اسماء حسن کا افسانہ  ” نیم پلیٹ ” :ایک مطالعہ

اسماء حسن کا افسانہ ” نیم پلیٹ ” :ایک مطالعہ

وحید احمد قمر( فرینکفرٹ ، جرمنی)

اسماء حسن کے افسانوں کی مشترکہ خوبی انتہائی مشاقی سے کی گئی ماحول سازی اور ابتدائیہ ہے ۔ ماحول سازی قاری کے ذہن پر گہرا تاثر چھوڑتی ہے اور شروع میں جو منظر نامہ پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ کہانی کے ابتدائی خدوخال واضح کرتا ہے ۔ افسانہ نگار اگر اسے عمدگی سے پیش کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پڑھنے والے کی تمام تر توجہ کھینچ لیتا ہے ۔ لیکن اگر ابتدائیہ کمزور ہو تو قاری کی دلچسپی آدھی رہ جاتی ہے ۔

اسماء حسن بہت اچھی طرح جانتی ہیں کہ ابتدائیہ کیسے لکھنا ہے اور ماحول سازی کیسے کرنی ہے ۔ جیسے اس افسانے ” نیم پلیٹ ” کا پہلا پیراگراف قاری کے سامنے فورا” ایک گندے علاقے کا منظر اجاگر کرتا ہے ۔

” وہ آدھےسر پرچُنری ٹکائے،ٹوٹے پھوٹے میدان میں آلتی پالتی مارےآنسو بہائے چلی جارہی تھی۔جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے روکناتواس کے اختیار میں نہ تھا۔البتہ شدید غصے کے عالم میں کوئی اینٹ یا پتھراٹھا کرکسی کتے یا بلی کو دے مارتی۔وہ بھی وہیں کے پیدائشی تھے،سب کی جبلت سےخوب واقف۔اس کو دھوکہ دےکرایک کونے سےدوسرے کونے کی طرف بھاگ جاتے۔کچرے کے ڈھیرپر پلنے والی زندگی اوردم توڑتی خواہشات کیسی ہوتی ہیں۔یہ سب اس کے الجھے بالوں اور بے رونق چہرے ہر دیکھا جا سکتا تھا۔گندگی پر بھنبھناتی مکھیاں،غلاظت لیے ہوئےجب اس کے چہرے پر بیٹھتیں تو اسے یوں لگتا کہ جیسےاس پر ہنس رہی ہوں۔اور بھن بھن کرتی ہوئی موٹی سی گالی دے کر اڑ جاتی ہوں۔اس میدان کے عقب سے ایک بدبودار نالہ گزرتا تھا۔ وہاں مختلف قسم کے حشرات الارض یوں رینگتے پھرتے کہ جیسے یہ جھونپڑی نگر،ان ہی کی سلطنت ہو۔”

ان سطور سے اسماء حسن نے بیک وقت ماحول سازی کا کام بھی لیا ہے ۔ اور افسانے کے مرکزی کردار کے خدوخال بھی پیش کر دئیے ہیں ۔ اس سے اگلے پیراگراف میں انہوں نے اس منظر کو جھونپڑی بستی کے قریب ہی واقع امراء کے عالیشان بنگلوں تک وسیع کیا ہے بالکل اس طرح جیسے کسی فلم کے آغاز میں کیمرہ مین ایک چھوٹے منظر کو دکھا کر آہستہ آہستہ کیمرہ اردو گرد کے مناظر پر ڈالتے ہوئے ماحول کی ایک مکمل تصویر ناظرین کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔

تیسرے پیراگراف میں اسماء حسن اس کہانی کا منظر نامہ چند سطروں میں اس طرح مکمل کرتی ہیں کہ افسانے کا مرکزی خیال واضح ہوتا چلا جاتا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں ۔

” اس بنجر میدان میں لگ بھگ پچیس جھونپڑیاں تھیں اور ٹوٹی پھوٹی اینٹوں سے بنے ہوئےچند بوسیدہ گھر۔جن کے مکین خود کوکُٹیا والوں سےبہتر سمجھتے ہوئے سینہ تان کر چلتے۔اس خستہ حال میدان سے چند ھاتھ اوپر تارکول کی وہ سڑک تھی جس کےاُس پار امارت کی جھلک بڑی واضح دکھائی دیتی تھی۔یہ کیسا تضاد تھا کہ ایک طرف زندگی بھیانک تھی تو دوسری طرف حسین۔ ادھر دکھ کے گہرے بادل تھے تواٗدھرآسودگی کا سائباں۔ سڑک سے چند ھاتھ نییچےسوکھی روٹی بھی بڑی مشکل سے میسرآتی،تو سامنے نظر آنےوالےدرودیوارپرچاندی برس رہی تھی۔”

یہ ابتدائی تین پیراگراف قاری کے ذہن پر بہت ہی بھرپور تاثر چھوڑتے ہیں ۔ اور قاری اپنے آپ کو پوری طرح افسانے کے اندر پاتا ہے ۔ یا کم ازکم ایسا لگتا ہے جیسے وہ جھونپڑی بستی اور عالیشان بنگلے نگاہوں کے سامنے ہوں ۔ مجھے پڑھتے ہوئے ایسا لگا جیسے میں تارکول کی اس سڑک پر کھڑا ہوں جو کچی بستی اور بنگلوں کے درمیان سے گزر رہی ہے ۔

اس کے بعد افسانے کی مرکزی کردار سجو کا ذکر تفصیل سے کیا گیا ہے ۔ سجو ایک میلی کچیلی چھوٹی عمر کی لڑکی ہے ۔ جو اس غلیظ بستی میں پیدا ہوئی ۔ جہاں انسان اور جانور مکھیوں اور مچھروں کے بیچ ایک ہی جگہ رہتے سوتے اور کھاتے پیتے ہیں ۔ یہاں اسماء حسن نے محض چند سطروں میں کمال ہنرمندی سے سجو کی نفسیاتی حالت کا نقشہ بھی کھینچ دیا ہے ۔ یہ ذکر کر کے کہ جب اس کی ماں اسے مارتی تو ۔۔۔

” اس مار کا بدلہ وہ چھوٹےتین بہن بھائیوں کومار کر پورا کرتی۔ وہ ہمیشہ ہی جانوروں اور حشرات الارض سے بھڑ سی جاتی اور انہیں نوچنے کے لیے کچھ یوں بھاگتی کہ جیسے اس کی بے رنگ زندگی میں سارا قصور انہی کاہو۔۔ وہ اکثران پر ایسا ظالمانہ وارکرتی جسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جائےکہ کوئی،کسی بے ضرر چیونٹی تک کواتنی بے دردی سے مسل سکتا ہے؟۔

یہاں غربت اور کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے مجبور لوگوں کی اس نفسیات کا بیان ہے کہ ان کے ہاں بعض اوقات دنیا کے لیے شدید ترین نفرت پیدا ہو جاتی ہے جس کے بعد وہ بھی ظلم کی راہ پر نکل سکتے ہیں ۔ جیسا کہ سجو بنگلوں پر پتھر پھینکتی ہے یا اپنے بہن بھائیوں کو مارتی ہے ۔ یہ جھنجھلاہٹ ہی آگے جا کر بڑے بڑے جرائم کا پیش خیمہ ثابت ہوا کرتی ہے ۔

اسماء حسن نے آگے لکھا بھی ہے کہ

” شایدغربت کےڈھیر پرپلنےوالی زندگی بےرحمی کےسارے گُرسیکھ جاتی ہے۔”

پھر سجو اپنے والدین کے ساتھ مل کر اپنی جھونپڑی کی مرمت کا کام کرتے دکھائی گئی ہے ۔ اس چھوٹی سی میلی کچیلی لڑکی کی زندگی میں خوشیوں کے لمحات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر اپنے ” گھر ” کی تعمیر میں حصہ لیتے ہوئے وہ بہت پرجوش ہے ۔ جھونپڑی کی مرمت کے دوران سجو کی کیفیات یوں بیان کی گئی ہیں ۔

” سجو کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ ایک ایک بانس اپنے نازک کندھوں پر اٹھاتی اور باپ کولاکر دیتی۔انہیں ترتیب وار جوڑکرجھونپڑی کو ایک مخصوص شکل دے دی گئی۔جب وہ آخری بانس لگا چکی تو اس کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی۔پھروہ اس ڈھانچے کے اندر جا بیٹھی۔ جس کے شگافوں سےابھی نیلا آسمان پوری طرح نظرآ رہا تھا۔ گویا تعمیرابھی باقی تھی۔ پھر اپنی ماں کےساتھ مل کرزمین کے چاروں طرف لگائےنشانوں پراینیٹیں گاڑنےلگی۔بالکل ویسے ہی جیسے کوئی اپنے نئے محل کی بنیاد رکھتا ہے۔ایک ایک اینٹ اٹھا کرجب وہ دوسری کےساتھ جوڑتی توجھونپڑی کاآنگن نما حصہ مزید واضح ہونےلگتااوروہ خوشی سے پھولے نہ سماتی۔ پھرماں،بیٹی نے انتہائی نفاست سے ٹوٹے پھوٹےسے آنگن میں مٹی کا لیپ کر دیا۔ پانی کاچھڑکاؤ کرتے ہوئے اپنے نازک ھاتھوں سے مٹی کو یوں سہلا رہی تھی جیسے کوئی چھوٹے سے بچے کوپیار سے تھپکی دیتا ہے۔”

اور جب جھونپڑی کی مرمت مکمل ہوتی ہے تو سجو ” نیم پلیٹ ” کو جھونپڑی پر ” آویزاں کرتی ہے ۔

” اس نے زمین سے ایک کاغذ اٹھایا،گیلی مٹی سےچند آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں اورکسی نیم پلیٹ کی طرح جھونپڑی کے ایک بانس پرلٹکادیا ۔ چاند مسکرایا اور رات کے سائے گہرے ہوتے گئے۔”

یہاں اسماء حسن نے اس معصوم لڑکی کے احساسات چند جملوں میں بڑی خوبصورتی سے سمیٹے ہیں ۔

افسانے کا یہ حصہ دراصل کہانی کا نکتہ عروج ہے ۔ یہاں تک پہچتے پہنچتے قاری کا تجسس اور دلچسپی دو چند ہو جاتی ہے ۔ کہ افسانے کے مکمل منظر نامے کے بعد اب کیا ہو گا ؟

آخری پیرا گراف میں عالیشان بنگلوں میں رہنے والوں کی ” کاروائی ” کے بعد کا منظر سجو کی زندگی میں ایک غیر متوقع جھٹکا ہوتا ہے ۔ وہ انتہائی صدمے کی کیفیت میں زمین پر بیٹھی ہے ۔

” اگلے دن کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر کے ساتھ اس ملیا میٹ ہو چکی بستی کی تصویر تھی۔ جسے دیکھ کرساحل پر بنائے ہوئے ناتواں گھروندوں کی یاد آئے ۔ جنہیں سمندر کی بے رحم او طاقتور موجیں اپنے ساتھ بہا لے جاتی ہیں۔ جن کا مقدر پاؤں کی ایک ٹھوکر سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔”

” سجو،نیم پلیٹ گلے میں ڈالے،سوکھی روٹی کا ٹکڑا منہ میں لیے،کتےبلیوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اوردوسرے ھاتھ سے کیڑے مکوڑوں کو بری طرح مسل رہی تھی۔”

یہاں افسانہ ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ آخری جملہ سجو کے دل میں برپا طوفانوں کا بھی پتہ دیتا ہے اور دنیا میں طاقتور اور کمزور کے درمیان ہونے والی کشمکش کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔

افسانہ نیم پلیٹ یہاں پڑھیں
نیم پلیٹ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے