ریشم کا کیڑا اور کسان

ریشم کا کیڑا اور کسان

جاوید اختر ذکی خان

ریشم کے کیڑے کی اہمیت تب تک ہی ہے جب تک وہ ریشم تیار نہیں کر لیتا ہے۔اسے سائنسی زبان میں Sericulture بھی کہتے ہیں۔ ان کی لائف سائیکل دیکھیں ۔ یہ چار مراحل سے گزرتے ہیں انڈا۔۔لاروا۔۔۔پیوپا۔۔۔اور اڈیلٹ۔۔۔۔یہ نظام قدرت ہے۔ جو کیڑوں سے ریشم پیدا کرواتا ہے پر اس کے لیے یہ Mulberry یا شہتوت کے پتے کو غذا کے روپ میں استمعال کرتے ہیں۔۔۔۔پر ریشم کے کیڑوں یعنی Silkworm یا Bombyx mori میں کوئی Stting appratus نہیں موجود ہوتا ہے. پر شہد کی مکھی(Honey bee) اوربھڑ (wasp) میں ڈنک مارنے کے لیے ایک خاص عضو موجود ہوتا ہے، جس میں Formic acid موجود رہتا ہے، جس کی وجہ کر جلد میں درد، خارش اور سوجن آ جایا کرتی ہے۔لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شہد کی مکھی جب کسی شخص کو ڈنک مارتی یا کاٹتی ہے تو اس کے بعد وہ مر جاتی ہے ۔کیوں کہ اس Stting appratus کے ہم راہ اس کے جسم کے اندرونی اعضاء بھی باہر آجاتے ہیں. قدرت نے ہمیں یہ قوت بخشی ہے کہ ہم اسے سمجھنے کی سعی کرتے رہیں. لیکن کچھ لوگ بس اسے نظر انداز کرتے ہوئے اگے بڑھ جاتے ہیں۔ اس تمھید سے ملک ہندوستان کے موجودہ منظر نامے پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی جاسکتی ہے.
ہمارے ملک کی سرکار اور حکومت کو عوام سے کوئی مطلب نہیں۔ انہیں فقط اپنی ضد اور اپنا نظریہ عوام پر تھوپنا ہے، خواہ کچھ بھی ہو جائے.
سوال یہ ہے کہ ملک میں نوٹ بندی ہوئی، عوام کو کیا فائدے حاصل ہوئے؟
جی ایس ٹی سے تاجروں کو کیا فائدے حاصل ہوئے؟
سی اے اے سے اسس ملک کے اقلیتوں کو کیا فائدے حاصل ہوئے ؟
این آر سی سے کیا ملے گا؟
آرٹیکل 370 اور 35A سے کشمیر کا کیا ہوا ؟ کیا وہاں ترقی کی کوئی نہر جاری ہوگئ؟
کورونا کے اس وبائی دور میں اس سرکار نے مزدوروں کو اپنے ہی ملک میں مہاجر بنا دیا۔ سڑکوں پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ لوگ سڑکوں پر ریل پٹریوں پر مرتے رہے اور سرکار نے دعوی کیا کہ 150 ممالک کی اس نے مدد کی۔کیا آپ متحیر نہیں ہوتے ہیں؟ جس سرکار نے اپنے ہی ملک کی مدد نہیں کی ہے وہ دوسرے ممالک کی مدد کرنے کا دعویٰ کرے تو اسے مضحکہ خیز نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ پی ایم فنڈ کا پیسہ کہاں گیا۔؟
اس وبائی دور میں انتخابات ہوتے رہے اور ہو بھی رہے ہیں۔لیکن تعلیمی ادارے بند ہیں سفری ذرائع محدود ہیں.
اب کسان آندولن یا تحریک، جو کسانوں کی محنت کو کارپوریٹ سیکٹر کے منھ میں ڈالنے کی بھدی کوشش ہکی وجہ سے شروع ہوئی ہے۔۔کسان قانون ستمبر میں ہی پاس کر دیا گیا تھا۔.. اور اڈانی امبانی نے اپنی تیاری یعنی اناج کے لیے گودام جولائی سے ہی تعمیر کرنا شروع کر دیا تھا۔یہ کون لوگ اب بیٹھے ہیں ایوانوں میں جو ملک کو نچوڑ رہے ہیں اور کسانوں کو کارپوریٹ سیکٹر کا نوالہ بنانے ہر تلے ہیں؟
یہ کس سیارے سے آئیں ہیں کہ ملک کی عوام ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتی ہے۔ گویا سب سے بڑے دانشور لوگ اس دھرتی پر یہ سیاستداں ہی ہیں ۔اور عوام جاہل ان پڑھ جو ان کی باتوں کو سمجھ نہیں پاتی ہے؟ اس ملک اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ عوام ریشم کا کیڑا بننا پسند کرتے ہیں جو چپ چاپ ریشم پیدا کرے اور مرجائے۔۔۔یا پھر اس ملک کی عوام شہد کی مکھی یا پھر بھڑ بن جائے، تاکہ جو اسے نقصان پہنچائے اسے وہ اپنے Stting appratus سے کاٹ بھی لے۔ ہمارے ملک کے کسان اور عوام بہت محنت کرتے ہیں شہد کی مکھیوں کے مانند اور جب شہد تیار ہو جاتا ہے تو کارپوریٹ سیکٹر کے لوگ آتے ہیں سرکار کا کوچ پہن کر اور شہد اتار لے جاتے ہیں. یہاں تک کہ وہ اب کھیت نما Bee hive بھی لے جانا چاہتے ہیں۔ اور آخر میں کسے کیا حاصل ہوتا ہے۔۔؟؟
اس کا فیصلہ ملک کی باشعور اور ذی فہم عوام کو کرنا ہے.
آپ ہندوستان کے درد مندانسان ہیں توکسان کے ہمراہ کھڑے رہیں.
ورنہ یہ اڈانی امبانی اور ناگپور والی سرکار ہمیں غلام بنا لے گی اور کچھ دنوں کے بعد ہم اپنے ہی ملک میں اپنی شناخت ڈھونڈ رہے ہوں گے.

جاوید اختر ذکی خاں‌کی پچھلی نگارش:
وبائی دور اور یخ بستہ زندگی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے