شفق

شفق

وحید احمد قمر ۔ فرینکفرٹ ، جرمنی

” دھیان سے ، مضروب پاؤں زمین پر نہیں رکھنا ۔ چھڑی لے لو اور میرے کندھے کا سہارا بھی” ۔ احمد نے شفق کو سہارا دے کر بستر سے نیچے اترنے میں مدد دیتے ہوئے کہا۔

"میرے پاؤں میں اک ٹیس اٹھی ہے ۔ اتنے دن ہوگئے ۔۔ ۔۔ جانے اور کتنے دن لگیں گے ، بالکل ٹھیک ہونے میں ۔ میں کمرے تک محدود ہوکر رہ گئی ہوں ۔ اور سخت اکتاہٹ کا شکار ہوں ۔ موسم گرما کی تعطیلات نہ ہوتیں تو کلاسز کا بھی حرج ہوتا” ۔ شفق بولی ۔ اس نے احمد کا سہارا نہیں لیا تھا بلکہ بیساکھی بغل کے نیچے رکھ لی تھی جسے ٹیکتے ہوئے وہ دروازے کی جانب بڑھی ۔

احمد نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور شفق کو ایک بار پھر سہارا دے کر سیڑھیاں اترنے میں مدد دی۔ اس بار بھی جیسے ہی وہ سیڑھیاں اتر کر روش پر آئے ، شفق اس کے سہارے کو چھوڑ کر بیساکھی ٹیکنے لگی تھی ۔

"کچھ دیر اور اگر میں تمھیں سہارا دیے رکھتا تو قیامت نہ آ جاتی ۔ "

” میں اب خود چلنے کی پریکٹس کرنا چاہتی ہوں۔ اسی طرح تمھارے سہارے پر رہی تو بالکل سست ہو جاؤں گی۔ تم نے پہلے ہی کئی دن تک میری ہر ایک طرح سے بہت مدد کی ہے ۔”

یہ کہہ کر شفق نے جونہی قدم آگے بڑھایا، مضروب پاؤں پر دباؤ پڑا اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ گر ہی گئی ہوتی اگر احمد نے جلدی سے اسے تھام نہ لیا ہوتا۔

شفق نے اپنا سر اس کے کندھے پر رکھ دیا تھا۔

” تمھیں چلنے میں دشواری ہو رہی ہے نا ۔۔۔ چند دن مزید احتیاط کر لو ۔۔۔ پاؤں بالکل ٹھیک ہوجائے گا تو خوب چلنا، بغیر میرے سہارے کے۔ "

احمد نے اس کی کمر میں اپنا بازو حمائل کیا اور شفق نے اس کے کندھے کا سہارا لے لیا۔

وہ پھولوں کے درمیان بنی روش پر اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے ۔ راستہ دور تک سنسان پڑا تھا۔ ہوا رُکی ہوئی تھی اور فضا میں ایک سکوت طاری تھا۔ جس میں صرف ان کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ کچھ آگے جا کر شفق بولی۔

” جب سے تم ملے ہو ۔۔۔ زندگی بہت آسان لگنے لگی ہے۔ ورنہ ابتداء میں تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے یوروپ آکر پڑھنے کا میرا فیصلہ انتہائی غلط تھا۔ ۔۔۔ افف خدایا ۔۔۔ ۔۔۔ سستی رہائش ڈھونڈنے کے مراحل سے لے کر پارٹ ٹائم جاب تک ۔۔ کس قدر مشکلات کا سامنا رہا ۔۔۔ میرا کوئی ایک بھی تو جاننے والا نہ تھا یہاں۔ جہاں جاؤ زبان کا مسئلہ بھی منہ پھاڑے سامنے کھڑا ہوتا۔ انگلش بولنے والا کوئی ملک ہوتا تو شاید اس قدر دشواریاں نہ ہوتیں۔ اوپر سے پاؤں کو چوٹ لگ گئی ۔۔۔۔ ایسے میں تم تو جیسے رحمت کا فرشتہ بن کر آئے. "

” لیکن میں فرشتہ نہیں ہوں ” احمد مسکرایا ” آدم ذاد ہوں ۔۔۔۔ جسے اپنے رخساروں پر تمھارے سانسوں کی حرارت محسوس ہو رہی ہے ۔”

شفق، جس نے اپنا چہرہ احمد کے کندھے پر ٹکا رکھا تھا۔ خفیف ہو کر ایک دم پیچھے ہوگئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ اس جگہ پہنچے جہاں دریا اونچے نیچے پتھروں پر اچھلتا اور شور کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ جب کہ شفق کھلی ہوئی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں سرمئی بادل تیر رہے تھے جن پر شفق کا عکس پڑ رہا تھا۔

وہ ایک قریبی بنچ پر بیٹھ گئے۔ شفق نے آنکھیں بند کر کے بنچ کی پشت سے سرٹکا لیا۔ دریا کی طرف سے آنے والی ٹھنڈی ہوا اس کے بال اڑا رہی تھی۔ وہ آنکھیں بند کیے آہستگی سے بولی

” یہاں کس قدر سکون ہے، تازہ ، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جسم و جاں کو سرشار کیے دے رہے ہیں "

” ہاں۔ احمد نے کہا۔ اوردریا کی لہروں کا شور۔۔۔ شفق ، بادل ، اور ۔۔۔ وہ دیکھو ۔۔۔ چاند بھی نکلا ہوا ہے ۔ مگر تم نے تو آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، آنکھیں کھولو گی تو یہ سب دیکھ سکو گی”

” تم کہتے رہو۔۔ ۔۔ اور کیا کیا نظر آ رہا ہے تمھیں ، میں آنکھیں بند کر کے اور اس منظر کا حصہ بن کر اسے محسوس کرنا چاہتی ہوں۔”

احمد نے کہا ” بڑا سا چاند درختوں کی چوٹیوں سے کچھ اوپر ایک سرمئی بادل کے پیچھے سے جھانک رہا ہے۔ آج پورے چاند کی رات ہے شاید۔ جوں جوں رات گہری ہوتی جائے گی چاندنی ماحول پر چھا جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دور شمال کی جانب آسمان پر ایک چمک دار ستارہ بھی ابھی ابھی طلوع ہوا ہے۔ "

” کہاں ” شفق نے آنکھیں کھول کر اشتیاق سے کہا

” وہ دور اس بلند مینار کے اوپر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نظر آیا ؟؟

” مجھے تو نظر نہیں آ رہا ۔” شفق نے نفی میں سرہلایا۔

احمد نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا ” وہ دور چرچ کے برج اور بلند مینار کے درمیاں ۔۔ میرے کندھے پر چہرہ ٹکا کردیکھو "

شفق اس کے قریب سرک آئی ۔ ” مجھے تو نظر نہیں آیا اب تک ” اس نے احمد کی نگاہوں کے تعاقب میں چرچ کی جانب دیکھا۔

” افوہ ۔۔ وہ رہا ۔۔۔ چمکتا ہوا ، کتنا پیارا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، لیکن ابھی ابھی میری نگاہیں تمھارے کانوں کے آویزوں کی جانب گئی ہیں "۔

احمد نے شفق کو محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا

” یہ آویزے اس ستارے سے ذیادہ چمک دار ہیں ۔ "

” احمد علی ۔۔۔ ۔ ” شفق نے اپنا رخسار اس کے کندھے سے ہٹالیا اور آنکھیں پھر بند کر لیں ۔

احمد کہتا رہا

” تمھیں پتہ ہے تم اس وقت کس قدر دل کش لگ رہی ہو۔ تمھارے گال اور کانوں کی لوئیں تک سرخ ہو گئی ہیں۔ اور آنکھوں پر گری لانبی پلکیں لرز رہی ہیں۔ تمھارے بال شانوں سے ہوتے ہوئے سینے پر ڈھلکے ہوئے ہیں۔ اور یہ تمھارے ہونٹ کیوں کپکپا رہے ہیں؟ "

” احمد، تم کوئی اور بات نہیں کر سکتے۔” شفق نے کہا۔

” کر سکتا ہوں ، بالکل کر سکتا ہوں۔ عمران خان کی حکومت نے دو سال میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا ۔۔ مودی سرکار ہندوستانی مسلمانوں کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ چین اور ایران کے بڑھتے تعلقات امریکہ کو تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ برلن حکومت کرونا وائرس سے بڑی حکمت اور تدبر سے نمٹ رہی ہے ۔ ہمارے قریب ہی کہیں پھول کھلے ہوئے ہیں، جن کی مہک کافی دیر سے آرہی ہے ۔۔۔ چاند سرمئی بادلوں کی پیچھے چلا گیا ہے۔ ماحول پر جو چاندنی چٹکی ہوئی تھی اس کی جگہ تاریکی نے لے لی ہے۔ ستارے بھی کہیں نظر نہیں آرہے۔ اور ابھی ابھی ایک بوند میرے ہاتھ پر گری ہے۔ اور ایک بوند تمھارے اوپری ہونٹ پر ۔۔ جو نچلے ہونٹ کو تر کرتی تھوڑی پر ڈھلک گئی ہے۔ چند اور بوندیں تمھارے رخساروں پر بھی نظر آرہی ہیں ۔۔۔ اور کچھ شرارتی بوندیں تمھارے بالوں میں بھی اٹکی ہوئی ہیں ۔۔۔ بارش تیز ہوگئی تو کیا ہو گا پیاری لڑکی ۔۔۔؟ ہم دونوں تو بالکل بھیگ جائیں گے ۔۔۔”

” بھیگ جائیں ۔۔۔ ۔۔ ” شفق نے سسکاری لی ۔ اس نے پھر اپنا گال احمد کے شانے پر رکھ دیا تھا اور اس کے کچھ اور قریب سرک آئی تھی۔ ۔۔۔۔ اسے اپنے وجود میں لطیف سی لہریں اٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔ احمد کچھ اور بھی کہہ رہا تھا مگر وہ اب اس کی باتیں نہیں سن رہی تھی بلکہ آنکھیں بند کیے اس کے متعلق سوچ رہی تھی ۔

وہ کچھ ہی عرصہ قبل اسے یونیورسٹی کے ایک ایسے پروگرام میں ملا تھا جس میں نئے آنے والے فارن سٹوڈنٹس کی راہنمائی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی تھی۔ شفق نئی سٹوڈنٹ تھی۔ اسے کئی حوالوں سے مدد کی ضرورت تھی۔ احمد علی جو یونیورسٹی کا پرانا سٹوڈنٹ تھا، نے ہر طرح اس کی راہنمائی کی ۔۔ نہ صرف یونیورسٹی کے قریب ہی اسے ایک سستی رہائش ڈھونڈ دی بلکہ ایک جگہ پارٹ ٹائم جاب بھی دلا دی تھی۔ اور پاؤں پر چوٹ لگنے کے بعد تو احمد نے اس کا بے حد خیال رکھا تھا ۔ ۔۔۔ صبح صبح ناشتے کا سامان لے کر اس کی رہائش گاہ پہنچ جاتا۔ ۔۔ وہ منع ہی کرتی رہ جاتی مگر احمد اس کے لیے آملیٹ اور چائے بناتا ۔۔ اور بیڈ پر ہی اسے ناشتہ پیش کرتا۔ ۔۔ بعد میں بڑے سلیقے سے برتن دھو کر کچن صاف کر دیتا۔ بلکہ کبھی کبھی اس کے کمرے کی صفائی ستھرائی بھی کر دیتا۔ ۔۔ ۔۔۔ شروع شروع میں شفق اس کے ان زائد التفات کو شک کی نگاہ سے دیکھتی رہی لیکن ایک شام اس کے ذہن سے سب شکوک و شبہات دور ہوگئے جب باہر موسلا دھار بارش اور طوفان تھا اور احمد کا واپس اپنی رہائش پر جانا مشکل ہو گیا تھا۔ تب شفق نے اسے رات وہیں سو جانے کا کہا۔ ۔۔۔ شفق کا اپارٹمنٹ ایک بیڈ روم اور کچن پر مشتمل تھا۔ احمد نے کچن کے فرش پر گدا بچھایا اور کمبل اوڑھ کر سو گیا۔ اگرچہ شفق نے بیڈ روم کا دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا پھر بھی اسے رات گئے تک نیند نہ آئی ۔۔۔۔۔۔ اگلی صبح جب شفق نے بیڈ روم کا دروازہ کھول کر کچن میں جھانکا تو وہ ہمیشہ کی طرح ہشاش بشاش زیرِ لب گنگناتا ہوا ناشتہ بنا رہا تھا ۔

اس کے بعد شفق کے دل میں احمد کے لیے نرم جذبات پیدا ہو گئے تھے ۔ اور وہ کچھ قریب بھی آگئے تھے۔ تاہم وہ ابھی بھی اپنے اور احمد کے درمیان ایک حدِ فاصل قائم کیے ہوئے تھی۔

” لڑکی ۔۔ میرے کندھے پر سر رکھے رکھے سو تو نہیں گئیں ” اسے احمد کی بلند آواز سنائی دی تو اس نے آنکھیں کھولیں اور سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

” شکر ہے بوندا باندی بارش میں نہیں بدلی ۔۔۔ ہم کچھ دیر اور دریا کے کنارے بیٹھ سکتے ہیں۔ ” وہ بولی

اسی وقت شفق نے دور سے ایک بلونڈ لڑکی کو آتے دیکھا ۔۔ جس نے ایک چھوٹی سی نیکر اور بلاؤز پہنا ہوا تھا۔ وہ واکنگ ٹریک پر تیز تیز قدم اٹھا رہی تھی۔ شفق ابھی لڑکی کی سڈول ٹانگوں اور پتلی کمر کو رشک کی نگاہ سے دیکھ ہی رہی تھی کہ لڑکی نے بھی ان کی جانب دیکھا اور دور سے ہی چلائی

آحماڈ ۔۔۔ ۔۔

احمد لڑکی کو اپنی جانب آتا دیکھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ لڑکی قریب آئی اور اس نے نہ صرف گرم جوشی سے احمد کو گلے لگا لیا بلکہ چھٹ پٹ اس کے کئی بوسے بھی لے لیے۔ شفق ہکا بکا سی اس منظر کو دیکھے جا رہی تھی۔ احمد نے جرمن میں تعارف کروایا۔

” شفق ۔۔۔ یہ یولیا ہے۔ میری دوست اور یولیا ۔۔ یہ شفق ہے۔

یولیا نے بڑی گرم جوشی سے شفق سے ہاتھ ملایا ۔۔ اور اس کی خیریت پوچھی۔

جوابا” شفق اس گرم جوشی کا مظاہرہ تو نہ کر سکی البتہ اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی۔

یولیا اور احمد کچھ دیر جرمن میں گفتگو کرتے رہے پھر یولیا ہاتھ ہلاتی اور مسکراہٹ اچھالتی وہاں سے رخصت ہو گئی۔

اس کے جانے کے بعد ماحول پر ایک گھمبیر خاموشی چھا گئی تھی۔ جسے کچھ دیر بعد احمد نے توڑا۔

” ہمیں اب واپس چلنا چاہیے ۔۔ کہیں بارش نہ شروع ہو جائے ۔ "

” میں اکیلی واپس جاؤں گی۔ "

” مگر ۔۔۔ کیوں ۔۔۔؟ احمد نے کہنا چاہا

” احمد ۔۔۔ اس بلونڈ لڑکی نے جس طرح تمھیں گلے لگایا ہے اور بوسے لیے ہیں ، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ تمھاری دوست سے بڑھ کر کچھ ہے ۔”

احمد شفق کی بات سن کر خاموش ہو گیا ۔۔۔۔ اس کے چہرے پر کشمکش کے آثار تھے ۔۔ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو مگر مناسب الفاظ نہ مل رہے ہوں ۔۔۔ کچھ پل اور گزر گئے ۔۔۔۔ آخر اس نے کہنا شروع کیا

” یولیا ایک ایتھیسٹ لڑکی ہے۔ وہ ایک سال تک میری فرواینڈِن رہی (جرمن لفظ بمعنی گرل فرینڈ )۔ میں اس سے بے انتہا اخلاص رکھتا تھا۔ ۔۔ اور اس سے شادی بھی کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ مگر اس شرط پر کہ پہلے وہ مسلمان ہو ۔ ۔۔ لیکن اسے یہ شرط قبول نہ تھی۔ چنانچہ باہمی رضامندی سے ہم الگ ہو گئے۔ پہلے سا تعلق تو نہ رھا مگر دوست ہی رہے۔ اب بھی برے بھلے وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔

” یولیا کے علاوہ بھی کبھی کوئی فرواینڈِن رہی۔ ” شفق نے جذبات سے عاری لہجے میں پوچھا

” ہاں ۔۔۔ جب میں نیا نیا اس شہر میں آیا تو میرے پاس رہائش نہیں تھی۔ تب ایک سپینش لڑکی نے میری بہت مدد کی۔ چھ ماہ تک مجھے اپنے کمرے میں رکھا۔ لیکن اسے ہمیشہ مجھ سے یہ شکایت رہی کہ میں شراب پینے میں اس کا ساتھ نہیں دیتا اور سؤر بھی نہیں کھاتا جب کہ اسے سؤر کا گوشت بے حد مرغوب تھا۔ ۔۔۔ اس لیے ہم الگ ہو گئے۔

” اور اب تم مجھے اپنی فرواینڈِن بنانا چاہتے ہو۔”

” ہاں ۔۔۔ احمد رواروی میں کہہ گیا ۔۔ پھر جلدی سے بولا ۔ نہیں نہیں ۔۔ فرواینڈِن نہیں، میں تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنانا چاہتا ہوں۔ "

شفق نے قریب پڑی بیساکھی کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔ احمد تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

شفق نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا ۔۔۔ ” مجھے تمھارے سہارے کی ضرورت نہیں ہے ” ۔

” یہ تم محض اس لیے کہہ رہی ہو کہ میں نے پوری سچائی سے تمھیں سب بتا دیا ۔”

” احمد علی ۔۔ کاش تم نے یہ سچ نہ بولا ہوتا ۔۔۔ جھوٹ بول دیتے۔ شفق کے لہجے میں کرب نمایاں تھا ۔۔۔ وہ رکی اور کچھ توقف کے بعد پھربولی ۔

"اور اب پلیز ۔۔ میرے پیچھے نہ آنا۔ نہ ہی کبھی مجھ سے ملنے کی کوشش کرنا”

شفق نے دور جاتے سنسان راستے کی جانب دیکھا۔ اور جانے کے لیے مڑی

۔

احمد اس کے سامنے آتے ہوئے بولا۔” شفق ۔۔ رک جاؤ ۔۔۔۔ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ میری بات کا یقین کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ جو چند دن تمھارے ساتھ گزرے، میری زندگی کے بہترین دن ہیں۔

” اور یہی بات تم پہلے بھی چند لڑکیوں سے کہہ چکے ہو ۔۔ ہے نا ۔۔؟

احمد نے خاموشی سے سر جھکا لیا، اس کے انداز میں بے بسی تھی ۔

شفق نے چند لمحے احمد کے چہرے پر نظریں جمائے رکھیں۔ پھر قدم بڑھایا اور آہستہ آہستہ بیساکھی ٹیکتی ہوئی احمد سے دور ہوتی چلی گئی۔

فضا پر ایک سوگوار سی خاموشی چھا گئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ عالمی افسانہ فورم
وحید قمر کی پچھلی تحریر یہاں پڑھیں:
اسماء حسن کا افسانہ ” نیم پلیٹ ” :ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

One thought on “شفق

  1. وحید قمر محبت کے افسانے لکھتے ہیں ۔ بڑی محبت ، چاؤ اور قرینے سے لکھتے ہیں ۔ کبھی کبھی دل کو اداس بھی کر جاتے ہیں ۔ یہ بھی ایک ایسا ہی اداسی بھرا افسانہ ہے جس میں برگِ سبز کے خزاں رسیدگی کا شکار ہو کر دل کے شاخوں سے جدائ کی چاپ سنائ دیتی ہے ۔
    مصنف کے لئے محبت اور نیک خواہشات !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے