ٹرین میں چوہا

ٹرین میں چوہا

طیب فرقانی 


نائن الیون کی تاریخ تھی جب میں نے ٹرین میں چوہا دیکھا۔ذہن کوزور کا جھٹکا زوروں سے لگا۔وہ تو خیر ہوا کہ میں ہندوستانی ٹرین میں تھا۔امریکہ کی کسی ٹرین میں ہوتا تو میرا کیا حشر ہوتا ،خدا ہی جانے۔چوہا ٹھیک میرے سامنے والی نچلی برتھ کے نیچے تھا ۔ایک لمحے کو دہشت ہوئی۔پھر دہشت گرد یاد آئے۔پھر امریکہ یاد آیا ۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر یاد آیا ،جہاں ہزاروں بے قصور لوگ موت کے گھاٹ اتار دئے گئے۔پھر افغانستان یاد آیا ،جہاں آج بھی عام لوگ چوہوں کی طرح چھپے رہتے ہیں ۔پھر لیڈران جہان بانیاں یاد آگئے ۔ پھر اپنے ملک کے نیتا یاد آگئے۔ پھر عبدل بھائی کیسے نہ یادآتے ۔
عبدل بھائی آج کل مرکزی کابینہ میں خوراکی کے وزیر ہیں ۔کالج کے زمانے میں طلبا یونین کے انتخاب میں ہم سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ مانگا کرتے تھے ۔سنا ہے اب وہ ہاتھ جوڑ کر ووٹ نہیں مانگتے بلکہ دونوں ہاتھوں سے ’’خوراک‘‘ سمیٹ رہے ہیں ۔
پھر چوہے کی طرف متوجہ ہوا تو عبدل بھائی کی تین خصوصیات اس میں دکھیں ۔غرور ،دور بینی اور حساسیت۔چوہے کی بڑی بڑی مونچھیں ،اس کے غرور وتکبر کا پتا دے رہی تھیں ۔یہ عام عبدل بھائی کی خاص خصوصیت ہے ۔ آنکھیں گلیلیو کی دور بین کی طرح لگیں۔مانو گلیلیو پہلی دفعہ دور بین لگا کر سب کو چندھیائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو ۔ہمارے عبدل بھائی بھی کم دور بین نہیں ہیں ۔کب کس پارٹی میں شامل ہونا ہے ،کس عہدے میں زیادہ کمائی ہوگی ،ان سب کا اندازہ انہیں شاید سیاست کی دنیا میں آنے سے قبل ہی ہوگیا تھا ۔چوہے کی حساسیت کا پتا اس کی مسلسل ہلتی ہوئی گردن اور تھرکتے ہوئے بدن سے چلتا ہے ۔ذرا سا آپ ہلے نہیں کہ اس نے یو ٹرن لیا ۔یو ٹرن لینا بھی ہمارے عبدل بھائی کی خصوصیت ہے ۔کبھی کہیں گے ’’ہندوستان صرف اکثریت کا ہے ۔‘‘میڈیا گھیرے گی تو یو ٹرن لیتے ہوئے کہیں گے ’’یہ تو میرا سوال تھا جسے میڈیا نے توڑمروڑ کر پیش کیا ۔‘‘ زیادہ گھیرا جائے تو یہ کہہ کر دامن بچا لیں گے کہ ’’چوہے کے خراٹے لینے سے شیر کی نیند میں خلل نہیں پڑتا ۔‘‘
میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ذہن کے پردۂ سیمیں پر ایک دوشیزۂ سوال نے انگڑائی لی ۔اور اس کی دو شیزگی اس طرح نکھری کہ اس وقت ٹرین میں چوہے کا کیا کام ؟پھر ان مونگ پھلی کے چھلکوں پر نظر پڑی جسے لوگ ٹائم پاس کر نے کے لئے چوہوں کی طرح کتر کتر کے فرش پر ڈال دیتے ہیں ۔اور آدمی اور چوہے کا فرق مٹنے میں ذرا سا فاصلہ رہ جا تا ہے ۔
میں نے سوچا چوہوں کا آبائی وطن کھیت کھلیان ہی تو ہوتا ہے ،یا پھر وہ اسٹو رروم میں پائے جاتے ہیں ۔یہ اپنا دیس چھوڑ کر ولایت میں کیا کر رہا ہے؟ ولایت کے نام پر ولا یتی لوگ یاد آگئے۔ پھر انگریزوں کا دور حکومت یاد آیا اور میں الجھنے لگا اور پھر بے اختیار میری زبان سے نکلا :’’ہشت‘‘اور چوہا دہشت زدہ ہوکر بھاگ نکلا۔ جتنی تیزی سے وہ بھاگ رہا تھا اتنی تیزی سے میرے خیالات کی رو بہک رہی تھی۔
چوہے کو سنسکرت میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موسک
فارسی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔موش
انگریزی میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔Mouse
تینوں زبانوں میں چوہے کے نام میں کسی قدر صوتی مماثلت ہے ۔اور اسی مماثلت نے مجھے بہار پہنچا دیا ۔
بہار کے کچھ علاقوں کے گاؤں دیہات میں ’’پتھروں کے عہد‘‘کی ایک ہندو ذات بستی ہے ۔ادبی زبان میں اسے آپ ’’خرمن غیر کی خوشہ چیں قوم ‘‘کہہ سکتے ہیں ،جو زندگی کا سفر جا ری رکھنے کے لئے مرغی پالن کرتی ہے اور کھیت کھلیانوں میں گرے پڑے اور چوہوں کے بلوں میں جمع شدہ دھان گیہوں چن چن کر جمع کرتی ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنے بے تحاشہ پیدا کردہ بچوں کے پیٹ پالتی ہے۔ ساتھ ہی چوہوں کی جڑیں کھود ڈالتی ہے۔ بلوں سے اس طرح کھود کر نکالتی ہے گویا ان سے ’’نکسلی ‘‘دشمنی ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی زبان میں چوہے کو ’’مُوسا‘‘کے نام سے جانا جا تا ہے اور اسی مناسبت سے اس ذات کو ’’مُسہر‘‘اور ان کی بستی کو’’ مُسہر ٹولی ‘‘ کہا جاتا ہے۔ مجھے جملہ معترضہ کے طور پر خیال آیا کہ ادھر ہی کچھ علاقوں میں خالو کو’’ مَوسا‘‘کہا جاتاہے۔ اردو میں مُوسا اور مَوسا اگر ایک ہی رسم خط میں لکھا جائے اور یقیناً لکھا جائے گا تو عبدل بھائی جیسے وزیر تو کچھ بھی پڑھ لیں گے۔ خالو کو چوہا اور چوہے کو خالو بنا دیں گے۔ کیوں کہ وہ کالج کے زمانے میں پڑھتے کم تھے اور لیڈری زیادہ کرتے تھے۔
بہر حال میں سوچنے لگا کہ ڈارون کو اگر ان مُسہروں کے اس تابناک رو کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا تو وہ یہی کہتا کہ یہ لوگ کسی زمانے میں چوہا رہے ہوں گے اور صدیوں ارتقا کے منازل طے کر کے آدھے انسان تو بن ہی گئے کیوں کہ چہرے مہرے، گھر بار اور اوڑھنا بچھونا کے اعتبار سے ٹی وی پر پروسے جانے والے گلیمر کے مقابلے میں یہ لوگ آدھے ہی انسان لگتے ہیں۔ پوری بستی کے عورت مرد، بوڑھے بچے اور جوانوں کے سارے لباس اکٹھا کر لئے جائیں تو بھی منسٹر عبدل بھائی کے پچھلے ایک مہینے میں تبدیل کئے ہوئے ڈریسوں سے کم پڑجائیں۔ اور پوری بستی کے مکانات کی’’ اینٹ شماری ‘‘کی جائے تو ریلائنس کے کسی بند پڑے پٹرول پمپ کی اینٹوں سے بھی کم پڑجائیں۔ ان کے یہاں فراوانی صرف دو چیزوں میں ہے۔ آدمی کے بچوں میں اور مرغی کے بچوں میں۔ مردم شماری والے بھی ان علا قوں کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تے ہیں اور جو تھوڑے بہت ’’ذمہ دار ناگرک‘‘ ہوتے ہیں وہ پہلے سے ہی ایک بوری کاغذ اور ایک تھیلا قلم کا انتظام کر لیتے ہیں تاکہ بچوں کو شمار کرتے وقت ان کی ’’روشنائی ‘‘خشک نہ ہوجائے۔
یہ لوگ آدھے انسان اس لئے بھی ہیں کیوں کہ یہ انتہائی حقیر جانور ،چوہے مارتے ہیں اور وہ بھی لاٹھی ڈنڈے سے۔ جس دن یہ بندوق سے آدمی مارنا شروع کر دیں گے پورے انسان ہوجائیں گے، کیوں کہ آج کل پورا انسان چوہا مارتا ہی کہاں ہے۔ وہ تو قید کرتا ہے اور کسی پڑوسی کے گھر کے سامنے چھوڑ آتا ہے۔ مارتا تو وہ انسان کو ہے۔ کبھی بندوق سے کبھی بم سے اور دل نہ بھرے تو ایٹم بم سے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ چوہا پھر سے اپنی جگہ واپس آگیا ہے۔ میں نے دل میں کہا ’’بے غیرت‘‘۔ پتا نہیں ۔شاید وہ سمجھ گیا اور مجھے گھورنے لگا۔ کبھی پھدکنے لگتا اور کبھی میری طرف دیکھ کر سر ہلاتے ہوئے ہونٹوں کو تیزی سے جنبش دیتا۔ گویا بدبدا کر کہہ رہا ہو ’’بے غیرت ہم نہیں تم لوگ ہو۔ مونگ پھلیاں، چنا جور گرم بسکٹ اور چپس کھاکر پوری ٹرین گندی کر دیتے ہو۔ میں توصاف کرنے آیا ہوں۔‘‘پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر وہی حرکت کرنے لگا۔ گویا خدا سے گڑگڑا کر کہہ رہا ہو :
’’الہی ان کا من و سلوی روک لے۔ یہ آدھا کھاتے ہیں اور آدھا گوداموں میں بھر کر مہنگائی بڑھاتے ہیں اور ہم غریبوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ ان کے بجائے ہمیں اور ہماری ’چوہا قوم‘ کو خوب دے تاکہ ہم موٹے تازے ہو جائیں تو کم سے کم ’مسہر ‘لوگوں کے پیٹ توبھریں۔
اتنے میں ٹرین کینٹین کا کارندہ کھانے کا آرڈر لینے آگیا۔ میں نے یہ سوچ کر انکار کر نے کی عقل مندی دکھائی کہ آدمی ہی تو ہے ۔پورا آدمی۔ کیا پتا کھانے میں نشہ آور دوا ملا دے۔ سامان لوٹ لے۔ میرے انکار کر نے پروہ آگے بڑھ گیا۔ میں نے دیکھا کہ چوہے نے یو ٹرن لیا اور تیزی سے کینٹین کی طرف بھاگا۔ تب میری سمجھ میں آیا کہ وہ ولایت میں کیا کر رہا ہے۔
ولایت جانے کی چار وجہیں میری سمجھ میں آتی ہیں۔ تلاش معاش، تلاش مال، حفظان جان و صحت اور جلا وطنی۔ پچھلی دو دہائیوں میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والوں میں دو لوگ بہت مشہور ہوئے ہیں ایک ’’آفتاب ‘‘ اور دوسرے ’’ماہ تاب‘‘۔ حسن اتفاق سے دونوں مشرق میں ہی اُگے اور مغرب میں ڈوبنے والے ہیں۔ چوہے کو ہم کتنی ہی حقارت سے کیوں نہ دیکھیں وہ کائنات کے نجات دہندہ کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا۔ حفظان جان وصحت کے لئے ولایت دو طرح کے لوگ جاتے ہیں۔ ایک وہ جنہیں خدا نہ خواستہ بھیانک مرض لاحق ہو، دوسرے وہ جنہیں ملک وقوم سے غداری کا تمغہ ملا ہو اور حفظان جان کی خاطر ولایت میں کوئی خاطر خواہ مقام تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے ہوں۔ یہ دونوں باتیں چوہوں میں نہیں پائی جاتیں۔ وہ چوہا تو نہایت ہی تندرست اور تن وتوش والا بیوپاری لگ رہا تھا۔
رہا ملک وقوم سے غداری کا سوال تو ان کے یہاں ملکی سرحدیں ہی نہیں ہوتیں اور قوم سے غداری کا شرف تو حضرت میر جعفر جیسے لوگوں کا شیوہ ہے۔ بے چارے چوہے تو آخر چوہے ٹھرے۔ قوم سے غداری کا مطلب کیا جانیں۔ رہا تلاش مال اور تلاش معاش، تو پہلے ان دونوں کا فرق سمجھ لیں تاکہ آگے کی بکواس سمجھنے میں آسانی ہو۔ تلاش مال اور تلاش معاش میں وہی فرق ہوتا ہے جو قوت لایموت اور حرص لایموت میں ہے اور خوردن برائے زیستن اور زیستن برائے خوردن میں ہے۔ اور جو فرق پیٹ اور توند میں ہے یعنی تلاش معاش تو یہ ہے کہ انسان اتنی روزی کمائے کہ خود کو اور اپنے متعلقین کو چین سے قبر تک پہنچادے اور تلاش مال یہ ہے کہ ؂
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
اتنا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ چوہا تلاش معاش میں ولایت میں بھٹک رہا ہے کیوں کہ سارا مال تو ولایتی بینکوں میں ہی جمع ہے ***

طیب فرقانی کا پچھلا انشائیہ یہاں پڑھیں:

عبدل بھائی کی معلمی

 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے