غزل  (اضطراب دل ناداں)

غزل (اضطراب دل ناداں)

✍️ کاشف شکیل

جاناں ہمارے درمیاں کیا کیا نہیں ہوا
باتیں نہیں ہوئیں تھیں یا بوسہ نہیں ہوا؟

جاناں یہ یک بیک سے کہاں جا رہی ہو تم
اب تک ہمارا پیار تماشہ نہیں ہوا

جاناں یہ بے رخی‌ نا! مجھے مار ڈالے گی
ہلکا‌ سا التفات زیادہ نہیں ہوا

جاناں تمہاری فوٹو موبائل میں ہے مگر
بے چینیوں‌‌ کا‌ اس سے ازالہ نہیں ہوا

جاناں ! فی آنسی (fiance) ہے تمھارا مگر سنو
مجھ کو تمہارا جانا گوارا نہیں ہوا

جاناں ! جو پھول تم نے رکھا تھا کتاب میں
اشکوں سے بھیگ کر بھی وہ تازہ نہیں ہوا

جاناں ! خدا کے واسطے اک بار بول دو
کاشف کے بن‌ تمہارا گزارا نہیں ہوا۔

_______

شاعر کا مختصر تعارف:
نام : محمد کاشف بن شکیل احمد
قلمی نام: کاشف شکیل
عمر : 21 سال
تعلیم :
عالمیت (انٹرمیڈیٹ) جامعہ سلفیہ بنارس سے
فضیلت جامعہ عالیہ عربیہ مئو سے
ڈپلوما (دعوہ کورس) معہد مقارنۃ الادیان جامعہ دار السلام عمر آباد تمل ناڈو سے
بی اے ممبئی یونیورسٹی سے (ابھی فائنل ایئر ہے)
مشغلہ : نیوز اینکر آئی پلس ٹی وی۔
تصانیف:
1- تاریخ اہل حدیث جنوبی ہند کے درخشاں پہلو
2- شرک کے نقصانات قرآنی آیات کی روشنی میں
3- ولایت قرآنی آیات کی روشنی میں
4- مضامین کا مجموعہ (زیر ترتیب)

کاشف شکیل کی مزید دو غزلیں:
جواب آں غزل

کاشف! غزل تمہاری پڑھی آج رات میں
مانا نہ جیت پاؤں گی میں تم سے بات میں

کاشف! صنم پرستی نہیں دینیات میں
یہ تم کہاں سے پڑ گئے لات و منات میں

کاشف! کتاب عشق کا‌ اجراء نہ یوں کرو
یوں وقت نہ گنوایا‌ کرو واہیات میں

کاشف! ہمارے پیار میں کیا کیا نہیں ہوا
لیکن تمہاری فتح رہی میری مات میں

کاشف ! خطاب تم نے مجھے "جان‌” سے کیا
بے جان ہوں میں جسم کے اس باقیات میں

کاشف ! تمہارا عشق ہی معراج ہے مری
سب آسمان ٹھہرے تمہاری ہی ذات میں

کاشف ! یقین ہے مجھے، ایمان ہے مرا
تم سا نہ مل سکے گا مجھے کائنات میں

_______

رات ہو چودھویں

اے مرے ہم نشیں
کوئی تجھ سا نہیں

سب زحل رو یہاں
اور تو زہرہ جبیں

من ترے سنگ ہو
چاہے تن ہو کہیں

بحر آتش ہے عشق
میں تو ڈوبوں یہیں

لذت لمس کی
چاشنی انگبیں

صاف چہرہ ہے اور
جسم ہے مر مریں

دیکھ کر دل کہے
آفریں افریں

زلف بکھری ہے اور
ہونٹ ہے نرمگیں

سادگی میں بھی وہ
نازنیں نازنیں

پیرہن ہے سیہ
اور بدن نورگیں

آنکھ کے راستے
دل میں ہو جاگزیں

بس دعا ہے یہی
اولیں آخریں

وہ ہو کاشف ہو اور
رات ہو چودھویں

کاشف شکیل کی مزید غزلیں:
تیرا ڈمپل(غزل)

شیئر کیجیے

3 thoughts on “غزل (اضطراب دل ناداں)

  1. ماشاء اللہ ! کاشف شکیل کے اندر شاعری کی ایک نئی دنیا آباد نظر آتی ہے ۔ میری دعا ہے کہ ان کی شاعری میں ‘ عشق ‘ ایک عام سا جذبہ نہ رہ کر ایک مکمل علامت کی شکل اختیار کرے ۔ اس کے لئے انھیں مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑے گا اور کٹھن تپسیا کرنی پڑے گی ۔ میری دعائیں اور نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ۔

  2. کاشف شکیل ابھی غم جاناں میں الجھے ہوئے ہیں. ویسے ان کی شاعری میں تازہ کاری کا امکان اپنی راہیں تلاش کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں جو انہیں منزل مقصود تک یقیناً پہنچا سکتا ہے.

  3. محمد احسان الاسلام صاحب! بہت شکریہ حوصلہ افزائی اور بہترین مشورے کا۔
    ان شاء اللہ آپ کا مشورہ پیش نظر رہے گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے