یہ مت کہو کہ بدن میں تکان باقی ہے

یہ مت کہو کہ بدن میں تکان باقی ہے

شعیب سراج

یہ مت کہو کہ بدن میں تکان باقی ہے
ابھی تو فتح کو سارا جہان باقی ہے

جدا ہوئے ہمیں عرصہ گزر گیا ہے مگر
دیار عشق میں اپنا مکان باقی ہے

کٹا کے سر کو بچائی ہے میں نے پگ یارو
"تباہ ہو کے بھی اک اپنی آن باقی ہے”

امیر شہر کا تختہ پلٹ گیا لیکن
فقیر شہر کی اب تک مچان باقی ہے

کلام سن کے جھکا لیں شجر بھی سر جس کا
ہمارے شہر میں وہ نعت خوان باقی ہے

ابھی تو جیت کی خوشیاں نہیں مناسب ہیں
ابھی تو خنجر دشمن پہ سان باقی ہے

سراج! خط کے سبھی لفظ مٹ گئے پھر بھی
تمھارے اشک کا اب تک نشان باقی ہے

شعیب سراج کی پچھلی غزل:
شعیب سراج

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے