مراثیِ  شاد  کے تناظرات

مراثیِ شاد کے تناظرات

امتیاز احمد
ریسرچ اسکالر
شعبہ ء اردو، دہلی یونی ورسٹی،دہلی


مرثیہ اردو کی بڑی اصنافِ شعری میں شامل ہے۔ اس صنف میں حضرت امام حسینؓ اور دیگراہلِ بیت کی شہادت پر اظہارِ غم کیا جاتا ہے۔ گویا کربلا سے منسوب تمام واقعات مرثیے میں موضوع بنتے ہیں۔مرثیے کی روایت قدیم ہے۔ عرب میں عہدِ جاہلیت میں بھی مرثیے کہے گئے اور عہدِ اسلامی میں بھی اس کی روایت باقی رہی۔اس روایت کی اتباع میں فارسی زبان میں بھی مرثیے لکھے گئے اور اردو میں مرثیے کا فن فارسی کے ہی زیرِ اثر پروان چڑھا۔ہندوستان میں دکن سے لے کر شمال تک اس صنف کو شعراء نے فروغ دیا۔خصوصاً لکھنؤ میں اس صنف کو بلند مقام حاصل ہوا۔
لکھنؤ میں میر ضمیرؔ اور میر خلیقؔ نے مرثیہ نگاری کے فن کو اپنی اجتہاد واختراع سے بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کے بعد انیسؔ و دبیرؔ نے نادر موضوعات، زوربیان، فکر وفلسفہ کی تراش خراش سے اس صنف کو اوجِ کمال تک پہنچادیا۔ انیسؔ و دبیرؔ کے بعدجن شعراء نے اس صنف کو نئی رفعتوں سے ہم کنار کیا ان میں مرزا تعشقؔ،سید مہدی حسن ماہرؔ،مرزا محمد جعفر اوجؔ،پیارے صاحب رشیدؔ،شادؔ عظیم آبادی وغیرہ مشہور و معروف ہیں۔
شادؔ نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے انیس و دبیرؔؔ کی پیروی بھی کی مگر غزل کی طرح مرثیے میں بھی اپنے مخصوص عارفانہ اور فلسفیانہ رنگ کی آمیزش سے ایک نیا لطف اور انداز پیدا کیا۔ اس عارفانہ اور فلسفیانہ رنگ کے باوجود ان کے یہاں ’احکام شریعت‘ کی پاسداری باقی رہی۔ انہوں نے اپنے مراثی میں بے جا مبالغہ آرائی اور خیالی موضوعات سے اجتناب برتا اوراس قسم کی کمزوریوں کو اپنے مراثی کے ذریعہ دور کیا اوراس صنف کو ایک نئی عظمت بخشی۔شادؔ کے مراثی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اظہار احمد نے لکھا ہے کہ
”شادؔ نے اپنے مراثی کو بحیثیت مصلح قوم پیش کیا ہے اور اس میں شیعیت کی بالکل جھلک نہیں پائی جاتی ہے اور اسی وجہ سے بر خلاف انیسؔ و دبیرؔ، شادؔ کے مراثی اہلِ سنّت میں زیادہ مقبول ہیں۔“ (مراثی شادؔ کا فکری پہلو۔ص ۶۱۱)
شادؔ نے فلسفہ ء حیات، فلسفہء عشق و عقل، فلسفہء دوستی اور اسی قسم کے دیگر فلسفیانہ خیالات کو جس حسن و خوبی اور فنی چابک دستی سے مرثیے میں نظم کیا ہے اس کی مثال دوسرے مرثیہ گو کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ فلسفیانہ اساس ان کے مراثی کا طرہء امتیاز ہے اور یہی ان کی خاص روش بھی ہے۔شادؔ نے مرثیہ کے فن میں نئی عقلیت کو شامل کر کے ایک نئی راہ متعین کی۔انہوں نے اپنے مراثی میں مرثیہ کے تمام فنی رسمی لوازمات کو برتا لیکن ان میں اخلاقی بیداری کوبھی شامل کیا تاکہ اس فن کو مقصدی بنایا جا سکے۔
شادؔ کے پیش رَو مرثیہ نگاروں نے مرثیے کے چہرہ میں بہار یہ مضمون، قصیدہ کے تشبیب کے قاعدے پر نظم کیاتھا، ان مرثیہ نگاروں نے مناظر قدرت کی جو تصویریں کھینچی تھیں، ان کی مثال سوائے انگریزی ادب کے شاید ہی کسی دوسری زبان میں ملے۔ صبح کا منظر، گرمی کا موسم، پیاس کی شدت، فضا کی ہولناکی وغیرہ کو جس انداز سے نظم کیا گیا تھا اسے شادؔ نے کم سے کم استعمال کیا۔ حالانکہ شادؔ نے بھی تشبیب میں بہاریہ مضمون قلم بند کئے ہیں تاہم انہوں نے کربلا کے ریگستان کو عام مرثیہ نگاروں کی طرح قصہء جدید و قدیم نہیں بنایا، بلکہ اس کی سچی تصویر کشی کی۔ انہوں نے خاندانی تفاخر کا سہارا نہیں لیا بلکہ اپنی فکرِ بلیغ کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ مثلاً:
مہماں سرائے عشق میں اے دوست کیا نہیں
ایزانہیں کہ سر پہ ہجومِ بلا نہیں
یا
سمجھا ہے خود کو جسم پہ بے جا خیال ہے
تو روح ہے وہ روح کہ جو لازوال ہے
کسی تاریخی واقعہ کو کم وکاست نظم کرنا واقعہ نگاری کہلاتاہے۔ مسلسل واقعات مثنوی کے سوا اور کسی صنف میں ادا نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ مرثیہ نگاروں نے مسدس کا طریقہ اختیار کیا تھا۔ شادؔ کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ نگاری اور کردارنگاری کو خلط ملط نہیں کیا اور ایک دوسرے کو الگ رکھا۔اردو کے بہت سے مرثیہ نگاروں نے تاریخی روایات اور خارجی واقعات کو نظم کرتے ہوئے واقعہ کی اہمیت کو مسخ کر دیا جس سے واقعات کی صحیح تصویراوجھل ہو گئی لیکن شادؔ نے ایسا نہیں کیا۔انہوں نے تاریخی واقعہ نگاری کو اسی پس منظر میں پیش کیا اور خارجی واقعات کو اس کے اپنے سیاق میں برتا۔ان کی اس کوشش سے مرثیے کے فن میں ایک قسم کی شفافیت پیدا ہو گئی۔
ہو جس میں ابتذال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو پست و پائمال وہ مضموں نہ باندھنا
عقلاً ہو جو محال وہ مضموں نہ باندھنا
ہو جس میں قیل وقال وہ مضموں نہ بندھنا
باتیں وہ کیا کہ جانِ سخن جن میں کچھ نہ ہو
مضموں کی صرف ڈھانچ ہو باطن میں کچھ نہ ہو
شادؔ کو مذکورہ باتوں کا شدت سے احساس تھا۔اس لئے وہ جوشِ عقیدت میں انصاف اور صداقت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ان کے موئے قلم نے جس انداز سے تصویرکشی کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے شادؔ کی انفرادیت قائم ہوتی ہے۔
رزم نگاری اگر چہ واقعہ نگاری ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کی اپنی وسعت اور اہمیت ہے۔ شادؔ نے رزم نگاری میں رزمیہ و رثائی عناصر کا بہت خیال رکھا ہے اور کسی جگہ بھی مرثیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بعض مرثیوں میں تو انہوں نے دورانِ جنگ فلسفیانہ خیالات کو کچھ اس خوبصورتی سے نظم کیا ہے کہ پڑھنے والے کو اس کی غرابت کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی اس پیش قدمی سے جنگ کے بیان،مناظرہء عشق و عقل اور رزمیہ عناصرمیں ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے۔
حسرت کے ساتھ عقل یہ کرتی ہے گفتگو
زخمی ہیں سر سے پاؤں تلک شاہِ نیک خو
آمادہء قتال ہیں لاکھوں ادھر عدو
کہتا ہے عشق جسم کا بہہ جائے سب لہو
پروا بھلا ہو کیا دل و جانِ ملول کی
نشو و نما اسی میں سے ہے دینِ رسول کی
مر ثیہ نگاری میں کردار نگاری کی اپنی قدر و منزلت ہے۔شادؔ نے مراثی کے کرداروں کو ان کے حقیقی پس منظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور دیگر مرثیہ نگاروں کی طرح ان کے مقام و مرتبہ میں کمی بیشی نہیں کی۔ شادؔ کی کردار نگاری کا یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے مذہبی جوش و عقیدت کے باوجودکردار کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ان کے مراتب کا بھی خیال رکھا اور ان کو فطرت کے خلاف نہیں برتا۔ وہ مرثیہ کے ہر کردار کو عام انسانی اور ذاتی پہلوؤں کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے پیش کردہ مرثیائی کردار زندگی کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں اور اس قدر جاندار اور مؤثر ہیں کہ قارئین کو وہ کردار جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔شادؔ نے کربلا کے واقعہ کو ایک مربوط صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے خاندانِ رسالت کے مصائب سے ہمدردی کومذہبی عقیدت کے لحاظ سے ثواب سمجھا اور ان کے غم میں مغموم ہونے کو داخلِ حسنات اور بخشائش کا وسیلہ جانا۔ حضرت امام حسینؓ اور دیگر اہل بیت نے میدانِ کربلا میں جو صبر و ثبات کا اعلی نمونہ پیش کیا تھا اور اللہ کی رضا میں جامِ شہادت نوش فرمایا، وہ ہر کس و ناکس کے لئے ایک مثال بن گیا۔شادؔ نے اہلِ بیت کے کرداروں کو ان کے حقیقی اوصاف کے ساتھ پیش کیا اس لئے ان کی کردار نگاری بھی ان کی ذہنی خلاقیت کی طرح صاف و شفاف نظر آتی ہے۔
کیا غم ملا نہ چین جو دنیائے زشت میں
خوش ہو بہن کہ جائے گی امت بہشت میں
٭٭٭
گر میں نہ ہوں تو ماں کو پریشاں نہ کیجیو
روکر پھوپھی کو مضطر و حیراں نہ کیجیو
٭٭٭
لازم ہے پیروی تمہیں بنتِ رسول کی
بیٹی ہو تم حسین کی پوتی بتول کی
٭٭٭
ہمت انہیں کی خلق میں سرتاج ہو گئی
ان کے سبب سے صبر کو معراج ہوگئی
٭٭٭
نعمت ہے صبر یوں اسے کھونا نہ چاہئے
بچوں کو بھی پکار کے رونا نہ چاہئے
٭٭٭
رجز خوانی عرب میں خاص طور سے مشہور تھی۔ جنگ کے میدان میں حریف اپنی شجاعت اور دلیری کا خود اظہار کیاکرتے تھے۔ اردو کے مرثیہ نگاروں نے رجز میں بھی جدت پیدا کی جس کی مثال عربی اور فارسی مراثی میں نہیں ملتی۔ اہلِ بیت کے نوجوان اور معصوم مجاہدوں کی رجزخوانی میں خاندانی تفاخر کو اس حسن اور خوبصورتی سے نظم کیا گیا ہے کہ قاری کو ان کی قدامت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کردار خود ہمارے عہد سے وابستہ ہیں۔ شادؔ نے بھی رجز میں یہی انداز اختیار کیا ہے مگر تفاخر کے لب ولہجہ میں لچک اور نرمی پیدا کی ہے اور رجز میں اخلاقیات کے پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی ہے۔
حاصل ہے میرے باپ کو عالم پہ برتری
تابع ہیں میرے حکم کے انس وجن وپری
سیفِ خدا و وارثِ شمشیر ِحیدری
دینِ پرور و مجاہدِ میدانِ صفدری
سب ہیں مطیع یہ شرف اس خانداں کا ہے
بیر العلم میں شور ہماری اذاں کا ہے
جب حضرت زینبؓ اپنے دونوں بچوں (عون و محمد) کو نصیحت کرکے جنگ کے لئے روانہ کر تی ہیں تو یوں کہتی ہیں:۔
نکلے اگر رجز بھی زباں سے تو انتخاب
گویا کہ لفظ لفظ فصاحت کی ہو کتاب
دشمن سے یوں زباں سے نہ کرنا کبھی عتاب
دینا زبانِ تیغ سے ہر بات کا جواب
بحثیں طویل ہوں یہ شرافت سے دور ہے
جاہل سے تم کو ردّو بدل کیا ضرور ہے
کھینچی یہ کہہ کے میان سے مولا نے ذوالفقار
نکلی چمک کے ابر سے وہ برق بے قرار
پھر ہاتھ میں اٹھا کے وہ شمشیرِ آبدار
فرمایا اے گروہِ ِجفا جو و فتنہ کار
بابا علی مراشہِ دلدل سوار ہے
بازو بھی یہ وہی ہے وہی ذوالفقار ہے
پہنچا جو اس شکوہ سے وہ شاہ ِارجمند
نعرہ کیا کہ او پسرِ سعد خود پسند
ہے میری حق شناسی زمانے میں سربلند
سن لے بگوش ہوش مرے مخلصانہ پند
مخفی ہے کیوں یہ خوف ہجومِ سپاہ میں
مرجائے گا تو جائے گا کس کی پناہ میں
رجز کا یہ انداز شادؔ کے مراثی کا امتیاز ہے۔ خاندانی تفاخرکا ایسا متوازن بیان کہ ہر لفظ سے خاندانی جاہ و جلال نمایاں ہو، کم ہی مرثیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
مرثیہ نگاری میں ساقی نامہ کی اختراع اردو مرثیہ نگاروں کی دین ہے۔ ساقی نامہ مرثیہ میں جنگ سے پہلے نظم کیا جاتا ہے۔ ساقی نامہ میں جس عقیدت سے سا قیِ کوثر سے جامِ عرفاں طلب کیا گیا ہے اس کی نظیر کسی دوسری صنفِ ادب میں نظر نہیں آتی۔انیس ؔودبیرؔ کے بعد یوں تو ہر مرثیہ نگار نے ساقی نامہ نظم کیا ہے لیکن پیارے صاحب رشید جو خاندانی غزل گو شاعرتھے انہوں نے بہار اور ساقی نامہ کو اپنے حسنِ بیان سے رنگین اورپُر کیف بنا دیا ہے۔جس کے سبب رنج والم میں ڈوبے ہوئے اہلِ بیت کا غم آنسو بہانے والے مجمع کو بھی اپنی زبان دانی سے تڑپادیتے تھے۔ انہوں نے ساقی نامہ کو فنی اعتبار سے اس طرح برتا ہے کہ فنِ مرثیہ سے اس کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے۔۔اسی سبب مرثیہ کے دوسرے اجزاء ماند پڑگئے ہیں۔شادؔ نے بھی ساقی نامہ لکھا ہے مگر اس میں انہوں نے اپنے مخصوص فلسفیانہ اندازِ فکر سے ایسی فنکاری کی ہے کہ ساقی نامہ کی اہمیت مسلم رہتی ہے اور مرثیہ کی اہمیت اپنی جگہ باقی۔مثلاً۔
ساقی کدھر ہے بادہء توحید دے شتاب
وہ مئے کہ سارے بزم نشیں پی کے ہوں شباب
قربان تیرے بھر کے پلا ساغر ِشراب
وہ مئے کہ جس کو پی کے پلٹ آئے پھر شباب
اس مئے کا نام لے جو کوئی جھومتارہے
آپ اپنے لب کو تا بہ ابد چومتا رہے
ساقی سوا ہو جس سے بصیرت وہ مئے پلا
روشن کرے جو چشمِ حقیقت وہ مئے پلا
افزوں ہو جس سے نشہء وحدت وہ مئے پلا
دل پر جو وا کرے درِ رحمت وہ مئے پلا
ساغر جو ڈگڈگا کے پیوں جھومنے لگوں
اٹھ اٹھ کے میکشوں کے قدم چومنے لگوں
ساقی ترے فدا مئے عرفاں پلائے جا
بس بس کالے نہ نام مری جاں پلائے جا
کچھ دن تک اور ہوں ترامہماں پلائے جا
نیت بھری نہیں ترے قرباں پلائے جا
اتنی تو اب انڈیل کہ دریا بہاؤں میں
ترتا ہوا یہاں سے اسی مئے میں جاؤں میں
ساقی مجھے کشاکشِ ہستی سے دے نجات
سمجھوں کہ خوابِ مرگ ہے سرمایہء حیات
پہنچادے اس جگہ کہ جہاں دن ہو اور نہ رات
کم تر ہو ایک ذرے سے جس جا پہ کائنات
حقا وہی تو مامنِ اہلِ نیاز ہے
بس اے زباں خموش کہ سربستہ راز ہے
٭٭٭
اردو مرثیہ نگاروں نے جس جذبے اور احترام کے ساتھ اہل بیت اور انصار کی شہادت کے دلدوز واقعات کو نظم کیا ہے اور اہل حرم کی مصیبتوں کا ذکر کیا ہے وہ سخت سے سخت اور پتھر سے پتھر دل کو بھی موم کر دینے کے لئے اور خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہیں۔ بین میں جذبات و احساسات کار فرما ہوتے ہیں اور یہی چیز مرثیے کی روح بھی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مادی محسوسات کی تصویر کھینچنا آسان ہے مگر غیر مادی اور غیر مرئی محسوسات کا نقشہ کھینچنا مشکل ہے۔ مرثیہ نگاروں کا یہی کمال ہے کہ وہ غیر مادی اور غیر مرئی محسوسات کو اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے سینہ سے دل نکال کر سامعین کے سامنے رکھ دئے جائیں۔
شادؔ عموماً بین کے بند نہیں لکھتے مگر وہ مرثیہ کے اخیر میں امامِ عالی مقام کی شہادت کے درد ناک منظر کو بین کی صورت میں ضرور پیش کرتے ہیں۔شادؔ مرثیہ کے اختتامیہ میں ثواب کی خاطر کچھ غم و الم کو نظم کرتے ہیں تو اپنے اندازِ بیان سے رثائی عنصر کے ڈھانچے کو یکسر بدل دیتے ہیں اور اس کی جگہ صبر وشکر کے جذبات کو برانگیخت کرتے ہیں۔ صبر وشکر انسان کا سب سے زیادہ خالص اور سب سے زیادہ شریفانہ جذبہ ہے۔ شادؔ جانتے تھے کہ امامِ عالی مقام کی قیادت میں اخلاقی اور روحانی جنگ لڑی جارہی ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس جنگ کے کرداروں کا جس میں اہلِ بیت کے نوجوان اور بچے بھی شریک ہیں ان کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ وہ تسلیم ورضا کی راہ پر گامزن تھے، ان کے ہر فعل وعمل سے جذبہء شہادت و ایثار کی جھلک نظر آتی تھی۔ چنانچہ شادؔ کا یہ خیال تھا کہ بین اس طرح نہ لکھا جائے کہ امامِ عالی مقام، ان کے عزیز واقارب اور رفقاء کے صبرواستقلال پر حرف آئے۔ انہوں نے مذہبی جذبات کے اثر کو قبول کرتے ہوئے بھی اپنے مراثی کو مکتبی نہیں بنایا۔ انہوں نے شانِ امامت کے مراتب کی صحیح ترجمانی کی تاکہ امامِ عالی مقام کا طرز عمل اور مقصدِ حیات، جذبات کی رَو میں فوت نہ ہو جائے۔
اے صابر اے رحیم ترے صبر کے فدا
اس دکھ میں ظالموں کے لئے کی نہ بد دعا
امت کے ہاتھوں ظلم جو مظلوم نے سہا
اس طرح ظلم حضرتِ عیسیٰ پہ کب ہوا
مطلوب ہر طرح سے رضائے حبیب تھی
یاں ہر طرح کے جورتھے واں اک صلیب تھی
بس روک لو قلم، نہ لکھو عامیانہ بین
کچھ کم ہے یہ کہ ذبح ہوئے شاہِ مشرقین
اس بین سے نہ صبر میں آجائے فرقِ بین
کافی ہے بس یہ بیت پئے ماتمِ حسین
چوں خوں زحلقِ تشنہء اُبر زمیں رسد
طوفاں بر آسماں زغبارش ہمیں رسد
حضرت علی اکبرؓ کی شہادت کا بین ملاحظہ ہو ؎
اس نوجواں کا داغ بہن ناگوار ہے
لیکن خدا کے حکم میں کیا اختیار ہے
حضرت عونؓ ومحمدؓ کی شہادت کا بین بھی دیکھئے ؎
یہ سنتے ہی خموش ہوئی زینبِؓ حزیں
لاشوں کو لے کے خیمے میں آئے امامِ دیں
سر کو جھکا کے بولے کوئی اس میں بس نہیں
زینبؓ! شہید ہوگئے دونوں ہی نازنیں
زخموں سے چور چور تنِ زار دیکھ لو
لو آؤ آکے آخری دیدار دیکھ لو
شادؔ کے آباواجداد کی زبان قلعہء معلٰی کی ٹکسالی زبان تھی لیکن بہار میں آکر انہوں نے یہاں کے لسانی اثر کو بھی قبول کیا۔جس کی وجہ سے شادؔ کی زبان عظیم آباد کی مخصوص زبان بن گئی۔ شادؔ کو اپنے گھرانے کی اس مخصوص زبان پر فخر تھا۔ وہ دوسروں کے اعتراضات کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے تھے۔اس لئے شادؔ کی زبان مرثیوں میں عام روش سے الگ نظر آتی ہے۔انہوں نے بعض متروک اور غریب الفاظ بھی استعمال کئے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ اپنی روایت سے منسلک رہنا تھا تاکہ تہذیب و تاریخ سے رشتہ قائم رہے۔اس تعلق سے شادؔ کے بارے میں عتیق اللہ نے درست لکھا ہے کہ
”بعض ایسے فنکار ہوتے ہیں جو عصری عمومی مذاق کی اضافیت اور عارضیت کے راز سے واقف ہوتے ہیں۔“ (اسالیب۔ص۰۴۱)
شاد،ؔ مراثی و غزل میں کس طرح کی زبان کے استعمال کے قائل تھے، اسے ایک مرثیہ کے بند میں پیش کیا ہے۔جس میں انہوں نے فصیح و بلیغ اور متین الفاظ و مرکبات کے استعمال پر زور دیا ہے۔ ساتھ ہی کلام میں تشبیہ و استعارہ،ایہامِ معنوی و مجازی وغیرہ شعری لوازمات کو برتنے کی بھی تلقین کی ہے۔اس سے شادؔ کے تصورِ شعری کا بھی پتا چلتا ہے۔
موزوں غزل کے واسطے حسنِ ازل کا ناز
اور مرثیوں میں ذکرِ شہیدانِ پاکباز
زیبا غزل میں شکوہء ناز از رہِ نیاز
اور مرثیوں میں ماتمِ عشاقِ سرفراز
نیت اگر درست ہے حسنِ مقال میں
یوں نظم ہوں تو ایک ہیں دونوں مآل میں
دیکھیں کہ کس زبان میں کرتا ہوں میں کلام
رکھے سلاستوں کا بہ ہر حال التزام
سمجھیں غرض کہ نفسِ مطالب کو خاص وعام
قادر نہ اس پہ ہو تو ہے نظمِ سخن حرام
ساتھ اس کے بول چال نہ آئے عوام کی
ظاہر کلام سے ہو متانت کلام کی
تشبیہہ و استعارہ و ذکرِ مناسبات
ایہامِ معنوی و مجاز و مبالغات
ایضاحِ ظاہرات و خفائے مقدرات
ان سب کے ساتھ فہم میں آجائیں سب نکات
نظمیں سلیس و چست حکیمانہ بات ہو
اردو رہے نہ یہ کہ غیاث اللغات ہو
شادؔ کی مذکورہ انہی انفرادیت کی وجہ سے ان کی مرثیہ نگاری ایک کثیر حلقے میں مقبول و معروف رہی۔ ان کے پڑھنے کا انداز بھی نہایت دل کش اور مؤثر تھا۔ کسی خاص منظر اور کیفیت کی تصویر کشی کے لئے وہ صرف آواز کے اتار چڑھاؤ اور چشم وابرو کے اشارے سے کام لیتے تھے۔ عظیم آباد کے علاوہ انہوں نے صوبے سے باہر بھی متعدد مقام پر مجلسوں میں شرکت کی لیکن اپنی عقیدت اور خودداری کا سودا کبھی نہیں کیا۔ اس لئے نہ تو کوئی نذرانہ قبول کرتے اور نہ ہی اخراجاتِ سفر لینا گوارکرتے۔ ان کی مرثیہ گوئی کا ایک خاص مقصد تھا اس لئے وہ کسی طرح بھی مالی نفع کے خواہاں نہیں تھے۔شادؔ کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔اس لئے انہوں نے ٰیک طرف مرثیہ کے موضوع میں جدت پیدا کرنے کی کوشش کی اور دوسری طرف اس کی مقبولیت کو فرقہ خاص کے خانہ سے نکال کر تمام مسلمانوں کے لئے اخلاق کا ذریعہ بنایا۔ اس تعلق سے اظہار احمد کا یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے :
”ان(شاد) کے یہاں ہم فرضی گفتگو نہیں پاتے ہیں بلکہ یا تو وہی باتیں ہیں جو تاریخوں میں مندرج ہیں یا قرین قیاس ہیں۔گویا شادؔ نے مراثی کو بھی اخلاق کا آلہ سمجھ کر پیش کیا ہے۔اس کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے اور کسی مخصوص فرقہ سے نہیں۔“ (مراثی شاد کا فکری پہلو، ص ۲۱)

کچھ مقالہ نگار کے بارے میں:
امتیاز احمد کا تعلق صوبہ بہار کے موتیہاری سے ہے . انھوں‌نے 2006 میں دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ بورڈ سے فضیلت کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے ، بی ایڈ، ایم اے ، ایم فل کیا .فارسی ، عربی ، پشتو اور انگریزی زبانوں‌میں ڈپلومے کیے . فی الوقت ڈاکٹر ذاکر حسین میموریل سنئر سیکنڈری اسکول جعفر آباد دہلی میں‌بطور اردو معلم اپنی خدمات دے رہے ہیں .ساتھ ہی دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہٰیں‌.
شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے