چھت پر ٹھہری دھوپ

چھت پر ٹھہری دھوپ



مشتاق احمد نوری


کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ہم دونوں خود اپنے ساتھ فریب کر رہے ہیں؟ آخر اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ہم کس حقیقت سے فرار چاہ رہے ہیں۔ زندگی فرار کانام تو نہیں ہے؟ زندگی تو خود سپردگی کا نام ہے۔
تو پھر اپنے آپ کو چھلنے کی یہ خوہش اپنے ہی ساتھ کی جانے والی سازش تو نہیں؟
اب دیکھو نا۔۔۔ بیس سال پرانا لمحہ تمہاری چھت پر زندگی کی صورت نظر آیا۔ یہ تم تھی۔ مجھے لگا وہی بیس سال والی وہ لڑکی ہے ،جو مجھے دیکھنے اور خود کو دکھانے کی تمنا میں دھوپ کی شدت کی پرواہ کئے بغیر چھت پر کھڑی ہے۔
لیکن آج دھوپ کب تھی؟ وہ تو ڈھل چکی تھی۔
اب نہ وہ شدت نہ وہ تمازت۔۔۔ ڈھلان پر رکے قدم جیسے۔۔۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا لیکن دونوں نے اپنے آپ کو فریب میں مبتلا رکھا۔ میں تمہیں دیکھ کر دیکھتا نہیں رہا بلکہ انجان بن کر تمہارے گھر کی جانب بڑھتا رہا، یہ سوچتا ہوا کہ تم دیکھ رہی ہوگی۔ اب چھت سے نیچے آؤ گی۔ میرے بیل کا انتظار کرتی ہوئی جھٹ دروازہ کھول دو گی اور شرماتی ہوئی دریافت کرو گی۔
’’آپ کب آئے؟‘‘
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میری ہی طرح تم بھی دیکھ لیے جانے اور دیکھنے کی خواہش کے درمیان خود کو چھلتی رہی اپنے آپ کو یہ کہہ کر بہلاتی رہی کہ تم نے مجھے دیکھا ہی نہیں، میں نے بیل بجایا لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ عقب کی کھڑکی سے آواز آئی۔
’’کب آئے؟ کہو تو دروازہ کھول دوں؟‘‘
یہ تمہارے شوہر کی آواز تھی۔ میرا اچھا دوست رہا ہے۔ مکتب اور اسکول کا ساتھی۔
’’اگر چاہو تو باہر سے ہی لوٹ جاؤں؟‘‘
میں نے جواب دیا اور وہ مسکراتا ہوا دروازہ کھول کر مجھے اندر لے گیا، لیکن میری ساری توجہ تو چھت پر تھی جہاں دھوپ کی شدت نہیں تھی، کیوں کہ دھوپ کے پاؤں تو ڈھلان پر تھے۔ میں تمہارے شوہر سے گفتگو کرتا رہا لیکن میرا سارا دھیان تمہارے قدموں کی جاپ پر لگا ہوا تھا اور تم چھت پر انجان بنی اپنے آپ کو چھلنے میں مصروف تھی۔ اچانک تمہاری بچی سامنے آگئی۔ میں تو چونک ہی گیا۔
’’ارے ددھوپ کی یہ شدت کہاں تھی؟‘‘
ہو بہو بیس سال پرانی تمہاری اپنی تصویر۔۔۔
بیس سال بہت ہوتے ہیں۔
دو زمانوں کی دوریاں کم نہیں ہوتیں۔
لیکن مجھے ایسا کہاں لگتا ہے۔
مجھے تو آج بھی درمیانی دوری نظر نہیں آتی۔۔۔
تم جب سامنے ہوتی ہو تو یہ ساری دوریاں کہاں چلی جاتی ہیں؟
لیکن تم سامنے کب ہو؟
وہ لمحہ تو چھت پر ٹھہر گیا ہے۔
میں بھی کتنا ضدی تھا ۔مجھے ضدی بھی تو تم نے ہی بنایا تھا۔ میری ہر بات ماننے کی تمہاری وہ ادا اور تمہاری ہر ادا پر قربان ہونے کی میری خواہش۔۔۔
کیسے کیسے لمحے درمیان سے گزر گئے۔
وہ زمانہ بھی خوب تھا۔ نہ جانے کس بات پر ناراض تھا میں۔ کئی دنوں تک تم سے ملنے نہیں گیا تھا۔ کئی دن اس زمانے میں زمانوں پر بھاری ہوا کرتے تھے۔ تمہاری معافی قبول ہوتی اور شرط یہ ٹھہری کہ بارہ بجے دن میں چھت پر کھڑی ہو کر میرا انتظار کرو۔ مابدولت سامنے کی سڑک سے گزریں گے۔
وقت سے قبل تم آئی۔۔۔وقت گزار کر میں گیا۔
گھنٹہ دوگھنٹہ کھلی چھت پر مئی کی دوپہر میں بغیر کسی وجہ کے کھڑا رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔لیکن تم وہاں تھی۔میرے من پسند لباس میں تمہاری لمبی زلفیں تمہارے وجود پر سایہ فگن تھیں ،جنہیں دیکھ کر میں اکثر کہا کرتا تھا۔
’’ان زلفوں کوکھلی مت رکھنا۔ بہت سے مسافر اپنے گھر کاراستہ بھول جائیں گے۔‘‘
جواب میں تم نے مسکراتے ہوئے کہاتھا:
’’جسے راستہ بھولنا تھا وہ بھول چکا اب تو سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔‘‘
تمہاری لمبی زلفیں تمہیں پریشان کر رہی تھیں، ہوا کے جھونکے بار بار انہیں چھیڑ رہے تھے۔ میں نے تمہیں چھت پر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ نہ جانے وہ لمحہ اچانک ساکت کیوں ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو گیا ہو۔ سڑک پر ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر دیدار یار کرنا ممکن بھی نہ تھا۔ اس لیے نہ جانے کتنی بار اس سڑک پر ادھر سے ادھر آتا جاتا رہا یہ یاد نہیں۔ یاد تو صرف تم ہو۔ کتنی شدت تھی ، کتنی بے قراری تھی اور کتنی تڑپ تھی دونوں طرف ایک دوسرے کو دیکھنے اور دکھانے کی تمنا۔۔۔ آس پاس سے بے خبر دھوپ بھی خود پشیماں کہ اس کی شدت سے زیادہ شدت ہے اس جذبے میں۔
لیکن آج وہ سب کہاں تھا؟
جذبے تو شاید تھے، لیکن وہ شدت کہاں تھی؟
ہم فریب کیوں دے رہے تھے خود کو؟
چاہ تو آج بھی تھی کہ دیکھوں۔۔۔ جی بھر کے دیکھوں اور دیکھوں اور دیکھتا ہی رہوں، لیکن اندر ہی اندر اس جذبے کا گلا کیوں گھونٹ رہا تھا میں؟
تم بھی تو ویسا ہی کر رہی تھی۔ تمہیں معلوم تھاکہ میں شدت سے چھت کے نیچے، تمہارے قدموں کی چاپ سننے کا منتظر ہوں،لیکن تم انجان بنتی رہی کہ چھت کے اوپر تمہیں کچھ نہیں معلوم حالانکہ اندر ہی اندر تم بھی اسی طرح تڑپ رہی تھی، جس طرح کہ میں ۔۔۔ لیکن یہ انجانااحتیاط خود کو جان بوجھ کر چھلنے کی خواہش۔۔۔
بہت دیر بعد تمہارے قدموں کی آہٹ میں نے پہچان لی۔سراٹھایا ،تم سامنے تھی۔نگاہیں جھک گئیں جیسے چوری کررہا ہوں تم نے بھی بس رسمی طور پر پوچھا۔
’’کب آئے آپ؟‘‘
جی میں آیا کہہ دوں’’میں گیا ہی کب تھا۔‘‘
لیکن تمہارے جواب میں تمہیں کیسے بتاتا کہ صدیاں بیت گئیں تمہارا انتظار کرتے کرتے۔
تمہاری ساری توجہ اپنے شوہر پر مرکوز ہو گئ۔ تم نے اپنے شوہر پر اپنی محبت قربان کرتے ہوئے کہا:
’’آپ سوئٹر کیوں نہیں پہن لیتے۔ سردی لگ جائے گی۔‘‘
میں بھی تو اندر ہی اندر بہت سرد ہو چکا ہوں۔
میرے اندر کی گرمی سوئٹر سے واپس آسکے گی کیا؟
پھر۔۔۔پھر۔۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ یگ کے ساتھ سب بدل جاتا ہے۔
یہاں تو پورے دویگ بیت گئے۔
لیکن بدلاؤکہاں آیا۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ شاید نہیں۔۔۔بدلاؤ تو آیا ہے۔
دویگ قبل تم جس چھت پر کھڑی ہوا کرتی تھی اس کے نیچے ایک ہی منزل تھی آج تم جس چھت پر کھڑی تھی اس کے نیچے دو منزل تھی۔ سامنے کامیدان صرف فٹ بال گراؤنڈ ہوا کرتا تھا اور اب ایک اسٹیڈیم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میدان کے بغل میں جو خستہ حال ڈاگ بنگلہ تھا وہ اب ایک سرکٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ گھر کے پاس والا سنیما ہال دوسری جگہ منتقل ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک خوبصورت مارکیٹ نے لے لی تھی۔
بدلاؤ تو ہوا تھا۔۔۔سب کچھ بدل گیا تھا۔۔۔
میں بھی بدلا ۔۔۔تم بھی بدل گئی۔۔۔
لیکن وہ جذبہ جوں کا توں تھا۔
چھت پر دھوپ جیسے ٹھہر گئی تھی۔
لیکن وہ جذبہ صادق نہیں رہا تھا۔ ایک مجرمانہ کیفیت اس میں شامل ہو گئی تھی۔خلوص کی جگہ فرض نے لے لی تھی۔ بے قراری اور تڑپ کی جگہ بے بسی اور مجبوری آگئی تھی۔
میں وہی۔۔۔ وہی۔۔۔ تم ۔۔۔ درمیان کی ساری چیزیں بدل گئیں۔
ایسا ہوتا ہے۔۔۔ اکثر ہوتا ہے۔۔۔
’’کہاں ٹھہرے ہو، رات کہاں گزاروگے؟‘‘تمہارے شوہر کی رسمی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’سرکٹ ہاؤس میں ہی ٹھہرا ہوں ۔ساری سہولت ہے وہاں۔‘‘
’’سہولتیں یہاں بھی مل سکتی ہیں چاہو تو یہیں ٹھہر جاؤ۔‘‘
میں انکار کر دیتا ہوں۔۔۔ خواہشوں پر جبر کیسے کیا جاتا ہے اب پتہ چلا۔
میں اسے یہ کیسے بتا پاؤں گا کہ قریب کے سرکٹ ہاؤس میں بھی میں رات بھر سونہیں پاؤں گا۔ ہزاروں گزرے لمحے مجھے پریشان کر دیں گے۔ میں ان لمحوں میں کھو کر شاید خودکو ہی گم کردوں گا۔۔۔اور اگر اس چھت کے نیچے سوگیا تو لمحے انگارے ہو جائیں گیں۔ میرا کیا ہوگا۔۔۔ اور تم بھی سوپاؤگی کیا؟
پھر وہی ہوگا۔۔۔ سارے لوگ تو آرام کی نیند سورہے ہوں گے ،لیکن دوروحیں بے قرار ہوں گی۔ جاگ کر بھی رات بھر سونے کا ڈھونگ کریں گے۔ پاس کے کمروں سے گاہے بگاہے کھانس کر گلا صاف کرنے کے بہانے ، یا پھر چوڑیوں کی کھنک کے سہارے ایک دوسرے کو یہ احساس کراتے رہیں گے کہ ہم دونوں سو کر بھی جاگ رہے ہیں۔
لیکن جب سامنے ہوتے ہیں تو پھر جاگ کر بھی سونے کا بہانہ کیوں کرتے ہیں؟
یہ کیسی وفا داریاں ہیں؟
ہم اندر ہی اندر سمندر کی طرح بے چین ہوتے ہیں اور باہر سے پر سکون ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ ہماری اس بے چینی میں کتنا سکون ہوتا ہے اسے کوئی کیسے محسوس کر سکتا ہے؟
ایک بار میں بچوں کے ساتھ گوا کے سفر پر گیا تھا۔ ہوٹل گو ون ہیری ٹیج بالکل سمندر کے کنارے تھا۔ شام اپنی بیگم کے ساتھ بیچ پر ٹہل رہا تھا ۔ماحول بالکل پر سکون تھا، لیکن چاروں طرف سمندر کی چنگھاڑتی لہروں کا شور تھا۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ سمندر کی چاندی جیسی لہروں پر شفق کا سونا بکھر ا ہوا تھا۔ میں وہاں کے ماحول میں گم تھا۔ شاید وہاں ہو کر بھی کہیں اور تھا۔ چاروں طرف سمندر کا شور۔۔۔ وسعت نگاہ تک چاندی پر پھیلی سونے کی پرت۔ میں نے بیگم سے کہا۔
’’دیکھو تو اس شور میں کتنا سکون ہے۔‘‘
’’شور ہے تو سکون کیسے ہوگا؟‘‘ میری بیگم نے الٹے ہی سوال داغا۔
پروفیسروں کے ساتھ یہی بیماری ہے۔ وہ ہر سوال سے سوال پیدا کریں گے۔
’’شور تو ہے لیکن اس شور بھرے ماحول میں تمہیں سکون کا احساس نہیں ہوتا؟‘‘
’’شور میں اگر سکون کا احساس ہونے لگے تو پھر آدمی شہر کے شور سے بھاگے ہی کیوں؟‘‘
’’تو پھر تم مئی کی شدت بھری دوپہرمیں دھوپ کی تمازت میں بھی سکون محسوس نہیں کر سکو گی؟‘‘
نہ جانے میری زبان سے یہ سوال کس طرح پھسل گیا۔ اس نے تضحیک بھری ہنسی سے سوال کیا۔
’’دھوپ کی تمازت میں سکون۔۔۔ اور وہ بھی مئی میں۔۔۔‘‘
اس کا سوال درست تھا۔
اور میرا تجربہ بھی درست تھا۔
دونوں اپنی اپنی بھوگی ہوئی سچائی جھیل رہے تھے۔
ایک دن سمندر میں غسل کر رہا تھا ۔کچھ سمندر ی گھونگھے اور سیپ پاؤں کے نیچے آکر اپنی موجود گی کا احساس کرانے لگے۔ ہاتھوں میں لے کر دیکھا ان کی خوبصورتی نے متاثر کیا اور جیب بھر کر ہوٹل کے کمرے میں لے آیا۔ سمینار میں جانے سے قبل انہیں زندہ رکھنے کی تگ ودو میں پانی بھرے گلاس میں انہیں ڈال کر باہر نکل آیا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد واپس آنے پر دیکھا وہ سارے خوبصورت سمندری مخلوق مردہ پڑے تھے۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ بہت سوچنے پر خیال آیا کہ سمندر کا پانی چونکہ کا فی کھارا ہوتا ہے اور میں نے انہیں میٹھے پانی میں رکھ دیا تھا۔
اپنی دنیا سے نکل کر وہ دوسری دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی دنیا سے نکلے ہوئے ہیں۔
تو پھر زندہ کیوں ہیں؟
ایک صبح سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ لہریں موج میں تھیں۔۔۔ بہت تیزی سے ہماری جانب آتیں،پاؤں چومتی ہوئی آگے نکل جاتیں۔ ایک عجیب سی مسرت کا احساس ہوتا ،لیکن یہ کیا لہروں کا پانی واپسی میں پاؤں کے نیچے کی زمین کھسکا جاتا۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا میرے لیے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے قدم جمائے کھڑے تھے، لیکن نہ جانے کب حالات کے سمندر سے ایک تیز لہر آئی اور ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرکا گئی۔
کچھ باتیں دوسروں کو نہیں سمجھائی جا سکتیں۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے دھوپ کی شدت میں سکون حاصل کرنے کی کلا سیکھنی ہو گی۔ہم دونوں ہی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ تم اپنے شوہر کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتی ہو۔ میرے سامنے تو تم اور بھی وفادار ی کا ثبوت پیش کرتی ہو۔ جانتی ہو؟ یہ سب تمہارے اندر کا ڈر کرواتا ہے۔ یا پھر تم جتانا چاہتی ہوکہ تم اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہو، لیکن سچ کا عکس اگر اپنے دل کے آئینے میں دیکھو گی تو ڈر جاؤ گی ۔
میں بھی اپنی بیگم کے لیے ایک آئیڈیل شوہر ہوں۔ اس کے لیے تو لاکھوں میں ایک میں نے اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔
لیکن کیا اس طرح ہم ایک دوسرے سے انتقام لے رہے ہیں؟
لیکن کس بات کاانتقام ۔۔۔ کہیں یہ خود سے ہی انتقام تو نہیں۔۔۔؟
تم سمندر ی گھونگھے کی طرح گلاس کے میٹھے پانی میں مری نہیں، بلکہ زندہ ہو اور حالات کے سمندر کی لہریں بار بار میرے پاؤں کے نیچے کی زمین سر کاتی رہیں۔ پھر بھی میں کھڑا ہوں۔
یہ دویگ گزار کر۔۔۔ ہم ادھورے نہیں لگتے؟
سرکٹ ہاؤس کا کمرہ بہت شانت ہے۔ ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بھی میں سکون محسوس نہیں کر پارہا ہوں۔ نرم و ملائم بستر بھی مجھے راحت نہیں دے پا رہا ہے۔ میری نگاہیں چھت پر ٹکی ہیں۔ اس چھت پر میرا کھویا ہوا لمحہ ٹھہر گیا ہے اور اس چھت پر بے شمار گزرے ہوئے لمحے متحرک ہو گئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا عکس میری نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔ اچانک ایک عکس منجمد ہو گیا ہے۔
میں ٹیبل پر بیٹھا ہوں۔ پانی کا گلاس چھلک گیا ہے۔ ایک ٹیوٹر ٹیوشن پڑھانے کے بعد اپنے اندر کی آگ ٹھنڈے پانی سے بجھانے کی تمنا میں گلاس بھرنے کے بعد بھی پانی انڈیلنے لگتا ہے ۔ٹیبل پر پانی پھیل گیا ہے۔ میری انگلی پانی پر جاتی ہے اور پھر ٹیبل پر لکیروں کا جال بننے لگتا ہے۔ میں ا س جال میں گم ہونے لگتا ہوں، تم پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیتی ہو اور دھیمے لہجے میں کہتی ہو۔
’’ان لکیروں میں زندگی تلاش کر رہے ہیں یا پھر خود کو گم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
تمہارے ہاتھوں کے سبک دباؤ نے سارے زمانے کو وہیں ٹھہر جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میری انگلی ساکت ہو گئی ہے۔ نگاہیں ٹیبل پر پتھرا گئی ہیں۔ سر کے پیچھے سے کئی روشن دان کھل جاتے ہیں اور ہر روشن دان سے تم جھانکنے لگتی ہو۔ میں پیچھے نہیں مڑتا لیکن تمہارا پورا سراپا میرے سامنے ہوتا ہے۔
تمہاری انگلیاں میرے الجھے بالوں میں رینگ جاتی ہیں۔ میرے پورے بدن میں ایک عجیب سی سہرن کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پھر اچانک تم اپنی ٹھڈی میرے سر سے ٹکا تی ہوئی پھسپھساتی ہو:
’’ان لکیروں کی طرح خود کو دن بدن کیوں الجھاتے جارہے ہیں؟‘‘
میرے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ سامنے صرف لکیروں کا جال ہے اور اسی جال کے درمیان سے راستہ تلاش کرنا میری مجبوری ہے۔ یہ زندگی کی ایک پہیلی ہے۔ میں جال بھرے راستے کے اس جانب ہو ں اور تم دوسری جانب ہو۔ جال کے درمیان سے راستہ تلاش کر تم تک پہنچنا ہے، میں جس راستے کو بھی پکڑتا ہوں وہ آگے جا کر بند ملتا ہے۔ دوسرا۔۔۔ تیسرا۔۔۔ چوتھا۔۔۔ سارے راستے ایک ہی جیسے ہیں۔ بڑھنے کا راستہ تو دیتے ہیں پھر اچانک بند ہو جاتے ہیں۔
’’ان بند دروازوں سے گزرنا آسان ہے کیا؟‘‘
’’مجھ تک پہنچنے کے لیے انہیں بند دروازوں سے گزرنا ہوگا۔‘‘
تمہارا جواب میری پریشانی بڑھا دیتا ہے۔
’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس جانب سے دروازہ تلاش کرتی ہوئی مجھ تک پہنچ جاؤ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ اس پہیلی کو تو آپ کو ہی حل کرنا ہے۔ میں تو دیواروں میں چنی ہوئی ہوں۔ میرا اپنا آپ تو ان لکیروں میں گم ہے۔آپ کو ہی راستہ تلاش کرنا ہے اور اس دیوار کو بھی گرانا ہے۔‘‘
’’اور تم کچھ نہیں کرو گی میری شہزادی؟‘‘
’’کروں گی۔ ضرور کروں گی۔ میں آپ کا انتظار کروں گی۔‘‘
میرے سامنے لوک کتھا کی وہ شہزادی تھی ،جس کے پورے جسم میں کانٹے پیوست تھے۔ جو یہ کانٹے نکال دیتا شہزادی اس کی ہو جاتی۔
شہزادوں کی کمی نہیں تھی، لیکن ایک غریب لکڑہارا بھی اس دوڑ میں شامل رہا۔ وہ تن من سے کانٹے نکالتا رہا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ صرف آنکھ کا کانٹا نکالنا باقی رہ گیا ۔ جسے اس نے دوسرے دن پر چھوڑ دیا اور جب دوسرے دن اس نے آنکھوں سے کانٹا نکالنا چاہا تو شہزادی نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
کون ہو تم۔۔۔ اور کیا کرنے آئے ہو؟ ‘‘ شہزادی نے چونک کر پوچھا۔
’’میں۔۔۔؟‘‘ اس نے پورے اعتماد سے کہا۔
’’میں وہی ہوں شہزادی جو ایک یگ سے تمہارے جسم سے کانٹے نکالتا رہا ہے اور جس نے ہر کانٹے کی چبھن اپنی روح پر محسوس کی ہے۔‘‘
’’لیکن تم تو وہ نہیں ہو جس نے میری آنکھ سے کانٹا نکالا تھا؟‘‘ وہ تذبذب کے عالم میں گویا ہوئی۔
’’وہ تو کوئی اور تھا اور اس نے بھی یہی دعوا کیا تھا، میں تمہاری باتوں پر کس طرح یقین کر لوں؟‘‘
وہ حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس کے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ اس کے اندر سے آواز آتی ہے۔
’’شہزادی ۔۔۔ تم ایک دن اور انتظار نہیں کر سکتی تھی؟‘‘
میں چونک پڑتا ہوں۔
سامنے لکیروں کا کوئی جال نہیں ہے۔ سارے راستے اب میری دسترس میں ہیں، لیکن اس جانب دیواروں کے درمیان کوئی نہیں ہے۔ دیوار کی اونچائی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے اور اس پر ایک مضبوط چھت بھی ہے۔ چھت پر بڑی شدت کی دھوپ ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ ڈھل چکی ہے اورچاروں طرف شام کی سیاہی پھیلتی جا رہی ہے۔

 

افسانہ نگار کا تعارف : (نوٹ:یہ تعارف افسانہ نگار نے احسان قاسمی کے رسالہ کے لیے بقلم خود لکھا جسے احسان قاسمی نے اپنے فیس بک وال پہ شائع کیا اشتراک نے احسان قاسمی کی اجازت سے یہاں شائع کیا.)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام. :- مشتاق احمد نوری
والد :- جناب حفیظ الدین ( مرحوم )
والدہ :- محترمہ آمنہ خاتون ( مرحومہ )
آبائی وطن و جائے پیدائش :- گوگی پوٹھیا ، فاربس گنج ۔ ضلع : ارریہ ۔
تاریخ پیدائش :- ۷ مئ ۱۹۵۰ ء بروز اتوار ۔
تعلیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائی :- گاوءں کے مکتب میں ، ۱۹۵۹ ء تک ۔
مدرسہ اسلامیہ ، رجوکھر عیدگاہ میں ۱۹۶۰ ء میں درجہ دوم میں داخلہ لیا ۔
اس زمانہ میں یہ مدرسہ بے حد فعال اور مشہور تھا ۔ ۱۹۶۳ ء میں مدرسہ سے چوتھا درجہ پاس کیا اور سارے سابقہ ریکارڈ توڑے ۔
۱۹۶۳ ء میں ہی آزاد اکیڈمی ، ارریہ میں آٹھویں درجہ میں داخلہ اور فرسٹ ڈویژن سے کامیابی حاصل ۔
۱۹۶۸ ء میں ہائر سیکنڈری​ امتحان میں اول درجے میں کامیابی حاصل کی ۔ اسکول قائم ہونے کے بعد آزاد اکیڈمی ، ارریہ سے پہلی بار فرسٹ ڈویژن سے کامیاب ہونے والا طالب علم بنا ۔
۱۹۶۸ ء کے اکتوبر میں پورنیہ کالج میں بی ایس سی پریویس میں داخلہ ۔ ۱۹۷۱ ء میں بی ایس سی میں کامیابی حاصل کی ۔
۱۹۷۲ ء سے ۱۹۷۴ ء تک :- ارریہ میں قیام ۔ لڑکوں کو ٹیوشن پڑھایا ۔ اسی دوران ۱۹۷۳ ء سے ۱۹۷۴ ء کے وسط تک مدرسہ یتیم خانہ ، ارریہ میں میتھ ٹیچر کے طور پر کام کیا ۔ اس زمانہ میں ۷۰ روپیہ ماہانہ تنخواہ تھی ۔ ہیڈ مدرس کی تنخواہ ۹۰ روپے تھی ۔
جون ۱۹۷۴ ء :- پٹنہ یونیورسٹی کے بی ایڈ کالج میں داخلہ لیا ۔
۱۹۷۵ ء :- بی ایڈ میں ٹاپ کیا ۔ پہلی دفعہ کسی مسلمان لڑکے کو یہ پوزیشن حاصل ہوئی​
۱۹۷۶ ء :- پٹنہ یونیورسٹی کے ایم ایڈ میں داخلہ ۔ اسی سال بہار پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں شامل ہوا ۔
۱۹۷۷ ء :- ۱۷ اگست ۱۹۷۷ ء کو محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ ( بہار سرکار ) میں جواءن کیا اور کشن گنج ، ارریہ ، پورنیہ ، سہسرام اور سمستی پور میں پبلک ریلیشنز آفیسر کی حیثیت سے کام کیا ۔
۱۹۹۰ ء :- ۱۴ دسمبر کو وزیر خوراک کے ساتھ پرایویٹ سکریٹری کی حیثیت سے جوائن کیا ۔
۱۹۹۱ ء :- ماہ اکتوبر میں اپنے محکمے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوا ۔
۱۹۹۳ ء :- ۲۹ مارچ کو بہار اردو اکیڈمی ، پٹنہ میں سکریٹری کے عہدے پر جوائن کیا ۔ دسمبر ۱۹۹۶ ء تک وہاں اپنے فرائض انجام دیے ۔ پھر اپنے محکمے میں سابقہ عہدے پر جوائن کیا ۔
۲۰۰۲ ء :- ماہ جنوری میں پٹنہ ڈویژن میں اپنے محکمے میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر جوائن کیا ۔
۲۰۱۰ :- ماہ مئی میں ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ تعلقات عامہ ، بہار سرکار کے عہدہ سے سبکدوشی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبی منظر نامہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی خاندانی ادبی پس منظر نہیں ۔
ابا جان کو جاسوسی ، طلسمی ، رومانی دنیا ( ناولیں ) پڑھنے کا شوق تھا ۔ ان سے چھپا کر رات میں دوات کا دیا جلا کر انہیں ناولوں کو پڑھنے کا خبط ۔
۱۹۶۷ ء :- پہلی بار ‘ بیسویں صدی ‘ کا سالنامہ ایک دوست کے ہاتھ میں دیکھا ۔ خوبصورت لڑکی کی تصویر سرورق پر تھی اسی لئے رسالہ الٹ پلٹ کرنے لگا ۔ اس نے کہا اس میں خوبصورت کہانیاں ہیں پڑھوگے ؟
اس رسالے کی کہانیاں پڑھ کر خیال آیا ۔۔۔۔ ایسی کہانیاں تو میں بھی لکھ سکتا ہوں ۔
پھر ایک ساتھ دو کہانیاں لکھی ۔ ایک بیسویں صدی دوسری ‘ شمع ‘ کو روانہ کر دی ۔ ایک مہینہ بعد دونوں واپس آ گئیں ۔
شفیع مشہدی ارریہ میں ہی اے ۔ ڈی ۔ ایس ۔ او کے پوسٹ پر تھے ۔ ان سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے فن افسانہ نگاری کی باریکیاں بتائیں ۔
۱۹۶۷ :- نومبر میں پہلی کہانی ” دو روپ ” کے عنوان سے ماہنامہ ‘ دین دنیا ‘ میں شایع ہوئی ۔ بیسویں صدی کے بعد یہی رسالہ مطالعہ میں رہا کرتا تھا ۔
پھر تواتر سے ہندوستان کے بیشتر رسائل میں افسانے شایع ہوتے رہے ۔ تمام رسائل کا نام درج کرنا مشکل ہے ۔ کچھ حسب ذیل ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
شب خون ، شاعر ، بیسویں صدی ، روبی ، آجکل ، ایوان اردو ، مباحثہ ، جہان اردو ، تمثیل نو ، آہنگ ، مورچہ ، سہیل ، پاسبان، تعمیر ہریانہ ، پرواز ادب ، نیا دور ، ذہن جدید ، اثبات و نفی ، حرف آخر ، واقعات ، روح ادب ، عہد نامہ ، شہپر ، رنگ ، کوہسار ، گلبن وغیرہ ۔
پاکستان میں :- ادب لطیف ، لاہور ۔ افکار ، کراچی ۔ صریر ، کراچی ۔ خیال ، کراچی ۔
ہندی میں :- ہنس ، سریتا ، ساریکا ، آج ، جیوتسنا ۔
۲
ادبی کام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱ – تلاش :- پہلا افسانوی مجموعہ ٬ ۱۹۸۷ ء
۲ – بند آنکھوں کا سفر :- دوسرا افسانوی مجموعہ ٬ ۱۹۹۶ ء
۳ – چھت پر ٹھہری دھوپ :- تیسرا افسانوی مجموعہ ٬
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ چند خاکے اور شخصی مضامین بھی لکھے ۔
کہانیوں کے تجزیے بھی ۔۔۔۔۔ بے لاگ ، بے باک اور خطرناک کچھ تنقیدی مضامین بھی شایع ہوئے ۔
درجنوں کتابوں کے تبصرے بھی شایع ہوئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچوں کے لئے :- بچوں کے لئے بھی وقتاً فوقتاً لکھا ۔ کھلونا ، نور ، ٹافی ڈائجسٹ وغیرہ میں بہت سی کہانیاں شائع ہوئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انعامات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘ تلاش ‘ اور ‘ بند آنکھوں کا سفر ‘ پر بہار اردو اکیڈمی نے انعام سے نوازا ۔
بند آنکھوں کا سفر پر ساہتیہ سنسد ، سمستی پور نے سہیل عظیم آبادی فکشن ایوارڈ سے نوازا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند مشہور کہانیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمبے قد کا بونا ، جادوگر ، جن کی سواری ، بند آنکھوں کا سفر ، لمبی ریس کا گھوڑا ، وردان ، گرہن چاند کا ، چھت پر ٹھہری دھوپ ، اعتبار ، اور پھر ایسا ہوا ، ترشول پر ٹنگی کہانی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے شاعری بھی کی ۔ مشاعروں میں بھی شرکت رہی ۔ شاعر کی حیثیت سے مقبول نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریڈیو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۷۶ ء میں آل انڈیا ریڈیو ، پٹنہ کے اردو سیکشن میں پروگرام اناؤنسر کے طور پر کام کیا ۔ اسی زمانے سے ریڈیو سے اردو کہانیاں نشر کی جا رہی ہیں ۔
آل انڈیا ریڈیو ، دہلی سے بھی کہانی نشر ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور درشن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پٹنہ دوردرشن ( ٹی وی ) سے درجنوں پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوئے ۔
پٹنہ دوردرشن پر اردو کا پہلا پروگرام میں نے ہی کروایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذہبیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۶۸ ء میں پورنیہ کالج ، پورنیہ کے صدر شعبہء​ اردو و فارسی پروفیسر سید فضل امام صاحب سے ملاقات ۔ ۱۹۶۹ ء میں ان سے بیعت حاصل کی ۔ خواب کے ذریعہ بہت سی تعلیم ہوئی ۔ ۲۰ اپریل ۱۹۷۰ ء کو پیرومرشد نے خلافت عطا کی اور سلسلہ فردوسیہ ، قادریہ چشتیہ ، شطاریہ اور مداریہ سلسلہ میں بیعت کر نے کی اجازت ملی ۔
۱۹۷۱ ء میں پیرومرشد کے حکم پر میں نے کچھ مریدوں کو بیعت بھی کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھروندا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی :- ۷ جون ۱۹۸۰
شریک حیات :- ڈاکٹر شاءستہ انجم نوری ( صدر شعبہء​ اردو ، ٹی پی ایس کالج )
اثمار حیات :-
ذیشان احمد نوری ( ۱۷ جون ۱۹۸۱ ء )
حسان احمد نوری ( ۱۶ فروری ۱۹۸۳ ء )
شایان احمد نوری ( ۹ اکتوبر ۱۹۸۵ ء )
عرفان احمد نوری ( ۳۱ اگست ۱۹۸۸ ء )
زین فاطمہ ( ۱۲ دسمبر ۱۹۹۰ ء )

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے