نیم پلیٹ

نیم پلیٹ

اسماء حسن

ہانگ کانگ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آدھےسر پرچُنری ٹکائے،ٹوٹے پھوٹے میدان میں آلتی پالتی مارےآنسو بہائے چلی جارہی تھی۔جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے روکناتواس کے اختیار میں نہ تھا۔البتہ شدید غصے کے عالم میں کوئی اینٹ یا پتھراٹھا کرکسی کتے یا بلی کو دے مارتی۔وہ بھی وہیں کے پیدائشی تھے،سب کی جبلت سےخوب واقف۔اس کو دھوکہ دےکرایک کونے سےدوسرے کونے کی طرف بھاگ جاتے۔کچرے کے ڈھیرپر پلنے والی زندگی اوردم توڑتی خواہشات کیسی ہوتی ہیں۔یہ سب اس کے الجھے بالوں اور بے رونق چہرے پر دیکھا جا سکتا تھا۔گندگی پر بھنبھناتی مکھیاں،غلاظت لیے ہوئےجب اس کے چہرے پر بیٹھتیں تو اسے یوں لگتا کہ جیسےاس پر ہنس رہی ہوں۔اور بھن بھن کرتی ہوئی موٹی سی گالی دے کر اڑ جاتی ہوں۔اس میدان کے عقب سے ایک بدبودار نالہ گزرتا تھا۔ وہاں مختلف قسم کے حشرات الارض یوں رینگتے پھرتے کہ جیسے یہ جھونپڑی نگر،ان ہی کی سلطنت ہو۔
کہنےکوتووہ غربا کی بستی تھی مگراسے ایک اعزاز حاصل تھا۔اس علاقہ کے بیچ و بیچ گزرنے والی سڑک کےدوسری طرف امراء کےعالی شان بنگلے آباد تھے۔اوربڑی بڑٰی گاڑیوں میں بیٹھنے والے سیٹھ بھی وہاں سے گزرنے پر مجبور تھے۔یہ ان کی مجبوری ہی تو تھی،ورنہ ایسے گندے مندے لوگوں کو ان کے مقابل رہنے کا کیا حق تھا؟۔ان کا بس چلتا تو وہ اس پوری بستی کو اٹھا کر شہر سے کوسوں دور پھینکوادیتے۔
اس بنجر میدان میں لگ بھگ پچیس جھونپڑیاں تھیں اور ٹوٹی پھوٹی اینٹوں سے بنے ہوئےچند بوسیدہ گھر۔جن کے مکین خود کوکُٹیا والوں سےبہتر سمجھتے ہوئے سینہ تان کر چلتے۔اس خستہ حال میدان سے چند ہاتھ اوپر تارکول کی وہ سڑک تھی جس کےاُس پار امارت کی جھلک بڑی واضح دکھائی دیتی تھی۔یہ کیسا تضاد تھا کہ ایک طرف زندگی بھیانک تھی تو دوسری طرف حسین۔ادھر دکھ کے گہرے بادل تھے تواٗدھرآسودگی کا سائباں۔سڑک سے چند ھاتھ نییچےسوکھی روٹی بھی بڑی مشکل سے میسرآتی،تو سامنے نظر آنےوالےدرودیوارپرچاندی برس رہی تھی۔
سجو بھی وہیں پیدا ہوئی تھی۔مکھیوں اورمچھروں کی بھنبھناہٹ ہی میں اس نے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں۔انہی کےبے ہنگم سروں پرجھومتے ہوئے اس کا بچپن گزرا۔۔سامنے تعمیر ہوتے محل دیکھ کر اپنے جھونپڑے پر لعن طعن کرتی اور دورہی سے دو چارپتھر اچھال کراورگالیاں دے کرچپ ہوجاتی۔پاگل!یہ بھی نہیں سمجھتی تھی کہ یہی محل اس کی روزی روٹی کا وسیلہ بھی تو ہیں۔جہاں اس کی ماں سارا سارا دن کسی کوہلو کے بیل کی طرح کاموں میں جُتی رہتی۔
ایک کونے میں لگاکچرے کاڈھیر بھی گلے سڑے ہی سہی مگر نت نئے پکوانوں سے سجے کسی دسترخوان کی مانند تھا۔جہاں راتوں کے تھکےماندے کتے اوربلیاں بھی پیٹ پالنے کے اسباب ڈھونڈتے پھرتے۔روز صبح سویرے وہ ان جانوروں کوکچھ نہ کچھ چنتے ہوئےدیکھا کرتی تھی۔چہرے پر سےمکھیاں ہٹاتےہوئے منہ بھر کر گالی دیتی اور ان پر پتھر اچھال کرخوب ہنستی۔کتےاوربلیاں بھی جیسےمنہ بسور کر کہتے ہوں
” جاجااپنا کام کر تجھے کون پوچھتا ہے”۔
اوردوبارہ اپنے کام میں کچھ یوں لگ جاتے،جیسےاس کےکہنے سےانہیں کوئی فرق ہی نہ پڑا ہو۔کبھی کبھار تو اسے شدید غصہ آتا۔وہ پھُرتی سےجھونپڑےکے اندر جاتی اورکوئی برتن اٹھاکران پر دے مارتی۔جس پراس کی ماں سےخوب مارپڑتی۔اس مار کا بدلہ وہ چھوٹےتین بہن بھائیوں کومار کر پورا کرتی۔وہ ہمیشہ ہی جانوروں اور حشرات الارض سے بھڑ سی جاتی اور انہیں نوچنے کے لیے کچھ یوں بھاگتی کہ جیسے اس کی بے رنگ زندگی میں سارا قصور انہی کاہو۔۔وہ اکثران پر ایسا ظالمانہ وارکرتی جسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جائےکہ کوئی،کسی بے ضرر چیونٹی تک کواتنی بے دردی سے مسل سکتا ہے؟۔
شایدغربت کےڈھیر پرپلنےوالی زندگی بےرحمی کےسارے گُرسیکھ جاتی ہے۔!
سڑک کے دوسری طرف،محلےکےسبھی شرفاءاس بات پرخائف رہتےکہ ان کےبچوں کی حرکتوں اورگالم گلوچ کی وجہ سےہمارے بچےخراب ہوتے چلے جا رہےہیں۔آئےدن بلدیاتی اور ترقیاتی اداروں کو برا بھلا کہا جاتا۔گالیاں بھی دی جاتیں۔اس پڑھے لکھے طبقہ کی گالیاں چوں کہ انگریزی زبان میں ہوتیں اس لیے بچوں کی شخصیت پر کوئی برا اثرنہیں پڑتاتھا۔۔
عالی شان کمیونٹی سینٹر میں کانفرنس کا انعقاد کیا جا چکا تھا۔اہم موضوع زیر بحث تھا۔ایک صاحب کہہ رہے تھےکہ”اس گندی بستی کے چند بچے ہماری گلی میں آئے اور ایسی جرات کر ڈالی کہ خدا کی پناہ”۔سب اس کی بات پر کچھ یوں پریشان ہوئے کہ جیسے ان کی پر مسرت زندگی میں اس سے بڑا کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔ان بچوں کا گناہ بس اتنا سا تھا کہ وہ سڑک کے اس پاربسنے والی مخلوق کے بچوں سے کھیلنے چلے آئے تھے۔دکھ کی ایک شدید لہر،ان سب کے چہروں پر صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ پھرنہ جانے کتنی فون کی گھنٹیاں بجیں اور کتنے لوگوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔آئے دن یہی مسئلہ زیر بحث رہتااور پھر سارا دن اسی پر لمبی لمبی تقریریں کرنے میں گزر جاتا۔کبھی حفظان صحت کے اصولوں پرتو کبھی صفائی ستھرائی "نصف ایمان ہے”ایمان کی ایسی ہی چندشقیں موقع محل کی مناسبت سے انہیں ہمیشہ ازبر رہتیں۔اس بات سے قطع نظر کہ ان کا پس منظر کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاف معمول سجو آج بہت خوش نظرآرہی تھی۔گالیاں دینے کی بجائےپلاسٹک کےسفید بڑے بڑے تھیلے اورکچھ مٹی سے بھرے بورےایک جگہ لاکررکھ رہی تھی۔شاید ان کی بوسیدہ جھونپڑی اب سخت گرمی کا قہر اورمون سون میں آئے دن برستی بارش کازور برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ اس لیے نیا آشیانہ تعمیر کی جانب گامزن تھا۔
سجو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔وہ ایک ایک بانس اپنے نازک کندھوں پر اٹھاتی اور باپ کولاکر دیتی۔انہیں ترتیب وار جوڑکرجھونپڑی کو ایک مخصوص شکل دے دی گئی۔جب وہ آخری بانس لگا چکی تو اس کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔پھروہ اس ڈھانچے کے اندر جا بیٹھی۔جس کے شگافوں سےابھی نیلا آسمان پوری طرح نظرآ رہا تھا۔گویا تعمیرابھی باقی تھی۔پھر اپنی ماں کےساتھ مل کرزمین کے چاروں طرف لگائےنشانوں پراینیٹیں گاڑنےلگی۔بالکل ویسے ہی جیسے کوئی اپنے نئے محل کی بنیاد رکھتا ہے۔ایک ایک اینٹ اٹھا کرجب وہ دوسری کےساتھ جوڑتی توجھونپڑی کاآنگن نما حصہ مزیدواضح ہونےلگتااوروہ خوشی سے پھولے نہ سماتی۔پھرماں،بیٹی نے انتہائی نفاست سے ٹوٹے پھوٹےسے آنگن میں مٹی کا لیپ کر دیا۔پانی کاچھڑکاؤ کرتے ہوئے اپنے نازک ہاتھوں سے مٹی کو یوں سہلا رہی تھی جیسے کوئی چھوٹے سے بچے کوپیار سے تھپکی دیتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب کےاندھیرے پھیلنےوالے تھے۔تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئےاس کی نگاہ بار بار آسمان کی طرف اٹھ جاتی۔یوں لگ رہا تھا،جیسے وہ چاہ رہی ہوکہ آج تھوڑی دیر کے لیےسورج مزید ٹھہرا رہے اورچاندرستہ بھول جائے۔وہ باپ کا ہاتھ بٹاتے ہوئےپلاسٹک کے تھیلےجھونپڑی کے اوپرڈال کر چھت بنا رہی تھی۔اس کی ماں زمیں پر بیٹھی سینے پرونے میں لگی ہوئی تھی۔اس کے پاس رنگ برنگےچھوٹے بڑے کپڑے پڑے تھے۔جن کو جوڑ جوڑ کروہ ان بوروں پر پیوند لگاتی اور سجو کو دیتے ہوئے تلقین کرتی جاتی”دیکھ سجو اپنے ابا کو کہہ دے کہ پیوند لگے ٹاٹ پہلے ڈالے تا کہ بارش کا پانی چھن چھن کرتا ہوا فرش پرنہ آن ٹپکے”اورسجو یہی تلقین باپ کو بڑٰی سختی سے کر رہی تھی۔آج وہ کسی مغرور دوشیزہ کی طرح ادھر سے ادھر جاتی ہوئی مکھیوں اورمچھروں پرطنزیہ مسکرا رہی تھی۔ایسا گمان ہورہاتھا جیسےکہہ رہی ہو۔”دیکھو اب میرا نیا گھر بنےگا اورتم سب میرے چہرے کو چھو بھی نہ سکو گے”۔گہرا سانولا رنگ اور پتلی سی ناک میں ایک نتھنی ڈالے وہ آج ان مفلسین کی شہزادی معلوم ہو رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میک اپ سےلتھڑے خواتین کےچہرے خراب نہ ہو جائیں اس لیے سینٹر کے سبھی ائیرکنڈیشنرچلا دیئے گئے۔حسب معمول وہ سب تھک ہار کر لذیذ ڈنر کے منتظرتھے۔مخملی قالین پرمہمانان گرامی یوں اتراتے پھر رہے تھےکہ جیسے ہر مخلوق ان کے پاؤں تلے بڑی آسانی سےروندی جا سکتی ہو۔نام نہاد میٹنگ کا ڈرامہ ختم ہو چکا تھا۔
دوسری طرف وہ تینوں گرمی کے قہرسےبے خبر اپنے کام میں یوں لگے ہوئےتھےجیسےگرم ہوا کے بے رحم تھپیڑےانہیں چھو کربھی نہ گزرےہوں۔شاید یہ اس خواب کی تکمیل کا اثر تھاجس نے ان کےبے رونق چہروں پر خوشی بکھیر رکھی تھی۔ان تھک محنت رنگ لائی اور جھونپڑی تیار کرلی گئی۔سجواور اس کے چھوٹے بہن بھائی اس کےارد گرد یوں دوڑتے پھررہے تھے جیسے پوری دنیاچھوٹے سے میدان کی اس معمولی جھونپڑی میں آن بسی ہو۔سجو کبھی اندرجا کر کر گیلی مٹی کے خراب ہو جانے والے کونے کھدرےدرست کرتی تو کبھی باہرآکراس کے چاروں طرف پھاندتی پھرتی۔
اس نے زمین سے ایک کاغذ اٹھایا،گیلی مٹی سےچند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں اورکسی نیم پلیٹ کی طرح جھونپڑی کے ایک بانس پرلٹکادیا۔چاند مسکرایا اور رات کے سائے گہرے ہوتے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر کے ساتھ اسی ٹوٹے پھوٹے میدان کی تصویر تھی۔جسے دیکھ کرساحل پر بنائے ہوئے ناتواں گھروندوں کی یاد ستانے لگے۔جنہیں سمندر کی بے رحم او طاقتور موجیں اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔جن کا مقدر پاؤں کی ایک ٹھوکر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔اور
سجو،نیم پلیٹ گلے میں ڈالے،سوکھی روٹی کا ٹکڑا منہ میں لیے،کتےبلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔اوردوسرے ھاتھ سے کیڑے مکوڑوں کو بری طرح مسل رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی افسانہ میلہ 2016
افسانہ نمبر 85

اس افسانے کا مطالعہ از وحید احمد قمر یہاں پڑھیں.
اسماء حسن کا افسانہ ” نیم پلیٹ ” :ایک مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے