہی جانتا ہے جو اس سے گزرتا ہے _ اللہ تعالی مولانا ابرار کی اس کاوش کو قبول فرمائے _ان کی عمر میں برکتیں،علم میں کشادگی،شوق میں جنون ،حوصلہ میں بلندی اور اخلاق میں پختگی عطا فرمائے _
آمین بجاہ النبی الکریم


*موہنا چوکی،کدوا،کٹیہار،بہار
رابطہ نمبر:7545976669

صاحب تبصرہ کی پچھلی تحریر :

بے حیا چولھا

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے