حسد کی آگ ہے ہر سو، جلن زیادہ ہے (غزل)

حسد کی آگ ہے ہر سو، جلن زیادہ ہے (غزل)

شوق پورنوی

حسد کی آگ ہے ہر سو ،جلن زیادہ ہے
اسی لیے تو یہاں پر گھٹن زیادہ ہے

میں دشمنوں سے نہیں دوستوں سے ہارا ہوں
مرے وجود پہ طاری تھکن زیادہ ہے


اسے زمانے سے شکوہ ہے کچھ زیادہ ہی
کہ اس کے لہجےمیں اب کے چبھن زیادہ ہے


مشاعروں میں ہم اس واسطے نہیں جاتے
کہ کھوٹے سکوں کا ان میں چلن زیادہ ہے


وطن کی مٹی کو ہم اپنی ماں سمجھتے ہیں
ہمارے سینے میں حبِ وطن زیادہ ہے


تری سرشت میں رکھی نہیں گئی ہے وفا
یہ اور بات کہ تو خوش بدن زیادہ ہے

یہاں سے قافلہ گزرا ہےاہلِ اردو کا
سو گاؤں والوں میں بوئے سمن زیادہ ہے


جناب شوق کوئی انقلاب آئے گا
جبینِ وقت پہ دیکھو شکن زیادہ ہے


شاعر کا تعارف :
نام : سلیم صدیقی
قلمی نام : شوق پورنوی
تاریخ پیدائش : 12 جنوری 1993 ء
آبائی وطن : بالسر ، پوسٹ ، مجگواں
وایہ ، قصبہ ، ضلع ، پورنیہ، بہار
دینی تعلیم : فضیلت و افتاء ( دارالعلوم دیوبند)
عالم : مولانا مظہرالحق عربی و فارسی یونیورسٹی ۔
پیشہ : درس و تدریس
شاعری کی ابتدا : چودہ سال کی عمر سے
رابطہ: Shauqpurnawi@gmail.com
فون: 9597288002
غزلیات کے موضوع پر ایک کتاب زیر ترتیب ہے.


شوق پورنوی کی مزید دو غزلیں :

سر سے دستار گری ہاتھ سے ہتھیارگرے
مصلحت اوڑھ کے جب قوم کے سردارگرے

کشتیِ قوم بھلا پار کہاں سے لگتی ؟
موجِ طوفان سے گھبرا کے جو پتوار گرے

اور ہوں گے جو ترے در پہ گرا کرتے ہیں
غیر ممکن ہے کہ مجھ سا کوئی خود دار گرے

وہ کہ ہر روز عداوت کی بنا رکھتے ہیں
اپنی کوشش ہے کہ نفرت کی یہ دیوار گرے

ہم گریں گے تو اٹھانے وہ ضرور آئیں گے
بس یہی سوچ کے رستے میں کئی بار گرے

جان تھی جب تو کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا
اب میری لاش پہ بیکار عزادار گرے

شوق دنیائے سخن کے کئی استاد سخن
بحر و اوزان میں لنگڑاتے کئی بار گرے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتنے ایام میں اس عالمِ فانی میں رہا
غم ترا نام مرے دشمنِ جانی میں رہا

خوب صورت تھا اسے دل میں کہیں رہنا تھا
ہائے افسوس مِری آنکھ کے پانی میں رہا

یوں تو کردار بدلتے رہے موقع موقع
ایک ہی شخص مگر ساری کہانی میں رہا

جارہے ہو کوئی الزام تو دیتے جاؤ
زخم جو تم نے دیا وہ تو نشانی میں رہا

موت کے بعد ہی ممکن ہے ٹھکانہ ملنا
عمر ساری میں فقط نقل مکانی میں رہا

چھین لی گردش حالات نے چہرے کی چمک
ساٹھ کا بوڑھا تو میں عین جوانی میں رہا

راستہ روکنے آئی تھیں بلائیں کتنی
قافلہ پھر بھی مرا اپنی روانی میں رہا

گفتگو جب بھی کبھی میری کسی سےبھی رہی
تو ہی لفظوں میں رہا تو ہی معانی میں رہا
۔۔۔۔


شیئر کیجیے

2 thoughts on “حسد کی آگ ہے ہر سو، جلن زیادہ ہے (غزل)

  1. ماشاء اللہ ! بہت عمدہ تعارف و انتخاب ۔ سلیم شوق پورنوی واقعی صنف شاعری کا ابھرتا ستارہ ہے ۔ ان کے لئے ڈھیر ساری دعائیں اور نیک خواہشات ۔ اشتراک ڈاٹ کام کی سمت اور رفتار دونوں آپ کی مضبوط گرفت میں ہیں، یہ اس بات کی غماز ہے کہ بہت جلد اشتراک ڈاٹ کام ایک شہرت یافتہ پلیٹ فارم کی حیثیت اختیار کرنے والا ہے ۔ سلامتی کی دعائیں اور نیک خواہشات !!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے