تسنیم کوثر: تعارف ، فن اور افسانہ

تسنیم کوثر: تعارف ، فن اور افسانہ

مرتب: احسان قاسمی 

 

نام :- تسنیم کوثر

تاریخِ پیدائش :- 30 مئ 1967 ء

والد :- سعید اختر آبائی

وطن :- سرویلی ( باراعید گاہ )

ضلع : پورنیہ

تعلیم :- ابتدائ : گھر / گاؤں میں

ہائی اسکول : روٹا ہائی اسکول

اعلیٰ تعلیم :- ایم اے ( تاریخ ) ایم اے ( اردو) پٹنہ یونیورسٹی 94 – 1992

ڈپلومہ ان پبلشنگ اینڈ ایڈورٹائزنگ 1998 ء ۔ زی میڈیا انسٹی ٹیوٹ ، پٹنہ

پیشہ :- دور درشن مرکز اور آل انڈیا ریڈیو پٹنہ میں نیوز کاسٹر ( سابق )

پیشہ :- ( حالیہ) صحافت پرنٹر ، پبلشر ، ایڈیٹر روزنامہ ‘ ایشین رپورٹر ‘ دہلی ہندی ماہنامہ ، دہلی انگریزی ویب پورٹل asianreporter. in

سماجی خدمات :- جنرل سکریٹری ” بنات ” ( بین الاقوامی نسائ ادبی تنظیم ) یوم تاسیس 4 اکتوبر 2017 ء تا حال ۔

سیلاب سے متاثر سیمانچل میں رپورٹنگ اور ریلیف کا کام 2017ء

شریک حیات :- پروفیسر محمد انوارالحق تبسم ۔ صدر شعبہء تاریخ ، اورینٹل کالج ، پٹنہ

اثمار حیات :- عمران انوار ، عرفان انوار

افسانہ نگاری کی ابتدا :- 1992 ء

پہلا مطبوعہ افسانہ :- زبان و ادب ، پٹنہ 1992 ء

استاد جن سے فیض حاصل کیا :- پروفیسر سید محمد حسن عسکری ، پروفیسر ڈاکٹر قیام الدین احمد ، پروفیسر انوارالحق تبسم ، پروفیسر کے کے دتہ ، پروفیسر نندی

اشاعت :- زبان و ادب ، ایوان ِ اردو ، آجکل ، انشا ، مریخ ، گلبن وغیرہ میں افسانوں کی اشاعت آل انڈیا ریڈیو پٹنہ سے کئ افسانے نشر ۔

افسانوی مجموعہ :- بونسائی صفحات – 136 قیمت – 100 روپئے تقسیم کار – مکتبہ جامعہ لمیٹڈ جامعہ نگر ، نئ دہلی اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، اردو بازار، دہلی کتاب کی اشاعت میں بہار اردو اکادمی کا جزوی مالی تعاون شامل

تاریخ ِ اشاعت :- 1995 ء

مجموعہ میں شامل افسانے :- ( 17 ) بونسائ، لوٹ پیچھے کی طرف، مہاجر، انوکھا رشتہ، دیواریں، گہن، ملیچھ، اجالوں کے نئے سفیر، عزم، دونینن، پارس، سلگتے لمحوں کا کرب، بیچ کا آدمی ، ہوئے مر کے ہم جو رسوا ، ادھورے خواب، دل ریزہ ریزہ، گردش ِ ایام

ایوارڈز

ایوارڈ برائے تخلیقی ادب ( افسانوی مجموعہ بونسائ کے لئے) میر اکیڈمی ، لکھنؤ

سید محمود ایوارڈ برائے صحافت، بہار

بیسٹ اردو نیوز اینکر ایوارڈ ۔ راج بھاشا وبھاگ، حکومت ِ بہار

اعزاز برائے فکشن نگاری ۔ بہار اردو اکادمی ، پٹنہ

اس کے علاوہ متعدد سرٹیفیکٹ اور اعزاز و انعام برائے مضامین و تقاریر

سفر

سفر ترکی – مارچ 2015 ء

سفر پاکستان – دسمبر 2015 ء تا جنوری 2016 ء

پیشِ لفظ

آج سے دس پندرہ برس پہلے جب کہانیاں، افسانے، ناول وغیرہ کثرت سے پڑھے جاتے تھے اس وقت ہم ان میں تلاش کرتے تھے اپنے آس پاس بکھرے کرداروں کو، ان کی کہانی کو ۔ مگر ہمیں نہایت افسوس ہوتا جب ہمیں انتہائی گنجلک کہانیاں پڑھنے کو ملتیں ۔ایسے میں ہمیں بڑی جھنجھلا ہٹ ہوئی اور ہم نے احتجاجاً افسانے پڑھنا بند کر دیئے مگر اضطراب کو قرار نہ دے سکے کیونکہ ہم ہی وہ قاری تھے جو افسانوں سے دور ہوتے جا رہے تھے اور ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ کہانیاں اپنے قاری کھوتی جا رہی ہیں ۔ جب ہماری بےچینی حد سے بڑھی تو ہم نے ردعمل کے طور پر اپنے اطراف کے کرداروں اور ان سے جڑے واقعات کو ماجرے کے ساتھ واضح پیرایہ میں اپنی ڈائری میں لکھنا شروع کیا جس کے نتیجے میں یہ مجموعہ آپ کے سامنے ہے ۔ انسان اور کہانی کا ازلی رشتہ ہے جو ابد تک قائم رہے گا بھلے ہی انداز و اطوار بدل جائیں ۔ اس صنف ِ ادب میں نئے نئے تجربے اس کے متحرک ہونے کی دلیل ہے ۔ میں بھی تجربوں کی قائل ہوں مگر اسی حد تک کہ قاری اور کہا نی کا رشتہ نہ ٹوٹے اور کہانی ‘ چکرویوہ ‘ ہو کر نہ رہ جائے جس سے نکلنے کا راستہ کہانی کار کو معلوم ہو، نہ قاری کو ۔

( تسنیم کوثر سعید کے افسانوی مجموعہ’ بونسائی ‘کے پیشِ لفظ سے اقتباس ) .

دنیائے افسانہ میں تسنیم کوثر نووارد ہیں لیکن گذشتہ پانچ برس سے انہوں نے اس صنف میں اپنی تخلیقی قوت کا خوب خوب مظاہرہ کیا ہے ۔ تسنیم کوثر کچھ زیادہ ہی حساس اور باشعور ہیں ۔ وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالتی ہیں ، سماجی ناہمواریوں کو محسوس کرتی ہیں ، سیاسی بازیگری پر نظر رکھتی ہیں اور پھر انھیں موضوعات کے طور پر دیکھتی ہیں ۔۔۔۔ تب ان کا افسانہ تخلیق ہوتا ہے ۔ تسنیم کوثر زبان کے معاملے میں بھی خاصی حساس ہیں ۔ ان کی تخلیقی زبان شگفتہ اور پر کشش ہے جس سے ان کے افسانے اور بھی لطیف بن گئے ہیں ۔

( پروفیسر وہاب اشرفی ) .

تسنیم کوثر افسانہ نگار ہیں اور بہت اچھی افسانہ نگار ہیں ۔ ان کے افسانوں میں عصری حسیت، سماجی شعور اور دردمندی کے احساسات نمایاں ہیں ۔ موضوعات کا تنوع، مشاہدات کی گہرائی اور کردار کے ساتھ ان کا دردمندانہ سلوک ان کے افسانوں کا خاصہ ہے ۔ ان کی کردار نگاری میں مخصوص اپنائیت ہوتی ہے جو تخلیق سے خالق کے گہرے رشتے کی نشاندہی کرتی ہے ۔ دل کش طرز تحریر اور فنی تقاضوں کے ساتھ ساتھ زبان پر ان کی مضبوط گرفت نے بہت جلد انہیں اردو میں اور بالخصوص اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک ممتاز حیثیت دے دی ہے ۔

( شفیع جاوید ) .

تسنیم کوثر کے افسانوں کی جو خصوصیت ہے اور جو مجھے خاص طور سے متاثر کرتی ہے ، وہ ہے ان کا زمین سے گہرا رشتہ ۔ وہ ہوائی قلعے تعمیر نہیں کرتیں اور نہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں ۔ ان کی نگاہیں ان مسائل پر پڑتی ہیں جو ہمارے آس پاس نہ صرف پھیلی ہوئی ہیں بلکہ ہمیں جکڑے رہتی ہیں ۔ تسنیم کوثر کے افسانوں میں سماجی شعور بدرجہ اتم موجود ہے ۔

( ڈاکٹر عبدالصمد) .

تسنیم کوثر کو کہانی کہنے کا آرٹ آتا ہے ۔ وہ قصہ گو ہیں اور قصہ گوئی کے لوازمات سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ اسی لئے قاری ان کی کہانی شروع کرنے کے بعد ختم کرکے ہی دم لیتا ہے. ان کی کہانیوں میں نیاپن ہے، انفرادیت ہے اور عصری حسیت بھی ۔ ان کا اسلوب روایتی ہوتے ہوئے بھی دل پذیر ہے جوقصے کے مزاج سے ہم آہنگ ہے ۔ ان کی کہانیوں میں عصر حاضر کا کرب شدت سے در آیا ہے ۔

( رضوان احمد ، مدیر اعلیٰ عظیم آباد ایکسپریس) .

اردو افسانہ نگاروں کی صف میں تسنیم کوثر ایک ابھرتا ہوا نام ہے ۔ ان کے افسانوں میں متوسط طبقے کی عام زندگی کی پرکشش اور مؤثر عکاسی ہوتی ہے ۔ انسانی جذبات کی سچائی اور انسانی رشتوں کے خلوص کے ساتھ اندازِ بیان کی شائستگی نے ان کے طرزِ تحریر کو ایک منفرد خصوصیت بخشی ہے ۔

( امتیاز احمد ) ۔

آج کا اردو افسانہ جہاں دیہاتوں میں رہنے والے اسی فیصد سیدھے سادے لوگوں کی زندگی اور ان کے مسائل سے دامن بچانے کی کوشش کر رہا ہے، تسنیم کوثر ان بھولے بھالے معصوم لوگوں کی زندگی اور درپیش مسائل کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتی ہیں ۔

( ڈاکٹر محمد غفار صدیقی، ریڈر شعبۂ فارسی پٹنہ یونیورسٹی ۔)

تسنیم کوثر ایک منفرد اور ممتاز افسانہ نگار کی حیثیت سے اردو افسانہ نگاروں میں بالعموم اور خواتین افسانہ نگاروں میں بالخصوص اپنا مقام بنا چکی ہیں ۔

( ڈاکٹر احمد حسن دانش ، صدر شعبۂ اردو بی این منڈل یونیورسٹی)

Tasneem Kausar has carved out a niche for herself in the realm of Urdu literature but she is also one of the reasons why the urdu news of Patna Doordarshan from amongst eight kendras which telecast urdu news, has received rave reviews. Hailing from a small village Haidar Nagar in Purnea District Bihar , Tasneem was married at the young age of 17 . motherhood followed. However , she never let early marriage and motherhood became a handicap. Right from the days when she used to listen to her grandma’ s stories. Tasneem had the feeling that she too could easily write stories like those narrated by her grandmother. Today she has articles & stories published in a number of prestigious urdu magazines like AIWAN E URDU of Delhi urdu academy , ZABAN O ADAB of Bihar urdu academy , MIRRIKH , GULBAN , PINDAR , & LAMAAT etc. She has also broadcast her stories the first of which was DIL REZA REZA. Her stories QAID E HAYAT, BONSAI & LOUT PEECHE KI TARAF have also received great critic acclaim. Literature is her passion, history her career and news reading is her hobby. Literature polished her vocabulary and reading her stories prepared her to be one of the best news – readers. MEENA SINHA FEMINA , May 1993

افسانہ

باد مشرق تیرا انتظار باقی ہے


رات دیر سے سوئی تھی اور صبح دیر تک سونے کا ارادہ تھا ۔مگر ٹی وی کی تیز آواز نے سونے نہ دیا ،ابا جب سے ریٹائر ہوئے ہیں ان کو کوئی کام نہیں سوائے ٹی وی دیکھنے اور تبصرے کرنے کے۔ صبح ہوئی نہیں کہ ٹی وی آن۔ اتنی ڈرامائی انداز کی خبریں آتی ہیں کہ فکشن کا گمان ہوتا ہے اور تو اور نیوز چینل خبروں کے بیچ میں کامیڈی کے پورے پورے ایپیسوڈ ڈال دیتے ہیں ۔ہمارے گھر میں دوسرا کوئی چینل نہیں چلتا ۔آج کے ماحول میں یہ بھی اچھا امتزاج ہے خبریں دیکھنے سننے والا اختلاج کے دوروں سے محفوظ رہتا ہے ۔لیکن ہر چیز کا اوور ڈوز ہے۔ ابا بھی کیا کریں کنکریٹ کے اس جنگل میں جسے عُرف عام میں دلّی کہتے ہیں جسے کچھ لوگ اب ہستنا پور کہنے اور کہلوانے میں لگے ہیں ابا نے تین کمروں کا فلیٹ افورڈ کر لیا بس یہی کافی ہے ۔ان کے پروویڈنٹ فنڈ کی رقم سے بس یہ ہوا کہ ہم سب کرائے کے مکان سے اٹھ کر اپنے فلیٹ میں آگئے اور تو اور برسوں کے اپنے ہمسائے پٹیل انکل سے جھگڑا کری آئے ،کیوں نہ کرتے ۔۔۔انہوں نے بات ہی ایسی کی ۔۔ابا نے اتنے پیار سے مسلمانوں کے گڑھ میں وہ بھی مسجد کے برابر والی بلڈنگ میں فلیٹ لیا اور وہ فرمانے لگے کہ تم مسلمانوں کو نہ بیماری ہے ہر جگہ مِنی پاکستان چاہئے ۔تیس پینتیس سال یہیں کاٹے سندر نگر میں کوئی فلیٹ نہ ملا جو چلے گئے اوکھلا اور وہ بھی ابوالفضل ۔۔۔نالے کے ُاس پار ۔۔۔۔مجھ سے نہ رہا گیا میں نے بھی تُرکی بہ تُرکی جڑ دیا۔جب سے آپ لوگوں نے جنپد بنانے شروع کر دئے ہیں نہ جیسے جین ہاوسنگ ،ساورکر سوسائٹی، گوڈسے دھام، اروڑا اینکلیو،بنگالی ہاتا مارواڑی باسہ اور شر ط رکھ دی کہ کوئی غیر جات برادری کا وہاں نہیں گھس سکتا تو انکل جی ہم تو ٹھرے الپ سنکھیک ہمیں اچھوت بنانے میں کیا دیر لگے گی اور یوں بھی ہمارے ملک میں ہم جیسوں کو جانور سے کمتر سمجھا جا رہا ہے اس لئے بھیڑ کو اپنے ریوڑ میں ہی رہنا چاہئے۔ سُلگی پہ تیلی جواب تو دے دیا لیکن حقیقت یہ تھی کہ ددّا کئی سال سے کہہ رہی تھیں کہ چھوٹے دادا کی طرف گھر لیا جائے۔ سو ابا نے لے لیا۔
ہمارے گھر میں ڈرائنگ روم کا ایک کونا ددّا کے لئے مخصوص ہے وہاں وہ اور ان کی جماعت پرانے وقتوں کو یاد کر کے آہیں بھرنے کا کام کرتی ہے۔دائیں طرف کچن سے لگی کھلی اسپیس میں ڈائننگ میز رکھی ہے جہاں امی صبح سے شام تک اپنے ضروری کام نمٹاتی ہیں اور جج بن کر بات بے بات عدالت بھی وہیں لگاتی ہیں مزاج گرم ہے اوران کا غصے والا بلب اکثر آن ہوتا ہے ۔اس پر ستم یہ کہ ابا اور بھائی کی ضد سے بہو پاکستانی لے آئی ہیں ۔ابا کو تاریخی کام کرنے کا بڑا شوق ہے وہ اڑ گئے کہ اپنے مہاجر دوست عبدالستار کی بیٹی کو ہی امی کے لاڈلے کی دلہن بنائیں گے۔ اپنی دانست میں انڈ و پاک ریلیشنز کو متوازن رکھنے کے لئے ان کا یہ یوگدان تاریخ میں سنہری سطر میں کندہ ہوگا۔ امی تو ابا کو اس مورچے پر شکست دینے کے لئے آس پڑوس رشتہ دار احباب عوام و خاص میں رشتہ ڈھونڈھنے کے لئے پا بہ رکاب رہیں ادھر بھیا نے فیسبک اور اسکائپ کے ذریعے عشق پیچاں کی ساری منزلیں گربہ قدمی سے طے کر لیں. یوں نائلہ بھابی نام کا قلعہ فتح کر لیا اورامن کی فاختہ کی پوری نسل پیدا کرنے کی پلاننگ واٹس ایپ پہ کر ڈالی۔ امی کو تو ہارنا ہی تھا ۔ایک مصیبت یہ ہوگئی کہ تب سے امی کی عقابی نگاہیں مجھے اپنے ہالے میں رکھتی ہیں مبادہ کوئی نیپالی داماد نہ گلے پڑ جائے۔ مجال ہے جو ان کی موجودگی کے بنا میں کسی سوشل سائٹ کی علت میں گرفتار ہوں. گئو رکشک دل کی طرح بریانی میں بیف سونگھتی پھرتی ہیں اور تو اور مجھ سے سارے پاسورڈ لے رکھے ہیں گاہے بگاہے چھاپے ڈالتی رہتی ہیں ۔ مگر ان کو کیا پتہ کس نوجوان نسل سے پالا پڑا ہے جس کے کھانے کے دانت اور دکھانے کے اور ۔
آج امی کا پارہ کچھ زیادہ ہی گرم تھا۔ ٹی وی آن تھا اور ناشتہ ٹیبل پر رکھ دیا گیا تھا لوگ باگ اپنے بنکروں سے نکل کر ڈائننگ کی طرف چل چکے تھے جیسے ہی نائلہ بھابھی میز تک پہونچیں امی پھٹ پڑیں۔
ــکیا اذیت ہے صاحب کیا درندگی ہے ۔۔۔ارے مار کے جی نہ بھرے ہے ان نامرادوں کا جو نعش کا حشر نشر کر دے ہیں۔ ائے کہاں لکھا ہے مملکت خداداد کے وحیانہ قانون میں کہ لاش کی بے حرمتی کرو ائے یہ بھی نصف ایمان ہے؟
دیکھ تو وہ ٹی وی رہی تھیں لیکن مخاطب بھابی سے تھیں۔۔۔۔لو !پھر سر کاٹ کر لے گئے تمائے جلاد فوجی ہمائے جوانوں کے اور لاش پارسل کردی۔ وہ اس وقت مودی جی کے اوتار میں تھیں۔امی کے جارحانہ تیور بتا رہے تھے کہ ان کو جواب نواز شریف سے نہیں راحیل شریف سے چاہئے۔
بھابھی نے ایک طائرانہ نظر ٹی وی پہ ڈالی جہاں اینکر فوج کا سپہ سالار بنا ایک کے بدلے دس سر کاٹ لانے کے دعوے اسٹوڈیو میں بیٹھا کر رہا تھا۔ بھابھی نے بریڈ کے دو پیسسز ٹوسٹر میں ڈالے اور قدرے تمسخرانہ انداز میں بولیں ۔۔۔سرجیکل کا بڑا شوق ہے نا ۔۔۔بھگتیں اب۔۔۔۔ ننھی میزائل داغی جا چکی تھی اب تو باقائدہ جنگ طے تھی۔ہاں تو دراندازوں کے خلاف ہم سرجیکل کریں گے تو تم پوسٹ مارٹم پر اتر آوگے؟ امی نے بھابھی کو راحیل شریف مان لیا ۔۔ وہ کارپیٹ بامبنگ کی تیاری میں تھیں۔ نائلہ بھابھی نے پاک سرزمین شاد باد کا نعرہ بلند کیا اور امی پر جوابی کاروائی کر ڈالی ۔۔آپ لوگ مانتے نہیں نہ ۔۔۔بتانا پڑتا ہے ۔۔آپ نے کتنے مارے ہم نے کتنے مارے ۔
ابا نے سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مداخلت ضروری سمجھی اور خوامخواہ امریکہ بننے کی کوشش کی ـ۔ارے یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے ورنہ دونوں ملکوں کی فوجیں بیکار نہ ہوجائیں !میڈیا کو بھی تو رسد پانی چاہیے نا۔
امی آج سارے پھپھولے پھوڑ لینے کے موڈ میں تھیں۔ اچھا ۔۔۔اتّا سا ملک پِدی سا ۔۔۔آنکھیں دکھا رہا ہے ۔۔ارے ہم سب مل کر تھوک دیں ۔۔تو بہہ جائے ۔۔چھلانگیں دیکھو یہ لمبی لمبی۔۔
اچھا تو آپ مل سکتے ہیں؟ ایک ساتھ تھوکیں گے؟ بھابھی نے ڈرون حملہ کیا ۔۔امی آپ لوگ اچھوت ہیں اچھوت کس دنیا میں رہتی ہیں آپ؟ تھوک بھی نہ تھوک میں شامل کریں یہ لوگ۔ اور وہ کون ہیں آپ کے سچر صاحب انہوں نے تو نبی کی امت کو دلتوں سے بدتر قرار دے دیا ہے اور مزہ تو یہ ہے کہ آپ لوگوں نے مان بھی لیا ہے۔ بھابھی نے گرم چائے کپ میں انڈیلتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی ۔
لیکن امی بھی تیار بیٹھی تھیں انہوں نے مودی نام کی اسکڈ داغی ۔۔۔56 انچ کے سینے سے اب تک سابقہ نہیں پڑا تھا نا ۔۔اب کے سے آنا۔۔۔بھابھی کے پاس پیٹرےاٹ ریڈی تھی وہ بولیں۔امی جان ہمارا ملک اتا سا ضرور ہے لیکن آپ کے یہاں تو صرف ایک سینہ 56 انچ کا ہے ہمارے یہاں تو سارے سینے 56 انچ کے ہیں۔ ارے نئیں کِتّا بھی فوں فاں کر لیں اِتّا دم نہ ہے ۔ اس سے پہلے کے دونوں طرف کے ہم جیسے مظلوم شہری مارے جاتے ددّا کی اینٹری ہوئی اور وہ ہمیں بانکی مون کی طرح لگیں۔ لیکن امی کو تو کُمک مل گئی۔ ددا کی طرف گھوم کے بولیں۔ یہ شعبدے بازیاں کیا کیا گُل کھلاتی ہیں ان مہاجروں کو کیا پتا ۔خود تو دربدر ہوئے اور ہمیں چھوڑ گئے بے یارو مددگار۔ سچ کہتی ہوں اماں مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے ہم 1947 میں جی رہے ہیں مجھے تو خواب میں پیڑوں سے لٹکتی لاشیں دکھائی دیتی ہیں۔ امی آبدیدہ ہوگئیں۔
ائے بی وہ لاشیں علماٗ کی تھیں اور وہ وقت 1857 غدر کا تھا جب ہم آزادی کی پہلی جنگ مل کر لڑ رہے تھے ہم ایک قوم تھے دشمن ہمارا ایک تھا وہ علما ہی تھے جنہوں نےمادر وطن کی آزادی کے لئے نعرہ انقلاب بلند کیا تھا اور لٹکا دئے گئے پیڑوں سے۔ توپ کے منہ پر رکھ کر داغ دئے گئے صاب کیا شاہ و کیا گدا حب وطن سے لبریز جسم وجاں پھانسیوں پر ہلکے ہونے کے بجائے بھاری پڑے۔ ددا کا سفید براق چہرہ وفور جذبات سے سرخ ہو گیا پیشانی یوں چمک رہی تھی جیسے پیچھے سورج چھپا ہو ۔ ان کی آواز بتدریج بلند ہورہی تھی ارے سال 1947 تو منحوس ثابت ہوا۔ ملک کے ٹکڑے کر دئے گئے اور قیامت یہ ہے کہ ہم جشن آزادی مناتے ہیں 14 وہ 15 ہم ۔انگریزوں کا کیا بگڑا یہ جا وہ جا۔
ددا کے ہاتھ میں سروتا تھا وہ چھالیہ کتر رہی تھیں اور یوں چلا رہی تھیں جیسے انگریزوں کے سر کاٹ رہی ہوں کٹ کٹ کٹ۔ لیکن میں یہ سوچ رہی تھی کہ بھابھی تو حب الوطنی میں رطب السان ہیں اور ہم ؟ ہمیں اس قضیے میں الجھا دیا گیا ہے کہ مادر وطن کو بھارت ماتا کہنا حرام ہے۔


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے