نام میں کیا رکھا ہے!

نام میں کیا رکھا ہے!

سیب کو دیکھ کر یا اس کا نام سن کر کچھ لوگوں کے منہ میں پانی آتا ہے تو کچھ لوگوں کے ذہن میں اسحاق نیوٹن کا نام آتا ہے۔ اور نام کاذکر سن کر شیکسپئر کی یاد ہی آسکتی ہے کیوں کہ منہ میں پانی آنا ممکن نہیں۔ شیکسپئر جتنا مشہور و مقبول ہوا شاید اس سے زیادہ اس کا یہ مقولہ مشہور ہوا کہ نام میں کیا رکھا ہے۔یہ کہنا بڑا آسان ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن اسے ہضم کرنا اتنا ہی مشکل معلوم ہوتا ہے جتنا پتھر چبانا مشکل ہے۔ کیوں کہ اکثر ہم اپنی پوری زندگی نام و نمود ہی کے لئے تو جیتے رہتے ہیں۔ جیون میں اگر نام نہ ہو تو جیون میں کیا رکھا ہے؟ نیم اور فیم کے لئے دنیا میں لوگ نہ جانے کیا کیا کرتے ہیں۔”نیم“ کے لئے صرف نِیم ہی نہیں بلکہ نِیم چڑھا کریلا بھی بن جانے میں قباحت محسوس نہیں کرتے۔ کبھی سر کے بل کھڑے ہوتے ہیں تو کبھی دھڑ کے بل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کبھی ہاتھ کی کھاتے ہیں تو کبھی منہ کی کھاتے ہیں۔کبھی جوتی میں دال بانٹتے ہیں تو کبھی جوتی ہی کھالیتے ہیں۔ مصطفی خاں شیفتہ تو سر عام یہ اقرار کرتے ہیں:
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍبدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
اکبر الہ آبادی تو بدنامی کوالہ آبادی امرود کا جیلی بنا کر کھانے کو تیار بیٹھے تھے:
لوگ کہتے ہیں کہ بدنامی سے بچنا چاہئے
کہہ، بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں
دوسری طرف شیخ ابراہیم ذوق کو محبت کا ذائقہ اتنا تیکھا لگتا ہے کہ محبت کانام لینے سے بھی کان پکڑ کر توبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت
شیخ ابراہیم ذوق کا زمانہ شیخوخیت کو پہنچا یہاں ذرا صاحب شباب شاعروں کو دیکھئے کہ شہرت و بدنامی نے ان کو کس حال کو پہنچا دیا۔
اب تو اپنے دروازے سے نام کی تختی اتار
لفظ ننگے ہوگئے شہرت بھی گالی ہوگئی اقبال ساجد
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو احمد مشتاق
آگے بڑھنے سے قبل درد کا یہ درناک شعر بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہر چند تجھے صبر نہیں درد ولیکن
اتنا بھی نہ ملیو کہ وہ بدنام بہت ہو (خواجہ میر درد)
نام کا اثر اگر آپ کی شخصیت پر گہرا پڑتا ہے تو آپ کے نام کا اثر دوسروں پر بھی گہرا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے دیش میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ نام پوچھ کر نوکری دی گئی اور نام پوچھ کر کرایے پر مکان دیا جاتا ہے۔بعض لوگ تو ڈرائیور اور کسٹمر کئیر کا نام بھی پوچھ لیتے ہیں۔اور نام اگر ان کے حساب سے معقول نہ ہوتو اپنی تمام نا معقولیت کا اظہار بڑی ڈھٹائی سے کرتے ہیں۔ ہم تو وہ مہان لوگ ہیں جو بے جان اشیا؛جیسے سڑکوں، مکانوں، اور یادگاروں کے نام پر بھی اعتراض جتانے میں نیکی اور پونیہ کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ خواہ وہ سیاست کی نیکی ہو یا مفاد پرستی کی۔ امریکن ہوائی اڈوں پر اکثر مخصوص نام والے حضرات کی خصوصی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ ناموں کا ہماری زندگی میں اتنا گہرا اثر ہے کہ ہم دوسروں کے نام چرانے(اور چَرنے میں بھی) میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ناموں کی اس چوری میں دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ نامور لوگوں کے نام ہی اکثر چرائے جاتے ہیں۔ جیسے غریب کے گھر ڈاکہ نہیں ڈلتا ویسے ہی بے نام کے ’نام‘ بھی سیندھ ماری سے محفوظ رہتے ہیں۔ شاہ رخ خاں نے جب ہندی فلمی صنعت میں اپنا نام بنایا تو ہند و پاک میں شاہ رخ نام جھاڑ جھنکار کی طرح اگا۔پاکستانی شاعر احمد فراز کو اس بات پر فخر تھا کہ ماؤں نے ان کے نام پر بچوں کے نام رکھ دئیے:
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
پچھلے دنوں جھاڑ کھنڈ سے یہ خبر آئی کہ ایک ۵۲ / سال کے نوجوان انجینئر نے عدالت میں درخوات پیش کی کہ سی بی ایس کو حکم دیا جائے کہ اس کے تعلیمی اسناد میں اس کانام تبدیل کردے کیوں کہ اس نے اپنا نام بدل لیا ہے لیکن بورڈ تعلیمی اسناد میں نام بدلنے پر تیار نہیں ہے۔ نام بدلنے کی آخر ضرورت کیوں پیش آئی۔ پتا چلا کہ اس انجینئر کو بین الاقوامی کمپنیوں میں اس کے نام کی وجہ سے نوکری نہیں مل رہی ہے تھی۔ اس کا نام تھا۔صدام حسین۔ آہ! مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے۔نام بڑے اور درشن چھوٹے کہاوت تو ضرور سنی ہوگی۔ نام معنوی اعتبار سے بھی بڑے ہوتے ہیں اور حجم کے اعتبار سے بھی۔بہ اعتبار حجم اگر نام بڑے ہوں تو سمجھ لیجئے نام میں القاب و آداب کو ٹھونس دیا گیا ہے۔مذہب ہمیں سادگی سکھاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر مذہبی لوگوں کے ناموں کے ساتھ القاب و آداب ٹھونس کر کاغذکی سادگی کو سیاہی سے نہلایا جاتا ہے۔ نام کا اثر ہماری زندگی پر گہرا نہ ہوتا تو ہم ہندوستانی ”نام کرن“ کی اصطلاح ہی کیوں استعمال کرتے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ جلد ہی ہمارے بچوں کے نام یوں ہوں گے:مسٹر ہیش ٹیگ فلاں، حضرت فیس بکیا لکھنوی، شری واٹس ایپ حید ر آبادی، کانپوریا یوٹیوبر۔اور پھر اس قسم کے گیت مقبول ہوں گے۔نام تیرا مستانہ کام تیرا گھبرانہ۔ایسی پیشن گوئی کی ضرورت یوں آن پڑی کہ لوگ اپنے بچوں کے نام یونیک رکھنا چاہتے ہیں۔ اب جمن، جمعراتی، شبراتی اور رمضانی جیسے نام رکھنے کے دن لد گئے۔ بھلا ہو بی جے پی سرکار کا جس نے زعفرانی نام کا جھنڈا ابھی بھی بڑی مضبوطی سے تھا م رکھا ہے۔ یہ بوڑھے لوگ بھی سماج میں ناموں کے بدلتے رجحان پر کتنا کڑھتے ہوں گے۔ ہائے وہ کیا زمانہ تھا جب لوگ پیدائش کے دن، مہینے اور رات کے حساب سے نام رکھتے تھے۔
سنا ہے کہ کوپن ہیگن یونیورسٹی میں ناموں کی تفتیش کا شعبہ ہے۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ اتنا آزاد خیال اور روشن دماغ لوگوں کا ملک نام رکھنے میں اتنی تنگ دلی کا مظاہرہ ہو کہ پہلے سے طے شدہ سات ہزار ناموں میں سے ہی کوئی نام رکھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی نام ماں باپ کو نہ جچے تو اس کا حل یہ کہ یونیورسٹی کے مذکورہ شعبے سے رابطہ کرکے اپنے بچوں کا کوئی بہتر نام رکھ سکتے ہیں۔ ہائے ظالم ترقی کا یہ راز ہم مشرقی لوگوں پہ کیوں نہ کھلا۔ہمارے یہاں ناموں کے بدلنے کا رواج بھی ہے۔موجودہ زمانے میں نام بدلناہندوستان کے سیاسی منظرنامے کا ایک اہم کھیل ہے۔ معلوم نہیں گرنتھوں میں اس یگ کو کیا کہا گیا ہے جس میں نام بدلنے پر ووٹ ملیں گے۔نوٹ پر ووٹ تو سنا ہی ہوگا لیکن نام بدل کر ووٹ؟ زمانہ ہی بدل گیا۔حالی کہتے تھے جب زمانہ بدلے تم بھی بدل جاؤ۔ پتہ نہیں انھوں نے کیا بدلنے کو کہا؟ نام بھی بدل لیں؟ نام نہ بدلیں تو کیا بدلیں؟ کیا نام بدلنا لنگی بدلنے یا ٹوپی بدلنے جتنا آسان ہے؟ لوگ تو مسجدوں مندروں کے سامنے سے جوتے چپل تک بدل لیتے ہیں۔ انسان گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے۔لیکن گرگٹ کمبخت گرگٹ ہی رہ گیا اس احمق نے اپنا نام نہیں بدلا۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ آئندہ زمانے میں نام بدلنے کی وزارت قائم کی جائے۔اور وزارت کا نام رکھا جائے ”نام بدلُو وزارت“ جیسے پارٹی بدلنے والے کو دل بدلو کہا جاتا ہے۔ اچھا،دل بدلنے اور دِل بدلنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا۔لیکن انسان موسم کی طرح بدل جاتا ہے۔ آلودگی نے موسم بدل دیا ہے اور ہم نے آلودگی کا مفہوم بدل دیا ہے۔یو ں تو دل خون سے آلودہ ہوتا ہے لیکن اگر کدورت، نفاق اور مفاد پرستی کی قلعی سے دل آلودہ ہو جائے تو انسان کھڑے کھڑے بدل جاتا ہے اور ہوا بھی نہیں لگتی۔لوگ نام کا فائدہ بھی اٹھا تے ہیں۔ عاشق محبوب کے نام سر کٹانے کو تیار رہتے ہیں۔ شاعر کے نام پر مجمع زیادہ بڑا ہوجاتا ہے۔اور خود شاعروں نے بھی نام پر مشق سخن کی ہے۔ راحت اندوری کو جانتے ہی ہوں گے آپ؟ یہ دیکھئے کیسا عشق فرمایا ہے انھوں نے:
تمھارے نام پر میں نے ہر آفت سر پہ رکھی تھی
نظر شعلوں پہ رکھی تھی زباں پتھر پہ رکھی تھی
نام کے ساتھ اگر ”پر“ لگ جائے تو باغوں ں میں بہار آجائے۔ لوگ خدا کے نام پر بھیک مانگتے ہیں۔ خدا کے نام پر بھیک دیتے ہیں۔ خدا کے نام پر دنیا کی خطرناک جنگیں ہوئی ہیں۔ اسی لئے دواکر راہی جھنجھلا کر سوال پوچھتے ہیں:
سوال یہ ہے کہ اس پر فریب دنیامیں
خدا کے نام پہ کس کس کا احترام کریں
منتری صاحب کے نام پر کام کو بھی پر لگ جاتے ہیں۔ عشق کے نام پر تتلیاں ”یلایلیاں“ کرتی ہیں۔ سیاست کے نام پر کردار کشیاں اور نوٹ بندیاں ہوتی ہیں۔سیمینار کے نام پر نوٹ سازیاں ہوتی ہیں۔ اور مجبوری کا نام مہاتما گاندھی ہوجاوے ہے۔ اب خود پر جبر کرکے یہ اشعار پڑھنے کی زحمت گوارا کریں۔
ساتھ رکھئے کام آئے گا بہت نام خدا
خوف گر جاگا تو پھر کس کو صدا دی جائے گی (احترام اسلام)
اہل دنیا سے مجھے کوئی اندیشہ نہ تھا
نام تیرا کس لئے مرے لبوں پہ جم گیا (احترام اسلام)
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے (انجم خیالی)
وہ میرے نام کی نسبت سے معتبر ٹھہرے
گلی گلی مری رسوائیوں کا ساتھی ہو افتخار عارف

طیب فرقانی کی دوسری نگارش
چچا غالب: سی اے اے کے مخالف

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے