جنت آباد ” گور ” یا لکھنوتی

قدیم بنگالہ کی دارالحکومت اور قدیم ضلع پورنیہ کا بھولا ہوا ایک باب ۔
Mohammad Ehsanul Islam

مشہور مورخ فرشتہ کا بیان ہے کہ ” حکام جانی پور ترہت اور اس نواح کو جو صاحب سکہ اور خطبہ ہوئے سلاطین شرقی کہتے ہیں اور والیان بنگالہ سونار گاءوں اور لکھنوتی اور بہار اور جاج نگر اور اس حدود کو سلاطین پورنیہ کہتے ہیں ۔،، یہی پوربی راج ہے جسے بنگالہ بھی کہا گیا ہے لیکن وہ بنگالہ آج کا محدود بنگال نہیں تھا ۔ ہند کا یہی وہ بنگالہ تھا جس کی نسبت حضرت حافظ نے اپنے اس شعر میں اشارہ کیا ہے ۔
شکر شکن شوند ہمہ طوطیان ہند
زیں قند پارسی کہ بہ بنگالہ می رود
یہی وہ پوربی راج ہے جس کی راجدھانی مدتوں ” گور ” کا مقام رہی ۔ جب بنگال میں آدی سور کے خاندان کا راج قائم ہوا تو گور کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔ گرچہ سونار گاءوں کو راجدھانی ہونے کا فخر حاصل رہا لیکن بلال سین کی حکومت کے بعد جب لکشمن سین کو راج ملا تو انہوں نے گور کو لکھنوتی نام سے اپنی راجدھانی بنایا اور اس شہر کو پورا پورا عروج حاصل ہوا ۔ لکشمن کے جانشین کمزور ہوئے تو ندیا چلے گئے ۔ لیکن جب راج مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو اس وقت بھی گور کی اہمیت اور عظمت باقی رہی ۔
قطب الدین ایبک نے جب بختیار خلجی کو بہار اور لکھنوتی کا فرمان عطا کیا ہے تو بنگالہ کا راجہ لکشمن ندیا میں راج کرتا تھا ۔ بختیار خلجی نے ندیا کو تباہ کیا ۔ رنگ پور کو بسایا اور لکھنوتی کو آباد کیا ۔ ۶۰۲ ھ میں اس کی موت ہوئی تو ملک فخر الدین جا نشینی پر فائز ہوا ۔ اس نے سونار گاءوں کو تخت گاہ رکھا اور اپنی طرف سے ایک غلام مخلص نامی کو گور میں تعینات کیا ۔ مخلص کو علی مبارک فیروز شاہ سے شکست ہوئی ۔ فیروز شاہ نے علاءالدین کا لقب اختیار کیا ۔ حاجی الیاس بانی حاجی پور نے سلطان شمس الدین کا خطاب اختیار کیا ۔ علاءالدین اور فخر الدین دونوں مارے گئے ۔ فخر الدین زندہ گرفتار ہو کر لکھنوتی آیا اور وہیں اس کی گردن ماری گئی ۔ شمس الدین کے بعد سکندر اور اس کے بعد غیاث الدین اور اس کے بعد سلطان السلاطین نے لکھنوتی پر حکومت کی ۔ پھر سلطان جلال الدین کا عہد آیا ۔ انہوں نے لکھنوتی میں سترہ برس چند مہینے حکومت کرکے ۸۱۲ ھ میں انتقال کیا ۔ فرشتہ انہیں اپنے عہد کا نوشیرواں ثانی کہتا ہے ۔
سید شریف مکی نے جو سلطان علاؤالدین کے خطاب سے بادشاہ بنا گور پر کافی آفت ڈھائی ۔ علاؤ الدین کے بعد نصیب شاہ کو راج ملا ۔ وہ ۹۴۳ ھ میں فوت ہوا ۔ سلطان محمود بنگالی اس کا جا نشیں بنا ۔ ۹۶۵ ھ میں ہمایوں نے مملکت بنگالہ کو شیر شاہ سوری کے تصرف سےنکال کر گور میں اپنے نام کا خطبہ پڑھا اور گور کا نام ” جنت آباد ” رکھا ۔
کہا جاتاہے کہ اس کے بعد سلیمان کرانی افغانی نے گور کو تباہ و برباد کرکے ٹانڈہ کو اپنی راجدھانی بنایا ۔
جب ۱۷۲۷ ء میں شجاع شاہ برادر اورنگزیب بنگالہ کا حکمراں ہوا تو اس نے بھی گور میں بعض عمارتیں بنوائی لیکن راجدھانی راج محل ہو جانے کے سبب گور پر جو زوال آیا تو پھر یہ ہمیشہ کے لئے آیا ۔
جب شریف مکی سلطان علاؤالدین کے وقت گور لوٹا گیا ہے تو فرشتہ کہتا ہے کہ اس کی آبادی شہر مصر سے بہتر تھی ۔
گرچہ بوکانن گور کا رقبہ بیس مربع میل بتاتے ہیں لیکن رینیل کا تخمینہ تیس مربع میل کا ہے ۔
بوکانن نے گور کی آبادی کا تخمینہ چھ سات لاکھ کا لگایا ہے ۔ جب ۱۰ – ۱۸۰۹ ء میں بوکانن نے پورنیہ کی رپورٹ لکھی ہے ، اس نے گور کو دیکھا ہے ۔
اب ہم یہ بتادیں کہ ہم نے پورنیہ کے سلسلے میں گور کا ذکر کیوں چھیڑا ہے ؟ اس کے لئے آپ کو آج نہیں گذرے ہوئے کل کے پورنیہ کو دیکھنا ہوگا ۔ بوکانن کی رپورٹ ۱۰ – ۱۸۰۹ ء کی ہے ۔ اس نے پورنیہ کو جن حصوں میں بٹا ہوا دکھایا ہے وہ ہیں . ۱ – حویلی پورنیہ ۲ – سیف گنج یا ڈنگ کھورا ۔ ۳ – گوندوارہ ۔ ۴ – دھمدھا ۔ ۵ – ڈیمیا ۔ ۶ – مٹیاری ۔ ۷ – ارریہ ۔ ۸ – بہادر گنج ۔ ۹ – اودھریل ۔ ۱۰ – کرشناگنج ۔ ۱۱ – دلال گنج ۔ ۱۲ – نہا نگر ۔ ۱۳ – کھروا ۔ ۱۴ – بھولا ہاٹ ۔ ۱۵ – سیب گنج ۔ ۱۶ – کلیا چک ۔ ۱۷ – گورگری باہ ۔ ۱۸ – منیہاری ۔
اگر ۱۰ – ۱۸۰۹ ء تک بھولا ہاٹ پورنیہ کا جز رہا تھا اور یہی بھولا ہاٹ کا وہ علاقہ ہے جس میں گور کا قدیم اور عظیم الشان شہر واقع تھا اور جو سینکڑوں برس تک سارے پوربی راج کی راجدھانی بنا رہا تھا ، جس کی آبادی مصر سے بہتر تھی اور جس کو ہمایوں نے جنت آباد کا نام دیا تھا ۔ ہم پورنیہ واسی گور کو کس طرح بھول سکتے ہیں ؟
ہیں یہ باتیں بھول جانے کی مگر کیوں کر کوئی
بھول جائے رات کا سب صبح ہوتے ہی سماں !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( جناب مولوی محمد سلیمان صاحب سلیمان ۔ بی ایل ) انسان پورنیہ نمبر ، جنوری ۱۹۵۵ ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو ! چند دنوں قبل ہمارے بڑے بھیا اپنی فیملی ( دونوں بیٹیوں ٬ چھوٹے داماد ، نواسہ اور نواسی کے ساتھ ) گور المعروف لکھنوتی اور جنت آباد کی سیر کو گئے تھے جہاں سے انہوں نے مجھے بہت ساری تصاویر ارسال کی ۔ ان میں سے چند تصاویر گور کی مختصر تاریخ کے ساتھ آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں ۔

اگر آپ گور جانا چاہیں تو صوبہ ء بنگال کے مالدہ جنکشن اتر کر جا سکتے ہیں ۔ گروپ میں جائیں اور دن ڈھلنے سے قبل واپس ہو جائیں کیوں کہ یہاں اکثر سناٹے کی حکمرانی رہتی ہے ۔ اکثر یہاں لوٹ پاٹ کے واقعات سے سیلانیوں کا سابقہ پڑتا رہتا ہے ۔
گور کے قریب ہی آدینہ شریف ہے جہاں کئی مشہور مساجد اور بزرگان دین کے مزارات ہیں ۔
آج قدیم پورنیہ ضلع ، بنگال ، آسام اور بنگلہ دیش میں جو مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی نظر آتی ہے یہ انہیں بزرگان دین کی کوششوں کا ثمرہ ہے ۔ یہاں سب سے پہلے سہروردیہ سلسلہ جاری ہوا جس کے بانی حضرت شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تھے جنہوں نے اپنے ایک مرید خاص حضرت تقی الدین سہروردی رحمۃ اللہ کو بغداد سے مہسوں ( رائے گنج کے آس پاس ) بھیجا ۔ تقریباً اسی زمانے میں حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ کے ایک اور خلیفہ بحکم پیر دلی ہوتے ہوئے پنڈوہ پہنچے ۔ ان کا نام نامی حضرت جلال الدین تبریزی تھا ۔ اس وقت مرکز دلی میں شہنشاہ التتمش کی فرماروائی تھی ۔ بنگال میں لکشمن سین کی حکومت تھی ۔ کہتے ہیں کہ لکشمن سین نے انہیں ندی میں مصلی ڈال کر پار ہوتے ہوئے دیکھا تھا اور ان کا معتقد ہو گیا تھا ۔
بزرگان دین کی کہانی پھر کبھی ۔ ان شاء اللہ ۔
محمد احسان الاسلام (احسان قاسمی) کے افسانے پڑھیں.
ایک کہانی
پرائشچت

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے