موترالیم

موترالیم


احسان قاسمی نوری نگر ، خزانچی ہاٹ ۔ پورنیہ ( بہار ) انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح کے تقریبا ساڑھے چار، پونے پانچ بجے ہوں گے نیند کھل گئی اور میں حسب معمول ——
ہاں ! آپ کا آبجیکشن بجا ہے ۔ جب آپ کو یہ نہیں معلوم کہ میرا روز مرہ کا معمول کیا ہے تو میرا حسب معمول کہنا قطعی آپ کے پلّے نہ پڑا ہوگا ۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ میں لفظ حسب معمول کی کچھ وضاحت کردوں ۔ عام طور پر میں گھر کے باہری برآمدہ پر ہی سوتا ہوں ۔ روزانہ صبح تقریبا ساڑھے چار ، پونے پانچ بجے نیند کھل جاتی ہے ۔ نیم غنودگی کے عالم میں پیروں میں چپّل ڈالتا ہوں اور پاؤں گھسیٹتا ہوا سامنے کی سڑک پار کر رجسٹری آفس کی چہار دیواری کی جڑ میں جہاں جلی حروف میں ” یہ کتوں کے پیشاب کرنے کی جگہ ہے ” لکھا ہے ، اطمینان سے بیٹھ کر پیشاب سے فراغت حاصل کرتا ہوں ۔ پھر سگریٹ سلگا کر خالی سڑک پر ٹہلنے نکل جاتا ہوں ، کبھی دائیں تو کبھی بائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! تو صبح کے ساڑھے چار یا پونے پانچ بجے حسب معمول نیند کھلی ، چوکی پر بیٹھ کر اندازے سے پیروں میں چپل ڈالے اور پاؤں گھسیٹتا ہوا سڑک عبور کر رجسٹری آفس کی چہاردیواری جہاں جلی حروف میں ” یہ کتوں کے پیشاب کرنے کی جگہ ہے ” عبارت ہے ، پہنچا ۔ مگر وہاں پہنچ کر میری ساری غنودگی کافور ہوگئی کیونکہ وہاں رجسٹری آفس کی دیوار مع عبارت غائب تھی ۔ میں نے سر گھما کر پیچھے کی جانب دیکھا کہ میرا گھر واقعئ میری پیٹھ کے عین پیچھے واقع ہے یا نہیں ؟ لیکن میرا شک بے بنیاد تھا ۔ میرا گھر عین میری پشت پر واقع تھا ۔ پھر بھی خود کو یقین دلانے کے لئے میں دوبارہ گھر واپس آیا ۔ برآمدہ پر بچھی چوکی پر بیٹھا ، پھر حسب معمول چپل پہنے اور سڑک عبور کر رجسٹری آفس کی چہار دیواری تک پہنچا ۔ اب تک میری نیند بالکل ہوا ہو چکی تھی اور اس کے علاوہ صبح کی روشنی میں بھی اضافہ ہو چکا تھا ۔ دوبارہ مقررہ جگہ پر پہنچ کر دیکھا تو طبیعت خوش ہوگئی ۔ دراصل چہاردیواری کو توڑ کر دو عالیشان پیشاب خانے بنائے گئے تھے ۔ اوپر خوشنما رنگوں سے لکھا تھا ” یورِن بُوتھ ، لیڈیز اینڈ جینٹس ” ۔
مکان سفید سنگ مرمر سے مزین ، دودھیا روشنی سے شرابور ۔ جگہ جگہ رنگین بلبوں کے جلتے بجھتے جھالر ۔ سجاوٹ ایسی گویا پیشاب خانہ نہ ہو بلکہ شادی خانہ ہو ۔ داخلی دروازہ پر جینٹس لکھا نظر آیا ۔ میں ذرا ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا کہ اس شان دار پیشاب خانہ کو استعمال کرنے کی فیس بھی پانچ دس روپے سے کم تو نہ ہوگی ۔ ساتھ ہی یہ بھی سوچ رہا تھا کہ باہر پبلک یورینل کی جگہ یورِن بوتھ کیوں لکھا ہے ؟ پبلک یورینل ایک بد رنگ ، بدبودار ، غلیظ اور نہایت پھٹیچر جگہ ہوتی ہے جس کا کوئ مقابلہ یا موازنہ اس عالی شان بلڈنگ سے ہو ہی نہیں سکتا ۔ لہذا اس شاندار بلڈنگ کے لئے یورن بوتھ نہایت مناسب لفظ ہے جس میں فصاحت ، بلاغت اور معنی خیزی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ انہیں باتوں پر غور و خوض کرتا ہوا اندر داخل ہوا کہ معا” ٹِھٹھک کر کھڑا رہ گیا ۔ سامنے بالی ووڈ کی سب سے کم عمر اور کم لباس ہیروئین ( جو حسب معمول کم سے کمتر لباس میں ملبوس تھی ) کا آدم قد پورٹریٹ لگا تھا ۔ میں نے سمجھا غلطی سے لیڈیز کمپارٹمنٹ میں آگیا ہوں ۔ پبلک یورینل میں تو داخلی دروازہ کے باہر ہی جینٹس یا لیڈیز لکھا رہتا ہے اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں کےلئے جینٹس لفظ کے اوپر مرد کی اور لیڈیز لفظ کے اوپر عورت کی تصویر بنی ہوتی ہے تاکہ کسی طرح کی غلطی یا دھوکا دہی کا اِمکان نہ رہے ۔ ابھی حال ہی میں اخباروں میں یہ خبر آچکی ہے کہ زنخوں کی انجمن نے ریلوے منسٹر سے ان کے لئے بھی ریلوے پلیٹ فارموں پر علا حدہ انتظام کرنے کی مانگ پیش کی ہے ۔ بہرحال میں جلدی سے باہر آگیا اور دوبارہ داخلی دروازہ پر نظر ڈالی تو وہاں صاف طور پر جینٹس ہی لکھا ہوا تھا ۔صبح کا وقت تھا ، آس پاس سناٹا چھایا تھا ۔ دل میں ایک تجسس پیدا ہوا کہ کیوں نہ ذرا لیڈیز کمپارٹمنٹ کے اندر بھی جھانک لیا جائے ۔
سو ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا تو وہاں سامنے مقبول ترین اداکار غلمان خان ایک عدد کچّھِی پہنے جم خانہ اسٹائیل میں بازؤں کی مچھلیاں پھڑکاتے کھڑے نظر آئے ۔ پورٹریٹ کے نیچے لکھا تھا ——
‘ یہ تو بڑا ٹوئنگ ہے ‘ ۔ ان کی بانہہ پر اور بائیں جانب سینے پر لپ اسٹک زدہ ہونٹوں کے سرخ نشانات ثبت تھے ۔ نشانات اصلی تھے یا نقلی یہ وقت تحقیق کا نہ تھا ۔ اتنی بات تو سمجھ میں آچکی تھی کہ یہاں عورتوں اور مردوں کو لبھانے کے لئے اینٹی سیکس ایٹریکشن کا گیم کھیلا جا رہا تھا ۔ بہرحال دوبارہ جینٹس بوتھ کے اندر داخل ہوا ۔ تھوڑا آگے بڑھا تو دیوار کے ساتھ نصب پین نظر آیا ۔ پیشاب سے فارغ ہوتے ہی سامنے دیوار سے نہایت دلفریب موسیقی پھوٹنے لگی ، ساتھ ہی بھینی بھینی سینٹ کی پھوہار دیوار سے نکل کر کپڑوں کو معطر کر گئی ۔ دیوار پر آنکھوں کے سامنے ایک اِسکرین روشن ہوگئی ۔ اس پر کچھ عبارتیں عیاں ہوئیں ۔
Urine rate Rs . 20 /- per litre. *
* ( subject to density of urine )
Quantity – 600 ml.
Density – 60 %
Value – Rs . 7 = 20
اس کے ساتھ ہی دیوار میں بنے خانہ میں سات روپئے کے کھنکتے سکے آ گرے جنہیں میں نے اِدھر اُدھر دیکھ کر فورا اٹھا لیا اور خاموشی سے جیب کے حوالے کر باہر نکل آیا ۔ باہر آیا تو سڑک پر میرے پاؤں نہیں پڑ رہے تھے ۔ راتوں رات یہ کیا ہو گیا میری سمجھ سے پرے تھا ۔ بے خیالی میں میں کدھر جا رہا تھا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔ لیکن تھوڑی دور چلا تو پنڈت جی پان والے کی گُمٹی نظر آگئ ۔ پنڈت جٹا شنکر پرشاد جی یوں تو مقامی انٹر کالج میں ہندی زبان کے وبھاگ ادھیکش ( صدر شعبہ ) تھے لیکن راجیہ سرکار کی وِتّ رہِت شِکچھا نیتی ( صوبائ حکومت کی غیر امدادی تعلیمی پالیسی ) کے مارے برسوں سے پان کی دکان چلا رہے تھے ۔ میں نے پیشاب کے پیسوں سے ایک سگریٹ خریدا اور اسے سلگایا ۔ پھر پنڈت جی پان والے سے کچھ انجان بن کر دریافت کیا کہ وہاں دور کون سی نئ بلڈنگ بنی ہے ؟ ۔ پنڈت جی پان والے نے میرا سر تا پا بغور جائزہ لیا جیسے میں کسی دوسری دنیا کا مخلوق ہوں ۔ گھنی مونچھوں پر تاءو پھیرا ۔ ٹِکّی کو تین بار سہلایا پھر گویا ہوئے – ” شریمان ! وہ مُوتر کرے کیندر ہے ” ۔ ( جناب ! وہ پیشاب خرید مرکز ہے ) ۔ میں تھوڑی دیر خاموش رہا ۔ دوبارہ جھجھک کو توڑتے ہوئے پوچھا – ” میں نہیں سمجھا ۔۔۔۔۔ پیشاب بھی کوئی بکنے کی چیز ہے ؟ "
انہوں نے دوبارہ بغور میری جانب دیکھا – ” مہاشئے ! آپ یتر تتر بھرمن ہیتو کِس واہن کا پریوگ کرتے ہیں ؟ ” ( جناب ! آپ ادھر ادھر آواجاہی کے لئے کس سواری کا استعمال کرتے ہیں ؟ )
میں نے کہا – ” پنڈت جی ! میرے پاس تو والد صاحب کے زمانہ کی ہرکیولس سائیکل ہے ، اسی کا پریوگ کرتا ہوں ۔
” پنڈت جی نے کھیسیں نپورتے ہوئے کہا —- ” ہوں ! تبھی تو آپ اِتنے انبھِگ ( لا علم ) ہیں ۔ اے مہاشئے ! اب مُوتر سے چلنے والے واہن ، کاریں ، ٹرک اور موٹر سائیکلیں بازار میں آ چکی ہیں ۔ کل راتری بارہ بجے سے سمپُورن دیش میں ڈِیزل پیٹرول چلِت واہنوں پر پورن پرتی بندھ ( مکمل پابندی ) لگ چکا ہے ۔ اب ماتر موتر چلِت واہن ہی ویدھ ( جائز ) مانے جائیں گے ۔ اتہہ دیش وِدیش کی بڑی بڑی کمپنیوں دُوارا سبھی استھانوں ( مقامات ) پر موتر کرے کیندروں کا شبُھارنبھ ( افتتاح ) کیا گیا ہے جہاں مانو موتر کے گھنوتو کے آدھار پر ( انسانی پیشاب کی کثافت کی بنیاد پر ) پیسوں کا بھُگتان کیا جاتا ہے ۔ اب کیا ہے شِریمان ! ادھِک سے ادھِک موتر کا اُتپادن ( پیداوار ) کیجئے اور دھن ارجِت کیجئے ۔ "
میری تو زبان گنگ ، حواس باختہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خیال تو کبھی ذہن میں آیا ہی نہ تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ انسانی پیشاب کو سائینس اور ٹیکنالاجی کی بدولت موٹر گاڑیوں میں ایندھن کی شکل میں استعمال کیا جا سکےگا ۔ جس انسان نے بھی یہ ایجاد کی ہے واقعی اس نے ایسا کمال کیا ہے جس کی تعریف الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی ۔ یہ اکیسویں صدی کی سب سے عظیم ایجاد ہے ۔ پیشابی ایندھن کا استعمال سستے ایندھن کی شکل میں ہر جگہ دستیاب ۔ ایکوفرینڈلی ، گرین ہاؤس ایفیکٹ کے خلاف ایک موثر ہتھیار ۔۔۔۔۔۔۔۔ !
خیالات میں گُم میں کافی آگے پیٹرول پمپ تک آگیا تھا ۔ یہاں بھی مجھے کچھ تبدیلیاں نظر آئیں ۔ بھارت پیٹرولیم کا بورڈ اتر چکا تھا ۔ اُس کی جگہ نیا چمچماتا ہوا بورڈ لگا تھا ۔۔۔۔۔ ” بھارت موترالیم ” ۔
صبح کا وقت تھا ۔ ابھی بھیڑ نہیں بڑھی تھی ۔ اکا دکا گاڑیاں اور کاریں آرہی تھیں جن میں موترالیم کے کارندے انسانی پیشاب ڈال رہے تھے ، قیمت تھی چوبیس روپئے لیٹر ۔۔۔۔۔ ڈیزل اور پیٹرول میں ملاوٹ کرنے والوں کا دھندا چوپٹ ، کراسن تیل کی کالابازاری بند ۔ سر بمہر ڈبہ بند پیشاب بھی دستیاب ہے ISI مارکہ ، ISO – 9001 – 2008 سرٹیفائیڈ کمپنی کا ۔ دکان کے بورڈ پر لکھا ہے ” ہمارے یہاں دیشی شُدھ پیشاب ملتا ہے ۔ ایک بار آزمائش شرط ہے ” ۔
اخبار والا آگیا ہے ۔ ایک ہندی اخبار خرید لیتا ہوں ۔ فرنٹ پیج پر جلی حروف میں پہلی خبر ۔۔۔۔۔۔ ” اوپیک دیشوں کی چودھراہٹ ختم ۔ بھارت اور چین دنیا کے سب سے بڑے موتر ایندھن اُتپادک ( پیدا کرنے والے ) دیش ۔ بھارت اور چین نے مل کر اوپیک کی طرز پر موتر ایندھن نِریاتک ( برآمد کرنے والے ) دیشوں کا سنگٹھن ( تنظیم ) بنانے کی وکالت کی ۔ بھارت کو امریکہ ، فرانس اور جاپان سے موتر نِریات کیلئے بڑا آفر ۔ دوسری سرخی ۔۔۔۔۔۔ موتر منترالیہ ( وزارت ) کے لئے دو بڑے نیتاؤں کے درمیان رسہ کشی ۔ پردھان منتری پریشانی میں ۔ "
میری واپسی کاوقت ہو رہا تھا ۔ آفس جانے کی تیاری کرنی تھی ۔ منھ دھوتے وقت ، نہاتے وقت ، کھاتے وقت میں مسلسل سوچ رہا تھا ۔ بیوی نے کہا ” آج تم اتنے خاموش کیوں ہو ؟ ” میں نے کوئ جواب نہ دیا ۔ دراصل میں یہ سوچ رہا تھا کہ روزانہ ایک فیملی کتنا پیشابی ایندھن تیار کر سکتی ہے ؟ اس سے روزانہ کتنی آمدنی ہو سکتی ہے ؟ کیا اس سے بچے کی آگے پڑھائ کا خرچ پورے طور پر نکل سکتا ہے ؟ گرمیوں میں اور رمضان کے مہینے میں پیشاب کی مقدار گھٹ جائےگی لیکن density بڑھ جانے کی وجہ سے قیمت اچھی ملےگی ۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اب دیش میں کوئ بھوکا نہ مرےگا اور نہ پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے جسم کا خون ہی بیچنا پڑےگا ۔
آفس کےلئے گھر سے روانہ ہوا تو شہر کی تصویر ہی بدلی ہوئ تھی ۔ ہر ہر قدم پر یورن بوتھ مختلف کمپنیوں کے ، مختلف ناموں سے ، نت نئے آفرز کے ساتھ ۔ مسلمان بھائیوں کےلئے خاص اہتمام و
انتظام تاکہ پیشاب میں پانی کی ملاوٹ نہ ہو سکے ۔ کوئ شخص راستہ کنارے بیٹھا نظر نہ آیا –
ہر طرف صفائ اور پاکیزگی ۔ ہڑتالی چوک پر پہنچا تو سڑک جام ، بیچ سڑک پر مجمع لگا ہے ۔ ٹیبل پر چڑھ کر ایک ادھیڑ عمر شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر بھاشن دے رہا ہے ۔ بغیر اسٹینڈ والی سائیکل کو ایک پیڑ کے سہارے کھڑی کر بھاشن سننے لگتا ہوں ۔ وہ ادھیڑ شخص دہاڑ رہا ہے —— ” بھائیو ! یہ بڑی بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیاں چور ہیں ۔ ہمیں دھوکا دے کر کڑوڑوں کا پیشاب ڈکار رہی ہیں ۔ میں نیشنل ڈائیبیٹک سوسائیٹی کا سکریٹری ، آئ ایم ڈھونگ کرے آپ کو جاگروک ( بیدار ) کرنے آیا ہوں ۔ میں آپ کو بتادوں کہ ان بڑی بڑی کمپنیوں کے جو پیشاب خرید مراکز ہیں وہاں سے شوگر کے مریضوں کو پیشاب کے عوض ایک پیسہ معاوضہ نہیں دیا جاتا ۔ بہانہ یہ بنایا جاتا ہے کہ ان کے پیشاب میں موجود شکر سے گاڑیوں کے انجن کو خطرہ لاحق ہے ۔ اس لئے کمپیوٹر کے ذریعہ ایسے حاصل شدہ پیشاب کو ناقابل استعمال مانتے ہوئے ضائع کردیا جاتا ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ معمولی سے پروسیسنگ کے بعد یہ پیشاب قابل استعمال ہو جاتا ہے ۔ اس طرح ذیا بطیس کے مریضوں کے ساتھ کھلے عام دھوکا دھڑی کی جا رہی ہے ۔ دوستو ! ہم نے ایسوسی ایشن کی جانب سے منسٹری آف یورن اینڈ کلچر کو بھی میمورینڈم پیش کیا ہے لیکن اپنے حق کی لڑائ آپ کو خود لڑنی پڑیگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ! "
بھیڑ میں سے ایک صاحب نے چلا کر کہا —– ” ہمیں لڑنا جھگڑنا نہیں ہے ۔ اگر کہیں زخم آگیا تو پھر جلد چھوٹے گا نہیں ۔” ۔۔۔ یہ سنتے ہی ذیا بطیس کے مریضوں کی کانفرنس یکایک ختم ہوگئ اور سارے لوگ آنا” فانا” میں تتر بتر ہوگئے ۔
آفس پہنچا تو وہاں کا نظارہ بھی بدلا بدلا سا تھا ۔ ہمارے آفس میں بھی یورن بوتھ کھل چکا تھا ۔ سارا اسٹاف کام کرنے سے زیادہ یورن مینوفیکچر کرنے پر آمادہ تھا ۔ واٹر بوائے پانی سے بھرا جگ لئے تیزی سے ہر ٹیبل کا طواف کر رہے تھے ۔ اس کے باوجود اسٹاف کو یہ شکایت تھی کہ یہ واٹر بوائے نہایت کام چور اور نِکمّے ہیں ، بار بار بُلانے پر بھی ان سُنا کرتے ہیں ۔
آفس سے واپسی پر میں پیتھولاجسٹ کے پاس گیا کیونکہ مجھے بیوی کے پیشاب کی رپورٹ لینی تھی ۔ وہاں پہنچا تو ڈاکٹر مجُمدار سر پر ہاتھ رکھے بیٹھے ملے ۔ میں نے پوچھا — ” کیوں ڈاکٹر صاحب ! سب خیریت تو ہے نا ؟ ” ڈاکٹر صاحب بُرا سا منھ بنا کر بولے — ” ارے ! تم کیا کھیریت پوچھتا ہے ؟ سالا سوب چوپٹ ہوگیا ۔ "
میں نے گھبرا کر پوچھا —” کیا چوپٹ ہو گیا ؟ "
ڈاکٹر تھوڑی دیر میری جانب پر تشویش نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر سامنے پڑی دس پندرہ عطر کی شیشیاں میری جانب ٹیبل پر پھینکتے ہوئے بولے — ” تم بولو کیا رزلٹ دےگا ؟ پہلے بڑا بڑا بوتل میں بھر بھر کے دیتا تھا اب آدمی سوب آتور کا شیشی میں تین پھونٹا ( قطرہ ) یورن دیتا ہے ۔ کیسے انالیسس کرےگا ؟ ہاوء کین آئ انالائز ، بولتے پاربی ؟ "
میں نے کہا — ” یہ بات تو ہے ۔ اب پیشاب اشٹ دھاتو سے بھی زیادہ قیمتی ہو چکا ہے ۔ لیکن میں نے آپ کو مناسب مقدار فراہم کی تھی ۔ ” ڈاکٹر صاحب نے کہا —” ہاں ! تمہارا رپورٹ تیار ہے لیکن تمہارا وائف کو البیومین زیادہ آرہا ہے ۔ "
گھر پہنچا تو بیوی دروازہ پر کھڑی تھی ، شاید رپورٹ کے انتظار میں ۔ پہنچتے ہی فورا” سوال داغا —- ” کیا ہوا ؟ رپورٹ ملی ؟؟ ” میں نے کہا —” ہاں ! ملی ۔۔۔۔۔۔ تم حاملہ ہو اور تمہارے پیشاب میں البیومین کافی مقدار میں آرہا ہے ۔ تمہارا پیشاب بالکل بےکار ہے ۔ کسی کام کا نہیں ۔۔۔۔۔ ایک پیسہ کے لائق بھی نہیں ۔ ” —– میری بیوی کے چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا ۔ نتھنے پھڑکنے لگے ۔ خون خوار نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر بولی — ” پگلا گئے ہیں آپ ! ۔۔۔۔۔ ” پھر دھڑام سے دروازہ بند کر اندر چلی گئی ۔
میں نے آنکھیں کھولیں ۔ چوکی سے پاؤں لٹکائے ۔ پیروں میں چپل ڈالے اور پاؤں گھسیٹتا ہوا سامنے کی سڑک پار کر رجسٹری آفس کی چہار دیواری کی جڑ میں جہاں جلی حروف میں ” یہ کتوں کے پیشاب کرنے کی جگہ ہے ” لکھا ہے ، اطمینان سے بیٹھ گیا اور دل میں سوچا کہ یہ موٹر ، بسیں ، ٹرین ، ہوائ جہاز ، ٹیلی فون ، کمپیوٹر غرض کہ ساری ایجادات کی جڑ تو انسان کے خواب ہی ہیں ۔ جس دن میرا یہ خواب حقیقت میں تبدیل ہو جائے گا میری بیوی تو کیا ساری دُنیا پیشاب کی افادیت کی قائل ہوجائےگی ۔ تب تک میں بھی انتظار کرتا ہوں ، آپ بھی انتظار کریں ۔

احسان قاسمی کی پچھلی نگارشات یہاں پڑھیں.
جنت آباد ” گور ” یا لکھنوتی
شِلپی
ایک کہانی
دشت جنوں طلب کا مسافر :احسان قاسمی
پرائشچت
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے